بسم اللہ الرحمن الرحیم
صدیق کا دروازہ
اور افلاطون نامی رافضی کا علمی محاسبہ
افلاطون صاحب کی تحقیق کا آغاز ایک سکین سے ہوتا ہے۔ سکین
کا عنوان ہے "اہلبیت اور صحابہ کے درمیان واضح فرق : ہادی کون ہونا
چاہئے؟" یہ سکین مجمع الزوائد کا ہے۔ اس سکین پر اپنی تعلیق میں فرماتے ہیں
"
اہلسنت
برادران کی حسن روایات میں : رسول اللہ ﷺ نے ، مسجد کی طرف آنے والے تمام راستے
بند کرنے کا حکم دیا صرف حضرت علی کا دروازہ جوں کا توں رہنے دیا ۔۔۔ لوگوں نے کہا
: یا رسول اللہ ﷺ ، آپ نے ہم سب کے دروازے تو بند کروا دیئے مگر علی کا دروازہ
کھلا رہنے دیا؟رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا "میں نے تمہارے دروازے بند نہیں کئے،
اللہ نے کئے ہیں"۔
حالانکہ مجمع الزوئد میں لکھا ہے :
وعن عبد الله بن الرقيم
الكناني قال : خرجنا إلى المدينة زمن الجمل ، فلقينا سعد بن مالك بها ، فقال : أمر
رسول الله - صلى الله عليه وسلم - بسد الأبواب الشارعة في المسجد ، وترك باب علي
. رواه أحمد ، وأبو يعلى ، والبزار ،
والطبراني في الأوسط ، وزاد : قالوا : يا رسول الله ، سددت أبوابنا كلها إلا باب
علي قال : " ما أنا سددت أبوابكم ولكن الله سدها " . وإسناد أحمد حسن[1]
عبداللہ بن رقیم کنانی سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا :ہم
جنگ جمل کے دنوں میں مدینہ کی طرف نکلے۔ ہم وہاں پر سعد بن مالک سے ملے۔ انہوں نے
فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تھا کہ مسجد کی طرف نکلنے والے تمام راستے بند کر
دیئے جائیں، اور صرف حضرت علی کا دروازہ چھوڑ دیا جائے۔ اس کو احمد ، ابو یعلی،
بزار اور طبرانی نے اوسط میں نقل کیا ہے،اور (طبرانی نے) یہ مزیدنقل کیا ہے ،
انہوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ﷺ ، کیا ہم سب اپنے دروازے بند کر دیں سوائے حضرت
علی کے دروازے کے؟ انہوں نے فرمایا: میں تم لوگوں کے دروازے نہیں بند کر رہا، بلکہ
اللہ تعالیٰ نے بند کئے ہیں۔ اور احمد کی اسناد حسن درجے کی ہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ یہ زیادت (انہوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ﷺ ، کیا ہم سب
اپنے دروازے بند کر دیں سوائے حضرت علی کے دروازے کے؟ انہوں نے فرمایا: میں تم
لوگوں کے دروازے نہیں بند کر رہا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے بند کئے ہیں) طبرانی نے
اوسط میں نقل کی ہے ، اور علامہ ہیثمی نے اس کی اسناد کو حسن نہیں کہا ، بلکہ احمد
کی اسناد کو حسن کہا ہے جس میں یہ زیادت نہیں ہے۔
لیکن احمد کی اسناد بھی حسن نہیں، بلکہ مسند احمد کے
محقق احمد شاکر نے اس پر جرح کی ہے، اور
ثابت کیا ہے کہ احمد کی اسناد ضعیف ہیں۔
مسند احمد کی روایت یوں ہے:
حدثنا حَجَّاج حدثنا فِطرْ عن عبد الله بن شَريك عن
عبد الله بن الرُّقَيْم الكناني قال: خرجنا إِلى المدينة زمن الجَمَل، فلقينا سعد
ابن مالك بها، فقال: أمر رسول الله - صلى الله عليه وسلم - بسدّ الأبواب الشارعة
في المسجد وترك باب عليّ[2]
جیسا کہ آپ نے دیکھا، اس روایت میں مذکورہ زیادت نہیں
ہے۔ اس کی سند کے متعلق احمد شاکر فرماتے ہیں:
إسناده ضعيف، عبد الله بن الرقبم، بالتصغير،
الكناني: مجهول، روى له النسائي في الخصائص وقال: "لا أعرفه"، وقال
البخاري: "فيه نظر". عبد الله بن شريك العامري الكوفي: ثقة، وثقه أحمد
وابن معين وأبو زرعة، وقال النسائي في الضعفاء: "ليس بالقوي، مختاريَّ"،
يعني من أصحاب المختار الكذاب، وكان ذلك في أوائل أمره، ولكنه تاب، كما في الميزان۔۔۔
فطر: هو ابن خليفة. والحديث في مجمع الزوائد 9: 114 ونسبه أيضاً لأبي يعلى والبزار
والطبراني في الأوسط، وقال "وإسناد أحمد حسن". وليس كما قال، بل هو ضعيف
كما ترى
اس کی اسناد ضعیف ہیں۔ عبداللہ بن رقیم کنانی مجہول ہے۔
امام نسائی نے خصائص میں اس سے روایت لی ہے، اور فرمایا : میں اسے نہیں جانتا۔ اور
امام بخاری نے فرمایا: فیہ نظر۔ عبداللہ بن شریک عامری ثقہ ہے، احمد اور ابن معین
نے اس کی توثیق کی ہے، اور امام نسائی نے ضعفاء میں فرمایا ہے :قوی نہیں ہے، اور
مختاری ہے، یعنی مختار کذاب کے اصحاب میں سے ہے۔لیکن وہ شروع میں اس طرح تھا،بعد
میں اس نے توبہ کر لی تھی، جیسا کہ میزان میں ہے۔فطر سے مراد فطر ابن خلیفہ ہے۔اور
یہ حدیث مجمع الزوائد ج 9 ص 114 میں بھی ہے، اور صاحبِ مجمع الزوائد نے اسے
ابویعلی، بزار اور طبرانی کی اوسط میں ہونے کا ذکر بھی کیا ہے۔اور یہ بھی فرمایا
ہے کہ احمد کی اسناد حسن ہیں، جبکہ ایسا نہیں جیسا کہ انہوں نے فرمایا بلکہ
اس کی اسناد ضعیف ہیں جیسا کہ آپ نے
ملاحظہ کیا۔[3]
اب ایسی فحش غلطی کرنے کے باوجود بھی افلاطون میاں کی
شان ہے کہ بڑے بڑے محدثین پر اعتراض کرتے رہتے ہیں۔
اس کے بعد امام سیوطی کا قول نقل کرتے ہیں جسمیں انہوں نے
بیس احادیث اس سلسلے میں نقل کرنے کے بعد فرمایا:
سب سے
پہلے ہم اس باب میں حضرت علی (ع) کیلئے وارد
احادیث کا تذکرہ کرتے ہیں جن میں سے کافی احادیث ذکر کرنے کے بعد علامہ جلال الدین
السیوطی نے لکھا کہ فهذه
اكثر من عشرين حديثا في الامر بسد الابواب وبقيت احاديث اخر تركتها كراهة لاطالة یہ بیس سے زائد احادیث ہیں دروازے
بند کرنے کے بارے میں ،اور دیگر احادیث بھی ہیں جن کو طوالت کے خوف سے ترک کیا ہے۔[4]
افلاطون میاں نے مذکورہ عبارت کا سکین تو لگا دیا ہے، لیکن
ان بیس سے زائد احادیث کا مطالعہ نہیں کیا۔ ان بیس سے زائد احادیث میں سے چودہ
(14) کے قریب احادیث تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق ہیں، اور دس (10)
احادیث حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ حضرت ابوبکر رضی
اللہ عنہ کے بارے میں جواحادیث ہیں، ان کے بارے میں ایک حدیث ذکر کرنے کے بعد امام
سیوطی فرماتے ہیں:
هذا حديث متواتر كما سأشير
إلى طرقه
یہ حدیث متواتر ہے جیسا کہ میں اس کی طرق کی طرف آؤں گا۔[5]
سبحان اللہ، امام سیوطی کی کتاب کا پہلا حوالہ ہی افلاطون میاں پر بھاری پڑ گیا
ہے۔ لیکن افلاطون میاں اپنی ضد سے کہاں باز آنیوالے ہیں؟ پھر فرماتے ہیں:
تفصیلا
ہم اس باب میں مولا علی (ع) کیلئے پانچ صحابہ کی احادیث نقل کرتے ہیں۔
پہلی روایت حضرت عمربن خطاب رضی اللہ والی ضعیف ہے۔ افلاطون
میاں نے جو سکین لگایا ہے، اسی کے حاشیے پر لکھا ہے:
بل المديني عبد الله بن جعفر
ضعيف
بلکہ عبداللہ بن جعفر المدینی ضعیف ہے۔
دوسری روایت سعد بن وقاص کی ہے، جس میں فطر راوی ہے جو کہ
شیعت سے متہم ہے۔
تیسری روایت زید بن ارقم
کی ہے، اور اس میں میمون نامی راوی ضعیف ہے۔
چوتھی روایت حضرت ابن عباس کی ہے، اور اس میں ابوبلج نامی راوی ہے، جس کی توثیق موجود
ہے، لیکن اس کی تضعیف بھی کی گئی ہے۔
علامہ ہیثمی اس کے بارے میں فرماتے ہیں ھو ثقہ وفیہ لین یعنی وہ ثقہ ہے، لیکن
کمزور ہے۔[6]
پانچویں روایت ابن
عمر کی ہے، جس میں ابو اسحاق راوی موجود ہے، جو کہ تدلیس سے متہم ہے، اور یہاں عن
سے روایت کر رہا ہے، لہذا روایت میں ضعف بہرحال موجود ہے۔
یہ افلاطون میاں کی پانچ روایتوں کا حال ہے جیسا کہ آپ نے
ملاحظہ کیا۔ اب ان کو لے کر متواتر حدیث کا انکار کرنا افلاطون میاں کا کارنامہ ہی
ہوسکتا ہے۔
اس میں سے کوئی ایک حدیث بھی علی شرط الشیخین نہیں ہے۔ یعنی
متفق علیہ نہیں ہے۔
پھر بھی ہم وہی کہتے ہیں جو علامہ ابن حجر نے فرمایا :
وهذه الاحاديث يقوي بعضها بعضا
یہ احادیث ایک دوسرے کو قوی کرتی ہیں۔[7]
اور پھر افلاطون میاں فرماتے ہیں:
لیکن
افسوس کہ اس قدر تواتر کے باوجود ان احادیث پر اہلسنت کے چند علماء نے بغیر کسی
دلیل کے نکتہ چینی کی ہے۔
میں کہتا ہوں کہ
نکتہ چینی بغیر کسی وجہ کے نہیں کی۔ یہ روایت ظاہری طور پر متواتر حدیث کے خلاف ہے
جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں وارد ہوئی ہے، اس وجہ سے بعض علماء کو
اشتباہ ہوا کہ یہ روایت گھڑی گئی ہے۔ لیکن دیگر علماء نے اس کی تاویل کی، اور
تاویل قابل ِ قبول ہے۔
پھر اس کے بعد افلاطون میاں نے علامہ ابن تیمیہ ، علامہ ابن
کثیر اور علامہ ابن جوزی کے حوالے دیئے کہ انہوں نے اس حدیث کا انکار کیا، اور پھر
علامہ سیوطی کی کتاب کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے ان روایات کے متواتر ہونے کا
تذکرہ کیا جو اس بارے میں آئی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی
رضی اللہ عنہ کے دروازے کو چھوڑ کر تمام دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا ، جو مسجد
نبوی ﷺ کی طرف کھلتے تھے، اور اس کے بعد علامہ بزدوی کی کتاب کا حوالہ دیا کہ متواتر
حدیث کا انکار کفر ہے۔
میں کہتا ہوں کہ علامہ بزدوی کی عبارت کا اگلا حصہ پڑھ لیتے
تو نہ ہی ان علماء پر اعتراض کرتے اور نہ
ہی اپنے علماء پر اعتراض کا دروازہ کھلنے دیتے۔ علامہ بزدوی آگے فرماتے ہیں:
وجه قول الفريق الآخر ما ذكر في الكتاب انه وان صار
حجة بشهادة السلف بحيث صحت الزيادة به على الكتاب لكن بقي فيه شبهة الانتصال وتوهم
الكذب باعتبار ان رواته في الاصل لم يبلغوا حد التواتر فيسقط به علم اليقين ولهذا
لم يكفر جاحده لانه لا يثبت الا بانكار اليقين
مفہوم یہ ہے کہ متواتر کا انکار کرنے والے کی تکفیر اس وقت
نہیں کی جاتی جب شبہ باقی رہے، اور کذب کا امکان باقی رہے، اس وجہ سے کہ اس حدیث
کے رواۃ اصل میں تواتر کی حد تک نہیں پہنچتے، پس اس وجہ سے اس کا یقینی ہونا باقی نہیں رہتا ، اور جو چیز یقینی
نہ ہو، اس کا انکار کفر نہیں۔[8]
دوسری بات یہ ہے کہ ملا باقر مجلسی کے نزدیک تحریف کی
روایات متواتر ہیں،اور علامہ نوری طبرسی نے اس کی تائید کی، لیکن آپ کے بہت سے
علماء ان متواتر روایات کا انکار کرتے ہیں۔ پس یہ واضح کیجئے کون کافر ہوا۔ لیکن
اصل ڈرامہ تو اس کے بعد شروع ہوتا ہے جب افلاطون روایات کے اثبات اور ابطال کے لئے
اپنی ذہنی صلاحیتوں کا استعمال برائے کار لانے کی کوشش کرتا ہے، اور جس قدر بوگس
طریقوں سے اس نے اپنا موقف ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، اس کے بارے میں یہی کہا
جاسکتا ہے الامان الحفیظ۔
پہلی روایت اور اس پر افلاطون کا تبصرہ :
پہلی روایت یوں ہےابوسعید خدری نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ
نے خطبہ دیا اور فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے اپنے ایک بندے کو دنیا میں اور جو کچھ
اللہ کے پاس آخرت میں ہے ان دونوں میں سے کسی ایک کا اختیار دیا تو اس بندے نے
اختیار کر لیا جو اللہ کے پاس تھا ۔۔۔
آنحضرت ﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ اپنی صحبت اور مال کے ذریعہ مجھ پر ابوبکر کا سب
سے زیادہ احسان ہے اور اگر میں اپنے رب کے سوا کسی کو جانی دوست بنا سکتا تو
ابوبکر کو بناتا، لیکن اسلام کا بھائی چارہ اور اسلام کی محبت ان سے کافی ہے،
دیکھو مسجد کی طرف دروازے سب بند کر دیئے جائیں ۔ صرف ابوبکر کا دروازہ رہنے دو۔[9]
اس حدیث کے ابطال کے لئے افلاطون میں فرماتے ہیں:
صحیح
بخاری کتاب فضائل الصحابہ باب قول النبی ﷺ سدو کل ابواب الا باب ابی بکر میں دو
احادیث ہیں ایک حضرت ابن عباس سے اورایک ابوسعید خدری سے۔ اب ان احادیث کے متعلق
چار باتیں :
پہلی
بات : اہلسنت علماء کے مطابق احادیث میں سے حضرت ابوبکر کے دروازے کی مراد ہے ہی
نہیں، ان احادیث میں حضرت علی کا حقیقی دروازہ مراد ہے جب کہ حضرت ابوبکر کی کھڑکی
یا مجازی معنی (خلافت کا کنایہ) مراد ہے۔ ان احادیث کی تشریح میں اہلسنت عالم
علامہ عینی نے لکھا قلت جمع بينهما بان المراد
بالباب في حديث على الباب الحقيقي. والذي في حديث ابي بكر يراد به الخوخة كما صرح
به في بعض طرقه علامہ عینی (فرماتے ہیں کہ) حضرت علی
والی احادیث میں حقیقی دروازہ مراد ہے اور حضرت ابوبکر کیلئے کھڑکی مراد ہے جیسا
کہ بعض روایتوں میں اس کی تصریح ہے۔ یہی بات علامہ عسقلانی نے مزید اضافے کے ساتھ
لکھی کہ ومحصل الجمع ان الامر بسد الابواب وقع مرتين ففي الاول استثنى
على لما ذكره وفي الاخرى استثنى ابو بكر ولكن لا يتم ذلك الا بان يحمل ما في قصة
علي على الباب الحقيقي وما في قصة ابي بكر على الباب المجازي والمراد به الخوخة
كما صرح به في بعض طرقه علامہ عسقلانی (فرماتے ہیں کہ ) دونوں امروں کے
اجتماع سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ دروازے بند کروانے والا واقعہ دو مرتبہ ہوا ۔
ایک مرتبہ علی کیلئے استثنا تھا اور دوسری مرتبہ میں حضرت ابوبکر کیلئے، لیکن یہ
تطبیق تب تک مکمل نہیں جب تک یہ حمل نہ کیا جائے ۔ میں کہتا ہوں کہ حضرت علی والی
احادیث میں حقیقی دروازہ مراد ہے اور حضرت ابوبکر کیلئے کھڑکی مراد ہے جیسا کہ بعض
روایتوں میں اس کی تصریح ہے۔ملا علی قاری (فرماتے ہیں کہ) وان اريد به المجاز فهو كناية عن الخلافة
وسد ابواب المقالة دون التطرق اليها والتطلع عليها . اري المجاز فيه اقوى اذ لم
يصح عندنا ان ابابكر كان له منزل بجنب
المسجد وانما كان منزله بالسنح من عوالي المدينة اگر
اس سے مجازی مراد لی جائے تو یہ حضرت ابوبکر کی خلافت کا کنایہ ہے ۔۔۔ اور یہاں
مجاز اقوی ہے۔
کوئی مضائقہ نہیں اگر یہ مان لیا جائے کہ حضرت علی کے بارے
میں جو روایات آئی ہیں، ان سے مراد حقیقی دروازہ ہے، اور حضرت ابوبکر کے بارے میں
جو روایات آئی ہیں ، ان سے مراد خوخہ یا کھڑکی ہے۔ اگر یہ تاویل مان لی جائے، تو
روایات میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ لیکن افلاطون میاں اس تاویل کا ذکر کرنے کے بعد
اپنی 'دوسری بات' میں فرماتے ہیں
دوسری
بات : علی (ع) کے علاوہ دروازوں کی بندش والی احادیث اور حضرت ابوبکر کے دروازے
/کھڑکی کے علاوہ دروازوں کی بندش والی احادیث میں تعارض موجود ہے اور ان کے اجتماع
میں اشکال ہے، لہذا ان میں سے ایک قسم کی روایات ضرور جعلی ہیں۔اور حضرت علی (ع)
کے علاوہ دروازوں کی بندش والی احادیث کے موضوع ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے لیکن
حضرت ابوبکر کے علاوہ دروازوں کی بندش کے موضوع ہونے کی دلیلیں موجود ہیں (جو
تیسری بات میں آئیں گی) جیسا کہ علامہ عسقلانی نے فتح الباری میں دونوں قسم کی
احادیث کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ص 35
افلاطون میاں نے اس کے بعد علماء کے اقوال میں اشکال ظاہر
کرنے کی کوشش کی ہے، چنانچہ فرماتے ہیں:
حافظ
نے لکھا کہ ان دونوں قصوں میں اجتماع ممکن ہے کہ جیسا بزار نے اس مطلب کی طرف
اشارہ کیا ہے کہ اہل کوفہ کی روایات علی (ع) کی شان میں حسن سندوں سے ہیں اور اہل
مدینہ کی روایات حضرت ابوبکر کی شان میں نقل ہوئی ہیں۔ اگر اہل کوفہ کی روایات
درست ہین تو روایات کے دونوں گروہوں میں
اجتماع ابوسعید خدری کی اس روایت کے بنا پر ہوگا جو ترمذی میں نقل ہوئی ہے ۔۔۔ الخ
علامہ
عسقلانی کی مذکورہ تاویل پر یہ اشکالات ہیں: 1 ۔ حافظ عسقلانی کا یہ کہنا کہ اگر
اہل کوفہ کی روایات درست ہین تو ۔۔۔ حافظ
عسقلانی نے ابن جوزی کی تردید میں خود کہا کہ صرف وہم کی بنیاد پر احادیث صحیحہ کا
رد کرنا ۔۔۔جبکہ یہاں ان احادیث کے بارے میں بزار کا قول نقل کرکہ یہ کہنا کہ اگر
اہل کوفہ کی روایات ثابت ہوں تو ۔۔۔۔ حافظ کے ان دونوں اقوال میں تنافض ہے۔
جواب اس کا یوں ہے
کہ آپ نے سکین تو لگا لیا، لیکن پھر بھی اگر آپ کو یہ پتہ نہ چلا کہ حافظ
نے بزار کا قول ہی نقل کیا ہے، تو آپ کہاں سے افلاطون بن گئے؟ حافظ یہاں پر بزار
ہی کا قول نقل کر رہا ہے چنانچہ فرماتے ہیں وقد اشار الى ذلك البزار في مسنده فقال
ورد من روايات اهل الكوفة باسانيد حسان في قصة على
۔۔۔ اب موصوف اتنے واضح الفاظ سمجھنے سے قاصر ہوں، اور
اعتراض حافظ ابن حجر پر کریں تو کیا ایسا شخص اپنی تحقیق میں مزید فحش غلطیوں سے
بچ سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔
اور
2۔ حافظ کا یہ کہنا کہ روایات کے دونوں گروہوں میں اجتماع ابوسعید خدری کی اس
روایت کی بنیاد پر ہوگا جو ترمذی میں نقل ہوئی ہے کہ رسول ﷺ نے حضرت علی سے فرمایا
کہ تیرے اور میرے علاوہ کسی کیلئے بھی یہ جائز نہیں کہ مسجد میں حالت جنب میں آئے۔
اول
اس میں ترمذی کی روایت سے کہیں سے بھی یہ پتہ نہیں چلتا کہ حضرت علی کے گھر میں
ایک ہی دروازہ تھا جو صرف مسجد کی طرف کھلتا تھا۔ اور اگر مسجد میں حالت جنب میں
داخلہ اگر دوسرا دروازہ نہ ہونے کی وجہ سے تھا تو حضور ﷺ کے گھر میں بھی ایک ہی
دروازہ ہونا چاہئے جو صرف مسجد میں کھلتا ہو۔
افلاطون میاں نے سکین پورا نہیں پڑھا، اور اگر پڑھا ہوتا تو
ایسا اعتراض نہ کرتے۔ علامہ ابن حجر اس کی تائید میں ایک روایت نقل کرتے ہیں جس کے
الفاظ یہ ہیں " ويؤيد ذلك
ما أخرجه إسماعيل القاضي في أحكام القرآن من طريق المطلب بن عبد الله بن حنطب أن
النبي صلى الله عليه وسلم لم يأذن لأحد أن يمر في المسجد وهو جنب إلا لعلي بن أبي
طالب لأن بيته كان في المسجد " اس روایت
میں آخری الفاظ لأن بيته كان في المسجد کا ترجمہ یہ ہے کہ اس کی وجہ یہ ہےکہ ان کا گھر مسجد میں
ہی تھا۔ اب جو گھر مسجد میں ہی ہوگا، ظاہر ہے کہ اس کا دروازہ مسجد ہی کی طرف کھلے
گا۔ بہرحال ابن حجر نے اپنے موقف کی دلیل میں اس روایت کے ان الفاظ سے دلیل پکڑی،
جس کو افلاطون میاں ایک بار پھر سمجھ نہیں پائے۔ اس کی تائید میں ایک اور روایت
بھی پیش کی جاسکتی ہے جو حضرت ابن عمر سے مروی ہے جس میں انہوں نے فرمایا : ليس في المسجد بيت غير بيته یعنی مسجد نبوی
ﷺ میں حضرت علی کے سوا کسی کا گھر نہیں ہے۔ رواه النسائي في
سننه ۔ پہلی روایت مرسل ہے، دوسری روایت میں ابو اسحاق تدلیس سے متہم ہے۔ بہرحال
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ابن حجر نے اس روایت کو اپنے موقف کی تائید میں پیش کیا ہے۔
افلاطون میاں اگر سکین شائع کرتے وقت اسے
پڑھنے کی زحمت بھی فرما لیتے تو نہ ان کی تحریر
اتنی لمبی چوڑی ہوتی، اور نہ ہمیں ہر ایرے غیرے اعتراض کا جواب دینے کی
زحمت اٹھانی پڑتی۔ لیکن مسئلہ یہ ہےکہ ان کے ہر ایرے غیرے اعتراض کا جواب نہ دیا
جائے تو انہیں لگتا ہے کہ انہوں نے کوئی تیر مار لیا ہے۔
دوم
اگر دوسرا دروازہ نہ ہونے کی وجہ سے ہی حضرت علی کا دروازہ کھلا چھوڑ دیا گیا تو صحابہ نے اس واقعہ پر جو کلام کیا تو
صحابہ کی چہ مگوئیوں کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ اور اگر ایسا ہی تھا تو رسول ﷺ نے یہ
صریح عذر پیش کیوں نہ کیا کہ چونکہ دیگر صحابہ کےگھروں میں دوسرے دروازے ہیں جبکہ
علی (ع) کے گھر میں ایک ہی دروازہ ہے لہذا میں نے باقیوں کے دروازے بند کرواکے صرف
علی (ع) کا دروازہ کھلا چھوڑا ہے بلکہ آپ نے فرمایا کہ مجھے اس کا حکم ہوا ہے اور
میں نے اتباع کی ہے۔
جس روایت میں ایسا مذکور ہے، اس کی اسنادی کیفیت پر ہم نے شروع میں ہی روشنی
ڈالی تھی۔ اس کی طرف رجوع کیجئے۔
سوم
صحابہ اس قصے کو حضرت علی کی ایسی فضیلت سمجھتے تھے جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ازدواج
کے برابر ہو۔۔۔ اگر حضرت علی کا دروازہ مجبوری میں کھلا رکھا گیا تھا تو اس میں
کیا فضیلت؟ اور صحابہ ایک اجباری فعل کو اتنی بڑی فضیلت کیوں کر سمجھ سکتے ہیں؟؟
اگر یہ فرض کر لیا
جائے کہ حضرت علی کا گھر مسجد کے اندر ہی تھا، تو افلاطون میاں کے اعتراض کا جواب
یوں دیا جاسکتا ہے کہ وہ گھر ایک کونے میں تھا، اور اگر رسول اللہ ﷺ چاہتے تو حضرت
علی کو باہر کی طرف دروازہ بنوانے کا حکم دے سکتے تھے، اور اگر چاہتے تو انہیں
مسجد سے باہر ہی گھر بنانے کا حکم بھی دے سکتے تھے، لہذا اجباری فعل نہیں ہوا، پس
فضیلت ثابت ہوجاتی ہے۔ اب افلاطون میاں کو اس کا جواب ملے تو ضرور مطلع فرمائے۔
حافظ عسقلانی کا یہ کہنا کہ دونوں امروں کے
اجتماع سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ دروازے بند کروانے والا واقعہ دو مرتبہ ہوا ۔
ایک مرتبہ علی (ع) کیلئے استثنا تھا اور دوسری مرتبہ میں حضرت ابوبکر کیلئے۔۔۔ اس
میں دو بنیادی اشکال ہیں:- اول یہ واضح ہے کہ رسول ﷺ کا دروازے بند کرنے کا حکم
مسجد میں سے گزر روکنے کیلئے تھا، رسول اللہ ﷺ نے پہلی مرتبہ تمام دروازے بند کرنے
کا حکم دیا تو صحابہ نے دروازے بند کرکہ بڑے بڑے شگاف بنا لئے تاکہ مسجد سے گذر
جاری رکھیں ۔۔۔ تو اس طرح سے صحابہ رسول اللہ ﷺ کے نافرمان ہوئے۔ جبکہ حضرت علی کی
شان والی احادیث بلکہ کسی اور ضعیف روایت سے بھی یہ پتا نہیں چلتا کہ رسول ﷺ نے
دروازوں کی بندش والے حکم کے دوران کسی کو خوخہ بنانے کی اجازت دی ہو۔
کسی صحیح روایت میں
نہیں لکھا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے یہ حکم دیا
کہ دروازے بند کر لئے جائیں تو صحابہ کرام نے شگاف بنا لئے۔ بلکہ بعض
روایات میں یہی آیا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ
نے منع کیا، تو صحابہ نے اجازت مانگی کہ ہوسکتاہے انہیں اجازت مل جائے، لیکن انہیں
نہیں ملی۔ اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے شگاف بنا لئے تھے؟ اور اگر رسول
اللہ ﷺ نے دروازے بند کرنے کا حکم دیا تھا، تو صحابہ اس وقت نافرمان ہوتے جب وہ
دروازے کھولے رکھتے، شگاف بنوانے سے نافرمانی ثابت نہیں ہوتی۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ
نے اس امر کی نشاندہی نہیں کی کہ دروازے کس لئے بند کئے جائیں۔ بہرحال ان روایات
کی اسنادی حالت بھی لائقِ تحقیق ہے۔
دوم
کچھ ایسی روایات موجود ہیں جو مسجد میں
شگاف بنانے کی پابندی پر دلالت کرتی ہیں جیسا کہ ابونعیم اصفہانی روایت نقل کرکہ
لکھتا ہے کہ عن بریدۃ الاسلمی قال امر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بسد الابواب
فشق ذلک علی اصحاب رسول اللہ ﷺ ۔۔۔ جب رسول اللہ ﷺ نے تمام دروازے بند کرنے کا حکم
دیا تو ایک شخص نے کہا کہ میرے لئے مسجد میں ایک شگاف چھوڑ دیجئے تو آپ ﷺ نے
انکارکر دیا اور علی(ع) کا دروازہ کھلا چھوڑ دیا جس میں سے وہ حالت جنب میں بھی
آتے جاتے تھے۔ایسی ہی ایک روایت علامہ سمہودی نے نقل کی ہے کہ عن عمر بن سهل ان رسول
الله امر بسد الابواب الشوارع في المسجد ۔۔۔۔
جب رسول اللہ ﷺ نے تمام دروازے بند کرنے کا حکم دیا تو ایک شخص نے کہا کہ میرے لئے
مسجد میں ایک شگاف چھوڑ دیجئے کہ میں آپ کو آتے جاتے دیکھ سکوں تو آپ ﷺ نے فرمایا
اللہ کی قسم اس کی اجازت بھی نہیں دوں گا۔
ابونعیم اصفہانی کی نقل کردہ روایت میں ابوداؤد یعنی نفیع بن حارث نامی راوی
متہم بالوضع ہے۔ اور علامہ سمہودی کی حضرت عمرو بن سہل سے روایت کی سند نہیں ملی۔
ایسی
صورت میں پہلی منع کے باوجود خوخہ کا وجود ہی مشتبہ ہے چاہے وہ حضرت ابوبکر کے گھر
کا ہی کیوں نہ ہو۔ اور یہ بھی کہ اگر پہلی دفعہ میں استثنا صرف حضرت علی (ع) کیلئے
تھا تو یقینا حضرت ابوبکر کیلئے نہیں تھا ۔۔۔ اور دوسری مرتبہ میں وہ استثنا حضرت
ابوبکر کیلئے تھا تو حضرت علی (ع) کا استثنا برقرار رہا یا نہیں؟ اگر برقرار رہا
تو اس سے حضرت ابوبکر والی حدیث کا متن باطل ہو جائیگا کہ تمام لوگ اپنے دروازے
بند کر دو سوائے حضرت ابوبکر کے۔۔۔ اور اگر
حضرت علی کا استثنا کالعدم ہو گیا تو اہلسنت علماء کی یہ تاویل بھی کالعدم
ہو جائیگی کہ حضرت علی (ع) کیلئے دوسرا دروازہ نہیں تھا لہذا ان کا دروازہ کھلا
رکھا گیا۔
مذکورہ بالا اگر مگر
خیالی پلاؤ ہے جس کا جواب دینے کی ضرورت نہیں سمجھتا۔جن روایات کی بنیاد پر
یہ خیالی پلاؤ پکایا جا رہا ہے، وہ روایات تو ضعیف بلکہ موضوع ہیں، اور ان کی
بنیاد پر اگر مگر زور و شور سے ہو رہا ہے۔ اس لئے لائق التفات نہیں۔
تیسری
بات : حضرت ابوبکر کی شان میں موجود احادیث خود اپنے جعلی اور وضعی (من گھڑت) ہونے
کا اعلان کر رہی ہیں۔ صحیح بخاری کی احادیث میں تعارض اور اضطراب پایا جاتا ہے۔
صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس کی طرف باب ابوبکر یعنی حضرت ابوبکر کے دروازے کی
بات منسوب کی گئی ہے جبکہ انہی حضرت ابن عباس سے کتاب الصلوۃ میں لفظ خوخہ یعنی
حضرت ابوبکر کی کھڑکی والی بات لکھی ہے۔ اب ایک ابن عباس دو باتیں کیسے کہہ سکتے
ہیں؟ انہوں نے یا باب کہا ، یا خوخہ۔ لہذا حضرت ابن عباس کے دونوں اقوال میں تعارض
ہے اور اذا تعارضا تساقطا (یعنی جب دو چیزوں میں تعارض ہو اور کسی میں کوئی ترجیح
نہ ہو تو دونوں ساقط ہو جائیں گی)۔
یہاں پر تعارض ایسا نہیں کہ اس کی تاویل ممکن نہ ہو۔ جب
تاویل ممکن ہے، تو تعارض نہ رہا۔خوخہ کا مطلب فقط کھڑکی نہیں۔عربی کی کتاب رحلۃ
ابن جبیر کی پہلی جلد کے صفحہ 82 پر حاشیہ میں لکھا ہے :
الخوخة: الباب الصغير في
الباب الكبير
خوخہ : بڑے دروازے میں ایک چھوٹے دروازے کو کہتے ہیں۔
پس حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے متعلق وارد شدہ روایات
میں خوخہ کا مطلب چھوٹا دروازہ ہے، اور اگر اس کے لئے باب کا لفظ بھی آگیا تو کوئی
تعارض واقع نہیں ہوا۔ لیکن افلاطون میاں
کا افلاطونی دماغ خواہ مخواہ کسی تعارض کی تلاش میں اس قدر بے چین ہے کہ اسے کچھ
سجھائی نہیں دے رہا۔
لہذا
اہلسنت علماء اس کی تاویل کرنے پر مجبور ہیں، علامہ عینی نے لکھا بخاری نے ابن عباس والی حدیث کو کتاب صلوات میں
لفظ خوخہ سے نقل کیا اور یہاں اس لفظ خوخہ کی معنی کو نقل کیا ہے۔ تقریبا یہی
تاویل علامہ ابن حجر عسقلانی نے کی ہے کہ بخاری نے ابن عباس والی حدیث کو کتاب
صلوات میں لفظ خوخہ سے نقل کیا اور یہاں اس لفظ خوخہ کی معنی کو نقل کیا ہے۔لیکن
یہاں ان علماء کی اس تاویل کو دو طرح سے رد کیا جاتا ہے۔اول کہ لفظ خوخہ (کھڑکی) کی معنی باب (دروازہ) نہیں
ہے اور اگر ہے تو رسول ﷺ کے علی کے علاوہ دروازہ بند کرنے والے حکم میں خوخہ بھی
شامل ہونا چاہئے لہذا پھر حضرت ابوبکر کا خوخہ کھلا رہنا اور کھلا ہی رہنے دینا
۔۔۔ مشتبہ ہوجائیگا۔
علامہ عبد الفواد الباقی صحیح مسلم پر اپنی تعلیق میں
فرماتے ہیں:
الخوخة هي الباب الصغير بين
البيتين
خوخہ دو گھروں کےدرمیان ایک چھوٹے سے دروازے کو کہتے ہیں۔[10]
مشہور
لغت نویس ابن منظور نے اس لفظ خوخہ کی معنی یوں کی ہے کہ خوخہ گھر کی دیوار کا
شگاف ہوتا ہے جس سے روشنی آتی ہے ، خوخہ دو گھروں کے درمیان گزرگاہ ہے جس پر
دروازہ نصب نہیں ہوتا ، بعض کہتے ہیں کہ ہر دو چیزوں کے درمیان شگاف کو خوخہ کہا
جاتا ہے۔ روایت میں بھی آیا ہے کہ مسجد کے تمام شگاف بند کئے گئے سوائے حضرت ابوبکر
کے گھر کے شگاف کے اور دیگر روایات میں علی (ع) کے گھر کا شگاف بھی آیا ہے۔ یہ
چھوٹا سا دروازہ ہوتا ہے بڑے پنجرے کی طرح جو دو گھروں کے بیچ میں ہو اور اس پر
دروازہ نصب کیا گیا ہو۔
اس سے
ثابت ہوتا ہے کہ خوخہ کی معنی باب (دروازہ )نہیں ، بلکہ خوخہ سے مراد اول شگاف دوم
روشندان ،سوم (زیادہ سے زیادہ) کھڑکی ہے لہذا یہاں اہلسنت علماء کی یہ تاویل کہ باب
بمعنی خوخہ، تو اس سے ابن عباس کے قول میں تعارض کا اشکال رفع نہیں ہوتا ۔
یہ اب سراسر ہٹ دھرمی ہے۔ صاف طور پر اس کتاب میں لکھا ہے هي باب الصغير
كالنافذة الكبيرة تكون بين بيتين ينصب عليها باب
یعنی یہ ایک چھوٹا سا دروازہ ہوتا ہے بڑے پنجرے کی طرح جو دو گھروں کے درمیان ہوتا
ہے، اور جس پر دروازہ نصب کیا گیا ہوتا ہے۔ اب یہاں تعارض کہاں آگیا؟ یا پھر
افلاطون میاں یہ سمجھا رہے ہیں کہ چونکہ کھڑکی دروازہ نہیں ہوتا، اور دروازہ کھڑکی
نہیں ہوتی، اس لئے ہم یہ تسلیم کر لیں کہ خوخہ باب نہیں ہوتا اور باب خوخہ نہیں
ہوتا، اگرچہ جس سکین کو لے کر اپنا موقف انہوں نے ثابت کرنا تھا، وہاں بھی صاف طور
پر لکھا ہو کہ ھی باب الصغیرۃ یعنی یہ ایک چھوٹا دروازہ ہوتا ہے۔
دوم
: ابن عباس کے اقوال میں موجود تعارض سے بچنے کی یہی ایک راہ ہے جیسا کہ علماء اہلسنت
نے اس سے " خوخہ "(کھڑکی) ہی مراد لی ہے۔لیکن اس صورت میں ایک اور تعارض
کھڑا ہوجائیگا کہ ابو سعید خدری (رض) کی حدیث جو لفظ "باب کے ساتھ ذکر ہوئی اس
کا کیا بنے گا؟ اس کا ممکنہ جواب یہی ہوگا
کہ : "ابو سعید خدری (رض) سے ، بخاری میں ہی ایک اور جگہ ، مناقب الانصار
میں لفظ خوخہ (کھڑکی)سے ذکر ہوئی ہے"۔ (لیکن اردو ترجمے والے نے خیانت کر دی)۔
واضح رہے کہ یہاں ابو سعید خدری کے اقوال میں
بھی تعارض ثابت ہو رہا ہے۔
افلاطون میاں اگر سکین لگانے اور ترجمہ کرنے کے باوجود بھی
ابھی تک اس بحث میں پھنسے ہوئے ہیں کہ خوخہ سے باب مراد لیا جاسکتا ہے یا نہیں، تو
ہم انہیں ڈسٹرب نہیں کیں گے۔
لیکن
بہرحال اس ممکنہ جواب کو یوں رد کیا جائیگا کہ : ابو سعید خدری (رض)کی ، مناقب الانصار،
میں خوخہ (کھڑکی) والی روایت کی سند بھی مجروح ہے اس میں راوی اسمعیل بن عبداللہ (المعروف
ابن ابی اویس)کے بارے میں علماء نے کلام کیا ہےَجیساکہ حافظ مزی نے تہذیب الکمال میں
لکھا ہے کہ۔ ابوبکر بن ابی خیثمہ نے یحیی بن معین سے نقل کر کہ کہا: اسمعیل بن عبداللہ
سچا ہے مگر عقل کم ہے اور احادیث کو درست طریقے سے نقل نہیں کرتا۔معاویہ بن صالح نے
یحیی بن معین سے نقل کرکہ کہا کہ: ابو اویس اور اس کا بیٹا (اسمعیل بن عبداللہ) ضعیف
ہیں۔ یحیی بن معین سے نقل شدہ ہےکہ : اسمعیل بن عبداللہ اور ابو اویس ، دونوں باپ بیٹا
حدیثیں چوری کرتے تھے۔ ابرھیم بن جنید نے یحیی بن معین سے نقل کرکہ کہا کہ :اسمعیل
بن عبداللہ مخلط ، (اختلاط کنندہ) تھا، جھوٹا تھا، اور یہ کچھ نہیں (ضعیف ہے)۔ امام
نسائی نے کہا: اسمعیل بن عبداللہ ، ضعیف ہے ، ثقہ نہیں۔
حافظ
ابن عدی نے کہا کہ : اسمعیل بن عبداللہ نے اپنے تایا مالک سے ایسی غریب احادیث نقل
کی ہیں جن کو کوئی بھی اس سے قبول نہیں کرتا۔
میں کہتا ہوں کہ امام بخاری نے اس روایت کو حضرت ابو سعید
خدری رضی اللہ عنہ سے تین اسناد سے نقل کیا ہے ۔
1۔ حدثنا محمد بن سنان ، قال : حدثنا فليح ، قال : حدثنا أبو النضر ، عن عبيد بن
حنين ، عن بسر بن سعيد ، عن أبي سعيد الخدري ، قال : " خطب النبي صلى الله
عليه وسلم (باب الخوخة والممر في المسجد)
2۔ حدثني عبد الله بن محمد ، حدثنا أبو عامر ، حدثنا فليح ، قال : حدثني سالم
أبو النضر ، عن بسر بن سعيد ، عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه , قال : خطب رسول
الله صلى الله عليه وسلم الناس (باب الخوخة والممر في المسجد)
3۔ حدثنا إسماعيل بن عبد الله ، قال : حدثني مالك ، عن أبي النضر مولى عمر بن
عبيد الله ، عن عبيد يعني ابن حنين ، عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه (باب هجرة
النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه إلى المدينة)
پھر اسی روایت کو ابن حبان نے الگ سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔
4۔ أخبرنا الفضل بن الحباب الجمحي حدثنا علي بن المديني حدثنا معن بن عيسى حدثنا
مالك عن أبي النضر مولى عمر بن عن أبي سعيد الخدري أن رسول الله صلى الله (إسناده
صحيح على شرط البخاري)
نیز امام ترمذی نے اس روایت کو الگ سند کے ساتھ بیان کیا
ہے، اور اسے حسن صحیح قرار دیا۔
5۔ حدثنا أحمد بن الحسن قال حدثنا عبد الله بن مسلمة عن مالك بن أنس عن أبي
النضر عن عبيد بن حنين عن أبي سعيد الخدري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم جلس
نیز امام مسلم نے اسے الگ سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔
6۔ حدثنا عبد الله بن جعفر بن يحيى بن خالد حدثنا معن حدثنا مالك عن أبي النضر
عن عبيد بن حنين عن أبي سعيد أن رسول الله صلى الله عليه وسلم جلس على المنبر
نیز امام نسائی نے اس کا اپنی سند سے بیان کیا ہے۔
7۔ أخبرنا عبد الملك بن عبد الحميد ، قال : أنا القعنبي ، عن مالك ، عن أبي
النضر ، عن عبيد بن حنين ، عن أبي سعيد الخدري ، قال : قال رسول الله صلى الله
عليه وسلم
یہ تو صرف چند معتبر کتب سے اس حدیث کے بعض طرق ہو گئے جو
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔باقی کا تذکرہ ہم اس لئے نہیں کر رہے
کہ افلاطون میاں سمجھ گئے ہونگے۔
ابن عباس
(رض) کی طرف منسوب روایت کی سند بھی مطعون ہے ۔
جس میں
ابن عباس (رض) کا غلام عکرمہ ہے جس کے بارے میں علماء جرح نے کلام کیا ہے اور اس کے
جھوٹے ہونے کے کافی شواہد موجود ہیں جیساکہ سیر اعلام النبلا میں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میں کہتا ہوں کہ عکرمہ ثقہ ہے، اور اس بارے میں بحث کی
جاسکتی ہے لیکن اوپر ہم نے چند اسناد بطور نمونہ پیش کی ہیں تاکہ یہ دکھایا جا سکے
کہ افلاطون میاں کے بس کی بات نہیں کہ ان روایات کی تضعیف کرسکیں، اس لئے اس میں
اپنا وقت ضائع نہ کریں۔
مجموعی
طور پر صحیح بخاری میں، حضرت ابوبکر (رض) کی شان میں لکھی گئی ان احادیث کی صورتحال
یہ ہے کہ : بخاری نے ابن عباس (رض) سے دو لفظوں "باب" (دروازہ) اور
"خوخہ" (کھڑکی) سے روایت کی ہے ( جہاں کھڑکی کے ذکر کا باب تھا وہاں کھڑکی
لکھا اور جہاں دروازے کا باب تھا وہاں دروازہ لکھا) لہذا ابن عباس (رض) کے خود کے اقوال
میں تعارض۔ اس تعارض سے بچنے کیلئے اہلسنت علماء نے ابن عباس (رض) کی "خوخہ"
والی حدیث کو قبول کر کہ "باب " والی حدیث میں لفظ باب کو خوخہ پر حمل کیا
ہے۔ اس خوخہ والی حدیث کو ماننے کی صورت میں یہ قول ابو سعید خدری (رض) کے "باب"
والے قول کے متعارض ہے۔ لیکن مزید اضطراب یہ ہے کہ بخاری نے ابو سعید خدری (رض) سے
بھی دو نوں الفاظ "باب" اور "خوخۃ" سے روایت کی ہے، لہذا ابوسعید
خدری (رض) کے خود کے اقوال میں بھی تعارض ہے۔ اور ابن عباس (رض) کی طرف منسوب روایت
، اور ابو سعید خدری (رض) کی "خوخہ" والی روایت ، دونوں کی سند یں مجروح
ہیں۔
خوخہ اور باب کے تعارض کا معاملہ بھی ہم نے دیکھ لیا اور
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے اس روایت کی مختلف اسناد بھی ہم نے دیکھ لی
ہیں۔اب افلاطون میاں کے آخری استدلال کی طرف آتے ہیں۔
چوتھی
بات : صحیح بخاری کی روایات ، درایت کے خلاف ہیں۔
حضرت
ابوبکر (رض) کے علاوہ تمام دروازوں کی بندش والی حدیث کے جعلی اور موضوع (من گھڑت)
ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) کا مکان مدینے سے دور مقام سنح میں
تھا اور رسول (ص) کی رحلت کے بعد چھ یا سات ماہ تک وہیں رہتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے بعد چھ یا سات ماہ تک وہاں رہنے سے
یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ رسول اللہ ﷺ کی رحلت سے پہلے مدینہ میں مسجد نبوی کے قریب
رہتے تھے۔
جیساکہ
صحیح بخاری میں موجود ہے کہ ان رسول الله مات وابوبكر بالسنح یعنی
آنحضرت ﷺ کی جب وفات ہوئی تو حضرت ابوبکر اس وقت مقام سنح میں تھے۔
اس روایت میں یہ کہاں لکھا ہے کہ سنح کےمقام پر ان کا یہی
ایک گھر تھا؟ اس روایت میں ایسا ہرگز نہیں لکھا، لیکن افلاطون میاں اس روایت سے ایسا ثابت کرنے پر بضد ہیں۔
صحیح
بخاری : ابوبکر (رض) کا گھر مقام سنح میں تھا، مسجد کے ساتھ نہیں تھا۔
اقبل ابوبكر على قومه من
مسكنه بالسنح یعنی حضرت ابوبکر
اپنی قوم کی طرف آئے اپنے گھر سے جو کہ سنح میں تھا۔
اس روایت میں بھی یہ نہیں لکھا کہ حضرت ابوبکر کا یہی ایک
گھر تھا۔
طبقات
الکبری میں صراحت سے موجود ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) کا گھر مقام سنح میں، اپنی بیوی
حبیبہ بنت خارجہ کے پاس تھا۔ ۔ ۔ ۔ وہ یہاں بیعت کے بعد چھ ماہ رہے اور مدینے پا پیادہ
آتے یا گھوڑے پر سوار ہوکر ۔ ۔ ۔ ۔ لوگوں کو
عشاء کی نماز پڑھا کر واپس سنح لوٹ جاتے۔ ۔ ۔ ۔ ملا علی قاری،
توربشتی سے نقل کر کہ لکھتے ہیں۔ ۔ ۔ یہاں مجاز مراد لینا ہی قوی ہے کیونکہ
ہمارے ہاں حضرت ابوبکر (رض) کا مدینے میںگھر ہونا صحیح (ثابت) نہیں ہے، بلکہ ان کا
گھر مقام سنح میں تھا۔
معذرت کے ساتھ،
متواتر حدیث کے مطابق حضرت ابوبکر
کا گھر مسجد سے متصل تھا، اور آپ اس کے مقابلے میں مجھے علامہ توربشتی کا قول پیش
کر رہے ہیں؟ سبحان اللہ۔ میں اس کے مقابلے
میں اگر حافظ ابن حجر کا قول بھی پیش کروں تو کافی ہے، چہ جائیکہ اس کا مقابلہ
متواتر حدیث سے کیا جائے۔ علامہ ابن حجر فرماتے ہیں :- وهذا الإستناد ضعيف؛ لأنه لا يلزم من كون منزله كان بالسّنح
ألايكون له دار مجاورة للمسجد، ومنزله الذي كان بالسنح هو منزل أصهاره من الأنصار،
وقد كان له إذ ذاك زوجة أخرى، وهي أسماء بنت عميس، بالاتفاق، وأم رومان على القول
بأنها كانت باقية يومئذ یعنی یہ استناد ضعیف ہے، اس لئے کہ ان کا سنح کے مقام پر
گھر ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کا مسجد کے ساتھ ہی گھر نہ ہو، اور ان کا گھر
جو سنح کے مقام پر تھا، وہ ان کے انصار میں سے سسرال کا گھر تھا۔ اور ان کی ایک
دوسری بیوی بھی تھی، جو کہ اسماء بنت عمیس تھیں، اور اس پر اتفاق ہے، اور ام رومان
بھی ایک قول کے مطابق ان دنوں حیات تھیں۔[11]
اس کے بارے میں افلاطون میاں فرماتے ہیں:
علامہ
عسقلانی کی تاویل یوں رد ہوتی ہے کہ :۔ اول:
یہ بغیر دلیل کا دعوی ہے کسی ضعیف ترین روایت میں یہ بات موجود نہیں کہ حضرت ابوبکر
(رض) کے تین گھر ہوں ، ایک مقام سنح میں اور دو مدینے میں۔ جبکہ بخاری کی روایات اور
دیگر علماء کی تصریحات اس کے خلاف ہیں۔
میں کہتا ہوں کہ یہ متواتر روایات اس بارے میں بالکل واضح
ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ایک گھر مسجد سے منسلک تھا۔ ان کے ہوتے ہوئے
ضعیف روایات کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔
دوم
: اہلسنت علماء کے بقول ، حضرت ابوبکر (رض) چھ ماہ تک ، مقام سنح سے آتے اور نماز عشا
ء کے بعد واپس مقام سنح پلٹ جاتے۔اگر مدینہ میں ان کی بیوی ، اسماء بنت عمیس یا ام
رومان موجود تھیں توکبھی نہ کبھی تو ان کے ہاں کوئی رات ٹھہرتے!۔ ۔ ۔ جب کہ کسی اہلسنت عالم نے ان کے ، مدینے میں ہی
ٹھہرجانے کا کوئی اشارہ تک ذکر نہیں کیا۔
آنے جانے سے اس موقف کی تائید ہوتی ہے کہ حضرت ابوبکر کا
مدینہ میں گھر تھا، کیونکہ اگر ان کا مدینہ میں گھر نہیں تھا تو وہ سارا دن کہاں
گزارتے تھے؟ ظاہر ہے کہ مسجد میں ایک شخص پورا دن نہیں گزارتا جبکہ وہ خلیفہ بھی
ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ آنے جانے کا قول اغلب پر محمول ہے۔ حر عاملی اپنی کتاب میں
فرماتے ہیں : : روي أن عبد
الله بن مسكان لم يسمع من أبي عبد الله عليه السلام إلا حديث من أدرك المشعر، فقد
أدرك الحج. أقول: هذا محمول على الأغلب فإن رواية ابن مسكان عنه عليه السلام بغير
واسطة كثيرة بلفظ سمعته
یعنی روایت کی گئی ہے کہ عبد اللہ بن مسکان نے امام جعفر سے کوئی حدیث نہیں سنی
سوائے اس حدیث کے (من أدرك
المشعر، فقد أدرك الحج) میں کہتا ہوں کہ یہ اغلب پر محمول ہے، ورنہ ابن مسکان نے
امام جعفر سے بہت سی احادیث بغیر واسطے کے لفظ 'سمعتہ' کے ساتھ روایت کی ہیں۔[12]
اب یا
تو یہ ماننا پڑے گا کہ ان کا مدینے میں گھر تھا ہی نہیں یا پھر یہ مان لیں کہ حضرت
ابوبکر بیویوں کے معاملے میں عدالت اور انصاف سے کام نہیں لیتے تھے۔
بیوی کے ساتھ انصاف رات گزارنے تک محدود نہیں ہے۔اگر ایک
بیوی کے ساتھ دن گزارا جائے، اور دوسری کے ساتھ رات گزاری جائے تب بھی انصاف ممکن
ہے۔اور جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ یہ اغلب پر ہی محمول کیا جائیگا، اور اس میں
کوئی مضائقہ نہیں۔
نتیجہ
: حضرت علی (ع) کے علاوہ دروازوں کی بندش والی
احادیث صحیح اور متواترہ ہیں لہذا ان کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ۔ ۔ حضرت ابوبکر (رض) کے علاوہ دروازوں کی بندش والی
احادیث صحیح میں موجود ہیں ۔۔۔۔ لیکن خود ان احادیث میں اضطراب ، مطعون سند اور درایت
کی مخالفت پائی جاتی ہے۔
اس کے جواب میں یوں کہوں گا کہ حضرت علی کے متعلق جو روایات
ہیں، وہ اتنی اعلی درجے کی نہیں ہیں جتنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے متعلق
روایات اعلی درجے کی ہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ اس میں کوئی اضطراب، مطعون سند اور
درایت کی مخالفت نہیں ہے، اور افلاطون کی پوری بحث کے ہرنکتے کا جواب دیا جا چکا
ہے۔
علماء
اہلسنت دونوں قسم کی احادیث کو جمع کرنے کی جو کوششیں کرتے ہیں ان میں اشکال ہے لہذا
ان دونوں قسم کی احادیث کا اجتماع مشکل ہے اور اس صورت میں کسی ایک قسم کی احادیث کا
جعلی و موضوع(من گھڑت) ہونا ثابت ہے اور چونکہ حضرت علی (ع) کی استثنا والی احادیث
میں کوئی ایسا نقص موجود نہیں جس کی وجہ سے انہیں موضوع (من گھڑت ) کہا جا سکے ، لیکن
حضرت ابوبکر (رض) کی استثنا والی احادیث میں ایک سے زیادہ علتیں ہونے کی وجہ سے ، یہ
ثابت ہوتا ہے کہ اگر چہ وہ احادیث صحیح بخاری میں ہیں ، لیکن ہیں جعلی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو
حضرت علی (ع) کے مقابلے میں گھڑی گئی ہیں۔
افلاطون کی پوری تحریر پر ہماری جرح ونقد آپ کے سامنے ہیں،
فیصلہ ہم قارئین پر چھوڑتے ہیں۔
تمت بالخير ولله الحمد
کلام
3 شعبان المعظم 1435 ھ
2 comments:
ان شاء اللہ بہت جلد ، اس کی وضاحت ۔۔۔ ہمارے اس پیج پہ شایع کی جائیگی ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
https://www.facebook.com/aflatoon.thethinker
Post a Comment