کلام حقیر
خمینی کے بارے میں اکثر
لوگوں کو یہ مغالطہ رہتا ہے کہ وہ اتحاد بین المسلمین کا بڑا داعی تھا، اکثر
لوگ اس پراپیگنڈے کا شکار ہوتے ہیں، اور بڑے شدو مد سے اس لعین کا دفاع کرتے ہیں۔
ہم اس شیعہ دجال کے کتاب سے چند اقتباسات آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں، امید ہے اس
لعین کی حقیقت لوگوں پر آشکارا ہو جائے گی اور آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ جتنا بڑا
شیعہ مولوی ہو گا، اتنا ہی سختی سے تقیہ و کتمان کے عقیدے پر عمل پیرا ہوگا۔
شیعوں کا امامت کا عقیدہ تو آپ کو معلوم ہی ہوگا، کہ حضرت علیؓ خلیفہ اول تھے، نہ کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ ۔ امامت کا عقیدہ ثابت کرنے کے لئے خمینی نے اپنی کتاب ’کشف الاسرار‘ میں چند فرضی سوالات قائم کئے اور ان کے جوابات سے امامت کا عقیدہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے لئے انہوں نے یہ عنوان قائم کر کے لکھا ہے ’’چرا قران صریحا اسم امام رانبردہ؟‘‘ ۔ اس عنوان کے تحت خمینی نے چند فرضی سوالات اور پھر ان کے جوابات لکھے۔
خمینی صاحب لکھتے ہیں:
آنکه فرضا در قرآن
اسم امامرا هم تعیین میکرد از کجا که خلاف بین مسلمانها واقع نمیشد آنهایکه سالها در
طمع ریاست خودرا بدین پیغمبر چسپانده بودند
و دسته بندیها میکردند ممکن نبود بگفته ای قرآن از کار خود دست بردارند با هر حیله بود کار خود را انجام
میدادند بلکه شاید در این صورت خلاف بین مسلمانها
طوری میشد که با انهدام اصل اساس منتهی میشد زیرا ممکن بود آنها که در صدد ریاست بودند
چون دیدند با اسم اسلام نمیشود بمقصود خود برسند یکسره حزبی بر ضد اسلام تشکیل میدادند
ترجمہ :اگر بالفرض قرآن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کے لئے امام کا (یعنی حضرت علی کا) نام بھی ذکر کر دیا جاتا تو یہ کہاں سے سمجھ لیا گیا کہ اس کے بعد امامت و خلافت کے بارے میں مسلمانوں میں اختلاف نہ ہوتا۔ جن لوگوں نے حکومت و ریاست کی طمع ہی میں برسہابرس سے اپنے کو دین پیغمبر یعنی اسلام سے وابستہ کر رکھا اور چپکا رکھاتھا ، اور جو اسی مقصد کے لئے سازش اور پارٹی بندی کرتے رہے تھے ، ان سے ممکن نہیں تھا کہ قرآن کے فرمان کو تسلیم کرکے اپنے مقصد اور اپنے منصوبے سے دست برداد ہوجاتے ، جس حیلے اور جس پینترے سے بھی ان کا مقصد (یعنی حکومت و اقتدار) حاصل ہوتا ، وہ اس کو استعمال کرتے اور بہر قیمت اپنا منصوبہ پورا کرتے ۔ بلکہ شاید اس صورت میں مسلمانوں کے درمیان ایسا اختلاف پیدا ہوتا جس کے نتیجہ میں اسلام کی بنیاد ہی منہدم ہو جاتی کیونکہ ممکن تھا کہ اسلام قبول کرنے سے جن لوگوں کا مقصد و نصب العین صرف حکومت و اقتدار حاصل کرنا تھا، جب وہ دیکھتے کہ اسلام کے نام سے اور اس سے وابستہ رہ کر ہم یہ مقصد حاصل نہیں کر سکتے ، تو اپنا یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے اسلام ہی کے خلاف ایک پارٹی بنا لیتے اور اسلام کے کھلے دشمن بن کر میدان میں آجاتے‘‘
ترجمہ :اگر بالفرض قرآن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کے لئے امام کا (یعنی حضرت علی کا) نام بھی ذکر کر دیا جاتا تو یہ کہاں سے سمجھ لیا گیا کہ اس کے بعد امامت و خلافت کے بارے میں مسلمانوں میں اختلاف نہ ہوتا۔ جن لوگوں نے حکومت و ریاست کی طمع ہی میں برسہابرس سے اپنے کو دین پیغمبر یعنی اسلام سے وابستہ کر رکھا اور چپکا رکھاتھا ، اور جو اسی مقصد کے لئے سازش اور پارٹی بندی کرتے رہے تھے ، ان سے ممکن نہیں تھا کہ قرآن کے فرمان کو تسلیم کرکے اپنے مقصد اور اپنے منصوبے سے دست برداد ہوجاتے ، جس حیلے اور جس پینترے سے بھی ان کا مقصد (یعنی حکومت و اقتدار) حاصل ہوتا ، وہ اس کو استعمال کرتے اور بہر قیمت اپنا منصوبہ پورا کرتے ۔ بلکہ شاید اس صورت میں مسلمانوں کے درمیان ایسا اختلاف پیدا ہوتا جس کے نتیجہ میں اسلام کی بنیاد ہی منہدم ہو جاتی کیونکہ ممکن تھا کہ اسلام قبول کرنے سے جن لوگوں کا مقصد و نصب العین صرف حکومت و اقتدار حاصل کرنا تھا، جب وہ دیکھتے کہ اسلام کے نام سے اور اس سے وابستہ رہ کر ہم یہ مقصد حاصل نہیں کر سکتے ، تو اپنا یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے اسلام ہی کے خلاف ایک پارٹی بنا لیتے اور اسلام کے کھلے دشمن بن کر میدان میں آجاتے‘‘
خمینی لعین کھلم کھلا حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو اسلام دشمن اور منافق کہ رہا ہے، اس کے کلام سے بالکل واضح ہے کہ وہ کس کے بارے میں یہ کہ رہا ہے۔ خمینی نے اسی پر ہی بس نہیں کی ’’مخالفتہائے ابوبکر بانص قرآن‘‘ اور ’’مخالفت عمر باقرآن خدا‘‘ کے نام سے دو عنوانات قائم کئے ، پھر ’’مخالفتہائے ابوبکر بانص قرآن‘‘ کے تحت لکھتے ہیں :
شاید بگوید اگر در
قرآن امامت تصریح میشد شیخین مخالفت نمیکردند و فرضا آنها مخالفت میخواستند بکنند مسلمانها
از آنها نمیپذیرفتند ناچار ما در این مختصر چند ماده از مخافتهای آنها با صریح قرآن
ذکر میکنیم تا روشن شود که آنها مخالفت میکردند و مردم هم میپذیرفتند
ترجمہ : اگر آپ کہیں کہ قرآن میں اگر صراحت کے ساتھ حضرت علی کی امامت و
ولایت کا ذکر کیا جاتا تو شیخین (ابوبکر و عمر) اس کے خلاف نہیں کر سکتے تھے، اور
اگر بالفرض وہ اس کے خلاف کرنا چاہتے تو عام مسلمان قرآن کے خلاف ان کی اس بات کو
قبول نہ کرتے اور ان کی بات نہ چل سکتی۔ ہم اس کی چند مثالیں یہاں پیش کرتے ہیں کہ
ابوبکر نے اور اسی طرح عمر نے قرآن کے صریح احکام کے خلاف کام اور فیصلے کئے اور
عام مسلمانوں نے ان کو قبول بھی کرلیا۔ کسی نے مخالف نہیں کی۔‘‘
اس میں شاید سب سے وزنی سمجھ کر فدک کا قصہ بیان کیا، کہ کس طرح ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کو فدک سے محروم رکھ کر قرآن کی مخالفت کی۔ پھر ’’مخالفت عمر باقرآن خدا‘‘ کے عظیم اتحاد بین المسلمین عنوان کے تحت فرمایا کہ کس طرح متعہ کو حرام قرار دے کر حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے قرآن کی مخالفت کی۔ پھر اس عنوان کے تحت ’’حدیث قرطاس‘‘ کابھی ذکر کیا ، آخر میں اتحاد بین المسلمین کا عظیم انقلابی لیڈر کہتا ہے
و این کلام یاوه
که از اصل کفر و زندقه ظاهر شده مخالف است با آیاتی از قرآن کریم
ترجمہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس کلام سے اس کا اصلی کفر و زندقہ ظاہر ہوا۔
پھر ملعون خمینی آگے لکھتا ہے
از مجموع اين ماده
ها معلــوم شد مخالفت کردن شيخين (ابوبکر و عمر) از قــرآن در حضور مسلمانان يک امر
خيلى مهمى نبوده و مسلمانان نيز يا داخل در حزب خود آنها بوده و در مقصــود با آنها
همراه بودند و يا اگر همراه نبودند جرئت حـرف زدن در مقابل آنها که با پيغمبر خــدا
و دختــر او اينطـور سلــوک می کردند را نداشتند و يا اگر گــاهى يکى از
آنها يک حرفى می زد به سخــن او ارجى نمی گذاشتند. و جملهٴ کلام آنکه اگر در قرآن هم
اين امر با صراحت لهجه ذکر می شد باز آنها دست از مقصود خود بر نمی داشتند
و تــرک رياست براى گفتهٴ خــدا نمی کردند، منتهى چون ابوبکر ظاهر سازيش بيشتر بود
با يک حديث ساختگى کــار را تمام می کرد، چنانکه راجع به آيات ارث ديديد. و از عمر
هم استبعادى نداشت که آخر امر بگويد خــدا يا جبرئيل يا پيغمبر در فرستادن
يا آوردن اين آيه اشتباه کردند و مهجــور شدند، آنگاه سُنيان نيز از جاى بر
می خاستند و متابعت او را می کردند، چنانچه در اين همه تغييرات که در دين اسلام داد
متابعت از او کردند و قول او را به آيات قرآنى و گفته هاى پيغمبر اسلام مقدم داشتند
ترجمہ : ہم نے جو مثالیں پیش کی ہیں ابوبکر و عمر کی مخالفتِ قرآن کے بارے میں، ان سے معلوم ہوگیا کہ مسلمانوں کی موجودگی میں اور اعلانیہ ان کے سامنے صریح قرآنی احکام کے خلاف رویہ اختیار رکھنا ان دونوں کے لئے کوئی اہم اور غیر معمولی بات نہیں تھی، اس وقت کے مسلمانوں (یعنی صحابہ) کا حال یہ تھا کہ یا تو وہ ان کی پارٹی میں شامل اور حکومت و اقتدار طلبی کے ان کے مقصد و نصب العین میں ان کے ساتھ شریک، ان کے رفیق کار اور پورے ہم نوا تھے، یا اگر ان کی پارٹی میں شامل اور ان کے پورے ہم نوا نہیں تھے تو بھی ان کا حال یہ تھا کہ وہ ان جفا پیشہ طاقتور منافقین کے خلاف ایک حرف بھی زبان سے نکالنے کی جرات نہیں کر سکتے تھے جو خود رسول خدا اور آپ کی لخت جگر زہرا کے ساتھ ظالمانہ سلوک کر چکے تھے، وہ ان سے ڈرتے تھے اس وجہ سے ان کے خلاف زبان کھولنے کی ان میں جرات و ہمت ہی نہیں تھی، اور اگر ان میں سے کوئی بات کرنے کی ہمت بھی کرتا تھا اور کچھ بولتا تو وہ اس کی کوئی پروا نہیں کرتے اور جو کرنا ہوتا وہی کرتے۔ حاصل یہ کہ اگر قرآں میں امامت کے منصب کے لئے حضرت علی کے نام کی صراحت بھی کردی گئی ہوتی تب بھی یہ لوگ (شیخین اور ان کی پارٹی) اللہ کے فرمان کی وجہ سے حکومت پر قبضہ کرنے کے اپنے مقصد اور منصوبہ سے ہر گز دستبردار نہوتے ، ابوبکر جنہوں نے پہلے سے پورا منصوبہ تیار کر رکھا تھا، قرآن کی اس آیت کے خلاف ایک حدیث گھڑ کے پیش کر دیتے اور معاملہ ختم کردیتے جیسا کہ انہوں نے حضرت فاطمہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث سے محروم کرنے کے لئے کیا ۔ اور عمر سے بالکل بعید نہیں تھا کہ وہ (اس آیت کے بارے میں جس میں صراحت کے ساتھ امامت کے منصب پر حضرت علی کی نامزدگی کا ذکر کیا گیا ہوتا ) یہ کہ کر معاملہ ختم کر دیتے کہ یا تو خود خدا سے اس آیت کے پہنچانے میں بھول چوک ہوگئی ، اس وقت سنی لوگ بھی ان کی تائید کے لئے کھڑے ہو جاتے اور خدا کے فرمان کے مقابلہ میں ان ہی کی بات مانتے ۔ جیسا کہ ان ساری تبدیلیوں کے بارے میں ان کا رویہ ہے جو عمر نے دین اسلام اور اس کے احکام میں کی ہیں ، ان سب میں سنیوں نے قرآنی آیات اور رسول خدا کے ارشادات کے مقابلہ میں عمر کی بات کو ہی مقدم رکھا ہے اور اس کی پیروی کر رہے ہیں۔ ‘‘
ترجمہ : ہم نے جو مثالیں پیش کی ہیں ابوبکر و عمر کی مخالفتِ قرآن کے بارے میں، ان سے معلوم ہوگیا کہ مسلمانوں کی موجودگی میں اور اعلانیہ ان کے سامنے صریح قرآنی احکام کے خلاف رویہ اختیار رکھنا ان دونوں کے لئے کوئی اہم اور غیر معمولی بات نہیں تھی، اس وقت کے مسلمانوں (یعنی صحابہ) کا حال یہ تھا کہ یا تو وہ ان کی پارٹی میں شامل اور حکومت و اقتدار طلبی کے ان کے مقصد و نصب العین میں ان کے ساتھ شریک، ان کے رفیق کار اور پورے ہم نوا تھے، یا اگر ان کی پارٹی میں شامل اور ان کے پورے ہم نوا نہیں تھے تو بھی ان کا حال یہ تھا کہ وہ ان جفا پیشہ طاقتور منافقین کے خلاف ایک حرف بھی زبان سے نکالنے کی جرات نہیں کر سکتے تھے جو خود رسول خدا اور آپ کی لخت جگر زہرا کے ساتھ ظالمانہ سلوک کر چکے تھے، وہ ان سے ڈرتے تھے اس وجہ سے ان کے خلاف زبان کھولنے کی ان میں جرات و ہمت ہی نہیں تھی، اور اگر ان میں سے کوئی بات کرنے کی ہمت بھی کرتا تھا اور کچھ بولتا تو وہ اس کی کوئی پروا نہیں کرتے اور جو کرنا ہوتا وہی کرتے۔ حاصل یہ کہ اگر قرآں میں امامت کے منصب کے لئے حضرت علی کے نام کی صراحت بھی کردی گئی ہوتی تب بھی یہ لوگ (شیخین اور ان کی پارٹی) اللہ کے فرمان کی وجہ سے حکومت پر قبضہ کرنے کے اپنے مقصد اور منصوبہ سے ہر گز دستبردار نہوتے ، ابوبکر جنہوں نے پہلے سے پورا منصوبہ تیار کر رکھا تھا، قرآن کی اس آیت کے خلاف ایک حدیث گھڑ کے پیش کر دیتے اور معاملہ ختم کردیتے جیسا کہ انہوں نے حضرت فاطمہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث سے محروم کرنے کے لئے کیا ۔ اور عمر سے بالکل بعید نہیں تھا کہ وہ (اس آیت کے بارے میں جس میں صراحت کے ساتھ امامت کے منصب پر حضرت علی کی نامزدگی کا ذکر کیا گیا ہوتا ) یہ کہ کر معاملہ ختم کر دیتے کہ یا تو خود خدا سے اس آیت کے پہنچانے میں بھول چوک ہوگئی ، اس وقت سنی لوگ بھی ان کی تائید کے لئے کھڑے ہو جاتے اور خدا کے فرمان کے مقابلہ میں ان ہی کی بات مانتے ۔ جیسا کہ ان ساری تبدیلیوں کے بارے میں ان کا رویہ ہے جو عمر نے دین اسلام اور اس کے احکام میں کی ہیں ، ان سب میں سنیوں نے قرآنی آیات اور رسول خدا کے ارشادات کے مقابلہ میں عمر کی بات کو ہی مقدم رکھا ہے اور اس کی پیروی کر رہے ہیں۔ ‘‘
خمینی آگے لکھتا ہے
ترجمہ : ہم ایسے خدا کی پرستش کرتے اور اسی کو مانتے ہیں جس کے سارے کام عقل و حکمت
کے مطابق ہوں۔ ایسے خدا کو نہیں جو خدا پرستی اور عدالت و دینداری کی ایک عالی شان
عمارت تیار کرائے اور خود ہی اس کی بربادی کی کوشش کرے کہ یزید و معاویہ اور عثمان
جیسے ظالموں بدقماشوں کو امارت اور حکومت سپرد کردے ۔
کشف الاسرار ص۱۰۷
کشف الاسرار ص۱۰۷
اللہ تعالٰی امتِ مسلمہ
کو تقیہ بازوں کے شر سے محفوظ رکھے ، آمین
1 comments:
4 5 Saali Ki Bachi K Sth Mutah Kese krty phr ye Islye etraz hai inka
Post a Comment