Thursday, July 16, 2015

الرد الثانی علی شبھات الشیعۃ فی قضیۃ المتعۃ - حصہ ششم

قولہ : کلام صاحب مضمون کے ایک حصہ میں رقم طراز ہے :
بلکہ حضرت علی سے تواتر کے ساتھ ثابت شدہ روایات کے بھی خلاف ہے ۔
تبصرہ:ناظرین اب ہم اس دعوی تواتر کے قلعی کھولتے ہیں اور مخالفین کو دعوت فکر دیتے ہیں کہ تواتر کے ادعی بھی تحقیق سے کام لیں ۔یہ کوئی نیا دعوی نہیں کیا گیا بلکہ پر اس سے پہلے اہلسنت مناظرین یہ دعوی کر چکے ہیں ۔چناچہ محمد علی جانباز شیعوں کے خلاف کتاب لکھتے ہوئے رقم طراز ہے :
حضرت علی سے بھی تحریم متعہ کی روایات اس قدر شہرت اور تواتر تک پہنچی ہوئی ہے ۔
حوالہ :حرمت متعہ ۔صفحہ ۔۲۹۔
ہم نے محمد علی جانباز صاحب کے دعوی پر جب برادر اسمعیل دیوبندی کی طرف رجوع کیا تو ان کے درج ذیل جواب کو نقل کیا جارہا ہے ۔
ہماری نظر سے کسی بھی معتبر اور مستند محدث یا عالم کا ایسا کوئی دعوی یا قول نہیں گذرا جس میں انہوں نے غزوہ خیبر کے موقع پر حرمت متعہ والی روایت کو متواتر کہا ہو۔البتہ آپ کے توسط سے معلوم ہواکہ مولوی محمد علی جانباز نے غزوہ خیبر کے موقع پر حرمت متعہ والی روایت کے تواتر کا دعوی کیا ہے ۔
علم حدیث کے ابتدائی طالب علم بھی بخوبی جانتا ہے کہ متواثر اس حدیث کو کہتے ہیں کہ جس کے راویوں کی تعداد صحابی سے لے کر محدث تک تمام طبقات میں اتنی کثیر ہو کہ ان تمام طبقات کے رواۃ کا جھوٹ پر جمع ہونا عقلا محال ہو۔
لیکن محمد علی جانباز کے نزدیک متواتر ،،غریب حدیث ،،کو کہتے ہیں ،یعنی صحابی تامحدث کسی بھی ایک طبقے میں اس حدیث کو روایت کرنے والا تن تنہا صرف ایک راوی ہو۔

 اقول :متواتر کی کئی اقسام ہوتی ہیں، اور بعض روایات ایسی ہوتی ہیں جو کہ اصل میں تو احاد ہوتی ہیں، لیکن اس کے بعد وہ اس حد تک پھیل جاتی ہیں، اور اتنے لوگ اسے نقل کر لیتے ہیں، اور اس کی تصدیق کر لیتے ہیں کہ عقل ان کے جھوٹ پر اتفاق کر لینا محال سمجھے ۔ بعض علماء نے اسے بھی متواتر کی ایک قسم قرار دیا ہے۔
چنانچہ اصول البزدوی میں لکھا ہے:
المشھور ما کان من الآحاد في الأصل ثم انتشر فصار ینقلہ قوم یا یتوھم تواطؤھم علی الکذب ، وھم القرن الثاني بعد الصحابۃ رضي اﷲ عنھم ، ومن بعدھم وأولئک قوم ثقات أئمۃ لا یتھمون فصار بشادتھم وتصدیقھم بمنز لۃ المتواتر حجۃ من حجج اﷲ تعالٰی حتی قال الجصاص إنہ أحد قسمي المتواتر
مشہور وہ ہے جو اصل میں تو خبر واحد تھی ، پھر وہ پھیل گئی، حتٰی کہ اس کو اتنے لوگوں نے نقل کیا کہ عقل ان کے جھوٹ پر اتفاق کر لینا محال سمجھے ، وہ صحابہ کے بعد قرنِ ثانی اور اس کے بعد کا زمانہ ہے۔اور یہ لوگ ائمہ ثقات میں شمار کئے جاتے ہوں، تو ان کی شہادت اور تصدیق سے یہ تواتر کی منزلت تک پہنچ جائے گی۔ جو کہ اﷲ تعالٰی کی حجتوں میں سے ایک حجت ہے۔ یہاں تک کہ جصاص نے کہا کہ یہ متواتر کی ایک قسم ہے۔ ﴿أصول البزدوي ج ۱ ص ۱۵۲
پس حضرت علی ؓ سے یہ روایت ان کے محمد بن حنفیہ نے لی ، جن سے حضرت علیؓ کے دونواسوں نے نقل کی، اور ان سے امام زہری نے نقل کی۔ امام زہری سے یہ روایت دس سے زیادہ تلامذہ نے لی۔ان میں عبید اﷲ بن عمر ، سفیان بن عیینہ، امام مالک، یونس بن یزید ، معمر ابن سلیمان، محمد بن اسحاق ، عبدلعزیز بن سلمہ اور اسامہ بن زید کی روایات کو تو میں نے خود پڑھا ہے، اس کے علاوہ ابن شاہین نے زہری کے شاگردوں کی فہرست اپنی کتاب ناسخ الحدیث ومنسوخۃ میں درج کی ہے جنہوں نے یہ روایت نقل کی ہے ۔ چنانچہ فرماتے ہیں ورواہ معمر، ویحیی بن سعید، وأسامۃبن زید، ویونس بن یزید، وعثمان الوقاصي ، وإسماعیل بن أمیۃ ، وعبدالعزیز بن أبي سلمۃ ، وشعیب بن خالد، وھي في کتاب المناھي بطولھا ﴿ناسخ الحدیث و منسوخۃ لابن شاھین ج ۲ ص ۸۴
چنانچہ اس مختصر سی تحقیق سے ثابت ہوا کہ امام زہری سے یہ روایت دس سے زیادہ تلامذہ نے نقل کی ہے۔پس حضرت علیؓ سے یہ روایت شروع میں جب ان کے بیٹے اور نواسوں نے نقل کی ، تو اس کا شمار احاد میں ہوتا تھا۔ لیکن ان کے نواسوں سے جب یہ روایت امام زہری کے واسطے سے پھیلی، ائمہ ثقات نے اسے نقل کیا اور اس کی تصدیق کی تو اسکا متواتر ہونا ثابت ہو گیا۔


قولہ : حرمت متعہ در غزوہ خیبر :روایت کی تخریج
عن علی ابن ابی طالب رضی اﷲ عنہ عن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم :نہی عن متعۃ النساء یوم خیبر
امام علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جنگ خیبر کے موقع پر متعہ سے روک دیا۔اسی طرح بعض روایت میں ہے کہ امام علی کو جب معلوم ہوا کہ حضرت عبداﷲ ابن عباس متعہ کی حلت کا فتوی دے رہے ہیں تو امام نے ابن عباس کو رسول اﷲ کی اس نہی سے آگاہ اور خبردار کیا ۔
امام مالک ،حافظ عبدالرزاق بن ھمام الصنعانی ،حافظ ابو بکر ابن ابی شیبہ ،امام احمد،سعید بن منصور ،امام بخاری ،امام مسلم ،امام نسائی ،امام ترمذی ،امام ابن ماجہ،امام دارمی ،امام ابو داود الطیاسی ،امام حمیدی بزار،حافظ ابن حبان اور امام بیہقی نے مختلف اور متعدد اسانید سے روایت اور نقل کیا ہے ۔
حرمت متعہ در خیبر والی روایت غریب ہے
اس روایت کی اسنا د کے تین طبقات میں غرابت ہے،مذکورہ بالا محدثین نے جن مختلف و متعدد اسانید سے اس روایت کو نقل کیا ہے آگے جاکر یہ تمام اسانید امام زہری کے طریق پر ایک ہوجاتی ہیں کیونکہ امام زہری کے علاوہ کسی نے بھی اس کو روایت نہیں کیا۔طبقہ ثانیہ تابعین میں سے محمد بن حنفیہ اس حدیث کی روایت میں منفرد ہیں کیونکہ اس روایت کو امام علی سے نقل کرنے والے تنہا محمد بن حنفیہ ہیں ۔اسی طرح طبقہ اولی میں امام علی کے علاوہ کسی صحابی نے جنگ خیبر کے موقع پر حرمت متعہ کو رسول اﷲ سے بیان نہیں کیا۔کوئی بھی روایت کسی بھی ایک طبقہ میں غرابت (تفرد )کی بنا ء پر غریب ہوتی ہے جبکہ زیر بحث روایت کے توتین طبقات میں غرابت پائی جاتی ہے لہذا حرمت متعہ در جنگ خیبر والی روایت غریب قرار پائی ۔یہی وجہ ہے کہ امام دار قطنی نے بھی اس روایت کو غرائب میں شمار کیا ہے ۔
غریب روایت کو امام دار قطنی نے اپنی کتاب ۔۔الغرائب و لافراد۔۔میں جمع کیا ہے جبکہ حافظ ابن القیسرانی نے دارالقطنی کی جمع کردہ غریب روایات کی اطراف کو اپنی کتاب ۔۔اطراف الغرائب والافراد ۔۔میں جمع کر دیاہے ۔جوکہ انتہائی مفید ہے ۔امام دار قطنی نے اپنی کتاب ۔۔الغرائب ولافراد مین اس روایت کو امام زین العابدین سے نقل کیا ہے ۔امام علی کو جب معلوم ہوا کہ حضرت عبداﷲ ابن عباس متعہ کی حلت کا فتوع دے رہے ہیں تو امام نے ابن عباس کو رسول اﷲ کی اس نہی سے آگاہ اور خبردار کیا ۔اس روایت کو امام زین العابدین سے ذکر کرنے کے بعد امام دار قطنی کہتے ہیں کہ علی بن حسین نے اس روایت کو محمد بن حنفیہ سے نقل کیا جو کہ ان کا وہم ہے کیونکہ اس روایت کو امام زہری نے محمد بن حنفیہ کے بیٹوں عبیداﷲ اورحسن سے روایت کیا ہے اور ان دونوں بیٹوں نے اپنے والد محمد سے اور پھر محمد حنفیہ نے امام علی سے اس کو روایت کیا ہے ۔
چناچہ حافظ ابن القیسرانی ،امام دار قطنی سے سے نقل کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :
حدیث:انہ بلغہ ان ابن عباس یفتی بنکاح المتعۃ ۔الحدیث غریب من حدیث ابی سعد سعید بن المرزبان البقال عن الزہری عنہ۔تفرد بہ المسیب بن شریک عنہ وقولہ محمد بن علی عن ابیہ عن علی وھم وانما رواہ الزہری عن عبید اﷲ والحسن ابنی محمد بن علی عن ابیھما عن علی۔
حوالہ :اطراف الغرائب والافراد المجلد۔۱ ۔الصفحۃ ۔۲۳۸
مولوی محمد علی جانباز کی علمی یتیمی پر جتنا ماتم کیا جائے کم ہے ،لگتا ہے حضرت جانباز کو حدیث متواتر کی تعریف بھی معلوم نہیں اگر معلوم ہے تو جناب تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں ،موصوف نے غریب روایت کے تواتر کا بچگانہ دعوی کر کے اپنی حد درجہ جہالت کا ثبوت دیاہے جس کی ظرف التفات کرنا بھی عبث ہے ۔
اختتامیہ :ہم اس مضمون کے اختتام پر یہی کہنا چاہینگے کہ شیعوں کا تعصب و عناد بہرحال ایک مرض ہے لیکن اس مرض کا اگر اتنا اثر ہونے لگ جائے کے جھوٹ اور تہی دست باتوں کا شعار بنایا جائے تو یقینا تعارف الاشیاء باضداد ھا کے کے تحت مذہب حقہ شیعہ خیر البریہ کی حقانیت واشگاف ہوتی ہے ۔

اقول : خیر طلب نے لکھا ہے کہ ’’اسی طرح طبقہ اولی میں امام علی کے علاوہ کسی صحابی نے جنگ خیبر کے موقع پر حرمت متعہ کو رسول اﷲ سے بیان نہیں کیا‘‘
یہ سراسر غلط ہے۔ سنن کبرٰی میں امام بیہقی ؒنے حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ سے خیبر کے دن متعہ کی تحریم نقل کی ہے۔
ان رجلا سأل عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنھما عن المتعۃ فقال حرام قال فان فلانا یقول فیھا فقال واﷲ لقد علم ان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم حرمھا یوم خیبر وما کنا مسافحین
ایک شخص نے حضرت عبد اﷲ بن عمر سے متعہ کے بارے میں دریافت کیا۔ انہوں نے کہا کہ حرام ہے۔ اس شخص نے کہا کہ فلاں اس کی اجازت دیتا ہے۔ آپ ؓ نے فرمایا : اﷲ کی قسم رسول اﷲ ﷺ نے اس کو خیبر کے دن حرام قرار دیا تھا، اور ہم شہوت پرست نہیں تھے۔ ﴿السنن الکبرٰی ج ۷ ص ۲۰۲
 اس روایت کی سند کو حافظ ابن حجر ؒنے تلخیص میں اورشیخ البانی ؒ نے ارواء الغلیل میں قوی قرار دیا ہے۔
ابو عوانہ نے دو سندوں کے ساتھ حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ سے خیبر کے دن متعہ کی ممانعت کا قول نقل کیا ہے۔﴿مستخرج ابو عوانہ ج ۵ ص ۳۹، ۴۰
اس کے علاوہ یہ روایت موطا عبداﷲ ابن وہب میں بھی موجود ہے، اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں ۔
اخبرنی عمر بن محمد بن زید بن عبد اﷲ بن عبد اﷲ بن عمر بن الخطاب عن ابن شھاب قال اخبرنی سالم بن عبد اﷲ ان رجلا سأل عبد اﷲ بن عمر عن المتعۃ فقال : حرام۔ قال : فإن فلانا یقول فیھا ، فقال واﷲ لقد علم ان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم حرمھا یوم خیبر ، وما کنا مسافحین۔ ﴿موطا عبد اﷲ ابن وھب ج ۱ ص ۸۵
اسی طرح حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓسے بھی متعہ کی تحریم خیبر کے دن نقل کی گئی ہے۔
عبد الرزاق عن بن عیینۃ عن إسماعیل عن قیس عن عبداﷲ بن مسعود قال کنا نغزو مع رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فتطول عزبتنا ألا نختصي یا رسول اﷲ فنھانا ثم رخص أن نتزوج إلی اجل بالشيء ثم نھانا عنھا یوم خیبر وعن لحوم الحمر الإنسیۃ ﴿مصنف عبد الرزاق ج ۷ ص ۵۰۶
اس سند کے تمام راوی بھی ثقہ ہے۔
اسی طرح امام طبرانی ؒ نے معجم کبیر میں کعب بن مالکؓ اور ثعلبہ بن حکمؓ سے ضعیف اسناد کے ساتھ خیبر کے دن متعہ کی تحریم نقل کی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ امام زہری کے علاوہ اس روایت کو امام زید بن علی نے بھی روایت کیا ہے۔ ملاحظہ کیجئے، کتاب بھی شیعہ ہے اور تمام راوی بھی شیعہ امامی اثناعشری علماء کے مطابق ثقہ ہیں۔
محمد بن یحیی عن ابی جعفر عن ابی الجوزا عن الحسین بن علوان عن عمرو بن خالد عن زید بن علی عن آباۂ عن علی علیھم السلام قال حرم رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ یوم خیبر لحوم الحمر الاھلیۃ ونکاح المتعۃ
امام زید بن علی نے اپنے آباء و اجداد سے اور انہوں نے حضرت علی سے روایت کی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے خیبر کے دن پالتو گدھے کا گوشت اور نکاح متعہ کے حرام قرار دیا۔
محمد بن یحیی ثقہ ہے۔ ﴿جامع الرواۃ ج ۲ ص ۳۱۲
 ابو جعفر ثقہ ہے۔ ﴿المفید من معجم رجال الحدیث ص ۶۹۰
 ابو الجوزاء ثقہ ہے ۔ ﴿مشایخ الثقات ص ۸۶
حسین بن علوان ثقہ ہے۔ ﴿معجم رجال الحدیث ج ۷ ص ۳۴
 عمرو بن خالد ثقہ ہے۔ ﴿معجم رجال الحدیث ج ۱۴، ص ۱۰۲


قولہ : عبداﷲ بن مسعود کی روایت اتنی واشگاف و اظہر ہے کہ متعہ کو صحابی رسول طیبات میں سے شمار کرتا اور رسول ص کے زمانے سے دلیل پکڑتا لیکن کلام صاحب نے اس پر بھی اعتراضات کئے تو جوابات ذیل ہیں:
اعتراض :عبداﷲ بن مسعود کی روایت جس میں روزہ سے جنسی خواہش کو فرد کرنے کی بات ہے اس سے متعہ باطل ثابت ہوتا ہے ۔
جواب:کلام صاحب کہاں روایت کے الفاظاور کہاں آ پکی مدلول ۔جب کہ خود علماء اہلسنت اس بات کو متشرح و مصرح کر چکے ہیں کے ابن مسعود نکاح متعہ کی حلت کے قائل تھے ۔ہم تو اصل علت پر بات کر رہے تھے کہ رسول صہ نے ایک حلال طریقہ بتایا تھااپنی جنسی خواہش کو پورا کرنے کے لئے ۔اب اسکو اگرچہ اب جہاد تک مقیدکر دیں یا کسی اور موقع پر اصل استدلال پر فرق نہیں آتااور وہ یہی ہے کے جنسی خواہشات کی تسکین کے لئے اس سے استفادہ کیا جائے اوربقول سعید بن جبیر یہ پانی سے زیادہ حلال ہے تو صغری کبری ملے لیجئے اورنتیجہ آرام سے نکال لیجئے ۔
خود ابن حزم ،ابن حجر اور شوکانی نے بالترتیب المحلی ،جلد۔۹۔صفحہ ۔۵۱۹،مسئلہ۱۸۵۴،تحت احکام النساء ،تلخیص الجبیر ،جز ۔۳۔صفحہ ۔۳۲۷۔مسئلہ رقم ۱۶۰۳،کتاب النکاح ،طبع قاہرہ ،نیل الا وطار ۔جلد ۔۷۔صفحہ ۔۵۹۸کتاب النکاح ۔میں ابن مسعود سے متعہ کی حلت کا قول ہوا ہے ۔اور نکاح متعہ کے معتقدین میں شمار کیا ہے ۔کہاں آپ کا ستدلال اورکہاں جہابذان اہلسنت کا استدلال؟
اعتراض:ابن حجر عسقلانی ،شوکانی اور ابن حزم سے جو متعہ کی اباحت کاقول مختلف صحابہ سے منسوب کیا گیا ہے ،ان میں سے اکثر کی طرف متعہ کی نسبت کا قول غلط ہے ۔اور دیگر کی طرف جو متعہ کی اباحت کا قول منسوب ہے تو اس کا ثابت ہونا دلیل کا محتاج ہے ۔
جواب ۔میرے محترم مقابل ۔اگر آپ عربی عبارت بنظر عمیق دیکھے تو معاملہ صاف ہے کہ انہوں نے ثبت کا لفظ استعمال کیا ہے کہ یہ قول ان سب سے ثابت ہے نہ کر شک استعمال کیا ہے ۔کیوں کہ ثبت یقیں کے لئے آتا ہے ،چناچہ لغت کی مشہور و معروف کتاب مصباح اللغت کی طرف جب ہم رجوع کرتے ہے جو عربی الفاظ کا اردو میں ترجمہ میں سند کی حیثیت رکھتی ہے تو دیکھتے ہیں کہ ثبت کا معنی دیج ذیل ہے :
۱۔ثابت کرنا
۲۔دلائل سے موکد کرنا
حوالہ:مصباح اللغت ،صفحہ ۔۹۰
چناچہ ہم اصلی عربی عبارات ان تینوں علماء کی نقل واپس سے کر دیتے ہیں :
اب حزم :
وقد ثبت علی تحلیلھابعد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جماعۃ من السلف ،منھم من الصحابۃ اسماء بنت ابی بکر ،وجابر بن عبداﷲ ،وابن مسعود ،و ابن عباس ،و معاویہ ،و عمرو بن حریث،و ابو سعید ،وسلمۃ ،و معبد بن امیۃ بن خلف
حوالہ :محلی ،جلد۔۹۔صفحہ ۔۵۱۹،مسئلہ۱۸۵۴،تحت احکام النساء

ابن حجر عسقلانی :
وقد ثبت علی تحلیلھابعد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جماعۃ من السلف ،منھم من الصحابۃ اسماء بنت ابی بکر ،وجابر بن عبداﷲ ،وابن مسعود ،و ابن عباس ،و معاویہ ،و عمرو بن حریث،و ابو سعید ،وسلمۃ ،و معبد بن امیۃ بن خلف
حوالہ :،تلخیص الجبیر ،جز ۔۳۔صفحہ ۔۳۴۶
شوکانی :
وقد ثبت علی تحلیلھابعد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جماعۃ من السلف ،منھم من الصحابۃ اسماء بنت ابی بکر ،وجابر بن عبداﷲ ،وابن مسعود ،و ابن عباس ،و معاویہ ،و عمرو بن حریث،و ابو سعید ،وسلمۃ ،و معبد بن امیۃ بن خلف
حوالہ :نیل الا وطار ۔جلد ۔۶۔صفحہ ۔۱۶۱
اب ان تینوں علماء کی عبارت میں ثبت مشترکہ لفظ ہے جس سے ثبوت کا پایا جانا اظہر ہوتا ہے ،کلام صاحب جب آپ کے نذدیک بعض سے نسبت غلط ہے اور بعض سے مشکوک ہے توآپ اپنے رشحات قلم کی جاذبیت سے اس قضیہ کی نفی کر سکتے تھے جو آپ نے زحمت کرنا بھی درست نہیں سمجھا ۔اس سے بالترتیب ابن مسعود کا حلت نکاح متعہ کا عقیدہ واشگاف ہوتا ہے اور جملہ اعتراضات و ر وایات کا رد ہوتا ہے ۔
آخر میں شارح صحیح مسلم نووی کا قول پیش کرنا فائدے سے خالی نہیں ہوگا،چناچہ نووی رقم طراز ہے:
﴿وفی قراء ت بن مسعود فما استمتعتم بہ منھن الی اجل و قراۃ بن مسعود ھذہ شاذۃ لایحتج بھا قراناولا خبرا ولایلزم العمل بھا﴾
ابن مسعود کی سورہ نساء کی آیت ۲۴ کی قرات یہ تھی ۔۔فما استمتعتم بہ منھن الی اجل۔۔یعنی جب تم ان سے ایک مدت تک فائدہ اٹھا لو۔ابن مسعود کی قرات شاذ ہے یعنی جمہور کے خلاف ہے جس نے قرآنی آیت کا استدلال ہوتا ہے نہ ہی کسی روایت کا اور نہ اس پر عمل کرنے کا مو جب ہے ۔
حوالہ :المنھاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج ۔جز ۔۹۔ صفحہ ۔۱۷۹۔
تبصرہ : ہم نووی کے شاذ کہنے پر تعجب کرتے ہیں لیکن اس فیصلے سے قطع نظر ابن مسعود کا عقیدہ بلمتعہ کا اثبات تو ہو ہی جاتا ہے جو ہمارا مقصود ہے ۔باقی کی ابحاث ثانوی ہے ۔

اقول : خیر طلب صاحب نے ایک مصباح اللغات کیا ڈاون لوڈ کر لی ہے، انہیں لگتا ہے کہ دنیا میں بس یہی ایک قاموس ہے، اوراس کے باہر عربی کا کوئی وجود نہیں۔ آپ قاموس الوحید بھی ڈاون لوڈ کر لیں۔قاموس الوحید میں ثَبَتَ کا ترجمہ یوں کیا گیا ہے ۔ جمنا، ٹھرنا، ثابت قدم رہنا، مضبوط و مستحکم ہونا، قائم رہنا، ثابت و ظاہر ہونا،محقق ہونا ، پایہ ثبوت کو پہنچنا۔ چنانچہ بہت سی روایات میں آپ کو ثبت کا ترجمہ ’’قائم رہنا‘‘ کرنا پڑے گا۔ جیسا آپ کی معتبر کتاب ’’کمال الدین ‘‘میں حضرت زین العابدین سے مروی ہے کہ (من ثبت علی ولایتنا فی غیبۃ قائمنا اعطاہ اﷲ عز و جل اجر الف شھید من شھداء بدر واحد) یعنی جو ہمارے قائم کی غیبت میں ہماری ولایت پر قائم رہے گا، تو اس کو اﷲ تعالی ایک ہزار شہداء بدر و احد کے برابر اجر عطا کرے گا۔ ﴿کمال الدین ص ۳۲۳
اسی طرح کنز العمال میں حضرت جابر ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا (کان فیمن ثبت مع رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یوم حنین ایمن ابن ام ایمن وھو ایمن بن عبید) غزوہ حنین کے دن جو لوگ رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ ثابت قدم رہے، ان میں سے ام ایمن کا بیٹا ایمن یعنی ایمن بن عبید بھی شامل تھا۔ ﴿کنز العمال ج ۱۰ ص ۵۳۱

بہرحال خیر طلب نے حافظ ابن حجر اور علامہ شوکانی کی طرف بھی اس قول کی نسبت کی، حالانکہ ان دونوں نے فقط ابن حزم کا قول نقل کیا۔ابن حجر نے ابن حزم کا رد کیا، اور علامہ شوکانی نے ابن حجر کے اس رد کا ذکر کرکے اس کی طرف رجوع کرنے کو کہا۔اس لئے جان لیجئے کہ یہ صرف ابن حزم کا قول ہے، اور حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اس پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے اسے غلط ثابت کیا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں (وفی جمیع ما اطلقہ نظر) ﴿فتح الباری ج ۹ ص ۱۷۴
اسی طرح علامہ شوکانی نے لکھا ہے (وقد ذکر الحافظ فی فتح الباری بعدما حکی عن ابن حزم کلامہ السالف المتضمن لروایۃ جواز المتعۃ عن جماعۃ من الصحابۃ ومن بعدھم مناقشات فقال وفی جمیع ما اطلقہ نظر اما ابن مسعود الی آخر کلامہ فلیراجع) ﴿نیل الاوطار ج ۶ ص ۱۹۴
علامہ عبد الحی لکھنوی فرماتے ہیں (ونسب ابن حزم الی جابر وابن مسعود وابن عباس ومعاویۃ وابی سعید الخدری وغیرھم الحکم بتحلیلھا وتعقب بانہ لم یصح عنھم ذلک) ﴿التعلیق المجدد لموطا الامام محمد ج ۲ ص ۵۲۴

قولہ : ہم نے سابقہ تحریر میں واشگاف موقف پیش کیا علماء اہلسنت کا جو اس بات پر مصر تھے کے بغیر گواہ کے نکاح ہوجاتا ہے ،یہی ہمارا مقصود تھااب ہونا یہ چاہیے تھا کہ کلام صاحب اس معقول کا جواب دیتے ان تمام افراد سے نفی کا ثبوت دیتے یا اگر نہ دے سکتے تھے تو کم سے کم اس بات کو تو مان ہی لیتے کیونکہ طالب علم کی خاصیت یہ ہے کہ وہ مکابرہ و مجادلہ سے پرہیز کے دلیل کا تابع ہوتاہے لیکن کلام صاحب نے جواب میں یوں گلو خاصی کرنے کی کوشش کی :
اعتراض:اہلسنت کے مطابق اگر گواہ اور اعلان میں سے کوئی ایک بھی موجود نہ ہو تو نکاح باطل ہے ۔
جواب: کلام صاحب اس سادہ لوحی پر کون نہ مر جائے ۔یعنی اب جن حضرات سے ہم نے ثابت کیا ہے کہ وہ گواہ کو ضروری نہیں سمجھتے وہاں کسی کے لیے بھی نہیں لکھا کہ وہ اس بات کے معتقد تھے کہ اس کا اعلان کیاجائے ،صرف امام مالک بن انس کے لئے ابن قدامہ یہ لاحقہ لگاتے ہیں :
﴿ومالک،اذااعلنوہ ﴾
مالک کا نظریہ یہ ہے کہ دہ گواہوں کی ضرورت نہیں اس صورت میں جب اعلان کیا جائے ۔
اس سے پہلے کی عبارت میں اذااعلنوہ کی قید صحابہ ،تابعین کا ذکر نہیں آیا ۔ان صحابہ و تابعین سے نفی کا ثبوت تو آپ کے ذم میں تھاجو آپ نے ہمارے متھے ڈال دیا ،ہم نے سیاق و سباق کر دیا کے امام مالک بن انس کے علاوہ سب ہی بغیر گواہوں کے نکاح کی اباحت کے قائل ہے اور اعلان کو ضروری نہیں سمجھتے ۔

اقول : خیر طلب نے امام زہری کا ذکر کیا۔ امام عبدا لرزاق ؒ نے المصنف میں معمر سے روایت کی ہے کہ امام زہری نے فرمایا (فانا نراہ نکاحا جائزا اذا اعلنوہ ولم یسروہ ) یعنی ہم نکاح کو جائز سمجھتے ہیں جبکہ اس کا اعلان کر دیں، اور اس کو خفیہ نہ رکھیں۔ ﴿المصنف ، کتاب النکاح﴾ پھر خیر طلب نے ظاہریہ کی طرف اس قول کی نسبت کی ، جبکہ ابن حزم ظاہری کہتا ہے( لا یتم النکاح الا باشھاد عدلین فصاعدا او باعلان عام ) یعنی نکاح منعقد نہیں ہوتا بغیر دو عادل افراد کی گواہی کے، یا اعلان عام کے۔ ﴿المحلی بالآثار ، کتاب النکاح﴾ حافظ ابن تیمیہ فرماتے ہیں (اذا تزوجھا بلا ولی ولا شھود وکتم النکاح فھذا نکاح باطل باتفاق الائمۃ) یعنی اگر کوئی مرد کسی عورت سے بغیر ولی، گواہوں کے اور خفیہ نکاح کرے، تو ائمہ ایسے نکاح کے باطل ہونے پر متفق ہیں۔﴿مجموع الفتاوی ج ۸ ص ۲۶۷﴾ اسی طرح شیخ حمد بن عبداﷲ فرماتے ہیں (وقال المالکیۃ وھو مذھب ابن المنذر واختارہ شیخ الاسلام ابن تیمیۃ وھو روایۃ عن الامام احمد ان الاشھاد لا یشترط وانما یشترط اعلان النکاح) یعنی مالکیہ کہتے ہیں، اور ابن منذر کا مذہب بھی یہی ہے، اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بھی اسے اختیار کیا ہے، اور امام احمد سے بھی مروی ہے، کہ گواہی شرط نہیں، اور شرط تو فقط نکاح کا اعلان ہے۔ ﴿شرح زاد المستقنع ج ۲۰ ص ۳۶﴾ امید ہے خیر طلب صاحب کے یہ شبہات بھی رفع ہو چکے ہونگے۔

0 comments: