Monday, February 10, 2014

حدیث حوض پر روافض کا رد

شیعہ روافض اکثر ایک حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پیش کر کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے متعلق شبہ پیدا کرتے ہیں جو حوض کوثر کے متعلق ہے اور حدیث اس طرح ہے :

حدثنا سليمان بن حرب،‏‏‏‏ حدثنا شعبة،‏‏‏‏ عن المغيرة بن النعمان،‏‏‏‏ شيخ من النخع عن سعيد بن جبير،‏‏‏‏ عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال خطب النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ إنكم محشورون إلى الله حفاة عراة غرلا ‏ {‏ كما بدأنا أول خلق نعيده وعدا علينا إنا كنا فاعلين‏}‏ ثم إن أول من يكسى يوم القيامة إبراهيم،‏‏‏‏ ألا إنه يجاء برجال من أمتي،‏‏‏‏ فيؤخذ بهم ذات الشمال،‏‏‏‏ فأقول يا رب أصحابي فيقال لا تدري ما أحدثوا بعدك فأقول كما قال العبد الصالح ‏ {‏ وكنت عليهم شهيدا ما دمت‏}‏ إلى قوله ‏ {‏ شهيد‏}‏ فيقال إن هؤلاء لم يزالوا مرتدين على أعقابهم منذ فارقتهم ‏"‏‏.

ترجمہ : ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے مغیرہ بن نعمان نے جو نخعی قبیلہ کا ایک بوڑھا تھا ، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا اور ان سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن خطبہ سنایا۔ فرمایا تم قیامت کے دن اللہ کے سامنے ننگے پاؤں ننگے بدن بے ختنہ حشر کئے جاؤ گے جیسا کہ ارشا د باری ہے کما بدانا اول خلق نعیدہ وعدا علینا انا کنا فاعلین پھر سب سے پہلے قیامت کے دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کپڑے پہنائے جائیں گے۔ سن لو! میری امت کے کچھ لوگ لائے جائیں گے فرشتے ان کو پکڑ کر بائیں طرف والے دوزخیوں میں لے جائیں گے۔ میں عرض کروں گا پر وردگار! یہ تو میرے ساتھ والے  (اصحاب) ہیں۔ ارشاد ہو گا تم نہیں جانتے انہوں نے تمہاری وفات کے بعد کیا کیا کر توت کئے ہیں۔ اس وقت میں وہی کہوں گا جو اللہ کے نیک بندے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں جب تک ان لوگوں میں رہا ان کا حال دیکھتا رہا آخر آیت تک۔ ارشاد ہو گا یہ لوگ اپنی ایڑیوں کے بل اسلام سے پھر گئے جب تو ان سے جدا ہوا۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر 4740)

یہی روایت صحیح مسلم میں بھی موجود ہے:

قال وقالت أسما بنت أبي بکر قال رسول الله صلی الله عليه وسلم إني علی الحوض حتی أنظر من يرد علي منکم وسيؤخذ أناس دوني فأقول يا رب مني ومن أمتي فيقال أما شعرت ما عملوا بعدک والله ما برحوا بعدک يرجعون علی أعقابهم قال فکان ابن أبي مليکة يقول اللهم إنا نعوذ بک أن نرجع علی أعقابنا أو أن نفتن عن ديننا

ترجمہ: حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا میں حوض (کوثر) پر ہوں گا یہاں تک کہ جو تم میں سے میرے پاس آئے گا میں اسے دے رہا ہوں گا اور کچھ لوگوں کو میرے قریب ہونے سے پہلے ہی پکڑ لیا جائے گا تو میں اللہ عزوجل کی بارگاہ میں عرض کروں گا اے میرے پروردگار !یہ لوگ تو میرے(فرمانبدار) اور میرے امتی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب میں کہا جائے گا کہ کیا آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا کام (بدعات) کئے اللہ کی قسم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ لوگ فورا ایڑیوں کے بل پھر گئے۔ راوی کہتے ہیں کہ ابن ابی ملیکہ یہ دعا پڑھا کرتے تھے اے اللہ ہم اس بات سے پناہ مانگتے ہیں کہ ہم ایڑیوں کے بل پھر جائیں اور اس بات سے بھی کہ ہم اپنے دین سے کسی آزمائش میں مبتلا کر دیئے جائیں۔
(صحیح مسلم حدیث نمبر 5972)

ان روایات سے شیعہ روافض یہ مراد لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ ﷺ کی وفات کے بعد دین سے پھر جائیں گے۔ ان کا اصل مقصد تمام صحابہ پر طعن کرنا ہوتا ہے کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ نبی ﷺ کی وفات کے بعد تین کے سواء سب صحابہ معاذ اللہ دین سے پھر گئے تھے۔

ان احادیث کا صحیح مفہوم اس طرح ہے:
اول: ان روایات میں صحابہ سے مراد منافقین ہیں  جو عہد نبوت میں اسلام کا اظہار کرتے تھے، اور ان کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

اِذَا جَاۗءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْهَدُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُ اللّٰهِ     ۘ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُهٗ    ۭ وَاللّٰهُ يَشْهَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَكٰذِبُوْنَ

ترجمہ :تیرے پاس جب منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم اس بات کے گواہ ہیں کہ بیشک آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ یقیناً آپ اللہ کے رسول ہیں  اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق قطعًا جھوٹے ہیں (سورۃ المنافقون۔ آیت 1)
یہ لوگ ان منافقین میں سے تھے جن کے نفاق کو رسول اللہ ﷺ نہیں جانتے تھے، انہی کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ ړ وَمِنْ اَھْلِ الْمَدِيْنَةِ      ڀ مَرَدُوْا عَلَي النِّفَاقِ  ۣ لَا تَعْلَمُھُمْ  ۭ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ  ۭ سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِيْمٍ

ترجمہ: اور کچھ تمہارے گردو پیش والوں میں اور کچھ مدینے والوں میں ایسے منافق ہیں کہ نفاق پر اڑے ہوئے ہیں، آپ ان کو نہیں جانتے ان کو ہم جانتے ہیں ہم ان کو دوہری سزا دیں گے پھر وہ بڑے بھاری عذاب کی طرف بھیجے جائیں گے۔(سورۃ التوبہ۔ آیت 101)
سو جو لوگ حوض کوثر سے ہٹا دئیے  جائیں گے ان منافقین میں سے تھے جنہیں حضرت نبی کریم ﷺ صحابہ سمجھتے تھے لیکن وہ صحابہ نہ تھے۔

دوئم: ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو حضرت نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد مرتد ہو گئے تھے اور (سب لوگ جانتے ہیں کہ) اکثر عرب مرتد ہو گئے تھے، حتیٰ کے سوائے اہل مکہ، اہل مدینہ، اہل طائف، اور ایک قول کے مطابق اہل بحرین کے اور کوئی اسلام پر قائم نہ رہا، سب کے سب ایڑیوں پر پھر گئے، یہی وہ لوگ ہیں جن کے متعلق حضرت رسول اکرم ﷺ فرمائیں گے "اصحابی " میرے ساتھی  تو آپ کو بتایا جائے گا کہ آپ انہیں نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد کیا کارنامہ سرانجام دیا تھا کیونکہ لوگ آپ کے بعد پے درپے ایڑیوں کے بل پھرتے رہے۔

سوئم: اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو حضرت نبی کریم ﷺ کے ساتھ تو تھےلیکن انہوں نے آپ کی پیروی نہیں کی، لہذا یہ لوگ اصطلاحا صحابی کی تعریف میں داخل نہیں:
اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ جب عبداللہ بن ابی سلول نے کہا کہ

فقال عبد الله بن أبى أوقد فعلوا،‏‏‏‏ والله لئن رجعنا إلى المدينة ليخرجن الأعز منها الأذل‏.‏ فقال عمر بن الخطاب رضى الله عنه دعني يا رسول الله أضرب عنق هذا المنافق‏.‏ قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏‏ دعه لا يتحدث الناس أن محمدا يقتل أصحابه

عبداللہ بن ابی نے کہا اچھا اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے، اللہ کی قسم! مدینہ واپس ہو کر عزت والے ذلیلوں کو باہر نکال دیں گے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ! اجازت ہو تو اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں ورنہ لوگ یوں کہیں گے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے ساتھیوں کو قتل کرانے لگے ہیں۔
(صحیح بخاری۔ حدیث نمبر 4907)

نوٹ کریں اس حدیث میں عبداللہ بن ابی سلول اور دوسرے منافقین کے لئے بھی لفظ اصحاب استعمال ہوا ہے۔
یہ اس بات کی روشن دلیل ہے کہ حدیث حوض سے مراد صحابہ نہیں بلکہ منافقین ہیں
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ بن ابی کو عرفا اپنے صحابہ میں شامل کیا ۔ یہ عرفی یا لفظی اعتبار سے تھا نہ کہ اصطلاحی اور شرعی اعتبار سے  کیونکہ عبداللہ بن ابی سلول رئیس المنافقین تھا اور ان لوگوں میں تھا جنہوں نے اپنا نفاق ظاہر کر دیا تھا اور اللہ نے اسے رسوا کر دیا تھا۔
چہارم: بعض اوقات کلمہ اصحابی سے مراد وہ تمام لوگ لئے جاتے ہیں جو قبول اسلام کے حوال سے رسول کریم ﷺ کے ساتھی یعنی امتی بنے لیکن اگرچہ انہوں نے آپ کو نہ دیکھا ہو، اور ہماری توجیہ پر صحیح مسلم کی حدیث میں " امت کے لوگ" (صحیح مسلم حدیث نمبر 5972) کے الفاظ والی روایت دلالت کرتی ہے۔
باقی رہا حضرت نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان کہ میں انہیں پہچانتا ہوں گا ، سو آپ واضح کر چکے ہیں کہ میں اس امت کو پہچان لوں گا، چناچہ جب آپ سے پوچھا گیا کہ آپ انہیں کیسے پہچانیں گے حالانکہ آپ نے انہیں دیکھا نہیں ہو گا؟ تو آپ نے فرمایا : میں انہیں وضو کے نشانات سے پہچان لوں گا۔(صحیح مسلم حدیث نمبر 582)
تو اس سے یہ مراد ہوا کہ اس حدیث میں جو الفاظ امتی  یا لوگ ملتے ہیں اس سے مراد بعد میں آنے والے لوگ ہوں گےجنہیں رسول اللہ ﷺ وضو کے نشان سے پہچانیں گے۔

لہذا روافض کا اس حدیث سے ارتداد صحابہ پر استدلال کرنا باطل ہے کیونکہ اس سے مراد تین قسم کے لوگ ہیں:
اول : مدینے کے منافق جیسے عبداللہ بن سباء جن کو عرفا صحابہ کہا گیا  لیکن وہ اصطلاحا صحابہ میں شامل نہیں ہیں
دوئم: وہ قبائل جو آپ ﷺ کی وفات کے دین سے پھر گئے مثلا کچھ قبائل مسیلمہ کذاب کے ساتھ مل گئے تھے۔
سوئم: آپ ﷺ کے امت میں بعد میں آنے والے لوگ ۔

اب آخر میں یہ بات قابل غور ہے کہ ان روایات سے ارتداد صحابہ پر استدلال صرف اور صرف روافض ہی کرتے ہیں لیکن دیگر باطل فرقے جیسے خارجی، ناصبی اور معتزلی اس حدیث سے استدلال نہیں کرتے۔ اگر اسی حدیث کو پیش کرتے ہوئے کوئی ناصبی حضرت علی، حضرت حسن، حضرت حسین، اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم پر طعن کرے تو شیعہ روافض کے پاس وہ کونسی دلیل ہے جو ان چاروں کو اس حدیث سے مستثنیٰ کرتی ہے؟

اہل سنت ان ہستیوں کے ارتداد کے قائل نہیں بلکہ انہیں بعد از انبیاء بہترین افراد میں مانتے ہیں اور اللہ کی پنا ہ اہل سنت ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صحیح احادیث میں ان حضرات کے جنتی ہونے کی بشارت موجود ہےجیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دس جنتی لوگوں میں شامل کیا آپ ﷺ نے  (سنن ابوداؤد حدیث نمبر 4649)۔
اور آپ ﷺ سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: حسن اور حسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔(ابن ماجہ حدیث نمبر 118)

اب ہمارا روافض سے سوال ہے کہ اگر تم کہو کہ ابو بکر، عمر، اور ابو عبیدہ  اور باقی صحابہ رضی اللہ عنہم ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں حوض سے دور ہٹا دیا جائے گا تو پھر ناصبیوں  جیسے لوگوں کو یہ بات کہنے سے کون روکے گا کہ حضرت علی بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جنہیں حوض سے روکا جائے گا؟
اگر روافض ناصبیوں کو جواب دیں گے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل ثابت ہیں تو وہ نواصب جواب دیں گے کہ حضرت ابو بکر اور عمر فاروق رضی اللہ عنہم کے فضائل ان سے بھی زیادہ ثابت ہو چکے ہیں۔


ابو عبدالرحمن سلفی، احمد خلفان، ابو تراب سلفی

0 comments: