Thursday, July 16, 2015

الرد الثانی علی شبھات الشیعۃ فی قضیۃ المتعۃ - حصہ ہفتم

قولہ : اگر آپ کو اصل اعتراض یا د ہو تووہ اس ہی بات پر تھاکہ بغیر گواہوں کے نکاح باطل ہے جس کا ابطال ہم نے کیا۔اب مزید توجیہیں وکٹ حجتی بات کو گمبھیر تو بنا سکتی ہے لیکن آپ کا مدعا ثابت نہیں کر سکتی ۔
اب ہم اپنی دلیل دیتے ہیں کہ متعہ میں گواہوں کی شرط ضروری نہیں ۔چناچہ صحیح مسلم میں یہ روایت موجود ہے جس کا اردو ترجمہ ہم اہلسنت حضرات کے بنائے ہوئے سافٹ وئیر سے من و عن نقل کر دینگے:
اردو ترجمہ:﴿ربیع بن سبرہ سے روایت ہے کہ ان کے والد رضی اﷲ عنہ غزوہ فتع مکہ میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے اور کہا کہ ہم مکہ میں پندرہ یعنی رات اور دن ملا کر تیس دن ٹہرے تو ہمیں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی پس میں اور میری قوم کا ایک شخص دونوں نکلے اور میں اس سے خوبصورتی میں زیادہ تھااور وہ بد صورتی کے قریب تھااور ہم میں سے ہر ایک پاس چادر تھی اور میری چادر پرانی تھی اور میرے ابن عم کی چادر نئی اور تازہ تھی ۔یہاں تک کہ ہم جب مکہ کے نیچے یا اوپر کی جانب میں پہنچے تو ہمیں ایک عورت ملی جیسے جوان اونٹنی ہوتی ہے ،صراحی دار گردن والی (یعنی جوان خوبصورت عورت)پس ہم نے اس سے کہا کہ کیا تجھے رغبت ہے کہ ہم میں سے کوئی تجھ سے متعہ کرے ؟اس نے کہا تم لوگ کیا دوگے ؟تو ہم میں سے ہر ایک نے اپنی چادر پھیلائی تو وہ دونوں کی طرف دیکھنے لگی ،اور میرا رفیق اس کو گھورتا تھا(اور اس کے سر سے سرین تک گھورتا تھا)اس نے کہا کہ ان کی چادر پرانی ہے اور میری چادر نئی اور تازہ ہے ۔تو اس عورت نے دویا تین بار یہ کہا کہ اس کی چادرمیں کوئی مضائقہ نہیں ۔غرض میں نے اس سے متعہ کیا ۔پھر میں اس عورت کے پاس سے اس وقت تک نہیں نکلا جب تک رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے متعہ کو حرام نہیں کر دیا۔﴾
حوالہ:صحیح مسلم ۔جز ۔۲۔صفحہ ۔۱۰۲۴
اس کی شرح میں نووی رقم طراز ہے :
﴿وفی ھذا الحدیث دلیل علی انہ لم یکن فی نکاح المتعۃ ولی ولا شھود ﴾
یہ حدیث اس بات کا ثبوت ہے نکاح متعہ میں ولی کی اور گواہی کی ضرورت نہیں ۔
حوالہ:المنھاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج ۔جز۔۹۔صفحہ ۔۱۸۵۔۱۸۶۔
اور یہی بات علامہ نواب صدیق حسن بھوپالی نے بھی السراج الوھاج ،جز اول ۔صفحہ ۔۵۲۵ طبع قدیم میں کہی۔
اب ہمارا اور آپ کا اختلاف اگرچہ اس کی منسوخ ہونے پر ضرور ہے لیکن اب ان احکامات کو خالص شیعی و ضعی قرار دینا جائز نہیں ،جبکہ صدر اسلام میں نکاح متعہ میں ولی اور گواہوں کی اجازت ضروری نہیں تھی۔باقی ابن قدامہ کا قول بڑا واضع ہے اور مالک بن انس کے ساتھ شرط اعلان لگانا اس بات کا ثبوت ہے کہ باقی اس شرط کو بھی ضروری نہیں سمجھتے ۔

اقول : اصل اعتراض گواہی پر نہیں، اصل اعتراض چوری چھپے نکاح پر ہے، جو کہ آپ کے علماء کی رائے ہے، اور جس کو آپ ہمارے علماء کی طرف منسوب کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ گواہی ہو یا اعلان، بنیادی مقصد تو نکاح کا مشتہر ہونا اور خفیہ نہ ہونا ہے۔ اور نکاح المتعہ میں ولی اور گواہوں کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، اس سے میں انکار نہیں کرتا۔لیکن میں نے خیر طلب کا رد بھی اسی وقت کیا جب اس نے نکاح دائمی میں اہلسنت کے ائمہ کے اقوال پیش کئے کہ گواہوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ نکاح دائمی میں اعلان اور/یا گواہوں کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا۔ ملاحظہ کیجئے امام جعفر کیا فرماتے ہیں:

علی بن ابراھیم عن ابیہ عن ابن ابی عمیر عن عمر بن اذینۃ عن زرارۃ قال سئل ابو عبد اﷲ عن الرجل یتزوج المراۃ بغیر شھود فقال لا باس بتزویج البتۃ فیما بینہ و بین الناس انما جعل الشھود فی تزویج البتۃ من اجل الولد لو لا ذلک لم یکن بہ باس
زرارہ بن اعین سے روایت ہے کہ امام جعفر سے سوال کیا گیا اس شخص کے بارے میں جو کہ کسی عورت سے بغیر گواہوں کے شادی کرتا ہے۔ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا ’’اس شادی میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ جو اس کے اور اﷲ کے درمیان ہے۔ بے شک گواہوں کو مقرر کیا گیا ہے شادی میں اولاد کی وجہ سے ، اگر ایسا نہ ہو تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ ﴿فروع الکافی ج ۵ ص ۷۸
پس یہاں سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص اس وجہ سے شادی کرتا ہے کہ اس کی اولاد ہو ، تو اس کو گواہ لانے پڑیں گے ، لیکن اگر وہ شادی میں اولاد کی ضرورت محسوس نہیں کرتا، بلکہ محض فلمی شادی کرنا چاہتا ہے، تو وہ گواہ لائے یا نہ لائے، کوئی مضائقہ نہیں۔
اگلی روایت ملاحظہ کیجئے:
علی بن ابراھیم عن ابیہ و محمد بن یحیی عن عبد اﷲ بن محمد جمیعا عن ابن ابی عمیر عن ھشام بن سالم عن ابی عبد اﷲ علیہ السلام قال انما جعلت البینات للنسب والمواریث وفی روایۃ اخری والحدود
ہشام بن سالم سے روایت ہے کہ امام جعفر نے فرمایا : بے شک گواہوں کو نسب اور وراثت کے معاملات کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ اور دوسری روایت میں ہے : حدود کے لئے۔ ﴿فروع الکافی ج ۵ ص ۷۸
زرارہ اور ہشام دونوں کی روایات کو مجلسی نے مراۃ العقول میں حسن قرار دیا ہے۔ ﴿مراۃ العقول ج ۲۰ ص ۱۲۰
پس اس روایت سے معلوم ہوا کہ اگر اپنے بچوں کے نسب کی فکر ہو، اور ان کے وراثت کے معاملات کی فکر ہو ، اور حدود کا کچھ خیال ہو، تو گواہ لازمی لانے چاہئے۔ اور اگر ان کی پروا نہ ہو، فقط شغل میلے کے واسطے شادی کرنی ہو، تو پھر گواہ نہ بھی ہوں تب بھی کام چل جائے گا۔
اب اہل تشیع سے ہمارا سوال ہے، کیا شادی فقط شغل میلے کے واسطے کی جاتی ہے؟ کیا آپ کو بچوں کی اور ان کے نسب کی فکر نہیں ہوتی، ان کے وراثت کے معاملات آپ کے نزدیک کچھ اہمیت نہیں رکھتے؟اگر رکھتے ہیں تو آپ کو گواہ لانے پڑیں گے۔ ورنہ نہ بچوں کا نسب ثابت ہوگا، اور نہ ان کی وراثت کے معاملات کو طے کیا جاسکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ابن ابی عقیل العمانی جو کہ انتہائی مشہور شیعہ فقیہ اور متکلم گزرا ہے، نکاح دائم میں گواہوں کی شرط کے قائل ہیں۔چنانچہ شیخ محمد علی انصاری شیعی اپنی کتاب ’’الموسوعۃ الفقھیۃ المیسرۃ‘‘ میں لکھتا ہے
(قال ابن ابی عقیل بوجوبہ) ﴿الموسوعۃ الفقھیۃ المیسرۃ ج ۳ ص ۳۵۶



قولہ : اگر آپ مفہوم و دلالت کے اعتبا ر سے دیکھیں تو دونو ن چیزیں تقریباایک جسیی ہے فقط صیغہ جات کا فرق ہے اور بعض ضمنی احکامات کا۔یعنی ایک شخص ایک مدت کے لیے نکاح متعہ کرتا ہے اور دوسرا شخص نکاح دائمی بنیت طلاق کرے۔پہلا شخص جو متعہ کر رہا ہے وہ ایک سال کی میعاد و عرصہ کو اعتبا ر جانیدوسرا شخص جو نکاح دائمی کر رہا ہے وہ اس نیت سے دیکھے کہ میں ایک سال کے بعد اسے طلا ق دے دونگا۔تو کلام صاحب مجھے فرق بتائیں ؟سوائے صیغہ جات جو نکاح کے لئے الگ الگ پڑھے جائیں گے اس کے علاوہ کوئی فرق ہے ،نہیں جی نہیں ۔دونوں میں وہی باتیں لازم ملزوم ہیں جو نکاح متعہ کا خاصہ ہے ۔ادھر بھی ایک میعاد مقرر ہے اور ادھر بھی نیت میعاد ادھر بھی اس میعاد کے اختمام پر رشتہ منقطہ ہوجائے گااور ادھر بھی۔اس تمہید کے ذکر کے بعداصل موضوع پر آتے ہے اور اپنے اس اقتباس کو نقل کرتا ہوں جو پچھلی تحریر میں تھا۔
اہلسنت مکتب کے مشہور فقہی مکاتب کے نزدیک اگر کوئی شخص اس نیت سے شادی کرے کہ میں عورت کو طلاق دے دوں گاتو وہ شادی صحیح ہے ۔چناچہ اس حوالے سے اہلسنت کے تین مشہور مکاتب فقہی یعنی فقہہ حنفی ،فقہہ مالکی ،فقہہ شافعی اور ایک قول کے مطابق فقہہ حنبلی اس نکاح جو صحیح قرار دیتے ہیں ۔
جب علامہ اوزاعی اہلسنت امام کے پاس یہ مسئلہ پہنچا تو انہوں نے اس نکاح متعہ قرار دیتے ہوئے اس قول کو قابل التفات نہ سمجھا۔
حوالہ :الموسوعتہ الفقہیہ ۔جز ۔۴۱۔صفحہ ۔۳۴۳۔۳۴۴
افر اس نکاح میں جو نیت طلاق حد فاصل ہے،اس میں اہلسنت کے نزدیک معنوی قباحت نہ ہوتی تو علامہ اوزاعی کبھی متعہ قرار نہ دیتے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اوزاعی جو شام کے آئمہ میں سے ایک تھے انہوں نے اس کو متعہ کیوں قرار دیا؟یقینا ان کے نذدیک اس میں معنوی تاثرات وہی ہوتے ہیں جو نکاح متعہ میں ہوتے ہیں۔اب آخر میں مزید تقویت کے لیے علامہ ابن قدامہ کا قول نقل کرتے ہیں :
﴿وان تزوجھابغیر شرط الا ان فی نیتہ طلاقھابعد شھر او اذا انقضت حاجتہ فی ھذا البلد ،فالنکاح صحیح ،فی قول عامۃ اھل العلم الا ا لاوزاعی قال:ھو نکاح متعۃ۔والصحیح انہ لاباس بہ۔﴾
﴿اور اگر کوئی شخص بغیر شرط کے نکاح کرے مگراس کی نیت یہ ہو کہ ایک مہینہ بعد طلاق دے دیگایا اگر اس کی حاجت کسی خاص شہر میں پوری ہوجائے تو طلاق دے دیگا تو اس صورت میں نکاح صحیح ہے جمہور اہل علم کے قول کے نذدیک مگر یہ کہ اوزاعی اس صورت کو نکاح متعہ قرار دیتے ہیں اور صحیح بات یہ ہے کہ اس میں کوئی برائی نہیں ۔﴾
حوالہ :المغنی ۔جز ۔۷۔صفحہ ۔۱۸۰

اقول : صیغہ جات کے علاوہ فرق میں آپ کو بتاتا ہوں۔ صیغہ جات کے علاوہ فرق یہ ہے کہ متعہ میں میاں اور بیوی دونوں کے درمیان یہ شرط رکھی جاتی ہے کہ متعہ کا دورانیہ اتنی باریوں، گھنٹوں، دنوں یا مہینوں کا ہوگا۔ جبکہ نکاح بنیۃ الطلاق میں یہ شرط نہیں ہوتی، بلکہ ایک بات جو فقط مرد کے دل میں موجود ہوتی ہے ۔ پھر میراث کے معاملات اس میں جدا اور متعہ میں جدا ہوتے ہیں۔ متعہ میں مرد بیوی کے نان نفقہ کا ذمہ دار نہیں ہوتا، جبکہ نکاح بنیۃ الطلاق میں مرد بیوی کے نان نفقہ کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
یہ تین ایسی واضح باتیں ہیں، جن سے ایک شخص بہت اچھی طرح دونوں میں فرق کو سمجھ سکتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ طلاق بنیۃ الطلاق کو خود شیعہ علماء نکاح دائمی سمجھتے ہیں، تو امام اوزاعی کے قول سے کس طرح اس کو نکاح متعہ کی طرح قرار دیں گے؟اگر شیعہ علماء اس کو نکاح متعہ ہی سمجھتے ہیں، تو اس پر آپ دلیل پیش کریں، پھرامام اوزاعی کے قول سے استدلال کریں۔


قولہ : یہ ہماری تحریر کا آخری سلسلہ ہے اور اس تحریر میں درج ذیل موضوعات پر قلم اٹھایا گیا ہے ۔
۱۔یحیی بن اکثم اور لواطت کا قصہ
۲۔معاویہ کا شراب پینا
۳۔استمناء یعنی خود لزتی و علماء اہلسنت
۱۔یحیی بن اکثم اور لواطت کا قصہ
یحیی بن اکثم ایسی شخصیت ہے جن کی لواطت حد اشتہار تک پہنچی ہوئی ہے اور انکی لواطت کے حوالے سے ہمارا اور کلام صاحب کا بڑا تفصیلی مباحثہ ہوچکاہے ،اس کے بعد بھی کلام صاحب اس اعتراض کرنے پر مصر ہے:
اعتراض :ایسا غبی ہی یحیی بن اکثم پر ایسا الزام لگا سکتا ہے ۔
جواب:اس کا جواب ہم اپنے پرانے آرٹیکل سے ہی بایں دیں گے:
ثعالبی نیثاپوری اپنی کتاب ثمار القلوب فی المضاف والمنسوب صفحہ ۔۱۵۶۔۱۵۸رقم ۲۲۱ طبع دارالمعارف میں لواط یحیی بن اکثم کی پوری ۳ صفحات کی داستانیں لکھی ہیں۔
علامہ راغب اصفہانی اپنی کتاب محاضرات الادباء ،جلد ۱ ،صفحہ ۔۴۳۴ میں ایک واقعہ نقل کیا ہے جس میں ایک خوبصورت لڑکے نے ایک سوال کے جواب میں یحیی بن اکثم کہ زمین کی خبر کے مطابق تم لواطت کرتے ہو۔علامہ شمس الدین ذہبی نے سیر اعلام البنلاء۔جلد۔۱۲۔صفحہ ۔۱۰۔میں کہا کہ یحیی بن اکثم ایام جوانی میں خوبصورت لڑکوں سے مسخرہ کرتے تھے ۔اس کے علاوہ کلام صاحب نے ایک بار اس قول سے بایں استدلال کیا تھا:
احمد بن یعقوب فرماتے ہیں ﴿کان یحیی بن اکثم یحسد حسدا شدیدا﴾
جس کا جواب ہم نے یہ دیا تھا:
جواب:خدارا ذرا ایمان سے بتائیے کہ آپ نے روایت کا آگے کا حصہ نہیں پڑھا، یہ روایت بایں ہے :
اخبرنی الازھری ،اخبرنا محمد بن عباس قال حدثنا محمد بن خلف بن مرزبان بن بسام قال حدثنی ابو العباس احمد بن یعقوب قال کان یحیی بن اکثم یحسد حسدا شدیداوکان مفتنا فکان اذانظر الی رجل یحفظ الفقہ سالہ ان الحدیث،فاذاراہ یحفظ الفقہ سالہ عن الحدیث ،فاذاراہ یحفظ الحدیث سالہ عن النحو فاذاراہ یعلم النحو سالہ عن الکلام لیقطعہ و یحنجلہ فد خل الیہ رجل من اھل خراسان ذکی حافظ فنا ظرہ فراہ مفتنا فقال لہ نظرت فی الحدیث؛قال نعم قال فماتحفظ من الاصول ؛قالاحفظ شریک عن ابی اسحاق عن الحارث عن علیاان علیارجم لوطیہ فامسک یکلمہ شی ۔
یحیی بن اکثم شدید حسد رکھا کرتا تھا(یہ صیغہ معروف کا ہے مجہول کانہیں فتد براز خیر طلب )اور وہ بہت بڑا فن رکھنے والاآدمی تھا،پس وہ جب بھی کسی شخص کو دیکھتا جیسے فقہ پر عبور ہوتاتو یحیی (حسد کے مارے )اس سے حدیث کے بارے میں سوال کرتاجب وہ یہ دیکھتا کہ اسے تو حدیث پر بھی عبور ہے تو وہ علم نحو کے بارے میں پوچھتا جب وہ یہ دیکھتا کہ وہ شخص علم نحو بھی جانتا ہے تو یحیی علم کلام کے بارے میں سوال کرتا تاکہ اس شخص کے علمی رعب کو توڑا جائے اور اس کو پریشان کیا جائے (حسد کی انتہا از خیر طلب)پس ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ خراسان کا ایک شخص داخل ہو ا جونہایت ذہین اور حافظ تھاپس یحیی بن اکثم نے اس شخص سے مناظرہ شروع کر دیا،پس مناظرے کے دوران یحیی کو محسوس ہوا کہ یہ شخص نہایت ذہین ہے ۔یحیی نے اس سے پوچھا کہ کیا تمہیں حدیث کے بارے میں علم ہے ؛اس (اہل خراسان والا) نے کہا بیشک ۔یحیی بن اکثم نے اس شخص سے علم اصول کے بارے میں پاچھاتو اس شخص نے جواب دیا کہ میں نے شریک سے روایت کی اس نے ابو الاسحاق سے اس نے حارث سے اس نے حضرت علی سے روایت کی علی ،لواطت کرنے والوں کو رجم کیا کرتے تھے ،یہ سن کر یحیی قابو میں آیا اور پھر اسے بولنے کی کچھ ہمت نہیں ہوئی۔ حوالہ :تاریخ بغداد،جلد ،۱۴۔صفحہ ۔۲۰۴
تبصرہ :یہ دیکھیں یہ کلام صاحب کی علمی امانت کا حال ہے کہ ترجمہ بھی غلط کیا اور پھر اوپر سے یحیی کی حسدکی کہانیاں جو وہ لوگوں کے زیچ کرنے کے لیے کرتا لیکن اب ثابت ہوا کہ کلام صاحب کے نذدیک جوقابل احتجاج روایت ہے

اقول : قصہ کچھ یوں ہے کہ دو سال پہلے ہمارا یحیی بن اکثم کے حوالے سے مباحثہ ہوا تھا۔ اس حوالے سے موصوف نے اپنے دلائل دیئے، جن کا میں نے رد پیش کیا۔ موصوف نے بے سند روایات پیش کی، جس کے مقابلے میں احقر نے یحیی بن اکثم ہی کے ہم عصر ، اور اپنے وقت کے امام احمد بن حنبل سے اس کی تردید شدید الفاظ میں ایک ایسی سند سے دکھائی تھی، جس کی سند میں کوئی خامی نہیں تھی۔ اس کی سند میں خیر طلب نے جو اعتراض کیا تھا، اس کی خامی ہم ابھی خیر طلب کے اپنے اصولوں سے ہی دکھائیں گے، لیکن جہاں تک اس روایت کا تعلق ہے، تو اس روایت کو میں نے امام احمد کی روایت کی مؤید کے طور پر پیش کیا تھا۔ چنانچہ امام احمد کی روایت کی سند کے ایک ایک راوی کی توثیق میں نے دکھائی تھی، اور اس روایت کی سند کے راویوں کی توثیق میں نے نہیں دکھائی تھی۔ بہرحال اس وقت عربی زبان سے عدم واقفیت کی بنا پر اس روایت کا ترجمہ کرنے میں غلطی کی۔ لیکن بفضل ِ خدا اب میں اس روایت کے متن اور سند دونوں کا ضعف آپ کے سامنے واضح کر رہا ہوں۔اس کی سند میں محمد بن خلف بن مرزبان کے بارے میں امام دارقطنی فرماتے ہیں ’’اخباری لین‘‘ ۔ ﴿میزان الاعتدال للذھبی ج ۳ ص ۵۳۸﴾ اس کی سند میں کمزوری یوں ہے کہ خراسان کا یہ عالم فاضل جو روایت حضرت علی سے نقل کر رہا ہے، اس کی سند میں ایک کذاب ’’حارث بن عبداﷲ الاعور ‘‘ ہے ، دو مدلسین ہیں یعنی شریک اور ابو اسحاق ، اور دونوں ہی عن سے روایت کر رہے ہیں۔ پس خراسان کا یہ عالم ایک ایسی حدیث لے کر آیا جو کہ سراسر موضوع ہے ۔مجھے حیرت ہے کہ ایک شخص جو تمام علوم اپنے پاس رکھتا ہو، ایسے شخص سے کیونکر حسد کرے گا؟ اس نے تو موضوع روایت پیش کر کے اپنے علم حدیث کا انکشاف کر دیا۔اور خراسان کے عالم نے تو سند یوں بیان کی ’’احفظ شریک عن ابی اسحاق عن الحارث ان علیا رجم لوطیا‘‘ لیکن خیر طلب نے جوش میں ہوش کھوتے ہوئے اس کی سند یوں لکھ ڈالی ’’احفظ شریک عن ابی اسحاق عن الحارث عن علیاان علیا ‘‘۔ کلمہ ، نماز، قرآن اور اذان کے بعد اب سند میں بھی’ علی‘ کا اضافہ ایک نیا شوشہ ہے۔ جس طرح کہتے ہیں کہ سو سنار کی ، ایک لوہار کی۔ اسی طرح خیر طلب کی ان ضعیف و بے سند حکایات اس ایک باسند معتبر روایت کے مقابلے میں خس و خاشاک سے بھی زیادہ گئی گزری ہیں۔
چنانچہ میں باسند امام احمد بن حنبل کا قول نقل کرتا ہوں:
اخبرنا ابو الحسن محمد بن عبد الواحد (ثقہ) حدثنا محمد بن العباس (ثقہ) حدثنا محمد بن ھارون بن المجدر (ثقہ) قال حدثنا عبد اﷲ بن احمد بن حنبل (ثقہ) ذکر یحیی بن اکثم عند ابی ․․․ وذکر لہ ما یرمیہ الناس فقال سبحان اﷲ سبحان اﷲ ومن یقول ھذا؟ وانکر ذلک احمد انکارا شدیدا
عبداﷲ بن احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ یحیی بن اکثم کا تذکرہ میرے والد صاحب کے ہاں ہوا، اور اس کا تذکرہ بھی ہواجو لوگ اس جس کا لوگ اس پر الزام دھرتے ہیں۔ تو انہوں نے فرمایا : سبحان اﷲ سبحان اﷲ ، یہ کون کہتا ہے؟ اور امام احمد نے شدید طور پر اس کا انکار کیا۔﴿تاریخ بغداد ج ۶ ص ۲۵۸
اس صحیح سند کے علاوہ کچھ اور نقل کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتا، کیونکہ ہمارے مخالف کے پاس کوئی صحیح سند اس حوالے سے موجود نہیں، جس سے اپنا الزام ثابت کر سکیں۔
مشہور مورخ ابن خلدون نے بھی اس کو سراسر افتراء اور بہتان قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں (وکذلک ما ینبزہ المجان بالمین الی الغلمان بھتانا علی اﷲ وفریۃ علی العلماء ویستندون فی ذلک اخبار القصاص الواھیۃ التی لعلھا من افتراء اعتداۂ فانہ کان محسودا فی کمالہ وخلتہ للسلطان وکان مقامہ من العلم والدین منزھا عن مثل ذلک) ﴿مقدمہ ابن خلدون ص ۱۹

اور چونکہ خیر طلب کو سند کی پروا نہیں، بلکہ فقط الزام لگانے کا شوق پورا کرنا ہے، لہذا ایسے ضعیف اور بے سند اقوال ہم بھی پیش کردیتے ہیں۔
وقال القاضی ابوعمر محمد بن یوسف سمعت اسماعیل بن اسحاق یقول کان یحیی بن اکثم ابرا الی اﷲ تعالی من ان یکون فیہ شیء مما رمی بہ من امر الغلمان ولقد کنت علی سرائرہ فاجدہ شدید الخوف من اﷲ تعالی ولکن کانت فیہ دعابۃ
قاضی ابوعمر محمد بن یوسف کہتے ہیں کہ انہوں نے اسماعیل بن اسحاق کو فرماتے ہوئے سنا کہ یحیی بن اکثم اﷲ کے نزدیک اس سے بری ہیں کہ ان میں کچھ ہو۔ اور لڑکوں کی طرف رجحان کے بارے میں جو ان پر الزام لگایا جاتا ہے، وہ بالکل بے بنیاد ہے۔ میں ان کے باطنی احوال خوب جانتا ہوں۔ میں انہیں اﷲ سے انتہائی ڈرنے والا پاتا ہوں ، البتہ دل لگی ان کی عادت تھی۔ ﴿تھذیب التھذیب ج ۱۰۵ ص ۱۰
قاضی اسماعیل فرماتے ہیں معاذ اﷲ ان تزول عدالۃ مثلہ بکذب باغ او حاسد اﷲ کی پناہ کہ آپ جیسوں کی عدالت دشمنوں اور حاسدوں کے جھوٹ سے زائل ہو جائے۔ ﴿سیر اعلام النبلاء ج ۱۲ ص ۹
اس روایت کو ضعیف قرار دینے کے واسطے خیر طلب نے کہا کہ اس سند کا ایک راوی ناصبی ہے۔ خیر طلب کا یہ اعتراض نہ اہلسنت کی جرح و تعدیل میں کوئی وقعت رکھتا ہے، نہ ہی اہل تشیع کی جرح و تعدیل میں کوئی وقعت رکھتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خود خیر طلب کے اپنے اصولوں کے بھی خلاف ہیں۔ اہلسنت نے بھی ناصبی راویوں کی توثیق کی، اہل تشیع نے بھی ناصبی راویوں کی توثیق کی، اور خطبہ شقشقیہ کے متعلق ایک روایت کی سند جس میں ایک خارجی راوی تھا، کی توثیق خود خیر طلب نے کی۔

قولہ : معاویہ جو اہلسنت کے خلیفہ پنجم ہے ،وہ شراب پیتے تھے ،اس حوالے سے ہم مسند احمد بن حنبل کی روایت نقل کرتے ہیں : ﴿حدثناعبدﷲ حدثنی ابی ثنا زید بن الحباب حدثنی حسین ثنا عبدﷲ بن بریدۃ قال:دخلت انا وابی علی معاویۃ فاجلسنا علی الفرش ثم اتینا بالطعام فاکلناثم اتینا بالشراب فشرب معاویہ ثم ناول ابی ثم قال ما شربتہ منذ حرمہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ثم قال معاویہ کانت اجمل شباب قریش واجودہ ثغرا وما شی ء کنت اجد لہ لذۃ کما کنت اجدہ وانا اللبن اوانسان حسن الحدیث یحدثنی ﴾
﴿بحذف سند عبداﷲ بن بریدہ کہتے ہے میں اور میرے والد معاویہ کے ہاں گئے ،پس معاویہ نے ہمیں فرش پر بٹھایا،اس کے بعد ہمارے لیے کھانے کا انتظام کیا ،پھر ہمارے لیے مشروب لائی گئی جس کو معاویہ نے پیا اور میرے والد کو دیا پس انہوں نے کہا کے جب سے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے حرام قرار دیا میں نے اس مشروب کو کبھی نہیں پیا،معاویہ نے کہا کہ جوانوں میں سے خوبصورت اور اچھی گردن کاحامل تھا س،مجھے دودھ پینا اور اچھی گفتگو کرنا بہت پسند تھی ۔﴾
حوالہ:مسند احمد بن حنبل ،جز ،۳۸،صفحہ ۔۲۵،۲۶،طبع لبنان
ان علماء کا بیان جنہوں نے اس روایت کی تعدیل کی
اس سے پہلے روایت پر کوئی اعتراض کرے مناسب معلوم ہوتا ہے اس کی توثیق پیش کر دی جائے ۔
شعیب ارنووط نے اس کی سند کو قوی کہا ہے ۔بحوالہ :مسند احمد ،جز ۳۸۔ص۔۲۵۔۲۶
حمزہ احمد زین نے سند کو صحیح کہا ہے ۔بحوالہ :مسند احمد ،جز ۔۱۶۔صفحہ ۔۴۷
علامہ ہیثمی نے اس کی سند کے راویان کو صحیح کے راوی کہا ہے ۔بحوالہ :مجمع الزوائد روایت نمبر ،۸۰۲۲
شیخ مقبل الوادعی نے اس روایت کو معتبر قرار دیا ہے ۔بحوالہ :الجامع الصحیح مما لیس فی الصحیحین ،رقم ،۱۷۷

اقول : خیر طلب کے دوغلے پن کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ابوعوانہ کی روایت پر اعتراض کرتے ہوئے فرمایا کہ اس میں ایک راوی یونس کو معمولی وہم ہوتا تھا، اب مسند احمد کی یہ روایت چونکہ اس کو اپنے مطلب کی دکھائی دے رہی ہے، لہذا اس کو ہر صورت میں معتبر تسلیم کرنے پر تلے ہوئے ہیں، حالانکہ اسکی سند میں زید بن الحباب کثیر الخطا راوی ہے۔امام احمد نے اسے کثیر الخطا قرار دیا ہے ﴿سوالات ابی داود لاحمد ص ۳۱۹، العلل ج ۲ ص ۹۶﴾۔اور اس روایت کی سند کے ایک اور راوی حسین بن واقد کے بارے میں ابن حجر فرماتے ہیں لہ اوھام ﴿تقریب التھذیب ج ۱ ص ۱۶۹﴾ ۔لیکن اس کے باوجود خیر طلب کے لئے اس سند میں کوئی مسئلہ نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ جب ان کا وہم اور کثیر الخطا ہونا اس روایت کی صحت پر کچھ اثر نہیں ڈالتا، تو کیوں ابوعوانہ کی سند پر اعتراض کرتے ہو۔دوسری بات یہ ہے کہ ہم نے اس روایت کے متعلق جو جواب دیا تھا، اس کا جواب خیر طلب نے کس حد تک دینے کی کوشش کی ہے، اس کو پڑھنے والے بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔

قولہ : اب ہم درج ذیل اعتراضات کے جوابات دیتے ہیں :
اعتراض اول :اس روایت سے مشروب سے خمر یعنی شراب لینا صحیح نہیں ۔
جواب :جناب کلام صاحب چلیں بالفرض اس مشروب سے شراب نہیں لیتے تو اس کا کیا مطلب ہوگا ـ:
(قال ما شربتہ منذ حرمہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم)
انہوں نے کہا کے جب سے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے حرام قرار دیا میں نے اس مشروب کو کبھی نہیں پیا۔
یقینا اس جملے ثابت ہے جس مشروب کی بات ہو رہی تھی کم سے کم وہ حلال نہیں تھی ۔باقی دودھ وغیرہ اس کو اس لئے قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ اس کا پینا کبھی حرام نہیں ہوا۔

اقول : مشروب کا معنی خمریعنی شراب نہیں ہوتا، یہ آپ فرض نہ کریں، یہ تو آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا چاہے آپ کو اچھا لگے یا برا۔دوسری بات یہ ہے کہ اگر ایک انسان ذرا بھی عقل سے کام لے تو جان جائے گا کہ یہ قول خود ہی بتا رہا ہے کہ حضرت معاویہؓ نے شراب نہیں پی۔ کیا کوئی شخص شراب پی کر یہ کہتا ہے کہ جب سے رسول اﷲ ﷺ نے اسے حرام قرار دیا، تب سے میں نے نہیں پیا؟اور اگر ایسا ہوتا تو حضرت بریدہ ؓ ادھر ہی پکار اٹھتے کہ جناب ابھی شراب بھی پی لی اور ابھی کہتے ہو جب سے حرام ہوئی تب سے میں نے نہیں پی!یہ تو کھلا تضاد ہے، جس کو عقلِ سلیم تسلیم نہیں کرتی۔ہاں اگر ہم بھی عقل پر پردہ ڈال دیں، تو کوئی صورت نکل سکتی ہے۔

قولہ : اعتراض دوم:ادھر اس جملہ (جب سے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے حرام قرار دیا میں نے اس مشروب کو کبھی نہیں پیا)کے قائل بریدہ صحابی نہیں بلکہ معاویہ ہے اور یو ں ثابت ہوتاہے کہ وہ شراب سے بیزار تھے ۔
جواب :کلام صاحب قائل کوئی بھی ہو روایت کے جملے یہ بتا رہے ہیں :
(فشرب معاویہ )
معاویہ نے اس مشروب کو پیا۔
اب دو صورتیں ہیں :
۱۔اگر قائل بریدہ دئے جائیں تو اس سے مراد معاویہ کی مذمت و معاویہ کو تنہیہ کرنا ہوگی۔
۲۔اگر قائل معاویہ لیا جائے تو یہ تو اس بڑی فضیحت ہے کہ ایک جگہ پی بھی رہے ہیں اور دوسری جگہ منع بھی نقل کر رہے ہے ۔اس کو کھلا تضاد سے تعبیر کیا جاتاہے۔
کلام صاحب کی گردن پر علامہ ابو بکر ہیثمی کی تلوار
جی یہ عنوان تھوڑا ثقیل معلوم ہولیکن علامہ ابو بکر ہیثمی اس روایت کو ملا نقل نہیں کرتے بلکہ مسند احمد بن حنبل سے یوں نقل کر کے پوری روایت کو نقل نہیں کرتے بلکہ یوں عرض کرتے ہیں :
(رواہ احمد و رجالہ رجال الصحیح وفی کلام معا ویہ شی ء ترکتہ )
احمد بن حنبل نے اس روایت کو نقل کیا اور اس کے سارے راویا ن صحیح کے روات ہیں ،اور معاویہ کے کلام میں کچھ ایسی چیز تھی جس میں نے عمدا ترک کر دیا۔
حوالہ:مجمع الزوائد ،جز ،۵۔صفحہ ۔۵۵
یقینا جو علم بلاغت کے جو درو س سئے گئے ہیں وہ علامہ ابو بکر ہیثمی کی قبر پر بھی دینا چاہیئے ۔یہ روایت میں واقعی ایسی قباحت ہے کہ ابو بکر ہیثمی جیسا صحابی دوست بھی مجبور ہوا کہ روایتی حذف و بتر سے کا م لے۔


اقول : یہ تلوار اصل میں میری گردن پر نہیں، بلکہ خیر طلب ہی کے گردن پر ہے۔ موصوف خود فرما رہے ہیں کہ اگر ہم تسلیم کر لے کہ یہ قول بریدہ ؓ کا نہیں، بلکہ معاویہ ؓ کا ہے تو اس کو کھلا تضاد سے تعبیر کیا جائے گا۔ اور پھر علامہ ہیثمی کا قول لا رہے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : معاویہ کے کلام میں کچھ ایسی چیز تھی جس کو میں نے ترک کر دیا۔ اب فرمائیے،علامہ ہیثمی فرما رہے ہیں کہ یہ حضرت معاویہ ؓ کا قول ہے، اور آپ خود تسلیم کر رہے ہیں کہ اگر اس کو حضرت معاویہ ؓ کا قول تسلیم کیا جائے تو اس کو کھلا تضاد سے تعبیر کیا جائے گا، یعنی ایک جگہ پی بھی رہے ہیں، اور منع بھی کر رہے ہیں۔ تو فرمائیے ، یہ معاویہ ؓ کا قول بھی ہو، اور تضاد کی صورت بھی نہ ہو، یہ تو اسی وقت ممکن ہے جب حضرت معاویہؓ شراب کی بجائے کسی اور مشروب کی بات کر رہے ہوں۔ میں کہتا ہوں کہ علامہ ہیثمی کی تلوار جو آپ میرے گردن پر لٹکانا چاہ رہے تھے، اس سے آپ ہی کی گردن کٹ گئی۔ اور معاویہ ؓ کے مذکورہ الفظ کو علامہ ہیثمی نے غالباََ اس وجہ سے ترک کردیا کہ ان کے نزدیک یہ الفاظ منکر ہوں۔کسی وجہ کے بغیر اس کی یہ توجیہ پیش کرنا کہ ان الفاظ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت معاویہ ؓ نے شراب پی، سراسر غلط ہے۔ ابن ابی شیبہ نے بھی یہی روایت انہی اسناد سے نقل کی ہے، لیکن انہوں نے بھی مذکورہ الفاظ کو نقل نہیں کیا۔﴿مصنف ابن ابی شیبہ ج ۶ص ۱۸۸

0 comments: