مختار ثقفی کی حقیقت

مختار ثقفی کی حقیقت شیعہ کتب سے جاننے کیلئے یہاں کلک کرین۔

This is default featured slide 3 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

This is default featured slide 4 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

This is default featured slide 5 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

Sunday, March 16, 2014

تکفیری کون؟ شیعہ اور امت مسلمہ کی تکفیر

آج کل عموما شیعہ روافض یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں،کہ ہم مسلمان ہیں اور اہلسنت بلا وجہ ہمیں کافر کہتے ہیں اور کافر کہنے والوں کا عموما تکفیریوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں ،نیز شیعہ سنی بھائی بھائی کا بھی نعرہ بڑے زور شور سے لگاتے ہیں ،تاکہ سادہ لوح عوام کو یہ باور کرایا جائے کہ ہم تو اہلسنت کو مسلمان سمجھتے ہیں ،لیکن اہلسنت ہمیں بلا وجہ ہمیں کافر کہتے ہیں ،ذیل کی تحریر میں ہم شیعہ کی بنیادی مراجع و کتب سے وہ عبارات اور فتاوی جات نقل کرتے ہیں ،جن میں اہلسنت کو قطعی کافر قرار دیا گیا ھے ،اہلسنت کودیگر کفار کی طرح  ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دخول جہنم کا مستحق کہا گیا ھے ،اہلسنت کو کتوں و خنازیر سے زیادہ نجس کہا گیا ھے ،اہلسنت کے مال و جان کو دیگر کفار کی طرح مباح کہا گیا ھے ،اور اہلسنت کی نمازجنازہ پڑھنے سے منع کیا گیا ھے ،اور اگر تقیہ سے نمازجنازہ پڑھنے کی ضرورت پیش بھی آئی تو جنازہ میں دعا کی بجائے اہلسنت میت پر لعنت اور اسے بد دعا دینے کا حکم دیا گیا ھے ۔
1۔منکرین امامت کی تکفیر پر شیعہ کا اتفاق
 شیخ مفید اپنی معروف کتاب اوائل المقالات میں لکھتے ہیں :
واتفقت الإمامية على أن من أنكر إمامة أحد الأئمة وجحد ما أوجبه الله تعالى من فرض الطاعة فهو كافر ضال مستحق للخلود في النار. وأجمعت المعتزلة (1) على خلاف ذلك وأنكروا كفر من ذكرناه، وحكموا لبعضهم بالفسق خاصة ولبعضهم بما دون الفسق من العصيان.(اوائل المقالات ص44)
ترجمہ:امامیہ شیعہ کا اتفاق ھے کہ جو اماموں میں کسی امام کا کا انکار کرے اور اس کی اطاعت کی فرضیت کا منکر ہو جائے تو وہ گمراہ کافر ھے ،ہمیشہ کے لئے جہنم کا مستحق ھے ،جب کہ معتزلہ نے ایسے شخص کے کفر کا انکار کیا ،اور اسے یا تو فاسق کہا یا فسق سے کم گناہ کہا۔
۲۔جو منکر امامت کے کفر میں شک کرے وہ کافر ھے (یعنی جو نہ مانے وہ بھی کافر)
شیعہ کے معروف عالم شیخ الصدوق شیعہ عقائد پر مشتمل اپنی کتاب الاعتقادات میں لکھتے ہیں :
فمن ادعى الإمامة وليس بإمام فهوظالم ملعون، ومن وضع الإمامة في غير أهلها فهو ظالم ملعون(ص۱۰۳)
جو امامت کا دعوی کرے جبکہ وہ امام نہ ھو تو وہ ظالم اور ملعون ھے اور جو غیر اہل کو امام مانے تو وہ بھی ظالم ملعون ھے ۔
آگے ظالم کے بارے میں لکھتے ہیں :
من شک فی کفر اعدائنا الظالمین لنا فھو کافر (ص ۱۰۴)
جو ہمارے دشمنوں یعنی ظالموں کے کفر میں شک کرے تو وہ بھی کافر ھے ۔
۳۔بارہ ائمہ کا منکر تمام انبیا کا منکر ھے ۔
صدوق اسی کتاب میں لکھتے ہیں :
واعتقادنا فيمن جحد إمامة أمير المؤمنين علي بن أبي طالب والأئمة من.( بعده - عليهم السلام - أنه بمنزلة من جحد نبوة جميع الأنبياء (ص۱۰۴)
ترجمہ :ہمارا عقیدہ ھے کہ جو شخص حضرت علی اور بعد والوں کی امامت کا انکار کرے تو وہ ایسا ھے جیسے اس نے تمام انبیاٗ کی نبوت کا انکار کیا ھو ۔
کیا تمام انبیا کی نبوت کا منکر مسلمان ھو سکتا ھے؟اہلسنت نے تمام ائمہ کا انکار کیا ھے ،تو وہ شیعہ عقیدے کے مطابق تمام انبیا کے منکر ہیں ،تو کیسے شیعہ سنی بھائی بھائی ھو سکتے ہیں ؟اہل انصاف فیصلہ کریں ؟
۴۔ائمہ کا انکار اللہ و رسول کا انکار ھے ۔
معروف شیعہ عالم یوسف البحرانی الحدائق الناظرہ میں لکھتے ہیں :
وليت شعري أي فرق بين من كفر بالله سبحانه ورسوله وبين من كفر بالائمة عليهم السلام مع ثبوت كون الإمامة من أصول الدين۔ ( الحدائق الناضرة 18/153 ط بيروت}:
تعجب ھے کہ اللہ و رسول کے انکار اور ائمہ کے انکار میں کیا فرق ھے ،جبکہ یہ بات ثابت ھے کہ امامت اصول دین میں سے ھے ۔
۵۔منکر امامت پر کفر کا لفظ حقیقی معنوں میں ھے۔
ملا مجلسی لکھتے ہیں :
 أعلم أن إطلاق لفظ الشرك والكفر على من لم يعتقد بإمامة أمير المؤمنين والائمة من ولده عليهم السلام وفضّل عليهم غيرهم يدل على أنهم كفار مخلدون في النار۔ ( بحار الانوار23/390 ط بيروت}
ترجمہ:جان لیں کہ منکر امامت علی و امامت ائمہ پر لفظ شرک و کفر کا اطلا ق دلالت کرتا ھے کہ وہ کافر ہیں اور ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے ۔
۶۔منکر امامت دنیا و آخرت دونوں لے لحاظ سے کافر ھے خواہ اہلبیت کا دشمن نہ ھو ۔
معروف شیعہ عالم عبد اللہ الشبر لکھتے ہیں :
 وأما سائر المخالفين ممن لم ينصب ولم يعاند ولم يتعصب فالذي عليه جملة من الامامية كالسيد المرتضى أنهم كفار في الدنيا والاخرة والذي عليه الأشهر أنهم كفار مخلدون في النار{حق اليقين في معرفة أصول الدين 2/188 ط بيروت}
ترجمہ :بہرحال وہ مخالفین جو اہلبیت سے عداوت و دشمنی نہیں رکھتے تو اکثر امامیہ جیسے سید مرتضی وکا مذہب یہ ھے کہ وہ دنیا و آخرت دونوں کے لحاظ سے کافر ھے ،اور مشہور یہی ھے کہ وہ ہمیشہ جہنم میں ھونگے ۔
۷۔مخالفین (منکرین امامت )کو بھائی کہنا جائز نہیں ھے ،کیونکہ وہ کافر ہیں ۔
معروف رافضی عالم محمد بن حسن النجفی اپنی کتاب جواہر الکلام میں لکھتے ہیں :
ومعلوم أن الله عقد الاخوّة بين المؤمنين بقوله تعالى: {إنما المؤمنون أخوة} دون غيرهم فكيف تتصور الاخوة بين المؤمن والمخالف بعد تواتر الروايات وتظافر الآيات في وجوب معاداتهم والبراءة منهم۔ (جواهر الكلام 6/62}: 
ترجمہ :یہ بات معلوم ھے کہ اللہ نے مومنین کو بھائی بھائی کہا ھے تو مومن (شیعہ )اور مخالف (منکر امامت )میں اخوت و بھائی چارہ کیسے ھو سکتا ھے ،جبکہ متواتر روایات اور آیات ان سے دشمنی اور برائت پر دال ھوں۔
اسی طرح الخوئی لکھتے ہیں :
ان المستفاد من الایۃ و الروایات ھو تحریم غیبۃ الاخ المومن و من البدیہی ان لا اخوۃ و لا عصمۃ بیننا و بین الخالفین (مصباح س۳۲۴)
ترجمہ:اس آیت اور دیگر روایات سے مومن بھائی کی غیبت کی حرمت ثابت ھوتی ھے،اور یہ بات بدیہی ھے کہ ک ہمارے اورمخالفین کے درمیان نہ اخوت ھے اور نہ حرمت 
۸۔منکرین امامت کی غیبت ،گالی ،اور ان پرلعنت جائز ھے کیونکہ وہ قطعی کافر و زندیق ہیں ۔
معاصر شیعہ عالم الخوئی  اپنی کتاب مصباح الفقاھۃ لکھتے ہیں :
 "ومن أنكر واحدًا منهم جازت غيبته لوجوه، الوجه الأول: أنه ثبت في الروايات والأدعية والزيارات جواز لعن المخالفين، ووجوب البراءة منهم، وإكثار السب عليهم، واتهامهم، والوقيعة فيهم: أي غيبتهم؛ لأنهم من أهل البدع والريب، بل لا شبهة في كفرهم؛ لأن إنكار الولاية والأئمة حتى الواحد منهم، والاعتقاد بخلافة غيرهم، وبالعقائد الخرافية كالجبر ونحوه؛ يوجب الكفر والزندقة، وتدل عليه الأخبار المتواترة والظاهرة في كفر منكر الولاية، وكفر المعتقد بالعقائد المذكورة، وما يشبهها من ضلالات"( مصباح الفقاهة (1/ 323)
ترجمہ:جو ائمہ میں کسی کا انکار کرے ،اس کی غیبت کئی وجوہ سے جائز ھے ،پہلی وجہ یہ ھے کہ روایات ،دعاوں اور ادعیہ زیارات سے یہ بات ثابت ھے کہ مخالفین پر لعنت جائز ھے ،ان سے برائت کا اظہار واجب ھے ان کو کثرت سے گالیاں دینا اور ان پر تہمتیں لگانا جائز ھے ،۔۔۔۔۔بلکہ ان کے کفر میں کوئی شک نہیں ھے ،کیونکہ انکار امامت و جبر وغیرہ کا عقیدہ کفر و زندقہ کا موجب ھے ،اسی پر متواتر روایات شاہد ہیں ۔
۹۔مخالف یعنی منکر امامت کو غسل اور اس پر جنازہ پڑھنا جائز نہیں ھے ۔
شیخ مفید لکھتے ہیں :
 ولا يجوز لاحد من أهل الإيمان أن يغسل مخالفاً للحق في الولاية ولا يصلّي عليه. إلا أن تدعوه ضرورة إلى ذلك من جهة التقية(ص ۸۵)
ترجمہ :جائز نہیں ھے کہ امامت  کے مخالف کو غسل دیا جائے اور اس پر نماز پڑھی جائے ۔البتہ تقیہ کی بنا پر ایسا کرنا جائز ھے۔
۱۰۔منکر امامت کے جنازہ میں لعنت اور بد دعا کی جائے ۔
مفید اسی کتاب میں لکھتے ہیں :
و إذا صلى عليه لعنه في صلاته و لم يدع له فيه(ص۸۵)
ترجمہ :جب اس پر نماز پڑھے تو اس پر لعنت کرے ،اس کے لئے دعا نہ کرے ۔
۱۱۔دنیا میں منکرین امامت کے ساتھ مسلمانوں والا معاملہ تقیہ اور ضعف کی وجہ وہ سے ھے ،ورنہ حقیقیت میں وہ کافر ہیں ۔
ملا مجلسی لکھتے ہیں:
و يظهر من بعض الأخبار بل كثير منها أنهم في الدنيا أيضا في حكم الكفار، لكن لما علم الله أن أئمة الجور و أتباعهم يستولون على الشيعة و هم يبتلون بمعاشرتهم..أجرى الله عليهم حكم الاسلام توسعة‘فإذا ظهر القائم يجري عليهم حكم سائر الكفار في جميع الأمور ، و في الاخرة يدخلون النارماكثين فيها أبدا و به يجمع بين الأخبار كما أشار إليه المفيد و الشهيد الثاني} بحار الأنوار 8/369
ترجمہ:بہت ساری روایات سے ثابت ھے کہ مخالفین دنیا میں بھی کفار کے حکم میں ہیں ،لیکن اللہ کو علم تھا کہ ظالم ائمہ اور ان کے متبعین شیعہ پر حاکم ہونگے ،اور شیعہ ان سے معاملات میں مبتلا ہونگے ،اس لئے توسعا ان پر اسلام کے احکامات جاری کئے ،جب مہدی ظاہر ہرنگے ،ان سب پر کفار کے احکامات جاری کریں گے (یعنی ان کا قتل اور اموال چھیننا )اور آخرت میں بھی ہمیشہ جہنم میں جائیں گے ۔
۱۲۔منکرین امامت کی تمام عبادات باطل ہیں ۔
الخوئی لکھتے ہیں :
تکفینا بعد الاجماع المحقق کما عرفت النصوص الکثیرۃ الدالۃ علی بطلان العبادۃ من دون الولایۃ (ص۹۴ ج۵)
ترجمہ:ثابت شدہ اجماع کے علاوہ وہ کثیر روایات بھی اس بات پر دلالت کے لئے کافی ہیں کہ بغیر عقیدہ امامت کے عبادات باطل ہیں ۔
۱۳۔منکرین امامت کو زکوۃ نہ دیں کیونکہ وہ مرتد و کافر ہیں ۔
معروف شیعہ عالم سید مرتضی لکھتے ہیں :
 ان الزکوۃ لا تجزئی الا اذا انصرفت الی امامی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔و الحجۃ فی ذلک مضافا الی الاجماع ان الدلیل قد دل علی ان خلاف الامامیہ فی اصولہم کفر جاری مجرۃ الردۃ و لا خلاف بین المسلمین ان المرتد لا تخرج الیہ الزکوۃ(الانتصار ص۲۱۷)
ترجمہ: زکوہ شیعہ امامی کو ادا کئے بغیر درست نہیں ھوگی ۔۔۔آگے اس کی وجہ لکھتے ہیں :اس کی وجہ اجماع کے علاوہ یہ بھی ھے کہ دلیل اس بات پر قائم ھے کہ امامیہ سے اصول میں اختلاف کفرہے اور ایک قسم کی ارتداد ہے،اور مسلمانوں میں اس بات پر کوئی اختلاف نہیں ھے کہ مرتد کو زکوۃ دینے سے زکوۃ ادا نہیں ھوگی۔
۱۳:مخالفین کتوں سے زیادہ نجس ہیں اور یہود و نصارای سے زیادہ شریر ہیں ۔
معروف شیعہ عالم محمد النراقی فقہی احکامات پر مشتمل اپنی ضخیم کتاب مستند الشیعۃ الی احکام الشریعۃ میں لکھتے ہیں :
و دعوی الایمان و الاخوۃ للمخالف مما یقطع بفسادہ و توکد النصوص المتواترۃ الواردۃ عنھم فی طعنھم و لعنھم و تکفیرھم  انھم شر من الیہود او النصاری  انجس من الکلاب (ج۱۴ ص۱۶۳)
اور مخالف(یعنی غیر شیعہ)کے ساتھ ایمان اور اخوت کا دعوی قطعی باطل ھے ،اور ائمہ سے متواتر نصوص ان کی تکفیر ،لعنت ،ان پر طعن ،یہود و نصاری سے ان کے شریر ھونے اور کتوں سے زیادہ ان کے نجس ھونے پر دلالت کرتے ہیں ۔
یہ بات یاد رھے کہ مخالف کا لفظ شیعہ کتب میں غیر شیعہ کے لئے استعمال ھوتا ھے ،چناچہ اللمعۃ الدمشقیہ کے محقق محمد کلانتر لکھتے ہیں :
المخالف و ھو غیر الاثنی عشرۃ من فرق المسلمین (ج۱ ص۲۴۸)
مخالف وہ ھے جو شیعہ امامی نہ ھو بلکہ مسلمانوں کے دیگر فرق سے ھو ۔
اسی طرح معروف شیعہ عالم حسین العصفور لکھتے ہیں :
فالذي يظهر لنا من الأخبار هو كفر كل مخالف  وشركه وأنهم شر من اليهود والنصارى وأن من اعتقد أن لهم في الإسلام نصيباً فهو كافر). أجوبة المسائل الخراسانية ص139
ترجمہ :روایات سے ہر مخالف شیعہ کا کفر ،شرک اور ان کا یہود و نصاری سے بدتر ھونا ثابت ھوتا ھے ،اور جو یہ گمان کرے کہ یہ مسلمان ہیں ،تو وہ بھی کافر ہیں ۔(سبحان اللہ جو نہ مانے وہ بھی کافر کا نعرہ کس نے پہلے لگایا ھے قارئین فیصلہ کریں )
۱۳۔مخالفین کا قتل اور ان کے اموال کی اباحت
معروف شیعہ عالم یوسف البحرانی لکھتے ہیں :
الصريح من الأخبار لاستفاضتها وتكاثرها بكفر المخالف ونصبه وشركہ ،و حل ماله ودمه(الحدائق الناظرہ ج۱۰ص۳۶۰)
ترجمہ:کثیر و مشہور اور صریح روایات مخالف کے کفر ،نصب ،شرک اور اس کے اموال اور جان کے مباح ھونے پر دلالت کرتی ہیں ۔
عصر حاضر کے شیعہ امام خمینی لکھتے ہیں :
 والأقوى إلحاق الناصب بأهل الحرب في إباحة ما أغتنم منهم وتعلق الخُمس به بل الظاهر جواز أخذ ماله أين وجد وبأي نحو كان وادفع إلينا خُمسه). تحرير الوسيلة 1/352
ترجمہ:قوی بات یہی ھے کہ نواصب کا حکم اہل حرب کا ھے ،کہ اموال مباح ہیں ،اور ان سے لئے گئے اموال میں مالخمس بھی ھوگا ،بلکہ ظاہر بات یہ ھے کہ اس کا مال مباح ھے ،جہاں ملے ،جس طریقے سے بھی لے ،ہاں ہمیں خمس دے دیں ۔
شیعہ عالم یوسف البحرانی نے تو اس پر اجماع نقل کیا ھے ،چنانچہ لکھتے ہیں:
 إن إطلاق المسلم على الناصب وإنه لا يجوز أخذ ماله من حيث الإسلام خلاف ما عليه الطائفة المحقة سلفاً وخلفاً من الحكم بكفر الناصب ونجاسته وجواز أخذ ماله بل قتله.(الحدائق الناضرة في أحكام العترة الطاهرة12/323-324)
نواصب پر مسلمان کا اطلاق کرنا اور یہ کہنا کہ کہ ظاہری اسلام کی وجہ سے اس کا مال لینا جائز نہیں ھے ،یہ ایسا قول ھے جو شیعہ کے خلف و سلف کے خلاف ھے ،جو نواصب کے کفر ،نجاست اور اس کے مال و جان کے لینے پر متفق ہیں ۔
اب یہ بات رہ جاتی ہے کہ شیعہ کے نزدیک ناصبی کاکیا مطلب ہے ،تو شیعہ کے نزدیک ناصبی ان کو کہا جاتا ہے جو حضرت علی پر کسی اور کو امامت یا فضیلت میں مقد م کرے ،چنانچہ چند شیعہ علما کی عبارات نقل کی جاتی ہیں :
۱۔شیعہ عالم حسین العصفور لکھتے ہیں :
على أنك قد عرفت سابقاً أنه ليس الناصب إلا عبارة عن التقديم على عليٍّ عليه السلام.(  المحاسن النفسانية في أجوبة المسائل الخراسانية ص157 ط بيروت)
آپ یہ بات جان  چکے ہیں کہ ناصبیت کا مطلب حضرت علی پر کسی اور کو مقدم کرنا ھے ۔
۲۔نیز ایک جگہ لکھتے ہیں :
بل أخبارهم تُنادي بأنَّ الناصب هو ما يُقال له عندهم سنياً(ص 147)
شیعہ روایات واضح دلالت کر رہی ہیں کہ ناصبی وہی ھے ،جسے سنی کہا جاتا ھے ۔
۳۔شیعہ عالم حسین الکرکی لکھتے ہیں :
كالشبهة التي أوجبت للكفار إنكار نبوة النبي صلّى الله عليه وسلم والنواصب إنكار خلافة الوصي (هداية الابرار إلى طريق الأئمة الأطهار ص106 ط1(
ترجمہ:جیسے وہ شبہ جس کی بنا پر کفار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کیا اور نواصب نے وصی یعنی حضرت علی کی امامت کا انکار کیا۔
۴۔ابو الحسن العاملی اپنی تفسیر مرا ۃ الانوار میں لکھتے ہیں
وكذلك الحق أن كل من نصب غير الأئمة فهو في الحقيقة ممن نصب العداوة للأئمة وناصبة بالمعنيين أيضا وأن أدعى المحبة لهم إدعاء .
ترجمہ:حق بات یہ ھے کہ جس نے ائمہ کے علاوہ کسی کو امام مقرر کیا تو فی الحقیقۃ اس نے ائمہ کی عداوت کا قصد کیا ،اگرچہ وہ محبت ائمہ کا دعوی کرے۔
۵۔نعمۃ اللہ الجزائری نے نواصب کے مفہوم کے بارے میں ایک حدیث یوں نقل کی ھے :
وقد روى عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم :أن من علامة النواصب تقديم غير علي عليه .
آگے لکھتے ہیں :
وھذہ خاصۃ شاملۃ (الأنوار النعمانية " 2/206-207 )
یہ خصوصیت تو سب (مخالفین )کو شامل ھے ۔
۶۔معروف شیعہ عالم محسن المعلم نے اپنی کتاب النصب و النواصب میں ایک باب النواصب فی العباد کے نام سے باندھا ھے ،اس باب میں اکابر صحابہ جیسے خلفائے ثلاثہ سے لیکر اکابر محدثین جیسے امام بخاری،امام ذہبی ،اور اکابر فقہا جیسے امام اوزاعی امام مالک اور دیگر اکابرین اہلسنت کو نواصب میں شمار کیا ھے ۔(النصب و النواصب ص۲۵۹ باب النواصب فی العباد)
آخری گزارش
شیعہ کی بنیادی مراجع سے امت مسلمہ کے بارے میں شیعہ کی تکفیری آرا قارئین نے ملاحظہ کیں ،کہ اس گروہ کا امت مسلمہ اور اس کے اکابرین کے بارے میں کیا نظریہ ھے ؟اور یہ گروہ کس نظر سے امت مسلمہ کو دیکھتا ھے ،اس سے یہ بات بخوبی معلوم ھوتی ھے کہ حقیقی تکفیری کون ہیں؟،نیز خود ان شیعہ بھائیوں کے لئے بھی فکر کا مقام ھے ،جو دانستہ یا نادانستہ شیعہ سنی بھائی بھائی یا شیعہ سنی اتحاد کے نعرے لگاتے ہیں ،کہ وہ یا تو ان عبارات اور اپنے فقہا کی رائے سے نا واقف ہیں یا یہ نعرے محض تقیہ کے طور پر لگا تے ہیں ۔اللہ تعالی امت مسلمہ کو اندرونی و بیرونی دشمنوں سے نجات دے ،آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ علی آلہ و اصحابہ و اہل بیتہ اجمعین ۔

مولانا سمیع اللہ جان

Wednesday, March 12, 2014

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ میں صحابہ کرام کی شرکت

نبی کریم ﷺ کی نماز جنازہ میں صحابہ کرام کی شرکت

پہلی روایت
حضرت ابوعسیب سے مروی ہے کہ 
انہ شھد الصلاۃ علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قالوا کیف نصلی علیہ قال ادخلو ارسالا ارسالا قال فکانوا یدخلون من ھذا الباب فیصلون علیہ ثم یخرجون من الباب الآخر
وہ نبی کریم ﷺ کی نماز جنازہ میں حاضر ہوئے تو صحابہ کرام نے وچھا کہ آپ ﷺ کی نماز جنازہ کیسے پڑھیں؟ اس پر صحابہ کرام نے (باہمی مشاورت سے) کہا : تم ٹولیوں کی شکل میں شامل ہو جاؤ۔ چنانچہ صحابہ کرام ایک دروازے سے داخل ہوتے اور آپ ﷺ کی نماز جنازہ پڑھتے، پھر دوسرے دروازے سے نکل جاتے تھے۔
مسند احمد بن حنبل، اول مسند من البصریین، حدیث ابی عسیب رضی اللہ عنہ

دوسری روایت
عن جعفر عن ابیہ قال لم یؤم علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم امام و کانوا یدخلون افواجا یصلون و یخرجون
جعفر اپنے والد امام باقر سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺپر کسی نے امامت نہیں کرائی۔ لوگ جماعت جماعت اندر جاتے ، نماز پڑھ کر واپس لوٹ جاتے تھے۔ 
کنز العمال ج۷ ص ۱۴۶،روایت نمبر۱۸۸۵۵ 

تیسری روایت
عن ابن جریج عن عطاء قال بلغنا ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم حین مات ، اقبل الناس یدخلون فیصلون علیہ و یخرجون و یدخل آخرون کذلک 
ابن جریج حضرت عطاء سے روایت کرتے ہیں کہ ہم کو خبر ملی ہے کہ جب نبی ﷺ کی وفات ہو گئی ، تو لوگ داخل ہوتے اور نماز پڑھ کر نکل جاتے تھے۔ پھر یونہی دوسرے لوگ داخل ہوتے۔ 
کنز العمال روایت نمبر ۱۸۸۵۰

چوتھی روایت
عن سعید بن المسیب قال لما توفی رسول اللہ علیہ وسلم وضع علی سریرہ فکان الناس یدخلون علیہ زمرا زمرا یصلون علیہ و یخرجون و لم یؤمھم احد و توفی یوم الاثنین و دفن یوم الثلاثاء
حضرت سعید بن المسیب سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی تو آپ کو چارپائی پر لٹایا گیا ، لوگ جماعت جماعت آپ کے پاس داخل ہو رہے تھے ، نماز پڑھتے اور نکل جاتے۔ امامت کا منصب کوئی نہ اٹھا رہا تھا۔ آپ پیر کے روز وفات فرما گئے اور منگل کے روز مدفون ہوئے۔
کنز العمال روایت نمبر ۱۸۸۴۷

پانچویں راویت
عبداللہ بن محمد بن عبداللہ بن عمر بن ابی طالب اپنے والد محمد بن عبداللہ سے، اور وہ اپنے دادا عمر بن ابی طالب سے اور وہ حضرت علی سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضور ﷺ کو چارپائی پر لٹایا گیا تو حضرت علی نے ارشاد فرمایا : یہ تمہارے امام ہیں، زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی، پس پھر لوگ گروہ گروہ آتے تھے اور صف بہ صف کھڑے ہو کر نماز پڑھتے تھے۔ ان کا کوئی امام نہ تھا۔۔۔ حتٰی کہ پہلے لوگوں نے نماز پڑھی، پھر عورتوں نے اور پھر بچوں نے۔ 
کنز العمال ر وایت نمبر ۱۸۷۹۴

چھٹی روایت
جعفر بن محمد اپنے والد امام باقر سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ پر بغیر امام کے نماز پڑھی گئی۔ مسلمان آپ پر جماعت جماعت داخل ہوتے تھے اور نماز پڑھتے تھے۔ جب نماز سے فارغ ہو گئے تو حضرت عمر نے فرمایا : اب جنازہ کو اس کے اہل کے پاس تنہا چھوڑ دو۔
 کنز العمال روایت نمبر ۱۸۷۷۰

ساتویں روایت
عمرہ بنت عبدالرحمان حضور ﷺ کی بیویوں سے روایت کرتی ہیں کہ صحابہ کرام حضور ﷺ کی وفات کے موقع پر کہنے لگے، حضور ﷺ کی قبر کیے بنائیں؟ کیا اس کو مسجد بنا دیں؟ حضرت ابوبکر نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا : اللہ پاک یہود و نصارٰی پر لعنت کرے، انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجد بنا لیا۔ صحابہ نے پوچھا : پھر آپ کی قبر کیسی بنائیں؟ حضرت ابوبکر نے فرمایا : ایک شخص مدینہ کا لحدی (بغلی) قبر بناتا ہے، اور ایک شخص مکہ کا شق(سیدھی) قبر بناتا ہے۔پس اے اللہ، تیرے نزدیک جو محبوب قبر ہو، اس کے بنانے والے کو مطلع کر دے۔ وہ تیرے نبی کی قبر بنا دے۔ پس ابوطلحہ جو لحدی قبر بناتے تھے، ان کو اطلاع ہوگئی۔ حضرت ابوبکر نے ان کو حکم دیا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے لئے قبر بنائیں۔ چنانچہ پھر آپ کو لحدی قبر میں دفن کیا گیا اور اس پر کچی اینٹیں پاٹ دی گئیں۔ 
کنز العمال روایت نمبر ۱۸۷۶۲

آٹھویں روایت
حضرت عروہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہو گئی تو آپ کے صحابہ آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ آپ کو کہاں دفن کریں۔ حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ آپ کو اسی جگہ دفن کر دو جہاں اللہ نے ان کی روح قبض فرمائی ہے۔ پس آپ کو بستر سمیت اس جگہ سے ہٹایا گیا اور اس کے نیچے قبر کھود کر آپ کو دفن کیا گیا۔
کنز العمال روایت نمبر ۱۸۷۴۲

نویں روایت
حضرت عبداللہ ابن مسعود سے روایت ہے کہ ہم نے کہا
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، من یغسلک ؟قال رجال اھل بیتی ۔۔۔ قلنا یا رسول اللہ ، فمن یدخل قبرک ؟قال رجال اھل بیتی مع ملائکۃ کثیرۃ 
یا رسول اللہ ﷺ ، آپ کو کون غسل دے گا؟ آپ نے فرمایا : میرے اہل بیت۔۔۔ ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ کو قبر میں کون داخل کرے گا؟ آپ نے فرمایا کہ میرے اہل بیت جن کے ساتھ بہت سے فرشتے ہوں گے۔ 
حلیۃ الاولیاء، من الطبقۃ الاولی من التابعین، مرۃ بن شراحیل

دسویں روایت
موسی بن محمد بن ابراہیم سے مروی ہے کہ
انہ لما توفی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و وضع علی سریرہ، دخل ابوبکر و عمر و معھما نفر من المھاجرین والانصار ، قدر ما یسع البیت و قالا : السلام علیک ایھاالنبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، وسلم المھاجرون والانصار کما سلم ابوبکر، ثم صفوا صفوفا ، لا یؤمھم علیہ احد ۔۔۔ وھما فی الصف الاول
جب حضور علیہ السلام کا انتقال ہوا تو تجہیز و تکفین کے بعد سب سے پہلے حضور ﷺ پر نماز جنازہ پڑھنے کیلئے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر داخل ہوئے، اور ان کے ساتھ مہاجرین اور انصار کی ایک اتنی مختصر جماعت بھی تھی جو حجرے میں سما سکے۔ پھر شیخین نے کہا السلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ وبرکاتہ ، اور پھر حضرات مہاجرین اور انصار نے بھی اسی طرح سلام عرض کیا ، جس طرح شیخین نے عرض کیا۔ پھر تمام حضرات صفوں کی صورت میں کھڑے ہو گئے لیکن کسی نے امامت نہیں کروائی۔۔۔ اور آپ دونوں حضرات (حضرت ابوبکر اور حضرت عمر) صف اول میں تھے۔
دلائل النبوۃ للبیہقی

گیارہویں روایت
حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جب صحابہ نے حضور ﷺ کے لئے قبر کھودنے کا ارادہ کیا تو ابوعبیدہ بن الجراح کے پاس آدمی بھیجا۔ یہ مکہ والوں کی طرح مساوی قبر کھودتے تھے۔ اور ایک شخص ابوطلحہ کے پاس بھیجا۔ یہ اہل مدینہ کی طرح لحد تیار کرتے تھے اور صحابہ بولے : اے اللہ ، اپنے رسول ﷺ کے لئے ایک کو پسند فرما تو ابوطلحہ پہنچ گئے، اور ابوعبیدہ نہ آسکے۔ نبی کریم ﷺ کے لئے لحد تیار کی گئی۔ منگل کے روز جب لوگ آپ کو کفنانے سے فارغ ہو گئے تو آپ کو تخت پر آپ کے گھر رکھا گیا۔ لوگ گروہ در گروہ آتے اور نماز ادا کرتے۔ جب مرد فارغ ہو گئے تو عورتیں داخل ہوئیں اور ان کے بعد بچے۔ کسی نے نبی کریم ﷺ کی امامت نہ کی۔ 
سنن ابن ماجہ ، ج ۱ ص ۴۶۲

بارہویں روایت
محمد بن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ حسین بن عبداللہ بن عبید اللہ بن عباس نے عکرمہ سے ، بحوالہ ابن عباس ، مجھ سے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ فوت ہو گئے تو آدمیوں کو داخل کیا گیا تو لوگوں نے امام کے بغیر جماعت کی صورت میں آپ کا جنازہ پڑھا، یہاں تک کہ فارغ ہو گئے، پھر عورتوں کو داخل کیا گیا، توانہوں نے آپ کی نماز جنازہ پڑھی۔ پھر بچوں کو داخل کیا گیا توانہوں نے آپ ﷺ کی نماز جنازہ پڑھی۔ پھر غلاموں کو داخل کیا گیا تو انہوں نے جماعت کی صورت میں آپ کی نماز جنازہ پڑھی اور رسول کریم ﷺ کی نماز جنازہ پڑھتے ہوئے کسی نے ان کی امامت نہ کی۔ 
البدایہ والنہایہ ج ۵ ص ۳۶۱


تیرھویں روایت
عن ابی عبداللہ قال اتی العباس امیر المومنین فقال : یا علی ان الناس قد اجتمعو! ان یدفننوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی بقیع المصلی و ان یوٗمھم رجل منھم ، فخرج امیر المومنین الی الناس فقال یا ایھا الناس ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امام حیا و میتا وقال : انی ادفن فی البقعہ التی اقبض فیھا ،ثم قام علی الباب فصلی علیہ ، ثم امر الناس عشرۃ عشرۃ یصلون علیہ ثم یخرجون
امام جعفر صادق نے فرمایا کہ عباس نے امیر المومنین حضرت علی سے کہا لوگ اس خیال سے جمع ہوئے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو جنت البقیع میں دفن کریں اور ان میں سے کوئی نماز جنازہ کی امامت کرے۔ یہ سن کر امیر المومنین باہر آئے اور فرمایا : لوگو! رسول اللہ ﷺ جیسے زندگی میں خلق کے امام تھے، مرنے کے بعد بھی ہیں۔ انہوں نے وصیت کی ہے کہ مجھے اسی جگہ دفن کیا جائے جہاں میری روح قبض ہو ، پھر آپ دروازہ پر کھڑے ہوئے اور نماز جنازہ پڑھی، اور لوگوں سے کہا کہ وہ دس دس آئیں اور نماز جنازہ پڑھ کرباہر نکل جائیں۔
اصول کافی ج ۳ ص۲۶ (مجلسی نے اس روایت کو حسن کالصحیح قرار دیا ، دیکھئے مراۃالعقول ج ۵ ص ۲۶۶)

چودھویں روایت
عن ابی جعفر قال : لما قبض النبی صلی اللہ علیہ وسلم صلت علیہ الملائکۃ والمہاجرین و الانصار فوجا فوجا 
امام باقر نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ کی روح قبض ہوئی تو ملائکہ ، مہاجرین اور انصار نے جوق در جوق آنحضرت ﷺ پر نماز پڑھی۔
 اصول کافی ج ۳ ص۲۷

پندرھویں روایت
طبرسی نے بسند معتبر روایت کی ہے کہ جب جناب امیر نے حضرت ﷺ کو غسل دیا، ایک کپڑا حضرت کے منہ کے اوپر ڈال دیا اور گھر میں لٹا دیا۔ جو گروہ آتا تھا، حضرت ﷺ کے گرد کھڑا ہو کر درود بھیجتا تھا۔ اور نماز پڑھتا تھا۔ اور پھر باہر چلا جاتا تھا، اس کے بعد دوسرا گروہ آتا تھا۔ جب سب نماز سے فارغ ہوئے، جناب امیر ؑ داخل قبر آنحضرت ﷺ ہوئے اور فضل بن عباس کو بھی قبر میں لے گئے۔
جلاء العیون ج ۱ ص ۱۵۳

سولہویں روایت
طبرسی نے حضرت امام باقر سے روایت کی ہے کہ دس دس افراد داخل ہوتے تھے، اور آنحضرت ﷺ پر بغیر امام کے نماز پڑھتے تھے۔ اسی طرح تمام دن دوشنبہ اور سہ شنبہ کی رات صبح تک اور سہ شنبہ کا تمام دن شام تک مدینہ اور اطراف مدینہ کے ہر بزرگ، مردوں اور عورتوں نے آنحضرت ﷺ پر نماز پڑھی۔ 
حیات القلوب ج ۲ ص ۱۰۲۲