قولہ : علماء اہلسنت کی تصریح کے ابن عباس متعہ
کو جائز و حلال سمجھتے
۱۔ابن تیمہ الحرانی :
سب سے پہلے ہم مذہب اہلسنت کے شیخ الاسلام جو
ہمارے نزدیک شیخ الامویہ ہے اور شیعہ دشمنی میں سند و میزان سمجھے جاتے ہیں ابن
تیمہ الحرانی کا قول نقل کرتے ہوئے جو اس تحریر کے ایک حصہ میں نقل کیا گیا ہے ۔
چناچہ ابن تیمہ رقم طراز ہے : انہ رخص فیہ ابن
عباس وطائفۃ من السلف ؛بخلاف التحلیل فاء نہ لم یرخص فیہ احد من الصحابۃ۔ نکاح
متعہ کی اجازت ابن عباس اور سلف میں سے ایک گروہ نے دی ہے جب کہ حلالہ کی اجازت
کسی بھی صحابی نے نہیں دی۔ حوالہ :مجموع الفتاوی جز ،۳۲ ،ص،۹۳ ۲۔اہل مکہ اور اہل
یمن کی وضاحت علامہ اوزاعی جو فقیہ شام ہے اور تعارف کے محتاج نہیں ،ان کا قول یہ
واشگاف موجود ہے : اہل حجاز کے قول سے ۵ باتیں چھوڑ دی
جائیں اور ان میں سے ایک یہ بات تھی کہ اہل مکہ کا فتوی کے متعہ حلال ہے اور اہل
مدینہ کا قول کہ دبر سے جمع کرنا جائز ہے ۔ حوالہ :نیل الاوطار ،جز ،۶۔ص۔۱۶۸ ۔الناشر
۔دارالحدیث ،مصر اس قول کا اصل ماخذ علامہ حاکم نیشاپوری کی کتاب معرفتہ علوم حدیث
صفحہ ۶۸ نوع نمبر ۲۰ ،ناشر دارالکتب العلمیہ عربی عبارت یہ رہی : ثنا ابوالعباس
محمد بن یعقوب قال:اخبرنا العباس بن الولید البیروتی قال:ثنا ابو عبدﷲ بن بحر
قال:سمعت الاوزاعی یقول :یتجنب او یترک من قول اھل العراق خمس ،ومن قول اھل الحجاز
خمس ،ومن قول اھل العراق :شرب المسکر والاکل عند الفجر فی رمضان ،والا جمعتہ الا
فی سبعۃ امصار ،وتاخیر صلاۃالعصر حتی یکون ظل کل شیء اربعۃ امثالہ والفرار یوم
الزحف ومن قول اھل الحجاز :استماع الملاھی والجمع بین الصلاتین من غیر عذر والمتعۃ
بالنساء والدرھم بالدرھمین والدینار بالدینارین یدابید واتیان النساء فی ادبارھن
اس عبارت کو نقل کرنا دراصل ابن عباس کی بات سے
مربوط کرنا تھاکیونکہ اہل مکہ یا اہل حجاز کا قول ہوا میں تیر چلانے کا مصداق نہیں
بلکہ ان کی دلیل ابن عباس کا متعہ کو حلال جاننا ہے چناچہ اگلے ہی صفحہ میں علامہ
شوکانی کہتے ہیں :
روي اھل مکہ والیمن عن ابن عباس اباحۃ المتعۃ اہل
مکہ اور اہل یمن ابن عباس سے متعہ کی اباحت کا قول نقل کرتے ہیں ۔ حوالہ :نیل
الاوطار ،جز ،۶۔ص۔۱۶۲ ۔الناشر ۔دارالحدیث ،مصر ۳ ۔علامہ ابوعمر صاحب الاستیعاب کا قول الاستیعاب فی معرفتہ
الاصحاب علامہ ابن عبد البرابو عمر کی بیش بہا کتاب ہے جس کو ہر اہلسنت توصیف و
تعریف کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔علامہ ابوعمر کبھی نہیں چاہیں گے کہ صحابی پر آنچ بھی
آئے لیکن وہ بھی رافضیوں والے متعہ کو ابن عباس کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔چناچہ یہ
قول باوقارابھی بھی کتب کی زینت بنا ہوا ہے ۔اصل عبارت کچھ یوں ہے :
قال ابو عمر :اصحاب ابن عباس من اھل مکۃوالیمن
کلھم یرون المتعۃ حلالا علی مذہب ابن عباس اہل مکہ و اہل یمن میں سے ابن عباس کے
تلامذہ و اصحاب تمام متعہ کو حلال جانتے تھے اور اسکی وجہ ابن عباس کا متعہ کو
حلال جننا تھا۔ حوالہ :الاستذکار الجامع لمذاہب فقھاء المصار جز ۔۵،ص الناشر ۔دارالکتب العلمیۃ ۔بیروت یہی بات علامہ قرطبی نے
اپنی کتاب الجامع لاحکام القرآن ۔جز۔۵،صفحہ ۔۱۳۳،الناشر ۔دارالکتب المصریۃ۔القاھرۃمیں نقل کی ہے۔ ۴۔علامہ ابن حجر عسقلانی کا فیصلہ حافظ الدنیا رقم طراز ہے:
اجازۃالمتعۃعنہ اصح وھو مذہب الشیعۃ ابن عباس سے متعہ کی اباحت واجازت زیادہ صحیح
بات ہے جوکہ مذہب شیعہ کا مسلک بھی ہے حوالہ: فتح الباری ۔جز ۔۹،ص ۔۱۷۳ ۵۔علامہ ابن کثیر
الشامی کا فیصلہ علامہ کہتے ہے: قد ذہب بعض السلف منھم اب عباس الی اباحتھا سلف
میں سے بعض جن میں ابن عباس بھی شامل ہے اس کی اباحت کے قائل تھے۔ حوالہ
:البدایۃوالنھایۃ۔جز ۶ ،ص۔۲۷۹۔ علامہ ابن کثیر ۵ صفحات کے بعدہی یہ
لکھتے ہیں : ومع ھذامارجع ابن عباس عما کان یذہب الیہ من اباحت الحمر والمتعۃ اس
کے باوجود ابن عباس کا متعہ کو جائز جاننااور پالتو گدھے کے گوشت کو حلال جاننے
میں کبھی رجوع نہیں کیا۔ حوالہ :البدایۃوالنھایۃ۔جز ،۶ ،ص۔۲۷۸ ۵۔علامہ ابو الفرج
حلبی کا فیصلہ : علامہ حلبی اپنی مشہور سیرت کی کتاب میں رقم طراز ہے : وفی کلام
فقھائنا:والنھی عن نکاح المتعۃ فی خبر الصحیحین الذی لو بلغ ابن عباس رضی اﷲ عنھما
لم یستمر علی القول بابا حتھا ہمارے فقہاء کے قول کے مطابق نکاح متعہ کے منع کے
حوالے سے صحیحین میں خبر موجود ہے جو اگر ابن عباس تک پہنچ جاتی تو وہ متعہ کی حلت
پر باقی نہ رہتے ۔ حوالہ :انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون جز ۳ ص ۳۶۷، الناشر: دارالکتب
العلمیۃ ۔ بیروت ۷۔ علامہ شوکانی کا
فیصلہ علامہ صاحب کہتے ہیں واجازۃ المتعۃ عنہ اصح وھو مذھب الشیعۃ ابن عباس سے
متعہ کی اباحت و اجازت زیادہ صحیح بات ہے جو کہ مذھب شیعہ کا مسلک بھی ہے۔ حوالہ :
نیل الاوطار جز ۶، صفحہ ۱۶۲، الناشر : دار الحدیث، مصر ۸۔ علامہ ملا علی قاری حنفی کا فیصلہ فقد ثبت انہ مستمر القول
علی جوازھا ولم یرجع الی قول علی یہ بات پایہ ثبوت تک ہے کہ ابن عباس متعہ کے جواز
کے فتوے پر پوری زندگی قائم رہے اور انہوں نے امام علی ع کے قول کی طرف مراجعت
نہیں کی جو حرمت متعہ پر تھا۔ حوالہ : مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح جز ۵ ص ۲۰۷۵، الناشر: دار
الفکر ، بیروت۔ لبنان ، کتاب النکاح ۹۔ علامہ قاضی خان
حنفی علامہ فرماتے ہیں ولا ینعقد النکاح بلفظۃ المتعۃ وھی باطلہ عندنا لا تفید
الحل خلافا لابن عباس و مالک رضی اﷲ عنھما نکاح متعہ کے الفاظ سے منعقد نہیں ہوتا
، اور ایسا نکاح ہمارے نزدیک باطل جو حلال نہیں برخلاف ابن عباس اور مالک بن انس
کے جو جائز سمجھتے یہں۔ حوالہ : فتاوی قاضی خان، جز اول ، ص ۱۵۱، طبع نولکشور لکھنوو ص ۳۲۴ طبع شامل۔ ۱۰ ۔ علامہ ابن ھمام حنفی فرماتے ہے: فقد ثبت انہ مستمر القول
علی جوازھا ولم یرجع الی قول علی یہ بات پایہ ثبوت تک ہے کہ ابن عباس متعہ کے جواز
کے فتوے پر پوری زندگی قائم رہے اور انہوں نے امام علی ع کے قول کی طرف مراجعت
نہیں کی جو حرمت متعہ پر تھا۔ حوالہ : فتح القدیر، جز ۳ ،ص ۲۴۹، ناشر : دارالفکر۔
تبصرہ: ہم دس گزارشات اہلسنت قارئین کے حضور پیش
کر رہے ہیں، باقی ابھی اور حوالے جات بھی ہیں لیکن فی الحال د س علماء کے اقوال پر
اکتفاء کیا گیا ہے۔
اقول : اب میں بھی علماء
اہلسنت ہی کے اقوال پیش کرتا ہوں، جنہوں نے ابن عباس ؓ کے رجوع کو تسلیم کیا۔
۱۔
ابوبکر الدمیاطی نے لکھا ہے کہ (وما نقول عن ابن عباس من جوازھا رجع عنہ) ﴿حاشیۃ
إعانۃ الطالبین ج ۴
ص ۱۶۴﴾
۲۔ اسی طرح شمس
الدین الشربینی فرماتے ہیں (وابن عباس رجع عنہ کما رواہ البیھقی ) ﴿مغني المحتاج ج
۱۶ ص ۳۶۱﴾
۳۔ عبد الحی
لکھنوی موطا امام مالک پر اپنی تعلیق میں فرماتے ہیں (ثبت انہ رجع عنہ) ﴿التعلیق
الممجد علی موطا محمد ج ۲ ص ۵۲۴﴾
۴۔ اسی طرح
ابوبکر الجصاص احکام القرآن میں فرماتے ہیں (ولا نعلم احدا من الصحابۃ روي عنہ
تجرید القول في اباحۃ المتعۃ غیر ابن عباس وقد رجع عنہ) ﴿احکام القرآن ج ۳ ص ۱۰۲﴾
۵۔ ابوبکر
السرخسی فرماتے ہیں (وابن عباس رضي اﷲ عنھما کان یقول باباحۃ المتعۃ ثم رجع إلی
قول الصحابۃ ) ﴿اصول السرخسی ج ۱ ص ۳۲۱﴾
۶۔ ملا علی قاری
فرماتے ہیں (وابن عباس رضی اﷲ عنہ ، صح رجوعہ بعد ما اشتھر عنہ من اباحتھا) ﴿شرح
مسند ابی حنیفہ ج ۱ ص ۵۵۰﴾
۷۔ ابن عابدین
فرماتے ہیں (وقد صح رجوع ابن عباس عن القول بجوازھا ) ﴿الدر المختار و حاشیۃ ابن
عابدین ج ۴ ص ۴۹۳﴾
۸۔ عبد اﷲ بن
محمود الموصلی الحنفی فرماتے ہیں (وصح ان ابن عباس رجع الی قولھم) ﴿الاختیار
لتعلیل المختار ج ۳ ص ۸۹﴾
۹۔ ابو الحسین
یحیی بن ابی الخیر العمرانی الشافعی فرماتے ہیں (قلنا وقد رجع عنہ) ﴿البیان فی
مذھب الامام الشافعی ج ۹ ص ۲۷۷﴾
۱۰۔ علامہ ناصر
الدین البیضاوی اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں (وجوزھا ابن عباس رضی اﷲ عنھما ثم رجع
عنہ) ﴿تفسیر البیضاوی ج ۲ ص ۶۹﴾
۱۱۔ تفسیر بحر
المحیط میں لکھا ہے (والاصح عنہ الرجوع الی تحریمھا) ۔ ﴿ تفسیر بحر المحیط ج ۳ ص
۵۸۹﴾
۱۲۔ علامہ
ابوالعباس احمد الحسنی المغربی فرماتے ہیں (وجوزہ ابن عباس رضی اﷲ عنہ ثم رجع عنہ)
۔ ﴿البحر المدید فی تفسیر القرآن المجید ج ۱ ص ۴۸۸﴾
گیارہ اصلی اور ایک فرضی
امام کی مناسبت سے ہم نے بارہ حوالے پیش کر دیئے ہیں، لیکن ہمارے ان حوالوں میں
کوئی حوالہ غیر حقیقی نہیں ہے۔اور اس کے علاوہ بھی ابن عباس کے رجوع کے قائل کئی
علماء کے نام گنوائے جا سکتے ہیں، پس خیر طلب کو جان لینا چاہئے، کہ کلام نے جو
ابن عباس ؓ کے رجوع کا دعوی کیا ہے، تو یہ علماء کے اقوال میں ناپید ہرگز نہیں،
اور ابوعوانہ کی سند پر جو خیر طلب نے انتہائی ضعیف ترین اعتراضات کر کے خود کو
شرمندہ کرنے کے علاوہ اور کچھ حاصل نہیں کیا، اس کا حال بھی آپ اگلی سطور میں
ملاحظہ کر لیں گے۔
قولہ : ابن عباس کا متعہ سے رجوع والی روایات
ضعیف ہیں
اگرچہ اب مزید کلام کی حاجت نہیں رہ جاتی ابن
عباس کے مسلک کو واضح کرنے کے لئے لیکن پھر بھی اتمام حجت کے طور پر ہم ان چند
علماء اہلسنت کا نام ذکر کر دیں جو ابن عباس کے رجوع کی روایات کو ضعیف قرار دیتے
ہیں۔
۱۔ علامہ ابن حجر عسقلانی قول ابن
بطال نقل ہوتے ہوئے کہتے ہے وروی عنہ الرجوع باسانید ضعیفۃ ابن عباس سے متعہ کے
رجوع کی روایات ہیں جو ساری ضعیف اسناد سے ہیں حوالہ : فتح الباری ، جز ۹، ص ۱۷۳،
الناشر : دارالمعرفۃ ۲۔ علامہ شوکانی قول ابن بطال نقل ہوتے ہوئے کہتے ہے : وروی
عنہ الرجوع باسانید ضعیفۃ ابن عباس سے رجوع کی روایات ہیں جو ساری ضعیف اسناد سے
ہیں۔ حوالہ : نیل الاوطار، جز ۶، ص ۱۶۲، الناشر: دار الحدیث، مصر ۳۔ علامہ شروانی
کہتے ہے : ولعل الاولی من عدم صحۃ رجوع ابن عباس ابن عباس سے رجوع کی روایات کی
صحت ثابت نہیں حوالہ : حاشیۃ تحفۃ المحتاج فی شرح المنھاج ، جز ۷ ، صفحہ ۲۲۴،
الناشر : المکتبۃ التجاریۃ الکبری بمصر لصاحبھا مصطفی محمد ۴۔ علامہ ابن حجر ہیثمی
کہتے ہے : وحکایۃ الرجوع عنہ لم تصح ابن عباس سے رجوع کی روایات کی صحت ثابت نہیں
حوالہ : تحفۃ المحتاج فی شرح المنھاج ، جز ۷، صفحۃ ۲۲۴، الناشر ، المکتبۃ التجاریۃ
الکبری بمصر لصاحبھا مصطفی ۵۔ علامہ زکریا کاندھلوی علامہ صاحب لکھتے ہے : وھذا
علی انہ لم یصح رجوع ابن عباس عنہ یعنی ابن عباس سے متعہ کی اباحت کے حوالے سے
رجوع صحیح نہیں حوالہ : اوجز المسائل ، جز ۱۰، ص ۵۳۳، ناشر دار القلم دمشق نوٹ :
ہمارے پاس علامہ مودودی کا فتوی اور ابن عباس کے مسلک کے حواے سے ان کی گزارش اور
ان کا ایک چاہنے والے مفتی صاحب کی گزارشات بھی ہیں جو کلام صاحب کے کمزور دلائل
کوتوڑنے کے لئے کافی ہے لیکن چونکہ مودودی ان پر حجت نہیں اس لئے ہم ایسی چیزوں کو
نقل کرنے سے فی الحال احتراز کریں گے۔
علامہ البانی کا مسلک ابن عباس پر فیصلہ کن قول
علامہ البانی کہتے ہے وجملۃ القول : ان ابن عباس
رضی اﷲ عنہ وروی عنہ فی المتعۃ ثلاثہ اقوال : الاول : الاباحۃ مطلقا ۔ الثانی :
الاباحۃ عند الضرورۃ ۔ والآخر : التحریم مطلقا وھذا مما لم یثبت عنہ صراحۃ بخلاف
القولین الاولین فھما ثابتان عنہ
ابن عباس کے تین اقوال متعہ کے حوالے سے ملتے ہیں
۱۔ مطلقت اباحت کی ۲۔ ضرورت کے وقت
جائز ہونا ۳۔ مطلق حرام ہونے
کا ان میں سے تیسرا قول تو بالکل ثابت نہیں اگرچہ شروع کے دو اقوال یعنی اباحت کے
ثابت ہے۔ ارواء الغلیل فی تخریج احادیث منار السبیل ، جز ۶ ، صفحۃ ۳۱۹، الناشر : المکتب
الاسلامی ۔ بیروت
اقول : عرض ہے کہ جن
روایات کو علماء نے ضعیف قرار دیا، ان سے میں نے استدلال نہیں کیا، اور جس روایت
سے میں نے استدلال کیا ہے، اس کو علماء نے ضعیف قرار نہیں دیا۔ ہونا تو یہ چاہئے
تھا کہ میں نے جو روایت پیش کی ہے، اس کے ضعف پر خیر طلب صاحب علماء کے اقوال پیش
کرتے، لیکن اس کی ہمارے مد مقابل کو توفیق نہیں ملی، چنانچہ اس بے بسی کی حالت میں
موصوف کے پاس ادھر ادھر کی ہانکنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔یہاں تک کہ علامہ
مودودی اور ان کے چاہنے والے ایک صاحب کے قول سے میرے دلائل توڑنے کو کافی سمجھتے
ہیں، جبکہ علامہ مودودی کا علم ِ حدیث میں کیا مقام ہے، اس سے ہم سب باخبر ہیں۔
چونکہ خیر طلب صاحب کے پاس کوئی کام کی بات نہیں ہے، لہذا فضولیات میں وقت ضائع کر
کے فقط صفحات کالے کررہے ہیں۔ اگر علامہ مودودی کو پیش بھی کیا گیا، تو میرے پاس
بھی حافظ زبیر علی زئی کی مذکورہ روایت کے متعلق تصحیح موجود ہے،بلکہ ان کے نزدیک
تو یہ روایت علی شرط مسلم ہے،جو علامہ مودودی صاحب اور ان کے چاہنے والے کے دلائل
توڑنے کو کافی ہے۔ اور شیخ البانی نے ارواء الغلیل میں اس حوالے سے کئی روایات کو
زیر ِ بحث لایا ہے، لیکن مستخرج ابوعوانہ کی سند پر انہوں نے کوئی بحث نہیں کی۔
قولہ : ہم یہ بتاتے چلیں کہ اس قول کی سند میں
واضح مسئلہ ہے چونکہ اس کو بایں سند نقل کیا گیا ہے : قال یونس : قال ابن شھاب :
وسمعت الربیع بن سبرۃ یحدث عمر بن عبد العزیز ۔ تنقیح اول : یونس بن یزید کا ابن
شہاب زھری کی روایت میں ضعف ہے۔ اس دعوے کے اثبات کے لئے ہم مشاہیر اہلسنت کی
اقوال کی طرف رجوع کریں گے۔ چنانچہ ابن حجر عسقلانی کہتے ہے : یونس بن زید اگرچہ
ثقہ تھے لیکن ان کو زہری سے روایت میں تھوڑا وہم تھا اور زہری کے علاوہ راویوں میں
خطا۔
اقول : اہلتشیع کا مسئلہ
یہ ہے کہ اگر کوئی راوی کثیر الخطا ہو، لیکن ان کے مذہب کے موافق کوئی روایت بیان
کر رہا ہو، تو اس کی روایت قبول کرنے میں ہرگز دیر نہیں کرتے۔ جیسا کہ آگے حضرت
معاویہ ؓ کے متعلق ایک روایت میں آپ ملاحظہ کر لیں گے جس میں ایک راوی کثیر الخطا
اور دوسرا وہم سے متہم ہے۔ لیکن جو روایت ان کے موقف کے برخلاف ہو ، اس میں معمولی
وہم بھی ان سے برداشت نہیں ہوتا۔ یونس بن یزید کے اس تھوڑے سے وہم کے باجود یہ سند
صحیح ہے۔ شیخ البانی نے خود ’’صحیح وضعیف سنن الترمذی‘‘ میں ایک ایسی سند کو صحیح
قرار دیا جس میں یونس نے زہری سے روایت کی۔
حدثنا قتیبۃ حدثنا أبو
صفوان عن یونس بن یزید عن ابن شھاب الزھري ﴿صحیح وضعیف الترمذي ج ۲ ص ۸۱﴾
ایک دوسری سند کو البانی
صحیح اور امام ترمذی نے حسن صحیح قرار دیا جس میں یونس نے ابن شہاب الزہری سے
روایت کی ہے۔
حدثنا أحمد بن الحسن حدثنا
سعید بن أبي مریم حدثنا ابن وھب حدثني یونس عن ابن شھاب عن سالم عن أبیہ عن رسول
اﷲ ﴿صحیح و ضعیف الترمذی ج ۲
ص ۱۴۰﴾
اسی طرح امام حاکم
نیشاپوری نے اپنی مستدرک میں یونس بن یزید کی زھری سے روایت کو صحیح علی شرط
الشیخین قرار دیا ہے۔
أخبرنا أبو زکریا یحیی بن
مھمد العنبري ثنا إبراھیم بن أبی طالب ثنا محمد بن یحیی ثنا عثمان بن عمر ثنا یونس
بن یزید عن الزھری ﴿المستدرک ج ۱
ص ۶۵۱﴾
اسی طرح ایک اور حدیث کو
صحیح الاسناد قرار دیا جس کی سند یوں ہے۔
حدثنا علي بن حمشاذ العدل
، ثنا الحسن بن عبد الصمد ، ثنا عبدان بن عثمان ، ثنا عبداﷲ بن المبارک ، عن یونس
بن یزید ، أخبرنی أبو علي بن یزید ، عن ابن شھاب، عن أنس ﴿مستدرک ج ۷ ص ۵۳﴾
اسی طرح صحیح بخاری مین
ایک سند یوں ہے
حدثنا أحمد قال حدثنا ابن
وھب قال أخبرنی یونس بن یزید عن ابن شھاب حدثنی عبد اﷲ بن کعب بن مالک أن کعب
أخبرہ ﴿صحیح البخاری﴾
اور ایک دوسری سند یوں ہے
القاسم بن بکر بن مضر عن
عمرو بن الحارث عن یونس بن یزید عن ابن شھاب عن سعید بن المسیب ﴿صحیح البخاری﴾
شعیب الأرنؤوط نے مسند
احمد کی ایک روایت کی اسناد کو صحیح علی شرط الشیخین قرار دیا، جس میں یونس نے
زہری سے روایت کی ۔
حدثنا عبداﷲ حدثني أبي
ثنا یحیی بن آدم ثنا مبارک عن یونس عن الزھری عن السائب بن یزید ﴿مسند احمد بن
حنبل ج ۳
ص ۴۹۹﴾
اور ایک دوسری سند کی
اسناد کو بھی صحیح قرار دیا جس میں یونس نے ابن شہاب سے روایت کی ۔
حدثنا عبد اﷲ حدثني أبي
ثنا علي بن إسحاق قال أنا عبد اﷲ قال أنا یونس عن بن شھاب قال حدثني عبید اﷲ بن
عبد اﷲ بن عتبۃ بن مسعود ﴿مسند احمد بن حنبل ج ۳ ص ۴۴۱﴾
گزارش یہ ہے کہ اگر میں
یونس بن یزید کی ابن شہاب زہری سے روایت کی تصحیح علماء کرام کی کتب سے دکھاتا
جاؤں تو خدشہ ہے کہ پڑھتے پڑھتے خیر طلب کی طبیعت مزید خراب ہو جائے گی۔ امید ہے
کہ موصوف دوبارہ اسناد کے معاملے میں احتیاط سے کام لیں گے۔یہ سند بالکل صحیح ہے۔
اس کے بعد خیر طلب نے مجھ پر مضحکہ خیز اعتراض کیا ہے۔ ملاحظہ کیجئے :
قولہ : کلام صاحب پوری روایت کو نقل کر دیتے تو
بات اچھی ہوتی لیکن انہوں نے فقط اپنے مطلب کی بات نقل کی جس کو ہم ابھی طشت از
بام کردیں گے ۔ روایت کے پہلے حصے میں ابن عباس شدو مد سے متعہ کا دفاع کرتے ہے ۔
جی ہاں قارئین کرام ۔ روایت کے پہلے حصے کا من و عن ترجمہ کرنا خوف طوالت کے باعث
نہیں کر رہا لیکن اس مضمون میں یہ باتیں ہیں ۔عبداﷲ بن زبیر حضرت عبداﷲ بن عباس کو
طعنہ دے رہے ہیں ان الفاظ میں کہ خدا نے ابن عباس کو آنکھوں سے تو اندھا کر ہی دیا
ہے اور اب دل سے بھی اندھا کر دیا ہے کیونکہ ابن عباس متعہ کی حلت کا فتوٰی دیتے
ہیں۔ابن عباس نے کہا کہ میری عمر کی قسم نکاح متعہ رسول ص کے زمانے میں ہوتاتھا پس
یہ حلال ہے۔ابن زبیر کہتے ہیں کہ خدا کی قسم میں تمہیں پتھروں سے سنگسار کروں گا
اس فتوی کی وجہ سے۔ ابن عباس متعہ کے بارے میں سوال کرنے والوں کو اس کی حلت کا
فتوٰی دیتے یہاں تک کہ اہل علم حضرات نے اس فتوٰٰ ی حلت متعہ سے کراہت کا اظہار
کیا ۔ابن عباس کے اس فتوے کی وجہ سے ان پر ایک نظم بھی بنائی گئی جو سراسر ان کے
طعن پر مشتمل تھی۔ناظرین کرام اب انصار کرنے والوں سے ہم انصاف کے طلب گارہے کہ
ہونا یہ چاہئے تھا کہ عدالت صحابہ کا ڈھنڈورا پیٹنے والا پھلا اخلاق ابن زبیروالی
پوری روایت اور ابن عباس کے جواب کو نقل کرتے تاکہ قارئین انصاف کرتے لیکن بس اپنے
مطلب کی بات لینا ان کا پرانا اور پسندیدہ مشغلہ ہے۔ہم منصف اہلسنت حضرات سے پرزور
مطالبہ کرتے ہیں کہ اس روایت کے تناظر میں وہ پہلے تو عدالت صحابہ کا جنازہ نکالیں
اور پھر ابن عباس جو اپنی پیری اور بڑھاپے کی عمر میں آکر آنکھوں کی بینائی سے
محروم ہوئے تھے ان کے استقلال کو سلام کریں کہ لوئمہ لائم کی پرواہ کئے بغیر کس
شجاعت سے اپنے فتوے کا دفاع کیا۔اب اتنی ادھیڑ عمر کا آدمی ایک فتوی کا دفاع کر
رہا ہے اور ایک تابعی کا قول یوں نقل کیا جارہا ہے۔قال ابن شھاب : وسمعت الربیع بن
سبرۃ یحدث عمر بن عبد العزیز ، وانا جالس انہ قال : ما مات ابن عباس حتی رجع عن
ھذہ الفتیا۔یعنی ابن عباس کا انتقال نہیں ہوا مگر یہ کہ انہوں نے متعہ کی حلت کے
فتوے سے رجوع کر لیا۔
اقول : جی حضرت ابن عباس
کے استقلال کو بھی سلام کریں، اور جب انہوں نے فتوے سے رجوع کر لیا، تو اس رجوع کو
بھی بھرپور سلام پیش کیجئے ، کیونکہ یہ باسند صحیح نقل ہوا ہے۔لیکن اہل تشیع کو
دین میں من مانی کے پرانے شوق کی وجہ سے باقی سب تو تسلیم ہے، لیکن حضرت ابن عباس
ؓ کا رجوع جب صحیح سند سے ثابت ہو گیا، تو اس کو ہضم کرنا ان کے لئے مشکل ہو رہا
ہے۔بات اتنی سی ہے کہ حضرت ابو عوانہ نے اس ایک ہی روایت میں کئی اسناد کے ساتھ
کئی واقعات کو نقل کیا ہے۔خوفِ طوالت کی وجہ سے خیر طلب خود اس کا ترجمہ نہیں کرنا
چاہتے، اور ہمیں الزام دیتے ہیں کہ ہم نے پوری روایت کا ترجہ کیوں نہ کیا۔ معترض
نے الزام ہمیں دیا، اور پھر خود بھی وہی جرم کر ڈالا۔ اگر ہم کہیں کہ یہ ایک روایت
بہت سی روایات پر مبنی ہے تو غلط نہ ہوگا۔ چنانچہ شروع میں حضرت عبد اﷲ بن زبیر
اور حضرت عبداﷲ بن عباس کا واقعہ نقل کیا، جس کے متعلق خیر طلب نے غلط بیانی سے
کام لیتے ہوئے کہا (ابن زبیر کہتے ہیں کہ خدا کی قسم میں تمہیں پتھروں سے سنگسار
کروں گا اس فتوی کی وجہ سے) حالانکہ ابن زبیر ؓنے تو یہ کہا کہ فواﷲ لئن فعلتھا
لارجمنک باحجارک اگر آپ نے یہ فعل انجام دیا تو میں آپ کو سنگسار کروں گا۔ فتوے کی
وجہ سے سنگسار کا کوئی ذکر ہی نہیں لیکن اہل تشیع کی عادت کافی پرانی ہے، اتنی
جلدی نہیں جائے گی۔پھر دوسری سند سے ابن شہاب نے خالد بن مہاجر سے ایک دوسرا واقعہ
بیان کیا جس میں ایک شخص ابن عباس کے پاس آیا اور متعہ کے متعلق پوچھا، تو حضرت
ابن عباس نے اس کا فتوٰی دیا، جس پر ابن ابی عمرہ الانصاری صحابی نے کہا یا ابن
عباس انھا کانت رخصۃ فی اول الاسلام لم اضطر الیھا کالمیتۃ والدم ولحم الخنزیر ثم
احکم اﷲ الدین ونھی عنھا اے ابن عباس ، متعہ تو اوائل اسلام میں فقط ایک رخصت تھی
، مجبور کے واسطے، جیسے مردے کا گوشت، خون اور خنزیر کے گوشت کے سلسلے میں مجبوری
میں رخصت دی گئی تھی۔ پھر اس سے روک دیا گیا۔پھر ایک دوسری سند سے ایک اور واقعہ
بیان کیا گیا ہے، اس سند میں ابن شہاب نے عبید اﷲ بن عبداﷲ سے روایت لی اور یہ وہی
روایت ہے جس میں اہل علم نے ابن عباس کے فتوے پر ناراضگی کا اظہار کیا ،اور ابن
عباس کے خلاف اشعار بیان کئے گے۔اس کے بعد اگلی سند میں وہ روایت نقل کی گئی ہے جس
میں ابن شہاب نے ربیع بن سبرہ سے اور انہوں نے اپنے والد حضرت سبرہ ؓ سے روایت کی
ہے جس میں انہوں نے بتایا کہ ہم رسول اﷲ ﷺ کے زمانے میں متعہ کرتے تھے، پھر ہمیں
روک دیا گیا۔ اس کے بعد اگلی سند میں ابن شہاب زہری نے ربیع بن سبرہ سے روایت کی ہے
کہ میں عمر بن عبدالعزیز کے ساتھ بیٹھا تھا او ر میں نے ربیع بن سبرہ ؒنے عمر بن
عبد العزیزؒ کو بتایا کہ حضرت ابن عباسؓ نے فوت ہونے سے پہلے اس فتوے سے رجوع کر
لیا تھا۔
ظاہر سی بات ہے کہ یہ سب
علیحدہ واقعات ہیں۔ یہاں پر ہم یہ جاننا چاہ رہے ہیں کہ آیا حضرت ابن عباس ؓ نے
رجوع کر لیا تھا یا نہیں۔ اب اس سلسلے میں مجھے اس ایک روایت کو ہی نقل کرنا تھا
جس میں امام زہریؒ اور خلیفہ عمر بن عبدالعزیز ؒ کے موجودگی میں حضرت ابن عباس ؓ
کے رجوع کے سلسلے میں حضرت ربیع بن سبرہ ؒ ثقہ تابعی کا بیان ہے۔
اب آپ خیر طلب کے دوسرے
اعتراض کا جواب بھی ملاحظہ کیجئے۔
قولہ : تنقیح دوم: یہ قول زھری کا ہے سعید بن
سبرہ کا نہیں۔ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں کہتے ہے: واخرج البیھقی من طریق
الزھری قال ما مات ابن عباس حتی رجع عن ھذہ الفتیا وذکرہ ابوعوانۃ فی صحیحہ بیھقی
نے زھری کے طریق سے روایت کی ہے کہ زھری کہتے ہے کہ ابن عباس نے مرنے سے پہلے متعہ
کے فتوے سے رجوع کر لیا تھا۔ اس ہی بات کو ابو عوانہ نے اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔
حوالہ : تلخیص الحبیر ، جز ۳ ص ۵۴۶ ، الناشر : دارالکتب العلمیۃ اب اگر بنظر عمیق دیکھا جائے تو
یہ قول زھری کا ہے نہ کہ ربیع بن سبرہ کا ۔ اور اسے ہم زیادہ سے زیادہ بلاغات زھری
قرار دے سکتے ہیں جو خود مناظرین اہلسنت و علماء اہلسنت کے نزدیک ضعیف ہیں۔
اقول :شاید بنظرِ عمیق سے
خیر طلب کی مراد آنکھیں بند کر کے دیکھنا ہے۔ کیونکہ ابوعوانہ کی کتاب میں تو ہم
ابھی ملاحظہ کر چکے ہیں کہ یہ قول ربیع بن سبرہ ؒ کا ہی ہے، نہ کہ امام زہری ؒ کا۔
اس لئے اس واضح اورآنکھوں دیکھے حال کے بعد بھی یہ کہنا کہ ابوعوانہ میں یہ قول
امام زہری کا ہے، سراسر اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہے۔لیکن اگر ایسی کوئی روایت
اہلتشیع کے موقف کی تائید کرتی، اور ابن حجر نے ایسا کہا ہوتا ، تو سب سے پہلے خیر
طلب ہی ابن حجر کے قول کو سراسر غلط قرار دیتا۔ مذہبی تعصب کی ایسی مثال کم ہی
دیکھنے کو ملتی ہے۔اگر خیر طلب میں ہمت ہے، تو ابوعوانہ کی کتاب سے دکھا دے کہ یہ
قول زہری کا ہے، اور ربیع بن سبرہ کا نہیں۔ لیکن خیر طلب کو معلوم ہے کہ صدیاں گزر
جائیں گی اور ایسا ثابت نہیں ہو سکے گا۔ اس لئے حافظ ابن حجر کے قول کا سہارا لینے
کی کوشش کر رہا ہے، ورنہ اگر ابوعوانہ میں ایسا ہوتا تو آخر حافظ ابن حجر کا قول
پیش کرنے کی ضرورت ہی کیوں پڑتی؟ خیر طلب ادھر ہی فرما دیتے کہ یہ تو زہری کا قول
ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ ہو سکتا ہے کہ امام بیہقی نے زہری سے یہ روایت نقل کی
ہو، اورحافظ ابن حجر نے جو کہا ہے کہ وذکرہ ابو عوانۃ فی صحیحہ یعنی ابوعوانہ نے
اپنی صحیح میں اس کا ذکر کیا ہے، تو یہاں ابن حجر کی مراد ابن عباس ؓ کے رجوع کی
بھی ہو سکتی ہے، نہ کہ زہری کاذاتی قول۔ واﷲ اعلم
قولہ : تنقیح سوم : یہ زیادتی دیگر کتب میں موجود
نہیں
دیگر کتب میں بھی یہ واقعہ نقل کیا گیا ہے لیکن
ان کتب میں اس زیادتی کا ذکر نہیں، یعنی اس میں ابن عباس کا رجوع والا قول موجود
نہیں۔
﴿اس کے ذیل میں خیر طلب نے ایک مسند عمر بن عبد العزیز اور ایک
صحیح مسلم کی روایت نقل کی ہے﴾
اقول : ثقہ کی زیادتی
مقبول ہوتی ہے جب تک کہ دیگر قرائن سے اس کا ضعف نہ ثابت ہو جائے۔ لہذا آپ کا یہ
قول بھی مردود ٹھرا۔اور رجوع کا قول کوئی ایسا نہیں کہ فقط اس سند سے مروی ہو،
بلکہ کئی دیگر اسانید سے بھی ابن عباس ؓ کا رجوع نقل کیا گیا ہے اگرچہ وہ روایات
سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں۔ نیز اس روایت کو ان روایات کا متعارض سمجھنا بھی غلط
ہے جن میں ابن عباسؓ سے متعہ کی اباحت کا قول نقل کیا گیا ہے۔
قولہ : شاگردان ابن عباس بھی متعہ کے قائل تھے
ہم موجبہ کلیہ کو استعمال کرنے سے پرہیز کرینگے
لیکن ہم یہ اطمینان رکھتے ہیں کہ کافی تابعین و شاگردان اہلسنت متعہ کی اباحت کے
قائل تھے۔
چناچہ عبدارزاق بن ھمام ناقل ہے :
عن ابن جریج قال :اخبرنی عبد اﷲ بن عثمان بن خثیم
قال:کانت بمکۃ امراۃعراقیۃ تنسک جمیلۃ لھا ابن یقال لہ: ابو عمیۃ وکان سعید بن
جبیر یکثر الدخول علیہ قلت :یا ابا عبداﷲ ما اکثر ماتد خل علی ھذہ المراۃ قال:(انا
قد نکحناھاذالک النکاح للمتعۃ )قال:قاخبرنی ان سعید ا،قال لہ :ھی احل من شرب الماء
للمتعۃ
عبد ﷲ راوی کہتے ہے کہ مکہ میں ایک عورت خوبصورت
اور اچھے حسن کی مالک تھی جس کا ایک بچہ تھاجسے ابو عمیہ کہاجاتا تھا،سعید بن جبیر
اس کے ہاں بہت جایا کرتے تھے ،راوی نے سعید بن جبیر سے کہاکہ اے عبدﷲ آپ اس عورتکے
گھر اتنا کیوں آتے جاتے ہیں ؟سعید بن جبیر نے کہامیں نے اس سے نکاح متعہ کیاہے اور
سعید بن جبیر نے ہی مجھے خبر دی کہ متعہ پانی پینے سے زیادہ حلال ہے ۔
حوالہ :مصنف ۔جز ۔۷۔صفحہ ۔۴۹۶۔رقم ۔۱۴۰۲۰۔
اب خود قارئین فیصلہ کریں اوپر تحریر میں ہم نے
اہل حجاز اور اہل یمن کا ابن عباس سے متعہ کی حلت کا قول نقل کیا ہے ۔
ابن عباس کا عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ کے متعہ کو
حرام قرار دینے پر سرزنش کرنا
ہم نے اس قول مفید کو نقل کیا جس میں ابن عباس نے
متعہ کورحمت قرار دیا اور عمر بن خطاب کو سرزنش کی کہ اگر وہ اس کو حرام نہ قرار
دیتے تو فقط شقی ہی زنا کرتے۔
مناسب ہے اعتراضات کو نقل کرنے سے پہلے ہم اصل
سند مع المتن نقل کر دیں۔
مصنف عبد الرزاق :
قال عطاء،وسمعت ابن عباس یقول :یرحم اﷲ عمر ما
کانت المتعۃ الارخصۃ من اﷲ عزوجل رحم بھا امۃ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم فلولا نھیہ
عنھا ما احتاج الی الزناالا شقی
حوالہ :مصنف عبدالرزاق ۔جز۔صفحہ ۔۴۹۶
شرح معانی الآثار :
حدثنا ربیع الجیزی ،قال:ثنا سعید بن کثیر بن عفیر
قال:ثنا یحیی بن ایوب عن ابن جریج عن عطاء عن ابن عباس قال:ماکانت المتعۃ الا رحمۃ
رحم اﷲ بھا ھذہ الامۃ ولولانھی عمر بن الخطاب عنہ مازنی الا شقی ـ۔قال عطاء :کانی
اسمعھا من ابن عباس الا شقی ۔
کلام صاحب نے اس پر جو اعتراض کرے ہیں وہ درج ذیل
ہیں۔
اعتراض اول:ابن جریج مدلس ہے اور عن سے روایت
کررہا ہے۔
جواب:جناب کلام صاحب کاش آپ اس اعتراض سے پہلے
خود ابن جریج کے کلام کی طرف التفاء کرتے تو ایسا اعتراض نہ کرتے ۔چناچہ ابن ابی
خثیمہ نقل کرتے ہے:
حدثنا ابراہیم بن عر عرۃ قال:حدثنا یحیی بن سعید
القطان عن ابن جریج قال:اذا قالت :قال عطاء فانا سمعتہ منہ وان لم اقل سمعت
ابن جریج کہتے ہے کہ جب میں کہوں قال عطاء یعنی
عطا ء نے کہا تواس کا یہ مطلب ہے کہ میں نے اس سے ہی سنا ہے اگرچہ میں تصریحایہ نہ
کہوں کہ میں نہ سنا۔
حوالہ :تاریخ ابن ابی خیثمۃ ۔ السفر ۔۱۔الثالث۔جز۔صفحہ ۔۲۵۰۔
لہذا یہ اعتراض مردود ہے ۔اس قول کی سند صحیح ہے
،جیساکہ علامہ البانی نے اس قول کو نقل کیا ہے اور اس سے استشہاد کیا ہے ۔ملاحظہ
ہو۔ارواء الغلیل فی تخریج احادیث منار السبیل ،جز ۔۳۔صفحہ ۔۹۷
یہی بات شعیب ارنووط نے لکھی ہے :
اسنادہ صحیح علی شرط الشیخین ۔وابن جریج تغتفر
عنعنتہ (۲)فی عطاء ۔وھو ابن
ابی رباح ۔فقط فقد قال:اذا قالت :قال عطاء فانا سمعتہ منہ وان لم اقل :سمعت ،علی
انہ قد صرح بالسماع
حوالہ :مسند احمد بن حنبل ۔جز ۔۳۔صفحہ ۔۲۱۰
اعتراض دوم :عطاء الخرا سانی کی ابن عبا س سے
ملاقات ثابت نہیں ۔
کلام صاحب پہلے تو یہ بات واضع ہونی چاہیے کہ اس
روایت میں عطاء الخرا سانی ہے یا عطاء بن ابی رباح ۔جھٹ سے یہ کہہ دینا کہ یہ عطاء
الخرا سانی ہے ۔عطاء ابن ابی رباح نہیں کس دلیل کے تحت ہے ۔کیونکہ عطاء بن ابی
رباح کا تو سماع ابن عباس سے ثابت ہے ۔جس میں کوئی اشکال نہیں ۔
دوسری بات یہ کلام صاحب کاش مصنف عبد الرزاق کی
سند پر آنکھ دوڑا لیتی ہوتی تواس میں واضع طور پر سند میں سماعت کا ذکر ہے عطاء کا
۔یعنی عطاء کی سماعت ابن عباس سے ثابت ہے ۔چناچہ سند کے جملے میں یہ ہے :
قال عطاء وسمعت ابن عباس
عطاء نے کہا میں نے ابن عباس سے سنا۔
کیوں کلام صاحب علم غیب کے ذریعے عطاء نے سناتھا
؟جی نہیں ۔چونکہ اس سند والے عطاء کی ملاقات ابن عباس سے ثابت ہے ،اس لیے روایت
میں سماع کی تصریح کے بعد کسی اعتراض کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ۔
محققین اہلسنت نے عن ابن جریج عن عطاء ،عن ابن
عباس کی سند کی تعدیل کی ہے
ذیل میں ہم ان علماء کے اقوال نقل کرتے ہیں جنہوں
نے اس سند کی روایت کو تحسین و تصحیح کی نظر سے دیکھا ہے ۔
۱۔حسین سلم اسد
حوالہ :مسند الدارمی ۔جز۔۲۔صفحہ ۔۱۱۸۰۔رقم ۔۱۹۰۱
۲۔شعیب ارنووط
حوالہ :مسند احمد بن حنبل ۔جز ۔۴۔صفحہ ۔۱۰۳۔رقم ۔۲۲۳۳۔
۳۔عبدالملک بن عبداﷲ بن دھیش
اخبار مکۃ فی قدیم الدھر وحدیثہ ۔جز۔۱۔صفحہ ۔۱۳۰۔رقم ۔۱۳۳
۴۔البانی
حوالہ : سنن ابی داود ۔جز ۔۳۔صفحہ ۔۳۶۶۔رقم ۔۳۸۴۷۔
۵۔حاکم نیثاپوری
حوالہ :مستدرک الصحیحین ۔جز۔۱۔صفحہ ۔۵۸۷۔رقم ۔۱۵۴۹۔
تبصرہ:ہم فی الحال ۵ اقوال علماء اہلسنت پر اکتفاء کرتے ہیں ،ورنہ ہمارے پاس اور
حوالے جات بھی ہیں۔اس سے کلام صاحب کا اعتراض باطل ہوجاتا ہے جو اس سند کے حوالے
سے کیا۔
اقول : ابن جریج مدلس
راوی ہے، اور مدلس راوی جب سماع کی تصریح نہ کرے ، تو ایسی روایت سے احتجاج نہیں
کیا جاسکتا۔ یہاں پر ابن جریج نے سماع کی تصریح نہیں کی، اور کہا قال عطاء لیکن
ابن جریج سے مروی ہے کہ جب وہ قال عطاء کہے، تو یہ سماع پر محمول ہے۔ اس کے باوجود
یحیی بن سعید سے مروی ہے کہ واذا قال قال ھو شبہ الریح یعنی جب ابن جریج قال کہے
تو یہ ریح کی مانندہے۔﴿تھذیب التھذیب ج ۶ ص ۳۵۹﴾ اور اسی طرح امام احمد سے مروی ہے کہ اذا
قال ابن جریج قال فاحذرہ یعنی جب ابن جریج قال کہے تو اس سے بچو۔نیز فرمایا اذا
قال ابن جریج قال فلان و قال فلان واخبرت ، جاء بمناکیر یعنی جب ابن جریج کہے قال
فلان اور قال فلان اور اخبرت ، تو وہ منکر احادیث نقل کرتا ہے۔ ﴿سیر اعلام النبلاء
ج ۶
ص ۳۲۸﴾
بہرحال چونکہ ابن جریج کا اپنا قول موجود ہے کہ وہ جب قال عطاء کہے تو یہ سماع پر
محمول ہے، لہذا یہ ایک قابل تحقیق مسئلہ ہے ۔ بہرحال ہم چونکہ حضرت ابن عباس ؓ سے
متعہ کے حوالے سے رجوع ثابت کر چکے ہیں، لہذا اس روایت پر بحث کرنے کی کوئی ضرورت
ویسے بھی نہیں۔ یہ تو ایسی ہی بات ہو گئی کہ میں کہوں کہ شیعہ عالم عبداﷲ بن جعفر
حمیری بارھویں امام کی امامت کا منکر تھا،اور اس کی امامت کو تسلیم نہیں کرتا تھا،
جبکہ اس نے اپنے اس قول اور عقیدہ سے رجوع کر لیا تھا۔ پس جب رجوع ثابت ہو گیا، تو
رجوع سے پہلے کے اس کے عقائد کی بنیاد پر کس طرح دلیل قائم کی جاسکتی ہے۔ ورنہ پھر
آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ آپ کا ہم مسلک اور معتبر عالم عبداﷲ بن جعفر حمیری
بارہویں امام کی امامت کا نظریہ غلط سمجھتا ہے۔ اور حر بن یزید کو بھی امام حسین
کا دشمن تسلیم کر لیجئے، کیونکہ وہ بھی رجوع سے پہلے یزید کی فوج کا سپاہی تھا۔
نیز ابن عباس ؓ کے اکثر تلامذہ سے متعہ کی اباحت کا قول ہی نقل نہیں ہوا، لہذا یہ
کہنا بالکل غلط ہے کہ ابن عباس ؓ کے اکثر تلامذہ متعہ کی اباحت کے قائل تھے۔ اور
حضرت ابن عباس ؓ سے استمناء کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا (خیر من
الزنا ، ونکاح الامۃ خیر منہ) یعنی استمناء زنا سے بہتر ہے، اور لونڈی کے ساتھ
نکاح استمناء سے بہتر ہے۔ معلوم ہوا کہ حضرت ابن عباس استمناء کو حرام سمجھتے تھے،
البتہ زنا سے چھوٹا گناہ سمجھتے تھے۔ اور لونڈی کے ساتھ نکاح کو استمناء سے بہتر
سمجھتے تھے، اور اگر ان کے نزدیک متعہ جائز ہوتا، تو لونڈی کے ساتھ نکاح کی بجائے
متعہ کا ذکر کرتے، کیونکہ متعہ زیادہ آسان ہے، بنسبت لونڈی کے ساتھ نکاح کے، اور
یہ بات کسی پر مخفی نہیں۔ پس اس روایت سے بھی حضرت ابن عباس ؓ کامتعہ کے قول سے
رجوع ثابت ہوتا ہے۔
0 comments:
Post a Comment