قولہ : اعتراض:حمیری شیعہ بقول مبلغ اعظم محمد
اسمعیل شراب پیتا تھا۔
جواب :علامہ اسمعیل صاحب نے تنقیع المقال
للماقانی سے جوبات نقل کی ہے وہ اسمعیل بن محمد الحمیری کے ترجمہ میں ملتی ہے
۔ادھر خود علامہ عبدﷲ مامقانی نے تین اقوال اس راوی کے عنوان سے نقل کئے ہیں :
۱۔یہ راوی ثقہ ہے ۔ ۲۔یہ راوی
ممدوح ہے ۔ ۳۔یہ راوی ضعیف ہے ۔
تیسرے قول کے ذیل میں انہوں نے یہ بات نقل کی ہے :
(انہ کان یشرب الخمر) وہ شراب پیتا تھا۔
حوالہ:تنقیع المقال۔جز۔۱۰۔صفحہ ۔۳۱۲
اس روایت کا اصل مرجع دراصل رجال کشی کی روایت ہے
جس کے بارے میں آیت اﷲ العظمی سید خوئی رقم طراز ہے:
(واما مارواہ الکشی ،من الروایات،فھی ضعیفۃ السند)
اور جو روایات کشی نے نقل کی ہیں وہ ساری ضعیف
اسناد سے مروی ہیں ۔
حوالہ:معجم رجا ل الحدیث۔جز۔۴۔صفحہ ۔۹۴۔رقم راوی ۔۱۴۳۲
لہذا کلام صاحب ادھر ادھر کے قول نقل کرنے کے
بجائے کم سے کم اپنی منھج پر تو قائم رہتے جو کسی عالم اہلسنت کو خاطر میں نہیں
لاتابلکہ سند پر اعتراض کرناوظیفہ عاجلہ سمجھتا ہے ۔پس اس وظیفہ سے ہم نے بھی ابھی
استفادہ کر لیا۔
اقول : خیر طلب کی حرکت
سے ہم کافی محظوظ ہوئے۔ موصوف کے اپنے علماء جب کسی شخص کے بارے میں کچھ کہہ دیں،
تو موصوف اسناد کی طرف دوڑنے لگتے ہیں۔ اور جب اپنا مفاد ہوتا ہے تو اسناد کو ایک
طرف رکھ کر علماء کے اقوال کی طرف رجوع کرتے ہیں۔پس جس طرح خیر طلب کو سند کی طرف
رخ کرنا پڑا، اس طرح ہم نے بھی کیا۔ موصوف ہم پر تو الزام دھرتے ہیں، لیکن یہاں
آکر خود ہی پھنس گئے، اور اپنے مبلغِ اعظم مولوی اسماعیل اور دیگر شیعہ علماء کو
ایک طرف کر کے سند کی طرف بھاگ پڑے۔
قولہ : کلام صاحب کو اجمالا ہم نے کہا تھاکہ
استمناء بہت سارے اہل علم نے جائز قرار دیا۔تو کیا سارے مسلمان خواہشات کو مٹانے
کی خاطر وہ کرنے لگ جائیں اور یہ کہاتھا کہ اسلام الگ ہے اورماننے والے الگ ہیں
دونوں میں نسبت تساوی نہیں ۔اس پر ہونا یہ چاہیئے تھا کہ اس کا شافی کافی جواب دیا
جاتا ہے ۔کلام صاحب نے روایتی انداز میں فقط الزامی جواب دیتے ہوئے علامہ مجلسی کی
کتاب کا ایک فتوی نقل کیا ہے جس میں علامہ نے کہا:
﴿بیوی یا لونڈی جو دونوں حلال ہے ان کے ہاتھ سے استمناء کو جائز
قرار دیا ہے ﴾
اس سے کلام صاحب نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ
شیعہ اس فعل کو مطلقا جائز سمجھتے ہیں ۔
اقول : ہمیں بار بار خیر
طلب کی علمی خیانتوں سے واسطہ کرنا پڑ رہا ہے۔موصوف نے دھاندلیوں کے تمام ریکارڈ
توڑ دیئے ہیں۔ ہم نے حق الیقین کی عبارت یوں پیش کی تھی (اگر ہاتھ یا انگلی یا
اپنی عورت یا کنیز کے کسی اعضا سے بازی کرے تاکہ منی نکل آئے جائز ہے اور کسی
دوسری چیز سے جائز نہیں اور اپنی زوجہ یا کنیز کے ہاتھوں سے عضو تناسل کو ملنے میں
تاکہ منی نکل آئے اختلاف ہے ۔) ﴿ حق الیقین ج ۲ ص ۲۸۶﴾ اور خیر طلب فرماتے ہیں
( کلام صاحب نے روایتی انداز میں فقط الزامی جواب دیتے ہوئے علامہ مجلسی کی کتاب
کا ایک فتوی نقل کیا ہے جس میں علامہ نے کہا: بیوی یا لونڈی جو دونوں حلال ہے ان
کے ہاتھ سے استمناء کو جائز قرار دیا ہے ) ۔ یہ عبارت کیا معنی دے رہی ہے، اور
موصوف نے جو عبارت میں تحریف کر کے لکھا ہے، وہ کیا معنی دے رہی ہے، قارئین فیصلہ
کر سکتے ہیں۔ عبارت نقل کرنے میں ایسی خیانت کی ہمیں قطعاََ امید نہیں تھی۔
قولہ : کلام صاحب اگر اس عبارت میں آپ یہ دیکھا
دیں یا ثابت کر دیں کہ ایک مرد اپنے ہاتھ سے اس فعل قبیع کو انجام دے سکتا ہے تو
منہ مانگا انعام پائے ۔بیوی اور کنیز کے ہا تھ سے ہونے کو تو بالتفاق اہلسنت علماء
جائز قرار دیتے ہیں ۔جس کا حوالہ عنقریب آئے گالیکن اپنے ہاتھ سے جائز قرار دینے
کے عنوان سے کسی موثق شیعہ عالم کا قول نقل کریں جو مطلقا اس کی اجازت دیتاہو؟ھل
من مبارز؟
اقول : کلام نے عبارت پیش
کر دی ہے، عبارت کو پڑھنے والے بخوبی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب نکلتا
ہے۔ اور یہ منہ مانگا انعام ہماری طرف سے آپ اپنی جیب میں سنبھال کر رکھئے ۔ لبنان
کے مشہور شیعہ عالم آیت اﷲ فضل اﷲ سے ایک عورت نے سوال کیا:
Q.
I am a girl. Is it permissible for me to practice masturbation in order to
protect myself from committing impermissible acts? I tried to quit this habit,
but I could not because that makes me nervous and sick, knowing that I am a 30
year old single woman and I have no other choice in order to satisfy my sexual
desire?
A:
This is permissible and it is not prohibited for women to practice the secret
habit (which leads to ejaculation in men), since they do not have semen,
according to what the experts have proved, especially in the above mentioned
case that is based on preventing oneself from committing a prohibited act.
www.english.bayynat.org.lb/QA/qa.aspx?id=86
اس کا ترجمہ کرنا نہیں
چاہتا ، سمجھنے والے سمجھ سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ وسائل الشیعہ
میں حسین بن زرارہ سے مروی ہے کہ اس نے کہا سالت اباجعفر علیہ السلام عن رجل یعبث
بیدیہ حتی ینزل، قال لاباس بہ
میں نے امام باقر سے اس
شخص کے بارے میں پوچھا جو ہاتھ کے ساتھ کھیلتا ہے (یعنی مشت زنی کرتا ہے) یہاں تک
کہ انزال کر جائے۔ تو انہوں نے فرمایا : اس میں کوئی قباحت نہیں۔﴿وسائل الشیعہ ج ۲۸ ، ص ۳۶۳، الاستبصار ج ۴ ص ۲۲۷﴾
قولہ : اب اس موضوع کو درج ذیل موضوعات میں تقسیم
کرتے ہیں :
۱۔علماء اہلسنت کے اقوال استمناء
مطلقا جائز ہے ۔
۲۔علماء اہلسنت کے اقوال کے بیوی
کے ہاتھ سے استمناء حلال ہے ۔
۳۔شیعی تراث سے استمناء و خود لذتی
کی شدید مذمت۔
علماء اہلسنت کے اقوال استمناء مطلقا جائز ہے
ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ طائفہ اہلسنت اس
فعل کو جائز سمجھتی ہے اور بعض علماء اس کو حرام سمجھتے ہیں ۔اصل
استدلال ہرگزاس کی اباحت وغیرہ ثابت کرنا نہیں
اہلسنت کے نزدیک بلکہ بعض ملاوں کے فتوی اوراصل اسلام کے درمیان فرق کو واضع کرنا
ہے ۔
علامہ ابن جریر الطبری رقم طراز ہے :
(فقال العلاء بن زیاد لاباس بذلک قد کنانفعلہ فی مغازیناحدثنا بذلک
محمد بن بشار العبدی قال حدثنا معاذبن ہشام قال حدثنی ابی عن قتادۃ عنہ وقال الحسن
البصری والضحاک بن مزاحم و جماعۃ معھم مثل ذلک)
علاء بن زیاد صحابی کا فرمان ہے کہ ہم استمناء
میں کوئی قباحت نہیں دیکھتے اور ہم استمناء تو رسول اﷲ کے ہمراہ ہی جنگوں میں کیا
کرتے تھے۔حسن بصری اور ضحاک بن مزاحم اور ایک علماء کی جماعت کا یہی قول ہے۔
حوالہ :اختلاف الفقہاء،ص۔۳۰۳،الناشر :دارالکتب العلمیہ
اقول : یہاں پر خیر طلب
نے دو غلطیاں کی ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ علاء بن زیاد صحابی نہیں۔ ابن حجر
عسقلانی فرماتے ہیں (ھو العلاء بن زیاد البصري تابعي زاھد قلیل الحدیث)۔ ﴿فتح
الباری ج ۸
ص ۵۵۵﴾
اسی طرح علامہ ابوسعید
العلائی فرماتے ہیں (العلاء بن زیاد تابعي) ۔ ﴿جامع التحصیل ج ۱ ص ۲۴۹﴾
دوسری بات یہ ہے کہ فی
مغازینا کا ترجمہ(رسول اﷲ کے ہمراہ ہی جنگوں میں) کرنا غلط ہے، بلکہ اس کا ترجمہ :
(ہم اپنی جنگوں میں)۔ پورا ترجمہ یوں ہو گا ( علاء بن زیاد نے فرمایا کہ اس میں
کوئی مضائقہ نہیں، ہم اپنی جنگوں میں ایسا کیا کرتے تھے)۔ خیر طلب کو بھی عجیب و
غریب حرکتیں سوجھتی ہیں۔ بہرحال یہاں پر سوال واضح نہیں، کہ علاء بن زیاد سے سوال
کیا پوچھا گیا تھا، آیا مطلقاََ اس کے بارے میں پوچھا گیا تھا، یا مجبوری کی حالت
میں۔ کیونکہ ان کا یہ کہنا کہ ہم جنگوں میں ایسا کرتے تھے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ
مجبوری کی حالت کے بارے میں بات ہو رہی ہے۔ اور وسائل الشیعہ کی روایت میں جو لا
باس بہ یعنی اس میں کوئی قباحت نہیں کے الفاظ ہیں، تو اس کے متعلق شیعہ علماء نے
لکھا ہے کہ (حملا علی نفی الحد) یعنی اس سے مراد یہ ہے کہ استمناء کرنے پر کوئی حد
نہیں ۔ ﴿ریاض المسائل للسید علی الطباطبائی ج ۱۳، ص ۶۳۹﴾ پس جس طرح شیعہ علماء
اپنی روایت میں اس سے یہ مراد لیتے ہیں، تو اس روایت میں جو لاباس بذلک یعنی اس
میں کوئی قباحت نہیں کے الفاظ ہیں، تو اس کے متعلق ہم بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس سے
مراد بھی یہی ہے کہ استمناء کرنے پر کوئی حد نہیں۔
قولہ : علامہ ابن حزم فقیہ مذہب اہلسنت رقم طراز
ہے:
(لان مس الرجل ذکرہ بشمالہ مباح،ومس المراۃ فرجھا
کذلک مباح باجماح الامۃ کلھافاذ ہو مباح فلیس ھنالک زیادۃ علی المباح الا التعمد
لنزول المنی ،فلیس ذلک حراما اصلا)
پوری امت مسلمہ کے نذدیک چونکہ ایک مرد کا اپنی
شرمگاہ کو ہاتھ لگانے میں کوئی اشکال نہیں،اسی طرح ایک عورت کا اپنے فرج کو ہاتھ لگانا
مباح ہے ،پس جب یہ فعال مباح ہے تو اپنے ہاتھ سے عمدا منی نکالنا بھی مباح سے
تجاوز نہیں کرتا اور یہ اصلا حرام نہیں۔ حوالہ:المحلی بالاثار ،جز ،۱۲۔صفحہ ۔۴۰۷ علامہ صنعانی رقم
طراز ہے : (وقد اباح الاستمناء بعض الحنابلہ و بعض الحنفیہ ) استمناء کو بعض حنبلی
اور بعض حنفی جائز سمجھتے ہیں ۔ حوالہ :سبل السلام ۔جز،۲۔صفحہ۔۱۶۱ علامہ شوکانی نے
استمناء کو حرام کہنے کے حوالے سے لافی دلائل کا رد اپنی تنصیف ۔۔بلوغ المنی فی
حکم الاستمناء ۔۔میں کیا۔
چناچہ ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ استمناء ان حضرات
کے نذدیک جائز ہیں ۱۔علامہ بن زیاد
صحابی ۲۔حسن البصری ۳۔ضحاک بن مزاحم ۴۔ابن حزم ۵۔شوکانی ۶۔بعض احناف ۷۔بعض حنبلی
اس کے علاوہ دیگر اور صحابی و تابعین سے یہ قول
نقل ہوا ہے لیکن خوف طوالت کے پیش نظر فقط ان پر اکتفاء کیا جاتا ہے ۔ہمارے
استدلال کا ایک جز کہ ماننے والوں سے کبھی دین کا تعین نہیں ہوتاکے پیش نظر جس طرح
بعض طوائفہ کو اپنے برے افعال کے باوجود شیعیت سے منسوب کرتی ہے ،اسی طرح یہ علماء
بھی اسلام کا جنازہ فتووں کے ذریعے نکالتے ہیں ان کے اس فعل کو تعلیم اسلام نہیں
قرار دیا جائے گا۔
اقول : بعض احناف اور بعض
حنابلہ کا ہمیں جب تک پتہ نہیں چل جاتا کہ اس سے مراد کون لوگ ہیں ،تب تک اس کی
ہمارے نزدیک کوئی وقعت نہیں۔ اور علاء بن زیاد کے متعلق میں جواب دے چکا ہوں۔ ابن
حزم اگرچہ اسے حرام نہیں سمجھتے، لیکن مکروہ ضرور سمجھتے ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں
(نکرھہ لانہ لیس من مکارم الاخلاق، ولا من الفضائل)۔﴿المحلی ج ۱۱ ص ۳۹۲﴾ شوکانی نے جو رسالہ
لکھا ہے، وہ اس کے حرام نہ ہونے کے متعلق ہے۔ اس رسالے میں انہوں نے ان روایات کی
تضعیف بیان کی ہے جو استمناء کے حرام ہونے کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں۔ اور صحیح
بات یہ ہے کہ اس حوالے سے کوئی حدیث ثابت نہیں۔ نیز انہوں نے غالباََ قرآن کریم کی
آیت سے استدلال کو بھی غیر صحیح قرار دیا ہے۔ بہرحال ان کے نزدیک استمناء حرام
نہیں، بلکہ مکروہ ہے۔ حضرت حسن بصری سے جو قول منسوب ہے، اس کی سند میں اشکال
ہے۔ضحاک سے اس قول کی سند ہمیں نہ مل سکی۔ پس جان لیجئے کہ جمہور کے مطابق استمناء
حرام ہے، بعض احناف اور حنابلہ کہتے ہیں کہ زنا کا خوف ہو، تواستمناء جائز ہے۔ کسی
حنفی یا حنبلی کا قول ہمیں نہیں ملا جو یہ کہتا ہو کہ استمناء مطلقاََ مباح ہے۔
اور ہمارے لئے جمہورکا قول کافی ہے کہ استمناء حرام ہے۔اور رہی یہ بات کہ اہلسنت
علماء فتووں کے ذریعے اسلام کا جنازہ نکالتے ہیں، تو یہ کسی جاہل اور متعصب کا
ایسا قول ہے کہ جس کو انصاف سے کبھی دور کا بھی واسطہ نہ رہا ہو۔اور نہ ہی اس جاہل
کے واسطے یہاں پر شیعہ علماء کے مضحکہ خیز فتوے یہاں پر نقل کرنے کی ضرورت سمجھتا
ہوں، کیونکہ اس جاہل کو ان فتووں کا علم بھی ہے۔
قولہ : ذیل میں علامہ مجلسی کے فتوی کو جس رنگ
میں پیش کیا گیا ہے اس کا جواب ان ہی کے علماء کی تحریرات کی روشنی میں دیا جاتا
ہے۔
سلفی عالم دین شیخ سلیمان بن عبدﷲ الماجد ایک
فتوی یو ں صادر کرتے ہیں:
(الحمدﷲ اما بعد۔۔الاستمناء بید الزوجہ جائز۔لعموم قولہ تعالی:والذین
ھم لفروجھم حافظون الا علی ازواجھم الایہ )
ساری حمد کا حقدار خدا ہے،اس کے بعد عرض ہے
کہاستمناء بیوی کے ہاتھوں سے کروانا جائز ہے اس آیت کے عمومی عنوان کے تحت۔۔والذین
ھم لفروجھم حافظون الا علی ازواجھم ۔۔اور جو اپنی شھوت کی جگہ کو تھامتے ہیں
مگراپنی بیویوں یا (کنیزوں سے)جو ان کی ملک ہوتی ہے۔۔۔الی آخر
حوالہ :العشرۃ والفرقۃ بین الزوجین الاستمناء
بالید اوبید الزوجہ
آکر میں ہم ایک اہلسنت عالم دین کا فتوی نقل کرتے
جو مقصد سمجھانے میں آسانی پیدا کر دیگا۔
ایک سائل یوں گویا ہوتا ہے:
کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں
کہ اگر بیوی حیض یا نفاس کی حالت میں ہویعنی بیوی قابل جمع نہ ہوجب کہ شوہر کا فعل
حرام میں پڑنے کا امکان ہویعنی اس جماع کی ضرورت ہوکیا وہ اس صورت میں اپنی بیوی
کے ہاتھوں سے استمناء کراسکتاہے ؟
جواب:ان اعذار کی وجہ سے یہ فعل مذکور جائز ہے
ورنہ مکروہ تز یہی ہے ۔
حوالہ :فتاوی دیوبند پاکستان المعروف بہ فتاوی
فریدیہ ۔جلد ۔۵صفحہ ۔۲۴۴۔طبع ۔۱۴۳۰ ہجری
کیوں کلام صاحب عقل میں بات آئی؟اب حیض و نفاس کی
حالت میں جائز اور ویسے مکروہ تز یہی وہ فعل ہے جس کو ترک کرنے کے مطالبہ میں شدت
نہ پائی جائے ۔اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ لینے کے دینے پڑ گئے ہیں ۔
شیعی تراث سے استمناء کی حرمت : اب حوالے سے ہم
صدھا تراث کو نقل کر سکتے ہیں،سردست بعض عنوانات کو نقل کرتے ہیں جس سے معاملہ کی
تحلیل آسان ہوجائے گی ،چناچہ علامہ حر عاملی وسائل الشیعہ میں ایک عنوان قرار دیتے
ہیں : باب تحریم الاستمناء یعنی استمناء کے حرام ہونے کا باب ۔ اس کے اندر علامہ ۷ روایات نقل کرتے ہیں ۔ حوالہ :وسائل الشیعہ ۔جز ۔۲۰۔صفحہ ۔۳۵۲۔۳۵۴
علامہ بروجردی اپنی بیش بہا کتاب میں ایک عنوان
قرا ر دیتے ہیں باب تحریم الاستمناء یعنی استمناء کے حرام ہونے کا باب ۔
حوالہ:جامع الحدیث الشیع جز ۔۲۰۔صفحہ ۔۳۸۱۔۳۸۳ میں کافی روایات
کو نقل کرتے ہیں ۔
روایات کا تذکرہ خوف طوالت کے تحت نہیں کیا گیا
۔فی الحال ان تین فصول پر اکتفاء کی گیا ہے ،اب مزید اب حملہ کیا گیا توویسے ہی
سناٹے والا جواب آئے گا۔
اقول : مجلسی کی عبارت
میں خیر طلب نے جو تحریف کی ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔عبارت میں کھلم کھلا تحریف بھی
کرتے ہیں اور ’’سناٹے والا جواب‘‘ کی بونگی مارتے ہوئے بھی شرم نہیں آتی۔ ہٹ دھرمی
اور ڈھٹائی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔اور میں نے استمناء بید زوجہ کی بات بھی قطعاََ
نہیں کی۔لیکن خیر طلب کی عادت پرانی ہے، جس چیز کا ذکر نہ ہو، اس کے متعلق حوالہ
جات لاکر نجانے کن ’’مومنین ‘‘کے اشکالات دور کرتے رہتے ہیں۔ پھر خیر طلب نے اپنی
کتب سے استمناء کے حرام ہونے کی روایات کا ذکر کرتے ہیں، اور متعلقہ ابواب کا
حوالہ دیتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ ہماری کتب تو استمناء کے حرام ہونے کے متعلق بھری
پڑی ہیں، جن کا میں تذکرہ کروں تو ایک رسالہ آسانی سے مرتب ہو سکتاہے۔یہ بات میرا
مخالف بخوبی جانتا ہے، لہذا اس کی ضرورت نہیں سمجھتا کہ یہاں پر استمناء کے متعلق
کتب کے حوالے دینا شروع کروں۔اور اگر خیر طلب اس سے بے خبر ہے، تو بارہ حوالے صرف
احناف کی کتب سے پیش کروں گا (انشاء اﷲ) ۔
متعہ کے حوالے سے خیر طلب
کے تمام دلائل کا رد مکمل ہو گیا،قارئین سے ہماری درخواست ہے کہ دونوں فریقین کے
دلائل کا مطالعہ کیجئے ، اور آپ کو حق و باطل میں فرق بخوبی سمجھ میں آ جائے گا۔
معتدل مزاج اہل تشیع جو کہ متعہ کو اپنی ماں بہنوں کے لئے عار سمجھتے ہیں، ان کو
بھی متعہ کے متعلق صحیح رہنمائی حاصل ہوگی، نیز غلاۃ اور روافض جو متعہ کے متعلق
شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوششیں کرتے ہیں، ان کا بطلان بھی واضح طور پر ملاحظہ
کر سکتے ہیں۔ اﷲ تعالی ہماری اس کاوش کو قبول فرمائے۔ آمین ثم آمین!
کلام
۱۴ ذیقعدہ ۱۴۳۴ ھ
۲۱ ستمبر ۲۰۱۳
0 comments:
Post a Comment