حدثنا یونس بن الاعلی قال حدثنا یحیی بن عبد اﷲ بن بکیر
قال حدثنا اللیث بن سعد قال حدثنا علوان عن صالح بن کیسان عن عمر بن عبد الرحمٰن بن
عوف ان اباہ عبد الرحمن بن عوف دخل علی ابی بکر الصدیق رحمۃ اﷲ علیہ فی مرضہ الذی توفی
فیہ ۔۔۔ قال ابوبکر رضی اﷲ تعالٰی عنہ : اجل انی لا آسی من الدنیا الا علی ثلاث فعلتھن
وددت انی ترکتھن وثلاث ترکتھن وددت انی فعلتھن و ثلاث وددت انی سالت عنھن رسول اﷲ ﷺ
اما اللاتی وددت انی ترکتھن فوددت انی لم اکن کشفت بیت فاطمہ عن شیء وان کانوا قد غلقوہ
علی الحرب
حضرت ابوبکر ؓ نے کہا کہ ہاں میرے دل میں دنیا کی کوئی
حسرت نہیں ہے، مگر تین چیزیں ایسی ہیں جو میں نے کی ہیں مگر کاش نہ کرتا اورگ تین چیزیں
ایسی ہیں جو میں نے چھوڑ دی ہیں مگر کاش ان کو کرتا اور تین چیزیں ایسی ہیں کہ کاش
میں رسول اﷲ ﷺ سے ان کے متعلق دریافت کر لیتا ۔ وہ تین چیزیں جن کو میں چھوڑ دیتا تو
اچھا ہوتا، یہ ہیں کہ کاش میں فاطمہ ؓ کا گھر نہ کھولتا اگرچہ وہ لوگ جنگ کے لیے اس
کا دروازہ بند کر لیتے
تاریخ الطبری ج ۲ ص ۲۰۵
علوان بن داود پر امام بخاری کی جرح
اس روایت کی سند میں علوان (بن داود البجلی) منکر الحدیث
ہے۔ جس کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔ امام ذہبی اپنی کتاب میزان الاعتدال میں لکھتے
ہیں : قال البخاری علوان بن داود ویقال ابن صالح منکر الحدیث (ترجمہ : امام بخاری نے
فرمایا کہ علوان بن داود، اور ابن صالح بھی کہا گیا، منکر الحدیث ہے)۔ میزان الاعتدال
ج ۳ ص ۱۰۸
اور اسی کتاب میزان الاعتدال میں امام ذھبی نے لکھا ہے
کہ ونقل ابن القطان ان البخاری قال کل من قلت فیہ منکر الحدیث فلا تحل الروایتہ عنہ
(ترجمہ : ابن القطان نے نقال کیا ہے کہ امام بخاری نے فرمایا : جس کو میں منکر الحدیث
کہوں تو اس سے روایت کرنا جائز نہیں) ۔میزان الاعتدال ج ۱ ص ۶
رافضی اس کے جواب میں کہتا ہے (بخاری کی طرف ایسی نسبت
ثابت نہیں۔ کتب بخاری [تاریخ بخاری، الکنی ، تاریخ اوسط، ضعفاء الصغیر میں کسی بھی
طرح کا عنوان ابن داود کا تحقیق کرنے پر نہیں ملا ہے تاکہ بخاری کی بات کی تائید کر
سکیں۔ سب سے پہلا شخص جس نے یہ بات کی ہے وہ عقیلی ہیں یہ بات انہوں نے الضعفاء الکبیر
میں کہی ہے کہ آدم بن موسی نے بخاری سے نقل کیا ہے حدثنی آدم بن موسی قال سمعت البخاری
قال علوان بن داود البجلی ویقال علوان بن صالح منکر الحدیث آدم بن موسی کہتا ہے : میں
نے بخاری سے سنا ہے : علوان بن داود بجلی جو علوان بن صالح سے بھی جانے جاتے ہیں ،
انکی روایت غیر قابل قبول ہے۔ لیکن آدم بن موسی جس نے بخاری سے قول نقل کیا ہے ، پر
اہم ترین اعتراض یہ ہے کہ اسکا نام علم رجال اہلسنت کی کتابوں میں نہیں آیا ہے چنانچہ
محمد ناصر البانی نے ارواء الغلیل یک روایت میں جس کا راوی آدم بن موسی کہتے ہیں لکن
آدم بن موسی لم اجد لہ ترجمۃ الآن میں نے ابتک کہیں پر بھی آدم بن موسی کا احوال نہیں
دیکھا ہے اس بناء قول بخاری سے استدلال کرنا صحیح نہیں ہے۔)
رافضی کا یہ قول اس وقت تسلیم کیا جاسکتا تھا جب وہ خود
اس قاعدے پر عمل کرتا کہ محدثین کے جرح و تعدیل سے متعلق اقوال کی صحیح سند لازمی ہے
ان پر اعتماد کرنے کیلئے۔ لیکن اس رافضی نے نہ کبھی بھی راویوں پر جرح و تعدیل میں
محدثین کے اقوال کی صحیح سند پیش نہیں کی، تو آج اس کو صحیح سند کی فکر کیوں پڑ گئی
ہے؟ اور ضروری نہیں کہ ایک راوی کے متعلق ایک امام کا قول اسی امام کی کسی کتاب میں
موجود بھی ہوگا، جیسا کہ اہل علم اس سے بخوبی واقف ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ امام بخاری
نے علوان بن داود پر جرح کی،اور رافضی کا اس پر اعتراض غلط ہے۔
منکر الحدیث کی اصطلاح
اس کے بعد رافضی کہتا ہے (ہر منکر الحدیث ضعیف نہیں ہوتا
ہے اس لئے یہ اصطلاح بہت سے ثقہ راویوں کے لئے استعمال ہوئی ہے۔ ذہبی و ابن حجر نے
اپنے مطلب کے موقعوں پر تصریح کی ہے منکر حدیث ، ضعیف نہیں ہوتا ہے۔)
ابھی ہم امام بخاری کے حوالے سے ثابت کر چکے ہیں کہ ان
کے مطابق ایک راوی کا منکر الحدیث ہونا اس پر جرح ہے۔ اس لئے رافضی کا یہ کہنا کہ ہر
منکر الحدیث ضعیف نہیں ہوتا،اس سے علوان بن داود کا ضعف دور نہیں ہوتا۔ شیعہ فورمز
پر موجود ایک ٹاپک ’’مولا علی سے منسوب روایت کے مجھے شیخین‘‘ میں ایک روایت پر کلام
کرتے ہوئے شیعہ مناظر اسماعیل دیوبندی لکھتا ہے ـ(اس روایت کی سند سخت ضعیف ہے۔
اسکی سند میں سلامۃ بن روح مجروح ہیں ان کو حافظ ابوزرعہ نے منکر الحدیث کہا ہے)۔ معلوم
ہوا کہ شیعہ حضرات کے نزدیک بھی منکر الحدیث کی اصطلاح جرح کے زمرے میں آتی ہے۔
ابن حبان کی توثیق سے علوان ثقہ ثابت نہیں ہوتا
رافضی کہتا ہے ( ابن حبان ، مشہور عالم رجال اہل سنت نے
علوان بن داود کو ثقات میں شمار کیا ہے اور انہیں کتاب ’’الثقات ‘‘ میں ذکر کیا ہے)
۔ اس کے بعد رافضی کہتا ہے ( ممکن ہے کہ کوئی اعتراض کرے کہ ابن حبان سہل انگار لوگوں
میں سے اور تساہل سے کام لیتے ہیں یعنی آسانی سے کسی کی توثیق کردیتے ہیں اور غور و
خوض سے کام نہیں لیتے ہیں ؟ قرائن اور شواہد سے معلوم ہوتا ہے یہ فرضیہ بالکل باطل
ہے بلکہ بزرگان اہلسنت نے اس کے برخلاف بات کہی ہے اور ابن حبان کو سخت دقیق شمار کیا
ہے۔)
بات یہ ہے کہ بزرگان اہلسنت نے ضرور اس فرضیہ کا رد کیا
ہے کہ ابن حبان آسانی سے کسی کی توثیق کردیتے ہیں اور غورو خوض سے کام نہیں لیتے، لیکن
اس بات کو انہوں نے تسلیم کیا ہے، اور خود آپ نے بھی نقل کیا ہے ، کہ ان کی روایت کی
تصحیح کی شرائط یا راوی کی توثیق کی شرائط زیادہ آسان تھیں۔ اور ہمارا ابن حبان کے
متساہل ہونے سے مراد یہی ہے کہ ان کی شرائط زیادہ نرم تھیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ انہوں
نے علوان بن داود کو اپنی ـکتاب ’’الثقات‘‘ میں شمار کیا۔ اور ہم نے امام
بخاری کے حوالے سے ثابت کیا ہے کہ علوان بن داود ضعیف ہے۔ یہی بات علامہ ہیثمی نے مجمع
الزوائد میں بھی کہی ہے۔ اور اس کے علاوہ عقیلی نے بھی علوان بن داود کو اپنی کتاب
الضعفاء میں شامل کیا ہے۔اور ابوسعید بن یونس نے بھی اسے منکر الحدیث کہا ہے(بحوالہ
لسان المیزان ج ۴ ص ۱۸۸)
اس روایت کی دوسری اسناد
رافضی کہتا ہے ( روایت دوسری اسناد سے بھی آئی ہے۔ یہ
روایت متعدد سند سے نقل ہوئی ہے کہ فقط ایک سند میں علوان بن داود ہے اس روایت کو نقل
کرنے کے بعد شمس الدین ذہبی لکھتے ہیں رواہ ھکذا واطول من ھذا ابن وھب، عن اللیث بن
سعد، عن صالح بن کیسان، اخرجہ کذلک ابن عائذ۔ ابن وہب اور اسی طرح ابن عائذ نے اس روایت
کو تفصیلی نقل کیا ہے۔ اس سند میں علوان بن داود کا نام نہیں آیا ہے اور لیث بن سعد
نے بلا واسطہ صالح بن کیسان سے روایت نقل کی ہے۔ ابن عساکر نے بھی اس سند کی روایت
نقل کی ہے )
گزارش یہ ہے کہ یہ دونوں روایات منقطع ہیں، کیونکہ لیث
بن سعد کی سماعت صالح بن کیسان سے ثابت نہیں، تو کس طرح انہوں نے صالح بن کیسان سے
یہ روایت نقل کی؟
اور اس کے بعد انہوں نے ابن عساکر کا قول ترجمہ کرنے میں
نہ صرف غلطی کی، بلکہ اپنی طرف سے الفاظ بھی شامل کر دیئے ۔ کسی عالم سے پوچھئیے کہ
کیا (واسقط منہ علوان بن داود وقد وقع لی عالیا من حدیث اللیث وفیہ ذکر علوان ) کا
ترجمہ یہ ہو سکتا ہے (جس میں روایت میں علوان بن داود کا نام تک نہیں لیا جو بہترین
سند رکھتا اس روایت کی نسبت جس میں علوان ہے) اور اس پر آپ کا یہ فرمایا کہ (یعنی وہ
حدیث جس مین علوان ہے وہ روایت متصل حسن ہے اور جس میں علوان نہیں ہے وہ روایت سند
متصل و صحیح ہے) ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ یہ سب لکھتے وقت کسی اور ہی دنیا میں اڑان
بھر رہے تھے۔
اس کے بعد رافضی کہتا ہے (بلاذری نے انساب الاشراف میں
بھی سند ذیل کے ساتھ روایت کو نقل کرتے ہیں ) ۔ اس پر ہم یہی کہیں گے کہ بلاذری کی
اپنی توثیق ہم نے ابھی تک نہیں پڑھی، لہٰذا جب تک اس کی اپنی توثیق ثابت نہیں ہو جاتی،
ہم اس وقت تک اس کی سند کی طرف توجہ نہیں کر سکتے۔
کثرت اسناد کا دعوٰی
اس کے بعد رافضی کہتا ہے (اس بنا پر کم از کم تین سند
مختلف سے یہ روایت نقل ہوئی ہے اگر ہم یہ بھی فرض کر لیں کہ تمام سند میں کوئی نہ کوئی
مسئلہ ہے تب بھی انکی حجیت پر آنچ نہیں آتی ہے اسلئے کہ علم رجال اہلسنت کے اعتبار
سے اگر کوئی روایت تین سند سے گزر جائے اگرچہ تمام کی تمام ضعیف ہوں ایک دوسری روایت
کو مستحکم کرتی ہیں اور حجت مانی جاتی ہیں۔)
اس کے بعد رافضی نے علماء اہلسنت کے اقوال نقل کئے ہیں
لیکن ان تمام میں کثرت سند کی بات کی گئی ہے، اور کثرت سند سے مراد فقط تین اسناد نہیں
ہوتی، اور نہ ہی اس کثرت سند کو شیعہ علماء ہی نے تین اسناد سمجھا ہے چنانچہ جب اہلسنت
کی کتب میں حضرت علی سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا
جو شخص مجھے حضرات شیخین (ابوبکرؓ و عمر ؓ)پر فضیلت دے
گا، تو میں اس شخص پر تہمت کی حد جاری کرتے ہوئے کوڑے لگاؤں گا
اس روایت کی تین اسناد شیعہ فورمز کے ایک ٹاپک ’’مولا
علی سے منسوب روایت کے مجھے شیخین‘‘ میں رافضی اسماعیل دیوبندی کے حوالے سے پوسٹ کی
گئیں۔
حدثنا ابوعلی الحسن بن البزار حدثنا الھیثم بن الخارجۃ
ثنا شہاب بن خراش عن حجاج بن دینار عن ابی معشر عن ابراھیم عن علقمۃ۔۔۔
حدثنا عبداﷲ حدثنی ھدیۃ بن عبدالوھاب قثنا احمد بن یونس
قثنامحمد بن طلحۃ عن ابی عبیدۃ بن الحکم عن الحکم بن جھل ۔۔۔
اخبرنا ابو العز بن کادش انا القاضی ابوالطیب الطبری انا
علی بن عمر بن محمد نا محمد بن محمد بن سلیمان نا محمد بن عزیز الایلی اخبرنی سلامۃ
بن روح عن عقیل بن خالد قال قال ابن شہاب قال عبداﷲ ابن کثیر ۔۔۔
اس کے باوجود انہوں نے اس کا رد کیا۔ اورشیعہ معتبر راوی
ہشام کے عقیدہ تجسیم کی روایات بھی تین سے زائد ہیں لیکن شیعہ اس کا رد کرتے ہیں، تو
کس منہ سے ہمیں کہا جاتا ہے کہ ہم اس روایت کو قبول کر لیں کیونکہ اس کی فقط تین اسناد
ہیں؟
صحیح بخاری میں ضعیف رایوں کی بحث
رافضی کہتا ہے (بخاری نے منکر الحدیث سے روایات نقل کی
ہے) اس کے بعد اس نے ایسے چند راویوں کی نشان دہی کی ہے۔لیکن یہ بھی بے فائدہ ہے کیونکہ
امام بخاری نے اگر بعض جگہوں پر ضعیف راویوں کی روایات نقل بھی کی ہیں، یا مدلسین کی
عنعنہ والی روایات نقل کی ہیں تو اس سے ضعیف راوی کی ثقاہت ثابت نہیں ہوتی، بلکہ اس
کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس روایت کی ایسی دوسری سند موجود ہوتی ہے جس میں وہ اور کوئی
دوسرا ضعیف راوی نہیں ہوتا اور مدلس کا عنعنہ اس میں نہیں پایا جاتا۔
خلاصۂ کلام
پس معلوم ہوا کہ یہ روایت علوان بن داود کی وجہ سے ضعیف
ہے۔ نیز اس کی کوئی بھی سند صحیح یا حسن کے درجے تک نہیں پہنچتی، اور اسکے طرق بھی
دو تین ہیں۔ اس کے باوجود اس روایت کے متن میں ایسے الفاظ موجود نہیں جس سے حضرت فاطمہ
ؓ کے گھر جلائے جانے کا پتہ چلے، چونکہ اہل تشیع کے پاس اس دعوے کو ثابت کرنے کیلئے
ردی کباڑ کے سوا کچھ نہیں، اس وجہ سے وہ ایسے غلط ہتھکنڈوں کے ذریعے عوام الناس کو
دھوکہ دینا چاہتے ہیں۔ اﷲ تعالٰی ہمیں ان کے شر سے حفاظت عطا فرمائے۔ آمین!
0 comments:
Post a Comment