بسم اﷲ الرحمن الرحیم
الرد الثانی علی شبھات الشیعۃ فی قضیۃ المتعۃ
کچھ عرصہ قبل ایک رافضی شیعہ ’’ خیر طلب‘‘ نے متعہ کے حوالے سے اپنی ایک تحریر شائع کی۔ احقر نے اس کا جواب لکھا جس میں احقر نے متعہ کے حوالے سے خیر طلب کے دلائل کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ خیر طلب کو بھی مجبوراََ جواب لکھنا پڑا، لیکن انہوں نے احقر کے جواب کو من وعن نقل کر کے اس پر جرح کر نے سے صاف گریز کیا، نیز جن عبارات کو نقل کرنے کی زحمت فرمائی، ان میں بھی تحریف سے گریز نہ کیا ۔ خیر طلب چونکہ بڑھکیں مارنے کے انتہائی شوقین ہیں، اوراپنی تحاریر کو ’’دندان شکن ‘‘قرار دیتے ہیں،اس لئے ہم نے سوچا کہ ان کے جواب پر ایک اور جرح کر کے قارئین پر ان کے دلائل اور ان کے’’ دندان شکن‘‘ جوابات کی حقیقت واضح کر دی جائے۔
قولہ : سابقہ تحریر میں اس مسئلہ پر ہم نے بہت سارے علماء اہلسنت کے اقوال نقل کئے جو اسے نکاح المتعہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ ہم اس بات کو بخوبی جانتے ہیں اور اس کا ذکر بھی کر چکے ہیں کہ علماء اہلسنت اس کو منسوخ مانتے ہیں۔ اس بحث کا تعلق اس بات سے ہرگز نہیں تھا کہ اس کے نسخ یا اس کے عدم نسخ پر فیصلہ کیا جائے بلکہ بدیہی طور پر یہ بات عرض کرنا تھی کہ متعہ ہرگز زنا میں نہیں آتا۔ اگرچہ اس کو جائز قرار نہ دینے والے اگرچہ نہ دیں۔ اس سلسلے میں کلام صاحب اس کی منسوخیت کا تقارن و قیاس دیگر اشیاء سے کرنے لگے۔ کلام صاحب ہمیں سود وغیرہ کی مثالوں سے سمجھنا چارہے ہیں کہ فلاں چیز حلال تھی بعد میں حرام ہوگئی ، بیشک کلام صاحب ہمیں کوئی مسئلہ نہیں منسوخ کے ماننے پر۔ خود علماء اسلام نے کافی کتب ناسخ منسوخ کے حوالے سے لکھی ہے۔ لیکن بحث سردست اس کے زنا ہونے یا نہ ہونے پر تھی جس کا اس کی منسوخیت سے کوئی تعلق نہیں۔ کلام صاحب نے ہمیں سود و دیگر اشیاء کی مثال دی تو کلام صاحب سود ہو، شراب ہو جن کی حرمت نازل ہوئی، ان قبیح چیزوں کے بارے میں ایک تحدی دیتا ہوں کہ کیا رسول ص نے :
۱، ان افعال کو کرنے کا حکم دیا؟
۲، ان افعال کی طرف توجہ کو ملتفت کی؟
۳، ان افعال کو کسی برائی سے بچنے کا سامان بھم قرار دیا؟
ہرگز نہیں اور ہرگز نہیں۔ بلکہ ان قبیح چیزوں کی حرمت جس میں وہ تمام مزعوم طریقہ رھط ، بغایا، حزن اور استبضاع آجاتے ہیں۔ کسی روایت صحیحہ و مشہورہ سے آپ ثابت کر سکتے ہیں کہ ان تمام فضیح و قبیح چیزوں پر اوپر کے تین احکامات منطبق ہوتے ہوں؟
اقول: خیر طلب کے دلائل کی قلعی کھلنے کے بعد انہوں نے یہ شوشہ چھوڑ دیا کہ متعہ کا حکم دیا گیا، لیکن ان دیگر افعال کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ یاد رکھئے، میں نے رہط ، حزن اور استبضاع کا تذکرہ اس دلیل کے جواب میں کیا تھا جس میں خیر طلب نے کہا تھا کہ چونکہ متعہ کو نکاح کہا گیا ہے، اس لئے متعہ زنا نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا میں نے کہا کہ رہط، حزن اور استبضاع کو بھی نکاح کہا گیا ہے، خیر طلب کے پاس چونکہ اس کا جواب نہیں تھا، اس لئے اس نے یہ بہانا بنایا ہے کہ سود ، شراب ، نکاح مع الکافرہ وغیرہ کا حکم نہیں دیا گیا تھا لیکن متعہ کا حکم دیا گیا تھا۔ میں کہتا ہوں کہ رسول اﷲ ﷺ نے اپنی بیٹی کا نکاح ایک غیر مسلم سے کیا۔ لیکن آج کافر کے ساتھ نکاح کو حرام سمجھا جاتا ہے، اور قبیح بھی سمجھا جاتا ہے۔ رسول اﷲ ﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اﷲ عنہ سودی کاروبار کرتے تھے، رسول اﷲ ﷺ نے ان کو روکا کیوں نہیں؟ ظاہر ہے کہ اس وقت سود مباح تھا، اور چونکہ زمانہ جاہلیت میں بھی ایسا ہوتا رہا، اس لئے حکم دینے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ ہاں جب سود کی حرمت کا حکم نازل ہوا، تو رسول اﷲ ﷺ نے انہیں خود روکا۔ لیکن متعہ کا جوحکم رسول اﷲ ﷺ نے دیا، تو جان لینا چاہئے کہ دراصل یہ رخصت تھی ۔ یہ بات تو بالکل ذہن سے نکال دینی چاہئے کہ اس کا حکم نکاح کی طرح دیا گیا تھا۔ نکاح دائمی رخصت نہیں بلکہ اس کا حکم مسلمانوں کو دیا گیا۔جبکہ متعہ کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ روایات کو ملا کر اس کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ بلکہ حضرت عبد اﷲ بن مسعود ؓ کی روایت ہی کافی ہے جس سے خیر طلب نے متعہ کی اباحت ثابت کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس میں ہی متعہ کے مطلقاََ مباح ہونے کی نفی ہوتی ہے، اس لئے کہ اگر متعہ مطلقاََ مباح ہوتا، تو رسول اﷲ ﷺ جہاد کے مواقع پر ہی اس کی اجازت کیوں دیتے۔ اور اگر متعہ مطلقاََ مباح ہوتا، تو آخر صحابہ یہ عرض ہی کیوں کرتے کہ (الا نستخصی) یعنی کیا ہم خود کو خصی نہ کر لیں؟ حضرت عبداﷲ بن مسعود کے یہ الفاظ اسی روایت میں ہیں جس سے خیر طلب نے متعہ کی حلت کو ثابت کرنا چاہا تھا۔ پھر اسی روایت میں ہے کہ حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓنے فرمایا ( ثم رخص لنا ان ننکح المرأۃ بالثوب الی اجل )یعنی پھر ہمیں اس کی اجازت دے دی کہ ہم کسی عورت سے ایک کپڑے پر (ایک مدت کے لئے) نکاح کر لیں۔ یہاں پر رخص لنا کا مطلب ہے ہمیں رخصت دی گئی۔ امید ہے اب یہ بات واضح ہو چکی ہو گی۔اگلی روایت میں لفظ امر کا مطلب بھی رخصت کے معنوں میں ہی لیا جائے گا، اور اسی میں ہی روایت کا مفہوم ٹھیک سمجھا جاسکتاہے۔
قولہ : متعہ کا حکم رسول ص نے دیا اور اس فعل میں اہلسنت روایات کے مطابق معیت اختیار کی۔
چنانچہ صحیح مسلم میں یہ روایت موجود ہے:
حدثنی حامد بن عمر البکراوی ، حدثنا عبد الواحد ، عن عاصم ، عن أبی نضرۃ، قال : کنت عند جابر بن عبداﷲ فأتاہ ات فقال : إن ابن عباس و ابن الزبیر اختلفا في المتعتین ، فقال جابر ـ: فعلناھما مع رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ، ثم نھانا عنھما عمر
ابونضرہ فرماتے ہین کہ ہم جابر بن عبداﷲ انصاری کے پاس موجود تھے پس ان کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ ابن عباس اور ابن زبیر دو متعہ یعنی متعہ النساء اورمتعہ الحج کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں۔ پس جابر نے کہا کہ ہم نے ان دونوں متعہ کو رسول ص کی متعیت یعنی ساتھ انجام دیا۔ اس کے بعد عمر نے ہمیں ان دونوں سے ہمیں منع کر دیا۔
حوالہ : صحیح مسلم ، رقم ۱۲۴۹ و ۱۴۰۵، الناشر : دار إحیاء التراث العربي ۔ بیروت
ادھر لفظ مع بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے جب سورہ توبہ کی آیت غار سے استدلال کے موقع پر ’’ان اﷲ معنا‘‘ میں مع یعنی ساتھ ہونے پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ شاید کوئی یہ کہے کہ ادھر ساتھ سے مراد بذات خود رسول ص کا انجام دینا مراد نہیں بلکہ اس سے رسول ص کی فقط رضامندی مراد ہے اس فعل پر۔ ہم یہ کہیں گے کے چلیں آپ کا اپنا قیاس اپنی جگہ۔ لیکن کم سے کم ادھر جس متعہ کو زنا قرار دیا جاتاہے جو اہلسنت کے بقول رسول ص زمانہ جاہلیت کی وجہ سے بند کروانا چاہتے تھے، جس کی حرمت کی ہمیشہ سے کوشش ہو رہی تھی، اس پر رضامندی رسول ص ان تمام باطل قیاسوں کو جڑ سے اکھاڑ دیتی ہے۔
اقول : لفظ مع سے قطعاََ یہ ثابت نہیں ہوتا کہ رسول اﷲ ﷺ نے بھی یہ فعل انجام دیا، اور یہ کوئی قیاس نہیں، بلکہ ایک واضح حقیقت ہے۔ مع کالفظ سیاق کے اعتبار سے مختلف معنی رکھتا ہے۔اسی طرح ان اﷲ معنا میں مع کا لفظ الگ معنی رکھتا ہے، اور فعلناھما مع رسول اﷲ میں مع کا لفظ الگ معنی رکھتا ہے۔ان اﷲ معنا کا مطلب ہے، اﷲ ہمارے ساتھ ہے۔ یہاں پر ساتھ کا مطلب بالکل واضح ہے کہ اﷲ تعالٰی کی حمایت اور نصرت مراد ہے۔خیر طلب نے جو دلیل پیش کی ہے، انتہائی لغو ہے، اس میں دراصل آیت پر ہی اعتراض ہے، یعنی رسول اﷲ ﷺ اپنے ساتھی کو کہہ رہے ہیں، کہ اﷲ ہمارے ساتھ ہے ، اس لئے خوف نہ کر۔ اگر یہاں اﷲ کی حمایت و نصرت مراد نہیں، تو پھر کیا چیز مراد ہے؟اس کی وضاحت کر دیجئے۔ اور اگر اﷲ کی حمایت و نصرت ہی اس آیت میں مراد ہے، تو پھر اس میں ’’مع‘‘ کو فعلناھما مع رسول اﷲ کے ’’مع‘‘ ساتھ کس مضحکہ خیز توجیہ کی بنا پر ہم معنی سمجھا جا سکتاہے؟ یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کے لئے کسی کو عربی کا عالم ہونا چاہئے۔ چنانچہ ایک شخص اپنے ساتھی سے کہتا ہے کہ تم فکر مت کرو، میں تمہارے ساتھ ہوں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں تمہارے ساتھ ساتھ گومتا رہوں گا، اور کسی کا ہاتھ تم پر اٹھے گا، تو میں روک لوں گا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص اپنے ساتھی کو اپنی حمایت اور نصرت کی یقین دہانی کر رہا ہے۔ اب اگر کوئی یوں کہے کہ میرے ساتھ میرا گدھا بھی تھا۔ تو کیا دونوں جگہوں پر لفظ ’ساتھ‘ کا مطلب ایک سمجھا جا سکتاہے؟ظاہر سی بات ہے کہ کوئی گدھا ہی ہوگا جو دونوں جگہوں پر ساتھ کا معنی ایک ہی سمجھے۔ اب کیا کوئی دعوی کرسکتا ہے کہ (فعلناھما مع رسول اﷲ ) میں وہی معیت مراد ہے جو (ان اﷲ معنا) میں ہے۔ یہاں پر تو مراد بس اتنی سی ہے کہ ہم رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ اس کو کرتے تھے۔ اور اس میں رسول اﷲ ﷺ کا بذات خود اس فعل کا انجام دینا قطعاََ ثابت نہیں ہوتا،یہاں پر فقط زمانے کی بات ہو رہی ہے۔ یعنی رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ جب ہم ہوا کرتے تھے۔ اور اگر مع رسول اﷲ ﷺ کا مطلب فقط یہی سمجھا جائے تو بہت ساری روایات کا مفہوم سمجھنے میں انتہائی زبردست غلطی کا امکان داخل ہو جائے گا۔ چنانچہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ ( اسلم مع رسول اﷲ تسعۃ و ثلاثون رجلا وامراۃ۔ ثم ان عمر اسلم فصاروا اربعین ) یعنی رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ انتالیس مردوں اور عورتوں نے اسلام قبول کیا۔ پھر عمر اسلام لائے تو ان کی تعداد چالیس ہو گئی۔﴿اسد الغابہ ج ۱ ص ۸۱۴﴾
اب یہاں پر اگر ہم یہ مطلب لیں کہ رسول اﷲ ﷺ بھی اسلام لائے ، ان انتالیس افراد کے ساتھ، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پہلے رسول اﷲ ﷺ بھی مسلمان نہیں تھے۔جس کوکوئی بھی مسلمان تسلیم نہیں کر سکتا۔ پس یہاں پر مع کا مطلب اور ہے۔ چنانچہ ایسے الفاظ جن کے معنی ایک سے زیادہ ہو سکتے ہوں، ان کا ترجمہ کرتے وقت احتیاط سے کام لینا چاہئیے، اور مدمقابل کو زیر کرنے کے زعم میں دین کا ستیاناس نہیں کرنا چاہئیے۔
ہاں البتہ شیعہ روایات میں ضرور آیا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ اور حضرت علی ؓ نے متعہ کیا۔ دیکھئے ﴿وسائل الشیعہ ج ۲۱ ص ۱۰﴾
یہ روایات ضعیف ہیں،لیکن ہمارے ہاں تو ضعیف روایات میں بھی ایسا ہرگز نہیں آیا۔ اور ہرگز کا مطلب بھی لغات میں دیکھ کر سمجھنے کے بعد ایسی روایت کی جستجو کیجئے گا۔
قولہ : ایک اور روایت صحیح مسلم میں بایں موجود ہے:
حدثنا إسحاق بن إبراھیم ، أخبرنا یحیی بن ادم، حدثنا إبراھیم بن سعد، عن عبد الملک بن الربیع بن سبرۃ الجھنی ، عن أبیہ، عن جدہ، قال : امرنا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بالمتعۃ عام الفتح، حین دخلنا مکۃ، ثم لم نخرج منھا حتی نھانا عنھا
ربیع بن سبرہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رسول ص نے عام الفتح میں متعہ کا حکم دیا جب ہم مکہ میں داخل ہوئی پس ہم واپس نہیں نکلے مگر یہ کہ رسول ص نے ہمیں اس سے منع کر دیا۔ حوالہ : صحیح مسلم ، رقم ۱۴۰۶، الناشر: دارإحیاء التراث العربي ۔ بیروت ۔ ہمیں اس کی منسوخیت سے فی الحال بحث نہیں اور جو ادہر حرمت متعہ کا بیان ہے ، مھم چیز اس کے زنا نہ ہونے کی دلیل دینا ہے اور وہ رسول ص کا حکم ہے۔
اقول : یہ روایت بھی ثابت کرتی ہے کہ متعہ کا حکم زمانہ جنگ میں دیا جاتا تھا۔ اور جہاں رسول اﷲ ﷺ کے حکم سے اس کا زنا نہ ہونا ثابت کرتے ہو، تو آپ کی عقل میں یہ بات کیوں نہیں آتی کہ رسول اﷲ ﷺ کے منع کرنے سے یہ نکاح باطل ہو گیا؟ اور جیسے کافر اور کافرہ کے ساتھ نکاح سے منع کئے جانے کے بعدکافر اور کافرہ ،جو کہ اہل کتاب سے بھی تعلق نہ رکھتے ہوں،کے ساتھ نکاح کو ہم زنا ہی کہیں گے،ورنہ کوئی مسلمان عورت کسی ہندو مرد سے شادی کر لے تو کون اس کو زنا نہیں کہے گا؟پس چاہے متعہ ہو یا کافر سے نکاح، حرام ہونے سے قبل دونوں مباح تھے۔ اب رسول اﷲ ﷺ نے حکم دیا ہو یا نہ دیا ہو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔نیز رسول اﷲ ﷺ نے اپنی بیٹی کا نکاح ایک غیر مسلم ابو العاص بن ربیع سے کیا، اور اس وقت وہ غیر مسلم تھے، اسلام بعد میں لائے۔ تمہیں قول چاہئے تھا، اور یہ قول سے اقوی دلیل ہے۔اب اس کے لئے کوئی اور بہانہ تراش لیجئے۔
قولہ : ایک سلفی ویب سائٹ میں سلفی مفتی فرماتے ہے:
ولما أبیحت المتعۃ في أول لم تکن ﴿زنا﴾ حال إباحتھا، وإنما تأخذ حکم الزنا بعد التحریم واستقرار الأحکام کما ھو معلوم
یعنی جب متعہ اوائل اسلام میں جائز تھا تو اس وقت یہ زنا نہیں تھا اور یہ زنا کے حکم میں جب آیا جب اس کی تحریم کا اعلان ہوا اور حکم باقی رہا جیسا کہ معلوم ہے حوالہ :فقہ الأسرۃ المسلمۃ، النکاح ، عقد النکاح ، الأنکحۃ المحرمۃ۔
اس فتوی سے یہ ثابت ہوا کہ متعہ کی اباحت اس کے زنا نہ ہونے پر دال تھا لیکن جب و ہ حرام ہو گیا تو وہ زنا ہوگیا۔ ماشاء اﷲ کیا طرز استدلال ہے۔ یعنی زنا غیر طیب عمل ہے اور وہ غیر طیب ہمیشہ رہے گا۔ کیا مفتی صاحب یہ کہنے چا رہے ہیں کہ پہلے غیر طیب چیز کی اجازت دی اور بعد میں حرام ہوگئی۔ لیکن اس فتوے سے کم سے کم یہ پتا تو چلا کہ متعہ ﴿جملہ پورا نہیں ہے ۔ ﴾
اقول :چلیں یہ تو ثابت ہوا کہ میں نے جو کہا، اس کی تائید سلفی مفتی نے بھی کی ہے۔اس کی تائید صحابہ، تابعین وتبع تابعین نے بھی کی ہے۔اور یہ کہنا انتہائی لغو ہے کہ پہلے غیر طیب چیز کی اجازت دی ،اور بعد میں حرام ہو گئی۔ جب کافرہ سے نکاح جائز تھا تواس وقت یہ غیر طیب نہیں تھی۔ شیعہ بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے اپنی بیٹی کو ابو العاص بن ربیع ؓ کے نکاح میں دیا، جو کہ اس وقت مسلمان نہیں تھے۔ تو کیا تم رسول اﷲ ﷺ کے متعلق یہ تسلیم کرو گے کہ انہوں نے اپنی بیٹیوں کو کافر کی نکاح میں دیا، جبکہ کافر سے نکاح حرام ہے او ر سراسر زنا ہے؟ اس وقت تمہارا فہم اس بات کو قبول کرتا ہے کہ جب رسول اﷲ ﷺ نے اپنی بیٹی کا نکاح ابوالعاص بن ربیع سے کیا، اور اس وقت وہ مسلمان نہیں ہوئے تھے، اس لئے کہ اس وقت یہ نکاح جائز تھا، لیکن جب یہ نکاح باطل، غیر طیب، حرام وغیرہ (جو بھی لفظ خیر طلب کو مناسب لگے) قرار پایا تو اس کے بعد رسول اﷲ ﷺ نے اپنی بیٹی تو کیا، کسی مسلمان شخص کی بیٹی کا نکاح بھی کسی کافر سے نہیں کرایا، پھر متعہ کے بارے میں یہ تسلیم کرنا کیسے خلافِ عقل ہے کہ جب مباح تھا تو اس وقت یہ زنا نہیں تھا، اور جب اس کی تحریم کا اعلان ہوا، تو زنا کے حکم میں آگیا؟اس طرزِ استدلال میں خرابی ہے یا خیر طلب کے طرزِ استدلال میں ، یہ قارئین خوب سمجھ سکتے ہیں۔
قولہ :کلام صاحب نے نکاح متعہ کے اول شریعت میں رائج ہونے پر جناب آدم ع کی خلقت کے بعد بہن بھائیوں کی شادی والے معاملہ سے استدلال کیا اور تاثر یہ دیا کہ چونکہ ایسا نکاح بالکل حرام ہے جو اب زنا کے حکم میں ہے جو کہ شریعت آدم ع میں حلال تھا، پس اس چیز کا قیاس متعہ والے مسئلہ پر بھی کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے شیعی روایات کو نقل کیا اور تاثر یہ دیا کہ یہ فقط شیعی مسئلہ ہے، اہلسنت اس قضیہ کے متعلق خاموش ہے تو مناسب سمجھتا ہوں کہ پہلے آپ کو آپ کے گھر کی تصویر دکھا دوں پھر ان روایات کے بارے میں عرض کرتا ہوں۔
ابن کثیر فرماتے ہیں:
ذکرہ غیر واحد من السلف والخلف ، أن اﷲ تعالی ـ: شرع لادم علیہ السلام ، أن یزوج بناتہ من بیہ لضرورۃ الحال،
کافی سارے علماء سلف متقدمین ومتاخرین نے ذکر کیا کہ اﷲ تعالٰی نے آدم علیہ السلام کو اجازت دی تھی کہ وہ حالات کے پیش نظر اپنے بیٹیوں کی شادی بیٹوں سے کریں۔
حوالہ : تفسیر ابن کثیر، جز ۳، ص ۷۴، الناشر ـ : دارالکتب العلمیۃ، منشورات محمد علي بیضون ۔ بیروت
باقی جہاں تک اس قضیہ کا تعلق ہے اس پر کچھ جہت سے بات کرنا چاہوں گا کیونکہ یہ قیاس مع الفارق کلام صاحب کی لغت میں وافر مقدار میں موجود ہے۔
۱۔ شیعی روایات کے مطابق جناب آدم ع کی بیٹی اور بیٹوں کا ایک دوسرے سے رشتہ مختلف ہیں۔ بعض اس کے وقوع ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور بعض اس کی نفی میں جیسا کہ درج ذیل روایات موجود ہیں جن کا مضمون درج ذیل ہیں:
الف ، خدا نے جناب آدم ع کے بیٹوں کے لئے جنت سے حور بھیجی جن سے ان کی شادی ہوئی اور نسل انسانی بڑھی۔
ب، بہن کا بھائی سے شادی ہونا یہ مجوس کا مقولہ ہے جو سرے سے باطل ہے، خدا کی شان سے بعید ہے۔
یہ تمام تفاصیل علام ، مجلسی رح کی کتاب بحار الانوار ، جز ۱۱ باب تزویج آدم حواء و کیفیۃ بدء النسل منھما وقصۃ قابیل و ھابیل و سائر اولادہ میں مل جائیں گی جس میں اس مضمون کو بہت احسن دلائل سے رد کیا گیا ہے۔
۲۔ علماء تشیع میں سے جمہور اس رائے سے متفق نہیں بلکہ جن میں بہن سے تزویج کا تذکرہ انہیں مذھب اہلسنت کے موافق ہونے کی وجہ سے تقیہ پر محمول کیا ہے۔
چنانچہ میرزا محمد مشہدی فرماتے ہے:
فمحمول علی التقیۃ، لأنہ موافق لمذھب العامۃ
یہ روایات تقیہ پر محمول ہیں، جس کی وجہ ان روایات کا اہلسنت مذھب سے موافقت ہونا ہے۔
حوالہ : تفسیر کنز الدقائق ، جز ۲، ص ۳۴۳
علامہ مجلسی رح نے بحار الانوار میں فرمایا :
ھذان الخبران محمولان علی التقیۃ لاشتھار ذلک بین العامۃ
دونوں خبریں جن میں آدم ع کے بیٹا بیٹی کی شادی کی بات تھی تقیہ پر محمول ہے کیونکہ یہ مطمع نگاہ اہلسنت میں مشہور ہے۔
حوالہ : بحار الانوار ، جز ۱۱ ، ص ۲۲۷، طبع دار الوفاء لبنان۔
اقول :میں نے قطعاََ یہ کوشش نہیں کی کہ اس کو فقط شیعہ مسئلہ قرار دوں۔دوسری بات یہ ہے کہ ذراملاحظہ کیجئے، کس طرح اپنی صحیح روایت کا رد فقط اس وجہ سے کیا جا رہا ہے کہ اس کی موافقت اہلسنت کے مذہب سے ہو رہی ہے، نہ کہ شیعہ مذہب سے۔ یعنی ضعیف روایت سے تو اہلسنت ویسے بھی دلیل نہیں پکڑ سکتے،اور اگر کہیں کوئی صحیح روایت مل بھی جائے تو اس کو بھی تقیہ پر محمول کر کے جان خلاصی کی جا سکتی ہے۔آخر یہ بتائیں کہ پھر ہم آپ کو کہاں سے دلیل پیش کریں؟آپ کو ضعیف بھی قبول نہیں، صحیح بھی قبول نہیں، تو آخرآپ کیا چاہتے ہیں کہ اہلسنت آپ کی کونسی روایات سے استہشاد کریں؟یہ تو میں نہ مانوں والی پالیسی ہو گئی۔ ہم ضرور آپ کی مستند روایات سے استشہاد کریں گے، اور آپ کا ’’محمول علی التقیہ‘‘ والا بہانہ ہرگز تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ اس کو آپ اپنے اندرونی اختلافات تک ہی محدود رکھئے۔اور میں کہتا ہوں کہ یہ بات اس جن والی کہانی سے کئی گنا بہتر ہے، جس میں حضرت آدم ؑکے ایک بیٹے کا جنیہ(مونث جن) اور دوسرے بیٹے کا حوریہ سے نکاح کرکے اولاد پیدا کرنا بتایا جاتا ہے، اور اس طرح نسل ِ انسانی کو انسان، حور اور جن کے ملاپ کا نتیجہ سمجھا جاتا ہے۔پھر یہ بتائیں کہ حضرت آدم ؑ اور بی بی حوا ؑ کی بیٹیوں کی شادی کن سے کرائی گئی؟ جنات سے یا حوروں سے؟یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں سے؟ یا پھر ان کا نکاح ہی نہیں کرایا گیا؟یا حضرت آدم ؑ اور بی بی حوا ؑ کی بیٹیاں ہی پیدا نہیں ہوئیں تھیں؟
قولہ : ۳۔ بالفرض صحت مضمون روایت اس کا جواب ان الفاظ میں دیا جائے گا کہ اس وقت زمانہ محدود تھا اور نسل انسانی کو بڑھانے کے لئے فقط بیٹا اور بیٹی ہی موجود تھے، اس سے عام حالات میں اس کا جائز ہونا اور متعہ کا عام حالات میں جائز ہونے میں واضح فرق ہے۔
چلیں بالفرض مان لیتے ہیں کہ یہ اس وقت جائز تھا تو کلام صاحب کیا یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ جناب آدم ع کی پوری زندگی میں یہ چیز جائز رہی جب کہ اس وقت نسل انسانی اتنی بڑھ گئی تھی کہ بہن بھائی کا نکاح ناگزیر چیز نہیں تھا۔ یہ ہر نبی ص کی شریعت میں قبیح بات رہی ہے۔
اقول :بالفرض اس کوتسلیم کیا جائے تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ بہن بھائی کا نکاح حضرت آدم ؑ کی شریعت میں کچھ عرصہ تک جائز رہا، اور اب یہ سراسر زنا ہے۔ چنانچہ اگر اہلسنت کہتے ہیں کہ متعہ زنا ہے، تو اس سے چنداں فرق نہیں پڑتا کہ متعہ کچھ عرصہ رسول اﷲ ﷺ کی شریعت میں مباح تھا۔ اور میں ابھی عرض کر چکا ہوں کہ متعہ عام حالات میں جائز نہیں تھا، بلکہ اس کی اجازت غزوات کے مواقع پر دی جاتی تھی۔
قولہ : کلام صاحب فرماتے ہیں:
متعۃ النکاح کا ترجمہ زنا کرنا غلط ہے۔ لیکن انہوں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ متعۃ النکاح زنا نہیں۔
جواب : واہ واہ کیا منطق ہے۔ دوسروں کی بات کی ایسی علیل تاویل کی جائے جس کا کوئی حساب نہ ہو۔ ہمارے سامنے دو کتب موجود ہیں
۱۔ قرآن مقدس بخاری محدث پر عدالتی فیصلہ، مصنف احمد سعید خان ملتانی۔
۲۔ توفیق الباری فی تطبیق القرآن وصحیح البخاری بجواب کتاب قرآن مقدس بخاری محدث، مصنف زبیر علی زئی۔
پہلی کتاب ایک دیوبندی مماتی کی ہے جس نے صحیح بخاری پر تنقید کی اور قرآنی اصول و قوانین سے اس کا رد بالغہ کرنے کی کوشش کی۔ دوسری کتاب ایک اہلحدیث کی ہے جس نے دیوبندی مماتی کی اس کتاب کا جواب دیا۔ چنانچہ ہم دونوں کتب میں موجود عبارات کو نقل کرتے ہیں اور پھر قارئین پر فیصلہ چھوڑیں گے کہ خاطی ہم یا کلام۔
احمد سعید خان دیوبندی مماتی فرماتے ہے:
یونہی آنکھ بند کم بصیرت کے ساتھ انہوں نے جڑ دیا کہ یہ آیت متعہ یعنی زنا کے حلال کرنے کے لئے نازل ہوئی ہے اور صحابی رسول عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کے متھے اتنا بڑا طومار جڑ دیا کہ انہوں نے آیت پڑھی ہی اس لئے تھی کہ پتہ چل جائے کہ آیت کا نزول ہی متعہ یعنی زنا کے جواز کے لئے تھا۔
حوالہ : قرآن مقدس بخاری محدث پر عدالتی فیصلہ، صفحہ ۲۷، ناشر مولانا منظور معاویہ خادم مرکزی اشاعت التوحید والسنۃ۔
اب ادھر متعہ سے یعنی کا ترجمہ کر کے مفہوم مراد لیا جارہا ہے جس کی نفی زبیر علی زئی نے بایں الفاظ کی :
یاد رہے متعۃ النکاح کا ترجمہ زنا کرنا غلط ہے
حوالہ : توفیق الباری فی تطبیق القرآن وصحیح البخاری، صفحہ ۳۶، طبع نعمان پبلیکیشنز۔
اب بتائے ادھر ترجمہ سے مراد مفہوم ہے جو ہمارا اصلی مدعا ہے یعنی متعۃ النکاح زنا نہیں۔ لیکن وائے ہو مخالف کی بصیرت پر جو اتنے واشگاف چیزوں کو بھی تاویل کے دبیز پردے میں چھپائے رکھتے ہیں۔
اقول :خیر طلب یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ چونکہ زبیر علی زئی نے کہا کہ متعہ کا ترجمہ زنا کرنا غلط ہے، اس لئے اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے نزدیک متعہ زنا نہیں۔میں نے کہا کہ دونوں باتوں میں فرق ہے ۔ اور چونکہ بات زبیر علی زئی کی ہو رہی ہے، اس لئے میں زبیر علی زئی کے ہی مضامین سے اس بات کو واضح کر دیتا ہوں ۔ زبیر علی زئی مجلہ’’ الحدیث‘‘ میں متعہ کے متعلق لکھتے ہیں:
امام مکحول الشامی رحمہ اﷲ سے پوچھا گیا : ایک آدمی نے ایک عورت سے خاص مقرر وقت تک کے لئے نکاح (یعنی متعہ ) کیا؟توانہوں نے جواب دیا : (ذلک الزنا) یہ زنا ہے۔ مصنف ابن ابی شیبہ ۲۹۴/۴ ح ۱۷۰۷۲، وسندہ صحیح ﴿ماہنامہ الحدیث، شمارہ نمبر ۷۱، ص ۱۳﴾
اس پر زبیر علی زئی نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ جب احمد سعید خان نے کے متعلق کہا (متعہ یعنی زنا) اور اس میں احتمال تھا کہ وہ متعہ کا ترجمہ ہی زنا سمجھ رہے ہیں ، تو زبیر علی زئی نے اعتراض کیا، لیکن جب امام مکحول نے متعہ کے متعلق فرمایا (ذلک الزنا) یہ زنا ہے، تو زبیر علی زئی نے کوئی اعتراض نہیں کیا، اور اس کی سند کی تصحیح بھی کردی۔اب بتائیے، کس کی تاویل علیل ہے اور کس نے حق بات کہی؟
قولہ : اب ہم ذیل میں ان ویڈیوز و تحریرات کی مثال پیش کریں گے جو متعہ کا ترجمہ ہی زنا کرتے ہیں۔
تحریرات
Muta (Temporary marriage Or Legalized Prostitution)
http://www.kr-hcy.com/statichtml/files/104292584629524,print.shtml
Places and merits of Mut'ah (Zina) nikah in Shia Majoos Religion
http://devilsdeceptionofshiism.wordpress.com/tag/place-and-merits-of-mutah-zina-nikah-in-shia-majoos-religion/
متعہ یعنی زنا کی اولاد
http://daaljan.wordpress.com/2011/02/10/%D9%85....
ویڈیوز
Shia Mazhab aur Mutta (Zina) شیعہ مذہب میں متعہ ۔ زنا . kafr kafr shia kafrmp
Shia Mutta Zinna - Answers to Shia Alims who are Spreading Zinna by proving it from Quran Shia Mutta (Prostitution) exposed
تبصرہ: کلام صاحب اتنے جاہل تو مت بنائے یا تجاہل عارفانہ سے کام مت لیجئے کہ جب اہلسنت علماء و مناظرین کھلے عام بریکٹ میں اس کو زنا کہیں اور کہیں ایک عالم ان کی تردید کرے تو مان لینا چاہئے ، ایسی بے کار تاویلات سے کام لینا عبث ہے۔
کلام صاحب ہم ذیل میں اب ان علماء اہلسنت کے نام مع عبارات پیش کرتے ہیں جو اس کو زنا نہیں کہتے۔ یاد رہے آپ کا فورم چونکہ چار یار پر مشتمل ہیں لہذاء ایک زبیر علی زئی تو ہوگئے باقی تین کی گنتی پوری کر دیتا ہوں تاکہ چار یار کا پورا عدد بن جائے۔
فخر الدین رازی رقم طراز ہے:
الزنا إنما سمي سفاحا، لأنہ لا یراد منہ إلا سفح الماء، والمتعۃ لیست کذلک، فان المقصود منا سفح الماء بطریق مشروع مأذون فیہ من قبل اﷲ
زنا کو سفاح کا نام دیا جاتا ہے کیونکہ اس سے سوائے منی کے اخراج کے کوئی مقصد نہیں لیکن متعہ ہرگز زنا کی طرح نہیں کیونکہ اس سے مقصود منی کا اخراج اس طریقے سے کرنا ہوتا ہے جو خدا کے نزدیک مشروع و جائز ہو۔
حوالہ : مفاتیح الغیب ، جز ۱۰ ص ۴۴، الناشر: دار إحیاء التراث العربي۔ بیروت
کیوں کلام صاحب کیا کہتے ہیں؟؟؟ فخر الدین رازی جن کو چالیس چالیس نکات نکالنے کی عادت تھی آیات میں سے، وہ کیا کہتے ہیں اور آپ کیا کہتے ہے؟
اقول :زبیر علی زئی اور امام مکحول کے حوالے سے تو میں ثابت کر چکا ہوں کہ ان کے نزدیک متعہ زنا کی طرح ہے۔اس حوالے سے سلفی عالم کا فتوٰی خیر طلب صاحب خود ہی پیش کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ امام جعفر سے بھی یہی الفاظ متعہ کے متعلق سنن کبری میں امام بیہقی نے نقل کئے ہیں۔
اخبرنا ابو عبد اﷲ الحافظ ، انبا ابو محمد الحسن بن سلیمان الکوفی ببغداد ، ثنا محمد بن عبد اﷲ الحضرمی ، ثنا اسماعیل بن ابراھیم ، ثنا الاشجعی ، عن بسام الصیرفی قال : سالت جعفر بن محمد عن المتعۃ ، فوصفتھا ، فقال لی، ذلک الزنا ۔
بسام صیرفی کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر سے متعہ کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے فرمایا کہ یہ زنا ہے۔ ﴿السنن الکبری للبیھقی، ج ۷ ص ۲۰۷﴾
شیخ البانی نے اس روایت کی سند کو السلسلۃ الصحیحۃ میں جید قرار دیا ہے۔ ﴿السلسلۃ الصحیحۃ ج ۵ ص ۵۲۷﴾
اوراپنی کتب میں امام جعفر کا قول بھی سن لیجئے جن کے نزدیک متعہ صرف فاجر ہی کرتے ہیں۔
احمد بن محمد بن عیسی فی (نوادرہ) عن ابن ابی عمیر ، عن ھشام بن الحکم ، عن ابی عبد اﷲ علیہ السلام فی المتعۃ قال : ما یفعلھا عندنا الا الفواجر
ہشام بن حکم نے امام جعفر سے روایت کی ہے کہ انہوں نے متعہ کے بارے میں فرمایا : اس کو ہمارے ہاں سوائے فاجروں کے اور کوئی نہیں کرتا۔ ﴿وسائل الشیعہ ج ۱۴، ص ۴۵۶﴾
اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں۔
ایک اور روایت بھی ملاحظہ کیجئے۔
علی عن ابیہ عن ابن ابی عمیر عن عمر بن اذینۃ عن زرارۃ قال جاء عبد اﷲ بن عمیر اللیثی الی ابی جعفر (علیہ السلام) فقال لہ ما تقول فی متعۃ النساء فقال احلھا اﷲ فی کتابہ و علی لسان نبیہ (صلی اﷲ علیہ وآلہ) فھی حلال الی یوم القیامۃ فقال یا ابا جعفر مثلک یقول ھذا وقد حرمھا عمر ونھی عنھا فقال وان کان فعل قال انی اعیذک باﷲ من ذلک ان تحل شیئا حرمہ عمر قال فقال لہ فانت علی قول صاحبک وانا علی قول رسول اﷲ (صلہ اﷲ علیہ وآلہ) فھلم الاعنک ان القول ما قال رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وآلہ) وان الباطل ما قال صاحبک قال فاقبل عبد اﷲ بن عمیر فقال یسرک ان نساء ک وبناتک واخواتک وبنات عمک یفعلن قال فاعرض عنہ ابوجعفر (علیہ السلام) حین ذکر نساء ہ وبنات عمہ
زرارہ سے مروی ہے کہ عبدا ﷲ بن عمیر لیثی امام باقر کے پاس آیا اور اس نے آپ سے کہا : آپ عورتوں کے متعہ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا : اﷲ عز و جل نے اسے اپنی کتاب میں حلال قرار دیا ہے اور اپنے نبی ﷺ کی زبان پر بھی۔ پس متعہ قیامت تک کے لئے حلال ہے۔ اس نے کہا : اے امام باقر آپ ایسا کہتے ہیں حالانکہ حضرت عمر نے اسے حرام قرار دیا اور اس سے منع کیا تو آپ نے فرمایا : اگرچہ اس نے بھی کیا تب بھی۔ اس نے کہا میں تم سے اﷲ عز و جل کی پناہ مانگتا ہوں اس بارے میں کہ تم اس چیز کو حلال کرو جس کو حضرت عمر نے حرام کیا۔ تو آپ نے فرمایا : تو اپنے صاحب کے قول پر ہے اور میں رسول اﷲ ﷺ کے قول پر ہوں۔ پس آؤ۔ میں تم پر لعن کرتا ہوں کہ حق قول وہ ہے کہ جو رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا اور جو تمہارے صاحب نے کہا وہ باطل ہے۔ عبد اﷲ بن عمیر نے کہا : تمہیں اچھا لگے گا اگر تمہاری عورتیں، بیٹیاں ، بہنیں اور چچا زاد بہنیں متعہ کریں؟ تو امام صاحب نے منہ موڑ لیا جب اس کی عورتوں اور چچا زاد بہنوں کا ذکر ہوا۔ ﴿فروع الکافی ج ۵ ص ۱۵۱﴾
اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں۔
معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحب متعہ کے برکات اپنے گھر میں دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ اسی وجہ سے باقی سب مومنین کے واسطے تو اس کے فضائل بیان کئے، لیکن جب اپنی عورتوں کا ذکر آیا تو منہ موڑ لیا۔ کیا تمام مسلمان اپنی بیٹیوں اور بہنوں کے لئے متعہ کو سخت ناپسند نہیں کرتے؟ کون ہے جو اپنی بہن کے متعہ کرنے کی خبر بھی کسی کو بتانا پسند کرے گا؟ جس طرح امام صاحب کو اپنی بیٹیوں اور بہنوں کے لئے متعہ ناپسند ہے، اسی طرح باقی تمام مسلمان بھی ناپسند کرتے ہیں۔ تو کیا وجہ ہے کہ باقی سب مسلمان متعہ کریں، لیکن امام صاحب کا گھرانہ متعہ کے برکات سے محروم رہے؟
یہاں پر رازی کے قول ’’والمتعۃ لیست کذلک‘‘ کا ترجمہ ’’متعہ ہرگز زنا کی طرح نہیں‘‘ غلط ہے۔ یہاں پر اس کا ترجمہ ہوگا ’’اور متعہ اس طرح نہیں‘‘۔ مراد یہ ہے کہ زنا کو سفاح اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس سے سوائے منی کے اخراج کے کوئی مقصد نہیں، لیکن متعہ اس طرح نہیں، یعنی متعہ میں منی کا اخراج واحد مقصد نہیں ہوتا۔لیکن ظاہر ہے کہ یہاں پر جو زنا مراد ہے، وہ تو ایک مسلمان عورت کے ہندو مرد سے نکاح پر بھی لاگو نہیں ہوتا، کیونکہ ادھر بھی فقط سفح الماء مراد نہیں ہوتا، بلکہ ایک دوسرا مقصد یعنی نکاح کا بھی ہوتاہے، اور یہ نکاح بھی ایک عرصہ تک جائز تھا، کیونکہ مسلمان عورتوں کا غیر مسلم مردوں کے ساتھ نکاح ہماری شریعت میں کچھ عرصہ تک جائز تھا۔لیکن جن معنوں میں ہم مسلمان عورت کے کافر کے ساتھ نکاح کو زنا سے تعبیر کرتے ہیں، انہی معنوں میں متعہ کو بھی زنا سے تعبیر کرتے ہیں۔اور اگر خیر طلب کو اعتراض ہے تو فقط اتنا بتا دے کہ کیا مسلمان عورت کا کسی ہندو مرد سے نکاح زناہے یا نہیں۔ حقیقت خود بخود واضح ہو جائے گی۔
0 comments:
Post a Comment