Friday, July 10, 2015

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے متعلق ابن ابی دارم کی روایت

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے متعلق ابن ابی دارم کی روایت
شیعہ کہتا ہے ’’ابوبکر بن ابی دارم نے اعتراف کیا ہے کہ عمر نے بی بی فاطمہ کو ضرب لگائی اور انکے شکم میں جناب محسن ساقط ہوگئے۔ عبارت ملاحظہ ہوں: عمر رفس فاطمۃ حتٰی اسقطت محسن ﴿ترجمہ﴾ عمر نے بی بی فاطمہ ؑ کوضرب لگائی کہ محسن انکے شکم سے ساقط ہو گئے‘‘۔
اسکا صحیح ترجمہ یوں ہے
عمر نے فاطمہ کو لات ماری یہاں تک کہ محسن انکی شکم سے ساقط ہوگئے۔
یہ روایت اس لئے جھوٹی ہے کیونکہ احتجاج طبرسی میں درج ہے کہ امام حسن نے مغیرہ بن شعبہ سے مخاطب ہو کر کہا ﴿وانت الذی ضربت فاطمۃ بنت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ حتی ادمیتھا والقت ما فی بطنھا﴾یعنی تو وہی شخص ہے جس نے رسول خدا کی دختر گرامی پر ضرب لگائی یہاں تک کہ وہ لہولہان ہو گئیں اور شکم کا بچہ ساقط ہو گیا۔﴿احتجاج طبرسی، اردو مترجم، جلد سوئم چہارم، ص ۲۵
 جبکہ اس روایت کے مطابق حضرت عمر نے بی بی فاطمہ ؑ کو لات ماری۔ پہلی خامی تو اس روایت کی یہی ہے۔ دوسری خامی اس روایت کی یہ ہے کہ یہ بلاسند روایت ہے۔ چلیں مان بھی لیں کہ ابوبکر بن ابی دارم ثقہ ہے، جب کہ وہ ضعیف اور غیر ثقہ ہے، پھر بھی اس روایت کو رد کرنے کیلئے ایک یہ ہی بات کافی ہے کہ اس کی کوئی نہیں۔
اور یہ چھٹے امام جعفر کی روایت کے بھی خلاف ہے جنہوں نے کہا ﴿وکان سبب وفاتھا ان قنفذا مولی عمر لکزھا بنعل السیف ﴾ یعنی حضرت فاطمہ کی وفات کا سبب یہ تھا کہ ان کو قنفذ مولی عمر نے اپنی تلوار کی نعل کے ساتھ مارا۔ ﴿دلائل الامامۃ ص ۱۳۴
نیز شیعہ عالم ملا تقی مجلسی اپنی کتاب ’’روضۃ المتقین‘‘ میں فرماتے ہیں
﴿وشھادتھا کانت من ضربۃ عمر الباب علی بطنھا﴾ یعنی ان کی شہادت کا سبب یہ تھا کہ حضرت عمر نے ان کے بطن پر دروازہ گرا دیا تھا۔ ﴿روضۃ المتقین ج ۵ ص ۳۴۲
شیعہ کہتا ہے ’’اہلسنت کے امام ابن حجر عسقلانی نے لسان المیزان میں خیانت سے کام لیتے ہوئے اس کو رافضی اور کذاب لکھا ہے لیکن نہ تو یہ رافضی تھا اور نہ ہی کذاب تھا کیونکہ ابن ابی ارم کو خود ابن حجر عسقلانی نے محدث کہا ہے اور میزان الاعتدال اور سیر اعلام النبلاء میں امام ذہبی نے بھی محدث کہا ہے‘‘۔
 محدث ہونے سے کوئی ثقہ نہیں ہوتا۔ اور شیعہ کو اتنا تو پتا ہی ہوگا کہ شیعہ اور رافضی محدثین بھی گزرے ہیں تو اگر کسی اہلسنت عالم نے ابن ابی دارم کو محدث لکھ دیا تو اس سے اس کی ثقاہت کیسے ثابت ہوجاتی ہے؟۔اس کے علاوہ بہت سارے ایسے راوی گزرے ہیں، جن کے بارے میں ’’الامام الحافظ‘‘ کے الفاظ موجود ہیں، لیکن وہ ضعیف ہیں۔ مثال کے طور پر محمد بن یزید الرفاعی کے بارے میں سیر اعلام النبلاء میں درج ہے ’’الامام الفقیہ الحافظ العلامۃ، قاضی بغداد ابوھشام ، محمد بن یزید بن محمد بن کثیر بن رفاعۃ، العجلی الرفاعی الکوفی المقری‘‘۔ لیکن اس کے باوجود ضعیف ہیں۔ دیکھئے الضعفاء والمتروکین للنسائی ج ۱ ص ۲۳۵
اس کے بعد شیعہ کہتا ہے’’اور امام ذہبی ابن ابی دارم کے بارے میں لکھتے ہیں : الامام الحافظ الفاضل۔ یہ امام ، حافظ اور فاضل تھے۔ اور آگے لکھتے ہیں کان موصوفا بالحفظ والمعرفۃ۔ یہ حفظ اور معرفت کی صفت سے آراستہ تھے۔‘‘
اور ان دونوں کے درمیان میں اور ان کے بعد کے الفاظ جو شیعہ نے چھوڑ دیئے ہیں، وہ میں بتا دیتا ہوں۔
امام ذہبی نے لکھا ہے
الامام الحافظ الفاضل ، ابوبکر احمد بن محمد السری بن یحیی بن السری بن ابی دارم التمیمی الکوفی الشیعی، محدث الکوفۃ
یہاں سے معلوم ہوا کہ امام ذہبی نے اس کو شیعہ کہا ہے۔ جہاں تک امام، حافظ، فاضل کی مصطلحات ہیں تو ان سے نہ ہی کسی راوی کی ثقاہت ثابت ہوتی ہے، نہ ہی کسی نے ان کو ثقاہت کی دلیل سمجھا ہے کیونکہ ان مصطلحات کا معنی ایک شخص کا علم حدیث اور حفظ حدیث پر عبور ہے ، جہاں تک ثقاہت کی بات ہے ، وہ ایک بالکل الگ چیز ہے کیونکہ ایک شخص کو چاہے کتنی ہی احادیث یاد ہوں، اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ حدیث کے نقل میں بھی سچا ہے۔ ورنہ اہل تشیع کی کتب میں جن راویوں نے سینکڑوں روایات نقل کی ہیں، مثال کے طور پر علی بن حمزہ البطائنی وغیرھم، ان سب کو ثقہ ہونا چاہئیے۔
اس کے بعد امام ذہبی فرماتے ہیں کان موصوفا بالحفظ والمعرفۃ الا انہ یترفض، قد الف فی الحط علی بعض الصحابۃ، وھو مع ذلک لیس بثقۃ فی النقل
وہ حفظ اور معرفت کے ساتھ موصوف تھے، لیکن انہوں نے رفض اختیار کیا، اور بعض صحابہ کے مطاعن پر تالیفات بھی لکھی، اور اس کے ساتھ ہی وہ نقل میں بھی ثقہ نہیں تھے۔
شیعہ کہتا ہے ’’اور آگے اب حجر عسقلانی اور امام ذہبی دونوں نے تسلیم کیا ہے کہ : قال محمد بن احمد بن حماد الحافظ، کان مستقیم الامر عامۃ دھرہ حافظ محمد بن احمد بن حماد کہتے ہیں کہ ابن ابی دارم تمام زندگی اپنے سنی ہونے پر قائم دائم رہے۔ تو اب یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ابوبکر بن ابی دارم اہلسنت کے امام ، حافظ اور فاضل تھے جنہوں کے اقرار کیا ور انکا کذب یا رافضی ہونا ثابت نہیں ہے۔‘‘
شیعہ نے ایک دفعہ پھر دھاندلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف حافظ محمد بن احمد بن حماد کے قول کو ابن حجر اور امام ذہبی سے غلط منسوب کیا، بلکہ خود حافظ محمد بن احمد بن حماد کے قول کو بھی نامکمل لکھا۔ جبکہ انکا مکمل قول اس طرح ہے
قال محمد بن احمد بن حماد الحافظ، کان مستقیم الامر عامۃ دھرہ ثم فی آخر ایامہ کان اکثر ما یقرا علیہ المثالب، حضرتہ ورجل یقرا علیہ ان عمر رفس فاطمۃ حتی اسقطت محسناوفی خبر آخر قولہ تعالٰی ﴿وجاء فرعون﴾ عمر ﴿ومن قبلہ﴾ ابوبکر ﴿ولمؤتفکات﴾ عائشۃ وحفصۃ فوافقتہ ، وترکت حدیثہ
حافظ محمد بن احمد بن حماد نے کہا کہ ﴿ابن ابی دارم﴾ تمام عمر مستقیم الامر رہے، پھر اپنے آخری ایام میں اس کو زیادہ تر روایات جو سنائی جاتی تھیں، وہ صحابہ کرام کے مثالب پر مبنی تھی﴿یقرا علیہ سے مراد یہ ہوتی ہے کہ ایک شخص اپنی کتاب اپنی شاگرد کو دیتا ہے جس کو وہ پڑھ کر سناتا ہے، تو یہاں پر مراد یہ ہے کہ مثالب پر مبنی یہ روایات ابن ابی دارم کی کتاب سے تھیں، جس کو اس کا شاگرد اسے پڑھ کر سنا رہا تھا﴾، اورمیں اس سے ملا تو ایک شخص اس کو سنا رہا تھا کہ عمر نے فاطمہ کو لات ماری حتٰی کہ محسن کا اسقاط ہوا، اور اور دوسری خبر میں اس نے قول باری تعالٰی ﴿وجاء فرعون﴾ کے بارے میں کہا کہ یہاں مراد عمر ہے اور ﴿من قبلہ﴾ کے بارے میں کہا کہ یہاں مراد ابوبکر ہے اور ﴿المؤتفکات﴾ کے بارے میں کہا کہ یہاں مراد عائشہ اور حفصہ ہے ، پس میں نے اس کی حدیث ترک کر دی۔
ایک شخص جس نے قرآن کریم کے متعلق بھی کذب بیانی شروع کر دی، اس کو احادیث کے متعلق کیسے ثقہ سمجھا جاسکتا ہے؟یہی وجہ ہے کہ حافظ محمد بن احمد بن حماد نے اس کو متروک قرار دیا۔ اس کے علاوہ سیر اعلام النبلاء میں امام حاکم کا قول بھی موجود ہے
قال الحاکم : ھو رافضی، غیر ثقۃ
امام حاکم نے کہا کہ ﴿ابن ابی دارم﴾ رافضی اور غیر ثقہ ہے۔
اس کے بعد امام ذہبی فرماتے ہیں
قلت : شیخ ضال معثر
میں کہتا ہوں کہ ﴿ابن ابی دارم﴾ گمراہ اور خطا کار شیخ ہے۔
اب جس شخص کو امام حاکم، ابن حجر عسقلانی اور حافظ ذہبی جیسے علماء ضعیف قرار دیں، تو اس کو کس بنیاد پر ثقہ قرار دیا جائے سوائے اس کے کہ شیعوں کو اس کی روایت میں اپنا مطلب نظر آ رہا ہے اور کسی بھی طرح اس کی توثیق ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ میں کہتا ہوں اگر اس کی توثیق ثابت ہو بھی جائے، پھر بھی اس کی بلا سند روایت کی کیا وقعت ہے؟ جبکہ شیعہ عالم آفتاب جوادی فرماتے ہیں :
اگر فریق مخالف پر الزام عائد کرنا ہو تو شہادت کمزور نہیں بلکہ قوی ہونی چاہئیے۔ کمزور شہادت ناقابل قبول ہوتی ہے، بالخصوص جب کسی ملزم کے خلاف انتہائی سزا ﴿موت ،ارتداد یا کفر﴾ کا فیصلہ صادر کرنا ہو، دیانت کا تقاضا یہی ہے۔ ﴿السیف البارق از آفتاب حسین جوادی ص ۲۲۷
پس شیعہ کو چاہئیے کہ وہ کمزور شہادتیں پیش کرنے سے احتراز کریں۔ دیانت کا تقاضا یہی ہے۔ اور ابن ابی دارم کی توثیق کسی ایک سے بھی ثابت نہیں۔ نیز الامام، الحافظ، الفاضل کی مصطلحات سے توثیق قطعاً ثابت نہیں ہوتی۔


0 comments: