Thursday, July 16, 2015

الرد الثانی علی شبھات الشیعۃ فی قضیۃ المتعۃ - حصہ پنجم

قولہ : اعتراض :امام باقر الی جل مسمی کی قرات نہیں کرتے تھے اور امام جعفر الی جل مسمی کی قرات کرتے تھے پس جس امام پر زیادہ بھروسہ ہو اس کو قبول کیا جائے ۔
جواب :معاف کیجئے کلام صاحب ہمارا مذہب حق چار یاری نہیں کہ جب دل چاہا کسی ستارے کی اطاعت کر لی اور باقیوں کو پس پشت ڈال دیں ۔ہم تمام آئمہ ع کی اطاعت کرتے ہیں اور کسی کی بات کی ترجیع دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ ہمارے نزدیک سارے منصوص ہے اورمنصوعات میں اختلافات بد یہی نہیں ہوتے ۔
اب اصل جواب کی طرف آتے ہے ۔موجودہ قرآن میں آپ کو فقط’’فمااستمتعتم بہ منھن‘‘ہی ملے گا،لیکن ابن عباس کی قرات کے مطابق ’’ الی اجل مسمی ‘‘ کا لاحقہ ملے گاجو دوسرے اصحاب جیسے ابی بن کعب و دیگر سے بھی منقول ہے تو جواب تو پہلے آپ کو دینا چاہیے تھااور اس کا ازالہ کرتے لیکن آپ نے جواب دینا گوارہ نہیں کیابلکہ الزامی جواب سے کام چلایا۔ہمارا استدلال بھلا قرات کے اختلاف پر کب تھاجو آپ نے قرات کے اختلافات جو جواز بنا کر جواب دیا،ہمارا مدعا تو اس قرات سے متعہ کو ثابت کرناتھا جس کا مدوا آپ نے نہیں کیا ؟قارئین کی ذوق طبع کے لیے ہم ابن عباس کی ایک روایت نقل کرتے ہیں جس میں اس قضیہ کی طرف لطیف اشارہ ہے :
چناچہ حاکم نیثاپوری ناقل ہے :
اخبرنا ابو زکریا العنبری ثنا محمد بن عبدالسلام ثنا اسحاق بن ابراہیم انبا النظر بن شمیل انبا شعبۃ ثنا ابو مسلمۃ ،قال:سمعت ابا نضرۃ ،یقول :قرات علی ابن عباس رضی اﷲ عنھما(فما استمتعتم بہ منھن فاتوھن اجورھن فریضۃ )(النساء ۔۲۴)قال ابن عباس:(فما استمتعتم بہ منھن الی اجل مسمی )قال ابو نضرۃ :فقلت:مانقروھاکذلک ۔فقال ابن عباس:(واﷲ ونزلھا اﷲ کذلک )ھذا حدیث صحیح علی شرط مسلم ولم یخرجاہ
(التعلیق۔من تلخیص الذھبی ۔۳۱۹۲۔علی شرط مسلم )
ابن عباس سورہ نساء کی آیت ۲۴(فما استمتعتم بہ منھن فاتوھن اجورھن فریضۃ) کی قرات یوں کرتے تھے (ا استمتعتم بہ منھن الی اجل مسمی )ابو نضرہ راوی کہتے ہے کہ ہم تو ایسی قرات نہیں کرتے ،ابن عباس نے کہا خدا کی قسم یہ آیت ایسے ہی نازل ہوئی ۔
حاکم نے اس روایت کو صحیح کہا ہے ۔ذہبی نے تلخیص میں روایت کو صحیح کہا ہے ۔
حوالہ :المستدرک علی الصحیحین ۔جز ۔۲۔صفحہ ۔۲۳۴

ہمارا اصل استدلال قرات کے اختلاف کو ہوا دینا نہیں جو کسی اور دن کا موضوع ہے بلکہ فقط اس قرات سے نکاح متعہ پر استدلال ہے جس کا جواب کلام صاحب نے دینا گوارہ ہی نہیں کیا ۔
اس روایت کی روشنی میں ہم یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہے اس ہی صوت و آواز میں کہ کسی صحابی پر زیادہ بھروسہ ہے ابن عباس یا ۔۔۔۔؟؟
باقی جو امامین صادقین ع سے روایت پر اعتراض ہے اس کا جواب ان روایات کی روشنی میں یہی ہوگا کہ ادھر آیت کی تفسیر کے طور پر بعض الفاظ کا لاحقہ ہے جو اہلسنت اصحاب سے بھی ثابت ہے۔پس اگر اس طریقہ تفسیر پر اعتراض وارد ہوگا تو صحابی پر بھی محرف قرآن ثابت ہونگے ؟ہم فی الحال ایک دقیق نکتہ کی طرف اشارہ کرنے سے پرہیز کر رہے ہیں کیونکہ خود طوالت ایک جگہ اور دوسری جگہ تحریف قرآن کی بحث کو نہ چھیڑنا مانع بن رہا ہے مزید تبصرہ کے لیے ۔ورنہ ابن عباس کی روایت سے دقیق مطالب اخذکئے جاسکتے ہیں جس پر کلام کسی اور دن کا رہا۔

اقول:ہمیں بھی معلوم ہے کہ آپ کا مذہب اثنا عشری ہے، جب چاہا اپنے ائمہ کی صحیح حدیث کو تقیہ پر محمول کر دیا۔ جب چاہا اصحاب الاجماع کی مرسل روایات سے استدلال کیا، اور ساتھ ہی لکھ دیا کہ ہمارے بعض علماء کے نزدیک ایسی روایات مقبول ہیں، اور جب چاہا اصحاب الاجماع کی مرسل روایات پر علماء کے ایک گروہ کا اعتراض نقل کر کے جان خلاصی کی ناکام کوشش کی۔ اگر یہ آیت ایسی ہی نازل ہوئی تھی، تو آپ کے ایک امام نے یہ آیت غلط پڑھی۔ کیونکہ آپ مختلف قرآت پر ایمان نہیں رکھتے، بلکہ صرف ایک قرات پر آپ کا ایمان ہے، لہذا یہ تو ہو نہیں سکتا کہ آپ کہیں کہ امام جعفر اور امام باقر کی روایات میں جو اس آیت میں اختلاف ہے، تو یہ قرات میں اختلاف کی وجہ سے ہے۔ ہمارے نزدیک یہ قرات شاذ ہے، متواتر نہیں۔


قولہ : اس مضمون میں ایک مشہور روایت جو اہلسنت حضرات کے ہا ں امام علی سے علماء منسوب کرتے ہیں ،اس کا دفاع کرینگے اور اس کی صحت مخالفین کے اصول و قوانین کی روشنی مین ثابت کرینگے ۔
اعتراض:امام علی کی روایت جس میں متعہ کی اجازت کی صورت میں زنا فقط شقی کرتا مین حکم بن عتیبہ اور امام علی کے درمیان انقطاع ہے۔
جواب:کلام حنفی صاحب ۔ہم اطمینان سے یہ بات کہتے ہیں کہ آپ حنفی ہیں تو احناف کے علم اصول حدیث کی تو رعایت کریں ۔اس روایت میں انقطاع ہونے کے باوجود یہ روایت آپ کے اصول حدیث کے پیش نظر قابل احتجاج و قابل استدلال ہے ۔اس کی توضیع عنقریب آرہی ہے ،لیکن تفصیل دینے سے پہلے اگر کلام حنفی اس تحقیق اور احناف کے طریقے سے متفق نہ ہوں تو صراحت کے ساتھ احناف کے اس وضعی اصول کی کھل کر مخالفت کریں اور کہیں کہ اس معاملہ میں ،میں حنفی نہیں ۔

اقول :خیر طلب صاحب کی اصول پسندی کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ اس سے قبل ابن عباس ؓ کے رجوع کی روایت کو امام زہری ؓ کی مرسل قرار دے کر رد کرنے کی کوشش کی، اور یہاں پر حکم بن عتیبہ کی ’’مرسل‘‘ روایت کو لے کر اپنا موقف ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔معلوم ہوا کہ مسئلہ مرسل اور غیر مرسل کا نہیں، بلکہ پسند اور ناپسند کا ہے۔یہ پسند اور نا پسند کا اصول تمام اصولوں میں قبیح ترین ہے اور اس سے آپ خیر طلب کا دوہرا پن بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ اس روایت کا مرسل ہونا تو آپ نے تسلیم کر لیا، اب یہ بھی سن لیجئے کہ حکم بن عتیبہ مدلس بھی تھا۔ حکم بن عتیبہ کو ابن حجر نے مدلس قرار دیا۔ ﴿طبقات المدلسین ج ۱ ص ۳۰﴾ اور اس کے ساتھ ہی لکھا ہے کہ اس کو امام نسائی اور دارقطنی نے بھی تدلیس کے ساتھ موصوف کیا ہے۔ اسی طرح ابن حبان نے بھی اس کے متعلق کہا ہے وکان یدلس ﴿الثقات لابن حبان ج ۴ ص ۱۴۴﴾ اب احناف کا اصول بھی ملاحظہ کیجئے۔ سرفراز خان صفدر حنفی صاحب خزائن السنن میں فرماتے ہیں ’’مدلس راوی عن سے روایت کرے تو وہ حجت نہیں اِلَّا یہ کہ وہ تحدیث کرے یا اس کا کوئی ثقہ متابع ہو‘‘ ﴿خزائن السنن ج ۱ ، ص ۱﴾ اب ایک روایت جو کہ مرسل ہے، اور اس میں مدلس کا عنعنہ بھی موجود ہے، اس کو آپ ایک صحیح و متصل سندکے مقابلے میں پیش کر رہے ہیں، جو کہ تواتر کے ساتھ مروی ہے، اور جو کہ متفق علیہ بھی ہے۔

قولہ : چونکہ حکم بن عتیبہ تابعی ہے اور انہوں نے امام علی ع سے روایت کو منسوب کیا ہے تو یہ روایت مرسل کے حکم میں آتی ہے ۔اس حوالے سے ہم برادر محترم اسمعیل دیوبندی کی تحقیق سے استفادہ کرینگے جنہوں نے مرسل کے حکم پر کافی اچھا کلام کیا ہے ۔
امام حاکم کی ایک تصنیف الاکلیل اسی فن سے متعلق ہے۔لیکن یہ کتاب کافی مختصر تھی اس لیے اس پر امام حاکم نے خطبہ لکھا ہوا ہے جو ’’المدخل الی معرفۃ کتاب الکلیل ‘‘کے نام سے معروف ہے ۔
امام حاکم مرسل کی تعریف اور حکم کے باب میں رقمطراز ہیں :
فالقسم الاول منھا المراسیل وھو قول الامام التابعی او تابع التابعی قال رسول اﷲ :وبینہ وبین رسول اﷲ قرن او قرنان ،ولا یذکر سماعہ فیہ من الذی سمعہ (والمعتمد ما قالہ الحاکم فیہ المعرفۃ )فھذہ احدیث صحیحۃ عند جماعۃ ائمۃ اھل ال کوفہ کابراھیم بن یزید النخعی و حما د بن ابی سلیمان وابی حنیفۃ النعمان بن ثابت وابی یوسف یعقوب بن ابراہیم القاضی و ابی عبداﷲ محمد بن الحسن الشیبانی فمن بعدھم من ائمتھم محتج بھا عند جماعتھم
کہتے ہیں :مرسل سے مراد تابعی یا تبع تابعی کا قول ہے جو رسول اﷲ سے نقل کرے جبکہ اسکے اور رسول اﷲ کے درمیان ایک یا دو واسطوں کا فاصلہ ہو لیکن راوی ان واسطوں کا ذکر نہ کرے جس سے اس نے حدیث سنی ہو(کتاب کے محقق احمد بن فارس السلوم اس تعریف کی شرح میں کہتے ہیں کہ مستند تعریف وہ ہی ہے جو امام حاکم نے اپنی کتاب۔۔معرفۃ علوم الحدیث ۔۔میں بیان کری ہے یعنی صرف تابعی روایت کرے نہ کے تبع تابعی )مرسل کا حکم یہ ہے کہ مرسل احادیث صحیح ہیں اہل کوفہ کہ ایک جماعت کے نذدیک جن میں ابراہیم نخعی حماد بن ابی سلیمان امام ابوحنیفہ امام ابو یوسف امام محمد اور انکے بعد آنے والے دیگر آئمہ شامل۔
حوالہ :المدخل الی معرفۃ کتاب الاکلیل ۔ص۔۱۶۰
حافظ ابو نعیم اصفھانی نے حاکم کی کتاب ۔۔معرفۃ علوم حدیث ۔۔پر کچھ قواعد کا اضافہ کیا انکی کتاب۔۔المستخرج علی معرفۃ علوم حدیث۔۔کے نام سے ہے ،انکے بعد خطیب بغدادی کانام آتا ہے جنہوں نے علل حدیث کے اکثر فنون پر تصانیف لکھیں انکی تصانیف میں سے ۔۔الکفایۃ فی علم الروایۃ ۔۔فن اصول حدیث میں حد درجہ استناد رکھتی ہے ۔
حکم مرسل کے باب میں خطیب رقم طراز ہیں
وقد اختلف العلماء فی وجوب العمل بما ھذہ حالہ فقال بعضھم انھ مقبول ویجب العمل بہ اذا کان المرسل ثقہ عدلاوھذاقول مالک وہل المدینہ وابی حنیفہ واھل المدینۃ وابی حنیفہ واھل العراق وغیرھم
کہتے ہیں :مرسل روایت پر عمل کی بابت علماء میں اختلاف ہے نعض علماء کہتے ہیں مرسل مقبول ہے اور اس پر عمل کرنا واجب ہے جبکہ ارسال کرنیوالاراوی ثقہ اور عادل ہو اور یہ قول امام مالک ،امام ابو حنیفہ ،اہل مدینہ اور اہل عراق کا ہے ۔
حوالہ :الکفایۃ فی علم الروایۃ ۔ص۔۳۳۳
حافظ ابن رجب حنبلی مرسل سے استدال کے باب میں لکھتے ہیں
وقد استدل کثیر من الفقہاء بالمرسل وھو الذی ذکرہ اصحابنا انہ الصحیح عن الامام احمد وھو قول ابی حنیفۃ واصحابہ واصحاب مالک ایضا:
فرماتے ہے :فقہاء کی بڑی جماعت نے مرسل روایت سے استدلال کیا ہے اور یہی (مرسل سے استدلال کا )قول ہمارے اصحاب نے امام احمد بن حنبل سے نقل کیا ہے اور یہی صحیح قول ہے اور یہی قول امام ابو حنیفہ اور انکے اصحاب اور مالکیہ کا بھی ہے ۔
حوالہ:شرح علل الترمذی ۔صفحہ ۱۱۶
نوٹ:برادر اسمعیل دیوبندی کا کلام ختم ہواجاتا ہے
فی الحال ہم ان حوالجات پر اکتفاء کر رہے ہیں ورنہ احناف کے علماء نے خود مرسل کے حجت پر دلائل باہرہ دیے ہیں جو کلام صاحب کے اعتراض کی صورت میں ہم تفصیل سے عرض کر دینگے ۔کیونکہ ہم قدم بقدم چلنا چاہ رہے ہیں ۔

اقول : اگر ہم اس روایت کو مرسل بھی تسلیم کر لیں ، تب بھی احناف ہی کے کئی اصولوں کے مطابق یہ روایت قابل حجت نہیں ہے۔ اس میں حکم بن عتیبہ الکندیؒ اپنے سے قوی تر راوی حضرت محمد بن حنفیہؒ کی مخالفت کر رہا ہے، لہٰذا یہ روایت شاذ کے زمرے میں آئے گی۔ اور شاذ کی مخالف روایت کو محفوظ کہا جاتا ہے ، لہٰذا جو روایت میں نے بیان کی، وہ محفوظ ہے، اور یہ روایت شاذ ٹھرے گی۔نیز اس میں انقطاع ہے، جب کہ میں نے جو روایت پیش کی، وہ متصل ہے۔ متصل سند کے مقابلے میں منقطع سند کو پیش کرنا اور اس کو متصل سند سے زیادہ قابل اعتماد سمجھنا عجیب منطق ہے۔ اور میں نے جو روایت بیان کی، وہ مشہور ہے چنانچہ علامہ عبد الحئی لکھنوی ؒاپنی کتاب میں فرماتے ہیں ’’وقد یطلق المشھور علی ما اشتھر علی السنۃ الناس فیصدق علی اخبار الآحاد التی انتشرت فی الآفاق وکتب فی الاوراق ایضا‘‘﴿ظفر الامانی فی شرح مختصر الجرجانی ص ۱۴﴾ اب فرمائیے آپ کی یہ روایت کیوں مشہور کہلائے گی؟ہاں آج کل شیعہ اسے مشہور بنانے کی کوششوں میں ضرور لگے ہوئے ہیں، شاید اگلی چند دہائیوں میں اسے’’ مشہور ‘‘ بنا ہی ڈالیں گے۔ اور جس مرسل پر احناف اعتبار کرتے ہیں، اس کے بارے میں بھی علامہ عبد الحئی لکھنوی نے واضح کر دیا ہے کہ ’’المرسل انما ھو ما ارسلہ راوی الحدیث وترک الواسطۃ بینہ وبین النبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم لا مجرد قول کل من قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وعلٰی آلہ وسلم والالزم ان یکون قول العوام والسوقیۃ قال رسول اﷲ کذا مرسلا والوجہ فیہ ان الارسال والانقطاع و نحو ذلک من صفات الاسنادہ یتصف الحدیث بہ بواسطتہ فحدیث لا اسناد فلا ارسال ولا اتصال وانما ھو مجرد نقل اعتماد علی الغیر ‘‘ یعنی مرسل وہ ہے جسے راوی حدیث (تابعی) بیان کرے ، اپنے اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے درمیان واسطہ چھوڑ دے، ورنہ لازم آئے گا کہ کوئی عامی اور بازاری آدمی بھی قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کہے تو اسے مرسل کہا جائے۔ ارسال و انقطعاع وغیرہ اسناد کی صفات ہیں۔ جہاں کوئی سند ہی نہیں، وہاں نہ ارسال ہے نہ انقطاع ہے اور نہ ہی اتصال، بلکہ یہ صرف دوسرے پر اعتماد کرتے ہوئے نقل محض ہے۔﴿ظفر الامانی فی شرح مختصر الجرجانی ص ۱۹۰﴾ اور اسی کی تائیدجناب سرفراز خان صفدر صاحب کی کتاب سے بھی ہوتی ہے ، جنہوں نے فرمایا ’’مرسل وہ روایت ہے جس کو کوئی تابعی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے روایت کرے اور صحابی کا نام نہ لے‘‘ ﴿مقدمہ خزائن السنن﴾ خیر طلب نے امام حاکم ؒسے جو تعریف نقل کی ہے، اس میں بھی مرسل سے مراد یہی ہے۔ اور مرسل کی یہی وہ قسم ہے جس پر احناف اعتبار کرتے ہیں، لیکن کیا یہ روایت بھی مرسل کی اس تعریف کے زمرے میں آتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ یہ روایت اصل میں منقطع ہے، اگرچہ منقطع کو مرسل بھی کہا گیا ہے، لیکن دونوں میں فرق ہے جیسا کہ مرسل کی تعریف سے آپ سمجھ سکتے ہیں۔ سنن ترمذی کی ایک روایت پر انہوں نے جرح کی ، جس میں عبد الجبار تابعی اور ان کے والد حضرت وائل ؓ کے درمیان انقطاع تھا۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے علامہ سرفراز خان صفدر نے فرمایا ’’امام نووی شرح المہذب ج ۲ ص ۱۰۴ میں لکھتے ہیں کہ الائمہ متفقون علٰی ان عبد الجبار لم یسمع عن ابیہ شیئاً وقال جماعۃ انما ولد بعد وفات ابیہ بستۃ اشھر وراجع التھذیب ج ۶ص ۱۰۵ تو یہ روایت منقطع ہے درمیان کی کڑی غائب ہے۔ ‘‘ ﴿خزائن السنن ج ۱ ص ۸۱﴾پس حکم بن عتیبہ الکندیؒ کی روایت میں بھی درمیان کی کڑی غائب ہے اور اس وجہ سے اس کی بھی اسنادی حالت کمزور ہے۔

قولہ : اعتراض امام علی نے ابن عباس کو متعہ سے منع کیا اور ممانعت متعہ و گدھے کے گوشت سے استدلال کیا
جواب:ہم اس روایت کا جواب یوں دیتے ہیں کہ اس روایت کا اصل مضمون وہ صحیحین کی روایت ہے جس میں امام علی نے خیبر کے دن متعہ کی حرمت کا اعلان کر رہے ہیں ۔تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کچھ بات اس روایت پر بھی کر لی جائے ۔
تنقیح اول صحابی کو گمراہ کہنا:
کلام صاحب کے ہم بے حد ممنوع و مشکور ہیں جنہوں نے ترجمہ میں امام علی کے الفاظ نقل کئے اس میں جناب ابن عباس کو گمراہ ہونے کا سرٹیفکیٹ ملا ہے ۔چناچہ ہم گمراہ صحابی جو ستاروں کی مانند تھے ان میں ایک اور اضافہ دیکھتے ہیں ۔یقینا جو حضرات ہم پر طعن صحابہ کا الزام لگاتے ہیں وہ بھلا اس شائستہ تھذیب و تمدن کو دیکھیں کہ ایک صحابی کو گمراہ کہا جائے تووہ رحمۃ اﷲ اور اگر شیعہ کہہ دے تو لعنت اﷲ ؟یقینا مصنفین انصاف کرینگے ۔

اقول : ابن عباسؓ کے متعلق شیعہ روایات اور ائمہ معصومین کے اقوال ہم پہلے ہی پیش کر چکے ہیں، اس کو دیکھ کر ایک شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ خود ائمہ معصومین کی نظر میں ابن عباس ؓ نہ صرف گمراہ، بلکہ ملعون اور خائن بھی تھے۔ بلکہ ائمہ حضرات تو ابن عباس ؓ کی علمی حیثیت کا مزاق اڑاتے رہتے ،اور اپنے کارندوں کو بھیجتے تاکہ ابن عباسؓ کو نیچا دکھا سکیں۔ اہل بیت کی کشتی میں سوار افراد کے متعلق جو شیعہ روایات موجود ہیں، ان پر تبصرہ کسی اور دن رہا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہماری کتب میں تو ابن عباس ؓ کا رجوع ثابت ہے، پس گمراہی سے تائب ہو گئے، شیعہ کتب میں تو وہ گمراہی پر مرے اور قیامت تک گمراہ رہنے کی نوید ہے۔


قولہ : تنقیح دوم :دلیل جامع و مانع ہونی چاہیے:
خود علماء اہل سنت اس بات کے معترف ہیں کے خیبر کے دن متعہ کلیتا منسوخ نہیں ہواتھا بلکہ انہوں نے سات مقامات کا ذکر کیا ہے جس میں متعہ حلال و حرام ہو ا۔لہذا امام علی کو ان اختلافات روایات کے پیش نظر ایسی بات کرنی چاہیئے تھی جس سے مخالف خاموش ہوجاتا۔یعنی امام علی کم سے کم اگر سات موارد کا ذکر نہیں کرتے تو آخری مرتبہ جب قیامت تک کے لیے حرام ہوا،اس موقع کا ذکر کرتے جو ہمارے مقابل کے نذدیک فتع مکہ کا موقع تھالیکن امام علی نے اہل سنت روایات کے مطابق خیبر کی دلیل دے کر بہت سارے اشکالات کو جنم دیا ۔جب ہی ہم دیکھتے ہیں کہ ابن عباس کو اتنے سمجھانے کے باوجود وہ گمراہ کے گمراہ ہی رہے اور متعہ سے رجوع نہیں کیا ؟ابن عباس کا عدم رجوع اب روایت کے بطلان کے لئے کافی ہے ۔

اقول : ابن عباس ؓ کا رجوع تو ہم ثابت کر چکے ہیں،اس لئے خیر طلب صاحب کوئی نیا اعتراض ڈھونڈنے کی کوشش کریں۔ چونکہ ابن عباس ؓ کا رجوع ثابت ہو چکا ہے، اس لئے اب میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ ابن عباس ؓ نے حضرت علیؓ کی طرف سے سخت مذمت کے بعد اپنے موقف سے رجوع کیا۔اور حضرت علی ؓ نے خیبر کا ذکر کیا، لیکن ابن عباس ؓ ان کا رد نہیں کرسکے۔ اس لئے یہ ایک اور دلیل ہو گئی کہ خیبر میں متعہ کو رسول اﷲ ﷺ نے حرام قرار دیا۔ اور اس سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ یہ دلیل جامع و مانع تھی۔ اس وجہ سے ابن عباس ؓ جواب نہ دے سکے۔ اس کے علاوہ ابن عباس ؓ چونکہ فتح مکہ کے موقع پر موجود نہیں تھے، لہذا حضرت علی ؓ کو فتح مکہ کا تذکرہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔دوسری بات یہ ہے کہ چونکہ حضرت علی ؓ نے خیبر میں متعہ کے حوالے سے رسول اﷲ ﷺ کا فرمان خود سنا، لہذا یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ انہوں نے جنگ خیبر کا تذکرہ کیا۔ایک اور وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ خیبر سے پہلے متعہ کو حرام قرار دینے کے سلسلے میں کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا، لہذا حضرت علی نے اس وجہ سے خیبر کا ذکر کیا۔اور چونکہ خیبر میں پہلی بار متعہ کو حرام قرار دیا گیا تھا، لہذا غالب امکان یہ تھا کہ اس سے مسلمانوں کی اکثریت باخبر ہوئی ہوگی۔اس وجہ سے حضرت علی ؓ نے دیگر واقعات کی بجائے خیبر کا ذکر کیا۔اور پھر یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ جامع و مانع دلیل لانا کوئی فرض نہیں ہوتا، خاص طور پر جب یہ بھی معلوم ہو کہ اگلے کے پاس اس چھوٹی سی بات کا جواب بھی نہیں ہوگا۔ مثال کے طورپر کوئی شخص کسی روایت کو صحیح ثابت کرنا چاہتا ہو، تو شیخ البانی کا حوالہ دے دیتے ہیں۔ اب جامع و مانع دلیل تویہ ہونی چاہئے کہ روایت کے تمام راویوں پر جرح و تعدیل کر کے اس کو صحیح ثابت کیا جاتا، لیکن جب موصوف یہ جانتے ہوں کہ ان کا مدمقابل شیخ البانی صاحب کی تصحیح کا رد پیش نہ کر سکے گا، تو خواہ مخواہ تمام راویوں پر جرح و تعدیل کرنے کی کیا ضرورت ہے۔

قولہ : تنقیح سوم :خودعلماء اہل سنت خیبر کے دن کے نہی کو رد کرتے ہیں
ہمارے پاس ابھی من و عن عبارت و ترجمہ کانہ وقت ہے اور نہ ہی تحریر کا ہجم اس کی اجازت دیتا ہے ۔البتہ ایک قول نقل کرنے پر اکتفاء کرتے ہے جو واقعی اپنے ثقل و ہجم کے لحاظ سے اتنا قوی ہے کہ مقابل کو مسکت کر دے گا۔
چناچہ سھیلی رقم طراز ہے :
وھذا شی ء لا یعرفہ احد من اھل السیر
خیبر کے دن متعہ کے منع کے حوالے سے کوئی سیرت نگار نہیں جانتا۔
حوالہ :الروض الانف ۔جز ۔۶،صفحہ ۔۵۵۷
لہذا اس روایت کو دلیل کے طور پر نقل کرنا مضبوط نہیں ۔

اقول :اہل سیر کے جاننے یا نہ جاننے سے قطعاََ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جب کہ ہم نے صحیح اسناد سے ثابت کر دیا ہے کہ خیبر کے دن متعہ کو حرام قرار دیا گیا۔ اگر ہم اہل سیر کے جاننے یا نہ جاننے کو ہی روایات کی جانچ پڑتال کا بنیادی اصول بنا لیں، تو پھر ایک الگ باب کھل جائے گا جس میں اہل تشیع خود پریشان حال ہو جائیں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ حضرت علی ؓ کی روایت متفق علیہ کا درجہ رکھتی ہے۔اس کے علاوہ ابن عمر ؓ اور ابوسعید خدری ؓ سے بھی یوم خیبر کے دن متعہ کی تحریم نقل ہوئی ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے۔اور ضعیف اسناد کی میں بات نہیں کر رہا ورنہ حق تو بنتا ہے کیونکہ خیر طلب صاحب نے ابن حزم کے قول کو نقل کیا ، تاکہ بعض صحابہ کو حلت متعہ کا قائل سمجھا جائے، اگرچہ ابن حزم کے قول کے علاوہ خیر طلب کے پاس اس کے ثبوت کے لئے کوئی سند نہیں، جید یا ضعیف سند کی تو بات ہی مت کیجئے۔اگر ضعیف اسناد کی بات کی جائے تو خیبر کے دن متعہ کے حرام ہونے کا قول نقل کرنے والوں کی فہرست میں کعب بن مالک ؓ اور ثعلبہ ؓ کو بھی شامل کر لیجئے۔

قولہ : کلام صاحب جب اپنی روایات پر ضعیف کلام کر کے فارغ ہوئے تو ہماری ایک الکافی کی روایات جو جز۔۵ ،صفحہ ۔۴۴۸ طبع ایران میں ہے اس کو علامہ مجلسی کے توسط سے مجہول ثابت کیا اور بغلین بجانے لگے لیکن ہم انہیں مشورہ دیتے ہیں کہ کلام صاحب مانا آپ اپنی علم مصطلح الحدیث سے واقف نہیں لیکن خدایا اس بے علمی کا مظاہرہ شیعہ روایات پر مت کیا کیجیئے کیونکہ یہ دخل در معقولات کے ضمر میں سے آتا ہے ۔کیا ایک روایت مجہول ثابت ہونے سے دیگر صحیح روایات ضعیف ہوجاتی ہیں ؟نہیں ہرگز نہیں ۔اب ہم ایک روایات شیخ طوسی کی کتا ب سے نقل کرتے ہیں
شیخ رقم طراز ہے :
وعنہ عن محمد بن اسمعیل عن الفضل بن شاذان عن صفوان بن یحیی عن ابن مسکان قال:سمعت ابا جعفر علیہ السلام یقول :کان علی علیہ السلام یقول :لولاماسبقنی الیہ بنی الخطاب مازنی الا شقی
ابن مسکان فرماتے ہیں کہ میں نے ابو جعفر علیہ السلام یعنی امام باقر علیہ السلام سے سنا ہے کہ علی نے کہا اگر عمر بن خطاب نکاح متعہ کو حرام قرار نہ دیتے تو سوائے شقی کے کوئی زنا نہیں کرتا۔
حوالہ :تھذیب الاحکام ۔جز ۔۷،صفحہ ۔۲۵۰
اس روایت کی سند میں سارے راوی ثقہ ہیں اور یہ روایت قابل احتجاج ہے ۔اس لیے کلام صاحب دوسروں کو درس دینے سے پہلے تحقیق کر لیا کریں ۔

اقول : اس روایت کے سارے راوی ثقہ ہیں، لیکن خیر طلب کی معلومات میں اضافہ کرتے چلیں کہ تہذیب الاحکام کی یہ روایت پوری کی پوری وہی ہے جو کہ الکافی کی روایت ہے، اور شیخ طوسی نے اسے نقل بھی کلینی سے کیا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جو مجہول راوی تھا، اس کوشیخ طوسی نے درمیان سے اڑا دیا ہے۔ چنانچہ اس کی سند ملاحظہ فرمائیے:
عنہ ﴿محمد بن یعقوب الکلینی﴾ عن محمد بن اسماعیل عن الفضل بن شاذان عن صفوان بن یحیی عن ابن مسکان قال : سمعت ابا جعفر علیہ السلام یقول : کان علی علیہ السلام یقول : لو لا ما سبقنی الیہ بنی الخطاب ما زنی الا شقی

چنانچہ مجلسی نے شیخ طوسی صاحب کے اس کارنامے کے اعتراف میں اس روایت کو مجہول کالصحیح قرار دے دیا۔﴿ ملاذ الاخیار فی فھم تھذیب الاخبار ج ۱۲ ص ۲۹
طوسی صاحب نے تہذیب الاحکام میں ایک راوی کو سند سے نکال باہر کیا، اور الاستبصار میں دو راویوں کو سند سے نکال باہر کیا۔ چنانچہ استبصار میں آپ کو یہ سند یوں ملے گی۔
عنہ (محمد بن یعقوب الکلینی) عن محمد بن اسماعیل عن الفضل بن شاذان عن ابن مسکان قال سمعت ابا جعفر علیہ السلام یقول کان علي علیہ السلام یقول : لو لا ما سبقنی الیہ ابن الخطاب ما زنی الا شقی ﴿الاستبصار ج ۳ ص ۱۴۱
اب خیر طلب صاحب جان گئے ہونگے کہ تہذیب الاحکام میں اس کے تمام راوی کیوں ثقہ نظر آتے ہیں۔ اور اہلسنت کی کتب میں تو اس روایت کو مشہور ثابت کرنا ایران کے کمال حیدری کے بس کا بھی کام نہیں، ان چھوٹے حیدری صاحب کی تو بات ہی مت کیجئے۔خلاصۃ الایجاز میں شیخ مفید نے امام باقر کی طرف یہ قول منسوب کیا ہے کہ إن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم تزوج بالحرۃ متعۃ یعنی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک آزاد عورت سے متعہ کیا۔ اور اس کے بعد اگلی روایت میں فرمایا کہ شیخ صدوق نے اپنی سند کے ساتھ روایت کی ہے کہ أن علیا علیہ السلام نکح بالکوفۃ امرأۃ من بني نھشل متعۃ یعنی حضرت علی نے کوفہ میں بنی نہشل کی ایک عورت کے ساتھ متعہ کیا۔﴿خلاصۃ الایجاز ص ۲۵﴾ یہ تو کذب ِ صریح ہے جیسا کہ ہم جانتے ہیں ۔ اس کے بعد شیخ مفید کہتے ہیں : وبأسانید کثیرۃ إلی عبد الرحمان بن أبي لیلی قال سألت علیا علیہ السلام ھل نسخ آیۃ المتعۃ شیٔ ؟ فقال : لا ، ولو لا ما نھی عنھا عمر ما زنی إلا شقي۔ ذکر أسانیدھا الشیخ في التھذیب
اور بہت سی سندوں سے عبدا لرحمان بن ابی لیلی سے مروی ہے کہ اس نے کہا : میں نے حضرت علی سے پوچھا کہ کیا متعہ کی آیت کو کسی چیز نے منسوخ کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا ، نہیں! اور اگر عمر نے منع نہ کیا ہوتا تو شقی کے علاوہ اور کوئی زنا نہ کرتا۔اس کی اسناد کو شیخ نے تہذیب میں ذکر کیا ہے۔
میں کہتا ہوں کہ شیخ کا حال تو آپ نے دیکھ لیا، شیخ کے پاس تو ایک کلینی کی سند ہے، اس میں بھی شیخ نے تہذیب میں ایک راوی نکال دیا، اور استبصار میں ایک اور راوی کو بھی نکال دیا۔ شیخ صاحب اور اسناد کیا ذکر کرتے، جو ایک واحد سند ہے ، وہ بھی شیخ کے ہاتھوں میں پہنچ کر اپنی اصلی حالت کھو بیٹھی۔اس کے علاوہ جن بہت سی اسناد کا شیخ مفید نے تذکرہ کیا ہے، وہ ہمیں شیخ کی تہذیب الاحکام میں نہیں میں۔ اور اگر مل بھی جاتیں، تب بھی بات عبد الرحمان بن ابی لیلی پر جا کر رک جاتی، کیونکہ عبد الرحمان بن ابی لیلی کی توثیق کسی شیعہ عالم نے نہیں کی۔خیر طلب کو اگر یہ بہت سی اسناد کہیں مل جائیں تو ہم امید رکھتے ہیں کہ اگلے جواب میں ضرور شامل کر کے قارئین کے ذہنوں سے کم از کم ایک یہی اشکال ہی دور کر دیں گے۔سوال یہ ہے کہ جب یہ روایت اہلسنت کی کتب میں بھی مشہور نہیں، اثنا عشریہ کی کتب میں بھی مشہور نہیں،زیدیہ کی کتب میں بھی مشہور نہیں، بلکہ زیدیہ بھی اہل سنت کی طرح متعہ کا حرام ہونا اور اس پر اپنے ائمہ اہل بیت کا اجماع نقل کرتے ہیں، تو آخر یہ روایت کن کی کتب میں مشہور ہے تاکہ اس پر اعتبار کیا جاسکے؟اور کس دلیل کی بنا پر خیر طلب نے اس کو مشہور قرار دیا ہے؟

0 comments: