ملا باقر مجلسی اپنی کتاب جلاء العیون میں لکھتا ہے
ايضا از عمر بن على بن الحسين روايت كرده است كه اول مختار براى پدرم بيست هزار درهم فرستاد، پدرم قبول كرد، و خانه عقيل بن ابي طالب را و خانههاى ديگر از بنى هاشم كه بنى اميه خراب كرده بودند پدرم به آن زر ساخت، چون مختار آن مذهب باطل را اختيار كرد، بعد از آن چهل هزار دينار براى پدرم فرستاد، پدرم از او قبول نكرد و رد كرد
ایضا زین العابدین کے بیٹے عمر سے روایت کی ہے کہ اول مختار نے میرے پدر عالی مقدار کے لئے بیس ہزار دینار بھیجے اور میرے بزرگوار نے وہ دینار لے کر ان سے مکانات عقیل بن ابی طالب اور دیگر بنی ہاشم کے مکانات جو بنی امیہ نے مسمار کر ڈالے تھے، تعمیر کئے۔ اور جب مختار نے مذہب باطل اختیار کیا ، اسکے بعد پھر چالیس ہزار دینار پھر پدر بزرگوار کے پاس بھیجے لیکن حضرت نے قبول نہ فرمائے اور واپس کر دئیے۔
ایضا زین العابدین کے بیٹے عمر سے روایت کی ہے کہ اول مختار نے میرے پدر عالی مقدار کے لئے بیس ہزار دینار بھیجے اور میرے بزرگوار نے وہ دینار لے کر ان سے مکانات عقیل بن ابی طالب اور دیگر بنی ہاشم کے مکانات جو بنی امیہ نے مسمار کر ڈالے تھے، تعمیر کئے۔ اور جب مختار نے مذہب باطل اختیار کیا ، اسکے بعد پھر چالیس ہزار دینار پھر پدر بزرگوار کے پاس بھیجے لیکن حضرت نے قبول نہ فرمائے اور واپس کر دئیے۔
ايضا به سند معتبر از امام محمد باقر عليه السلام روايت كرده است كه مختار نامهاى به خدمت حضرت امام زين العابدين عليه السلام نوشت و با هديهاى چند از عراق به خدمت آن جناب فرستاد، چون رسولان او به در خانه او رسيدند، رخصت طلبيدند كه داخل شوند، حضرت فرستاد كه: دور شويد كه من هديه دروغگويان را قبول نمىكنم و نامه ايشان را نمىخوانم
ایضا بسند معتبر امام محمد باقر سے روایت کی ہے کہ مختار نے ایک عریضہ میرے پدر بزرگوار ک خدمت میں لکھا۔ اور مع چند ہدایا و تحفہ عراق سے بخدمت آنحضرت روانہ کیا۔ جب قاصدان مختار در دولت حضرت پر پہنچے ، اجازت چاہی کہ حاضر ہوں۔ حضرت نے کہلا بھیجا چلے جاؤ۔ میں جھوٹ بولنے والوں کے ہدیے قبول نہیں کرتا۔ اور ان کا خط بھی نہیں پڑھتا۔
در بعضى از كتب معتبر روايت كردهاند كه مختار براى امام زين العابدين عليه السلام صد هزار درهم فرستاد، و آن جناب نمىخواست كه آن را قبول كند، و ترسيد از مختار كه رد كند و از او متضرر گردد، پس آن حضرت آن مال را در خانه ضبط كرد. چون مختار كشته شد، حقيقت حال را به عبد الملك نوشت كه: آن مال تعلق به تو دارد و بر تو گوارا است، و آن جناب مختار را لعنت كرد و مىفرمود: دروغ مىبندند بر خدا و بر ما، مختار دعوى مىكرد كه وحى خدا بر او نازل مىشود
بعض کتب معتبرہ میں روایت کی ہے کہ امام زین العابدین کیلئے مختار نے ایک لاکھ درہم بھیجے۔ حضرت چاہتے تھے کہ قبول نہ کریں۔ اور خوف بھی تھا کہ مبادا واپس دینے سے مختار کچھ ضرر رسانی کرے لہٰذا حضرت نے اس مال کو اسی طرح گھر میں رہنے دیا۔ جب مختار قتل ہوا۔ حضرت نے حقیقت حال عبدالملک کو لکھی کہ یہ تمہارا حق ہے۔ تم کو گوارا ہو۔ اورحضرت مختار پر لعنت فرماتے تھے کہ خدا پر اور ہم پر دروغ باندھتا تھا اور دعوٰی کرتا تھا کہ مجھ پر وہی نازل ہوئی ہے۔
بعضى از علما را اعتقاد آن است كه غرض او رياست و پادشاهى بود، و اين امر را وسيله آن كرده بود، و اولا به حضرت امام زين العابدين عليه السلام متوسل شد، چون حضرت از جانب حق تعالى مامور نبود به خروج و نيت فاسد او را مىدانست، اجابت او ننمود، پس او به محمد بن حنفيه متوسل شد و مردم را بسوى او دعوت مىكرد و او را مهدى قرار داده بود، و مذهب كيسانيه از او در ميان مردم پيدا شد، و محمد بن حنفيه را امام آخر مىدانند و مىگويند كه: زنده است و غايب شده، و در آخر الزمان ظاهر خواهد شد. و الحمد لله كه اهل آن مذهب منقرض شدهاند و كسى از ايشان نمانده است، و ايشان را به اين سبب كيسانى مىگويند كه از اصحاب مختارند، و مختار را كيسان مىگفتند براى آنكه امير المومنين عليه السلام موافق روايات ايشان او را به كيس خطاب كرد، يا به اعتبار آنكه سر كرده لشكر او و مدبر امور او ابو عمره بود كه كيسان نام داشت. و آنچه از جمع بين الاخبار ظاهر مىشود آن است كه او در خروج خود، نيت صحيحى نداشته است، و اكاذيب و اباطيل را وسيله ترويج امر خود مىكرده است، و ليكن چون كارهاى خير عظيم بر دست او جارى شده است، اميد نجات درباره او هست، و متعرض احوال اين قسم مردم نشدن شايد اولى و احوط باشد.
بعض علماء کا اعتقاد یہ ہے کہ مختار کی غرض ریاست و بادشاہی تھی اور اس امر خاص کو اس کا وسیلہ قرار دیا تھا۔ پہلے متوسل بامام زین العابدین ہوا۔ اور چونکہ آنحضرت خداوند عالم کی جانب سے امور و بخروج مختار نہ تھے اور مختار کی فاسد نیت سے واقف تھے ، حضرت نے التماس مختار قبول نہ کی۔ پھر مختار محمد بن حنفیہ سے متوسل ہوا۔ اور لوگوں کو ان کی طرف سے دعوت کرتا تھا۔ اور انہیں مہدی قرار دیتا تھا۔ اور مذہب کیسانیہ اس سے لوگوں میں ظاہر ہوا ہی نہیں بلکہ شائع ہوا۔ اور مذہب کیسانیہ محمد بن حنفیہ کو آخری امام جانتے ہیں۔ اور کہتے ہیں زندہ ہیں مگر غائب ہو گئے ہیں۔ اور زمانہ آخر میں ظاہر ہوں گے۔ لیکن الحمدللہ کہ مذہب کیسانیہ برطرف ہو گیا۔ اور کوئی اس میں سے باقی نہ رہا۔ اور ان کو کیسانی اس وجہ سے کہتے ہیں کہ وہ لوگ اصحاب مختار اور خود مختار کو بھی کیسان کہتے تھے۔ اسلئے کہ جناب امیر نے موافق بعض روایات کیسانیہ مختار کو بلفظ کیس خطاب کیا۔ یا اس اعتبار سے کہ مختار کے لشکر کا سردار اور مشیر کار و مدبر ابو عمرہ تھا اور اسی کا نام کسیان تھا۔ مگر جو کچھ جمع بین الاخبار سے ظاہر ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ مختار کے خروج کرنے سے نیت صحیح نہیں تھی، دروغ گویوں اور پاگلوں کو مختار نے وسیلہ ترویج امور دین قرار دیا تھا۔ لیکن چونکہ کار ہائے خیر عظیم اس کے وسیلہ سے جاری اور ظاہر ہوئے، اسکی نجات کی امیت ہے اور معترض نہ ہونا حالات سے ایسے لوگوں کے بہتر ہے۔
بعض علماء کا اعتقاد یہ ہے کہ مختار کی غرض ریاست و بادشاہی تھی اور اس امر خاص کو اس کا وسیلہ قرار دیا تھا۔ پہلے متوسل بامام زین العابدین ہوا۔ اور چونکہ آنحضرت خداوند عالم کی جانب سے امور و بخروج مختار نہ تھے اور مختار کی فاسد نیت سے واقف تھے ، حضرت نے التماس مختار قبول نہ کی۔ پھر مختار محمد بن حنفیہ سے متوسل ہوا۔ اور لوگوں کو ان کی طرف سے دعوت کرتا تھا۔ اور انہیں مہدی قرار دیتا تھا۔ اور مذہب کیسانیہ اس سے لوگوں میں ظاہر ہوا ہی نہیں بلکہ شائع ہوا۔ اور مذہب کیسانیہ محمد بن حنفیہ کو آخری امام جانتے ہیں۔ اور کہتے ہیں زندہ ہیں مگر غائب ہو گئے ہیں۔ اور زمانہ آخر میں ظاہر ہوں گے۔ لیکن الحمدللہ کہ مذہب کیسانیہ برطرف ہو گیا۔ اور کوئی اس میں سے باقی نہ رہا۔ اور ان کو کیسانی اس وجہ سے کہتے ہیں کہ وہ لوگ اصحاب مختار اور خود مختار کو بھی کیسان کہتے تھے۔ اسلئے کہ جناب امیر نے موافق بعض روایات کیسانیہ مختار کو بلفظ کیس خطاب کیا۔ یا اس اعتبار سے کہ مختار کے لشکر کا سردار اور مشیر کار و مدبر ابو عمرہ تھا اور اسی کا نام کسیان تھا۔ مگر جو کچھ جمع بین الاخبار سے ظاہر ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ مختار کے خروج کرنے سے نیت صحیح نہیں تھی، دروغ گویوں اور پاگلوں کو مختار نے وسیلہ ترویج امور دین قرار دیا تھا۔ لیکن چونکہ کار ہائے خیر عظیم اس کے وسیلہ سے جاری اور ظاہر ہوئے، اسکی نجات کی امیت ہے اور معترض نہ ہونا حالات سے ایسے لوگوں کے بہتر ہے۔
0 comments:
Post a Comment