Thursday, July 16, 2015

الرد الثانی علی شبھات الشیعۃ فی قضیۃ المتعۃ - حصہ دوئم

قولہ : علامہ ابن قیم ابن تیمیہ کے کلام بایں نقل کرتے ہیں
وسمعت شیخ الاسلام یقول : نکاح المتعۃ خیر من نکاح التحلیل من عشرۃ أوجہ
میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ سے سنا ہے کہ نکاح متعہ حلالہ سے دس وجوہات کی بنا پر بہتر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان وجوہات کو بتاتے ہوئے ابن قیم کہتے ہے:
الثامن : أن الفطر السلیمۃ والقلوب التی لم یتمکن منھا مرض الجھل والتقلید تنفر من التحلیل أشد نفار، وتعیر بہ أعظم تعبیر، حتی إن کثیرا من النساء تعیر المرأۃ بہ أکثر مما تعیرھا بالزنا، ونکاح المتعۃ لا تنفر منہ الفطر والعقول ، ولو نفرت منہ۔ لم یبح فی أول الإسلام
آٹھویں وجہ یہ ہے کہ سلیم فطرت اور وہ دل جن میں جہل اورتقلید کا مرض نہ ہو وہ حلالہ سے شدید نفرت کرتے ہیں، اور اس کو بہت زیادہ کوستے ہیں۔ یہاں تک کہ بہت ساری عورتیں ایک حلالہ شدہ عورت کا زیادہ مذاق بناتی ہیں بنسبت کہ وہ زنا کرے۔ جب کہ نکاح متعہ سے نہ فطرت سلیمہ نفرت کرتی ہے اور ہی عقل۔ اگر اس کو برا سمجھا جاتا تو کبھی اوائل اسلام میں جائز نہ ہوتا۔
حوالہ : إغاثۃ اللھفان من مصاید الشیطان، جز ۱ ، صفحہ ۲۷۸، الناشر : مکتبۃ المعارف، الریاض ، اللملکۃ العربیۃ السعودیۃ


اقول : ابن قیم اور ابن تیمیہ اگر احناف کے ساتھ اس معاملہ میں اختلاف کرتے بھی ہیں، تب بھی ان کا حوالہ پیش کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ میں ابن بابویہ القمی کا حوالہ پیش کروں جو کہ انبیاء کے سہو اور خطا کے منکرین کو غالی سمجھتے ہیں۔ اب خیر طلب انبیاء بلکہ اپنے بارہ ائمہ کرام کو بھی سہو اور خطا سے پاک سمجھتے ہیں، تو اگر میں خیر طلب کو بھی غالی کہوں، تو ان کو ہضم نہیں ہوگا۔ اس لئے اگر ابن قیم اور ابن تیمیہ اس حوالے سے احناف سے اختلاف کرتے ہیں، تب بھی ان کا حوالہ پیش کرنا غلط ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جس عورت کو تین طلاق دی جائے، اس کا شوہر اس کو دوبارہ اپنے نکاح میں نہیں لا سکتا یہاں تک کہ وہ عورت کسی شخص سے نکاح کر لے، اور پھر طلاق یا اس شخص کی موت واقع ہونے کے بعد دوبارہ اپنے پہلے شوہر سے نکاح کر لے۔دوبارہ اپنے پہلے خاوند کے واسطے حلال ہو جانے کو حلالہ کہتے ہیں۔

قولہ : اب ہم ابن تیمیہ کے کلام کو بھی سنتے ہیں
ولکن تنازعو۱ في’’نکاح المتعۃ‘‘ فإن نکاح المتعۃ خیر من نکاح التحلیل من ثلاثۃ أوجہ۔ أحدھا ’’أنہ کان مباحا في أول الإسلام بخلاف التحلیل۔‘‘ الثاني ’’أنہ رخص فیہ ابن عباس وطائفۃ من السلف؛ بخلاف التحلیل فإنہ لم یرخص فیہ أحد من الصحابۃ‘‘۔ الثالث ’’ أن المتمتع لہ رغبۃ في المرأۃ وللمرأۃ رغبۃ فیہ إلی أجل ؛ بخلاف المحلل فإن المرأۃ لیس لھا رغبۃ فیہ بحال وھو لیس لہ رغبۃ فیھا بل في أخذ ما یعطاہ وإن کان لہ رغبۃ فھي من رغبتہ في الوطء ؛ لا في اتخاذھا زوجۃ من جنس رغبۃ الزاني؛

اگرچہ نکاح متعہ میں اختلاف ہوا ہے ۔ پس اس میں شک نہیں کہ نکاح متعہ بہتر ہے حلالہ سے تین وجوہات کی بنا پر:
۱۔ نکاح متعہ اوائل اسلام میں جائز تھا جب کہ حلالہ کے ساتھ یہ صورت نہیں
۲۔ نکاح متعہ کی اجازت ابن عباس اور سلف میں سے ایک گروہ نے دی ہے جب کہ حلالہ کی اجازت کسی بھی صحابی نے نہیں دی
۳۔ متعہ کرنے والے کو متعہ کرنے والی عورت سے ایک خاص رغبت ہوتی ہے اسی طرح متعہ کرنے والی عورت کو بھی مرد سے ہوتی ہے ایک عرصہ تک، جب کہ حلالہ میں اس کے برخلاف حلالہ کرنے والی عورت کو کوئی رغبت نہیں ہوتی اور حلالہ کرنے والے مرد کو فقط جماع و ہمبستری سے رغبت ہوتی ہے نہ کہ اس کو حقیقی زوجہ بنانے کی جو زنا کرنے والے مرد کی رغبت کی طرح ہے۔
حوالہ : مجموع الفتاوي جز ۳۲، ص ۹۳ الناشر : مجمع الملک فھد لطباعۃ المصحف الشریف ، المدینۃ النبویۃ ، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ
کیوں کلام صاحب اب حنفی تو خیر منا ہی لیں جن کا حلالہ متعہ سے بدتر قرار پایا اور متعہ میں رغبت زنا قرار نہیں گیا بلکہ حلالہ میں قرار دیا جارہا ہے۔ متعہ کی اجازت ابن عباس و سلف سے نقل کی جارہی ہے۔

اقول : حلالہ کے متعلق قرآن مجید کی آیت کریمہ کے متعلق شیعی روایت شیعی تفسیر سے شیعی کتاب میں ملاحظہ کیجئے :
جناب محمد بن مسعود عیاشی اپنی تفسیر میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ؑ نے آیت مبارکہ (فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ) ’’ کہ اس کے بعد وہ عورت اپنے خاوند پر حلال نہیں ہوتی جب تک کسی اور شخص سے نکاح نہ کرے‘‘ کی تفسیر میں فرمایا کہ یہاں تیسری طلاق مراد ہے۔ پس جب وہ دوسرا شخص (محلل) اسے طلاق دے دے اور سابقہ میاں بیوی راضی ہوں تو پھر عقد جدید کر سکتے ہیں۔﴿وسائل الشیعہ، کتاب الطلاق، ج ۱۵، ص ۲۵۷
اسی طرح الکافی میں زرارہ نے امام باقر سے روایت کی ہے کہ آپ ؑ نے اس شخص کے بارے میں جو اپنی بیوی کو طلاق دے اور عدت کے ختم ہونے پر پھر نکاح کرے اور پھر طلاق دے دے حتٰی کہ تین بار ایسا کرے؟ فرمایا اب جب تک کسی اور شخص (محلل) سے نکاح نہیں کرے گی تب تک اپنے پہلے خاوند پر حلال نہیں ہوگی۔(فإذا تزوجھا غیرہ ولم یدخل بھا وطلقھا أو مات عنھا لم تحل لزوجھا الأول حتی یذوق الآخر عسیلتھا) اور اگر یہ دوسرا شخص دخول سے پہلے طلاق دے دے یا فوت ہو جائے تب بھی پہلے خاوند پر حلال نہ ہوگی۔ جب تک دوسرا شخص مباشرت کا مزہ نہ چکھے۔ ﴿الکافی ج ۶ ص ۷۶

قولہ : کلام صاحب اس باب کا اختتام ہم تحدی کے ساتھ کرتے ہیں کہ متعہ کو زنا کافی نہیں بلکہ اب ان سوالوں کا جواب دیں
۱۔ متعہ کے زنا ہونے کی منفرد دلیل فرمائیں
۲۔ ایسے افراد کے بارے میں بتائیں جو اس کی اباحت کے قائل ہیں۔
۳۔ سنی علماء نے بالاخر اس کو نکاح المتعہ سے تعبیر کیوں کیا۔ یعنی یہ تو ایسا ہی ہے کہ اسلامی شراب ، اسلامی سود، اسلامی زنا۔۔ کیا طیب و غیر طیب کا ایک جگہ جمع ہونا ممکن ہے، کیا نکاح و زنا کا ملاپ ایک جگہ ممکن ہے؟ اگر متعہ زنا ہے تو کیا نکاح المتعہ بھی کوئی شئی ہے؟

اقول :متعہ کے زنا ہونے کے دلائل میں نے اس تحریر کے آغاز ہی میں دے دیئے ہیں۔ اورمتعہ کی اباحت کے قائلین کے نام مجھ سے پوچھنا ایک عجیب بات ہے، چونکہ میں متعہ کے حرام ہونے کا قائل ہوں، لہٰذا آپ مجھ سے ان لوگوں کے نام پوچھئے جو کہ اس کو حرام قرار دیتے ہیں۔ ایسے افراد کے نام بتاناآپ کا کام ہے جو کہ متعہ کی اباحت کے قائل ہیں۔بہرحال میں نے کبھی اس کی تحقیق نہیں کی کہ کون متعہ کی اباحت کا قائل ہے، اور نہ ہی مجھے اس کی ضرورت محسوس ہوئی کیونکہ اس کے متعلق صحیح اور مرفوع روایات ہماری کتب میں موجود ہیں جس سے متعہ کا حرام ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اور ان صحیح اور مرفوع روایات کی موجودگی میں کسی دوسرے کے قول کی اہمیت ہی نہیں رہتی۔اورمتعہ کو نکاح المتعہ کہنے سے اس کی اباحت ثابت کرنا پرلے درجے کی جاہلیت ہے، اور اگر نکاح المتعہ کا مطلب اسلامی متعہ ہے، تو آپ یہ بھی تسلیم کرلیں کہ نکاح البھیمہ کا مطلب جانوروں سے اسلامی نکاح ہونا چاہئے ، کیونکہ ابن بابویہ اپنی کتاب ’’معانی الاخبار‘‘ میں کہتا ہے :
(وأما نکاح البھیمۃ فمعروف) یعنی جہاں تک نکاح البھیمہ (جانوروں سے حرام فعل) کا تعلق ہے، تو اس کے معنی معروف ہیں( یعنی سب جانتے ہیں)۔ اور شیخ صدوق نے یہ اس روایت کے تحت لکھا جس میں فرمایا گیا ہے کہ (ملعون ملعون من نکح بھیمۃ) یعنی وہ ملعون ہے جو جانور سے نکاح کرے۔ ﴿معانی الاخبار ص ۴۰۳
یہاں پر نکاح کے لفظ سے اگر ہم یہ سمجھیں کہ جانوروں کے ساتھ حرام فعل کرنا اسلامی نکاح ہے، تو میں کہتا ہوں کہ یہ بھی ایسی ہی جاہلیت ہے جس طرح کی جاہلیت کا مظاہرہ خیر طلب نے نکاح المتعہ کو اسلامی متعہ سمجھ کر کیاہے۔ جان لیجئے کہ نکاح کے لغوی معنی جماع کے ہیں۔ مشہو شیعہ آیت اﷲ محمد جواد فاضل لنکرانی کی ویب سائٹ پر انکا ایک درس شائع ہواہے، جس میں انہوں نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۲۱ کے بارے میں مشہور شیعہ مفسر طبرسی کے حوالے سے فرماتے ہیں :
 (معنای لغوی نکاح وطی و جماع است، کثرت الاستعمال در آن بودہ وبعد از کثرت استعمال بہ معنای عقد استعمال شدہ است)
نکاح کے لغوی معنی وطی اور جماع کے ہیں۔ ان معنوں میں کثرت سے اس کا استعمال ہوا، اور اس کے بعد عقد کے معنوں میں بھی اس کا استعمال ہوا۔
 (www.fazellankarani.com/persian/lesson/2897)
قارئین کرام ! اب آپ خود ہی فیصلہ کیجئے کہ کیا نکاح المتعہ کہنے سے متعہ جائز قرار دیا جاسکتا ہے یا نہیں۔


قولہ :قطعا کے معنی جب ہم نے لغت میں تلاش کرے تو فیروز لغت میں باین معنے ملے اصلا۔ہرگز۔ذرا بھی۔ بالکل۔ حوالہ: فیروز اللغات ، صفحہ ۹۵۹، طبع فیروز سنز لمٹیڈ۔
تو معنی کلام یہ ہے کہ سورۃ النساء کی آیت ۲۴ ہرگز ہرگز متعہ کے عنوان سے تعلق نہیں رکھتی ۔ اب اس قطعا کی گنجائش جب ہوتی جب اس آیت پر کسی سے متعہ کے حوالے سے اقوال منقول ہی نہیں ہوتے، لیکن مع الاسف شدید کلام صاحب نے بے بانگ دھل جو دعوی کیا ہے اسکی حقیقت سراب سے زیادہ نہیں جو دور سے تو حقیقت لگے اور تحقیق کے بعد دھول چاٹنی پڑے۔
کلام صاحب آپ سے انصاف کی امید تو کم ہی رکھتا ہوں لیکن منصف قارئیں کی توجہ علمائے اہلسنت کے اقوال کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ چنانچہ ذیل میں علمائے اہلسنت کے اقوال نقل کئے جا رہے ہیں جو اجمالا علم کے لئے کافی ہیں ، تفصیل کے شائقین دیگر کتب فقہ، تفسیر کا مطالعہ کریں یا کبھی موقعہ ملا تو ہم شرح و بسط کے ساتھ اس پر لکھیں گے ۔ سردست اجمالی علم کے لئے درج ذیل اقوال بصارت کی نظر ہیں۔
۱۔ قرطبی رقم طراز ہیں:
قال الجمہور : المراد نکاح المتعۃ الذی کان فی صدر الاسلام
جمہور علماء نے سورۃ النساء کی آیت ۲۴ سے مراد نکاہ متعہ لیا ہے جو اسلام کے اوائل میں تھا۔
حوالہ: الجامع الاحکام القرآن۔جز۔۵۔ ص۔۱۳۰۔الناشر ۔دارالکتب ال مصریۃ۔القاھرۃ۔
۲: شوکانی رقم طراز ہیں:
قال الجمہور : ان المراد بھذہ الایۃ نکاہ المعۃ الذی کان فی صدر الاسلام۔
جمہور علماء نے سورۃ النساء کی آیت ۲۴ سے مراد نکاہ متعہ لیا ہے جو اسلام کے اوائل میں تھا۔
حوالہ: فتح القدیر، جز ۔۱، ص ۔۵۱۸، طبع دار ابن کثیر۔
کہاں جمہور کا فیصلہ اور کہاں کلام صاحب کا منفرد فیصلہ؟ میرے محترم مقابل ۔ الہی فیصلے کے حوالے سے ہم نشوری کے اور جمہوریت کے قائل نہیں لیکن آپ کے پسندیدہ خلفاء جو جمہور کے فیصلے سے خلیفہ بنے ، وہاں پر جمہوریت بہترین اور ادھر جمہور کا انکار؟ آخر اس دوغلی پالیسی کا کیا جواز ہے؟

اقول : جن علماء کے نزدیک یہ آیت نکاح صحیح کے بارے میں نازل ہوئی، ان کی فہرست ملاحظہ کیجئے۔
۱۔ قاضی ثناء اﷲ پانی پتی ؒ فرماتے ہیں :
وقال اکثر المفسرین المتعۃ لیست مرادۃ من ھذہ الآیۃ بل معنی قولہ فما استمتعتم بہ منھن ما انتفعتم وتلذذتم بالجماع من النساء بالنکاح الصحیح فاتوھن اجورھن ای مورھن کذا قال الحسن ومجاہد
اکثر مفسرین کے نزدیک آیت میں متعہ مراد ہی نہیں ہے بلکہ صحیح نکاح کے بعد جماع سے بہرہ اندوز اور لذت گیر ہونا مراد ہے۔یعنی عورتوں سے نکاح کرنے کے بعد جب تم لذت یاب اور بہرہ اندوز ہوگئے تو ان کے مہر ادا کردو۔ حسنؒ اور مجاہد ؒ نے بھی یہی کہا ہے۔ ﴿تفسیر مظھری ج ۲ ص ۷۸
۲۔ ابن جوزی فرماتے ہیں :
واما الآیۃ فانھالم تتضمن جواز المتعۃ
رہی مذکورہ آیت تو وہ جوازِ متعہ کو متضمن نہیں ہے۔ ﴿زاد المسیر ج ۲ ص ۵۴
۳۔ مولانا محمد شفیع ؒ فرماتے ہیں :
اس آیت میں استمتاع سے بیویوں سے ہم بستر ہونا اور وطی کرنا مراد ہے۔ ﴿معارف القرآن ج ۲ ص ۳۶۵
۴۔ تفسیر حقانی میں ہے:
جمہور کے نزدیک یہاں بھی نکاح مراد ہے۔ اس کو اس لئے بیان کیا ہے کہ جب عورت سے نکاح کر کے صحبت کر لی تو نفع اٹھا لیا۔اس کا پورا مہر واجب ہو گیا۔ ﴿تفسیر حقانی ج۲ ص ۱۴۴
۵۔ علامہ آلوسی فرماتے ہیں :
والقول بانھا نزلت فی المتعۃ وتفسیر البعض لھا بذلک غیر مقبول لان نظم القرآن یاباہ
اس آیت میں اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ یہ متعہ کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہے۔ اور جن لوگوں نے متعہ سے تفسیر کی ہے تو وہ صحیح نہیں ہے کیونکہ نظمِ قرآنی اس کی تردید کرتی ہے۔نیز فرماتے ہیں ان المراد بالاستمتاع ھو الوطیٔ والدخول لا الاستمتاع بمعنی المتعۃ التی یقول بھا الشیعہ
استمتاع سے مراد وطی اور دخول ہے ، نہ کہ استمتاع بمعنی متعہ جس کے شیعہ قائل ہیں۔ ﴿تفسیر آلوسی ج ۴ ص ۱۵
۶۔ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں :
حکی عن مجاھد بأنھا في المتعۃ ولکن الجمھور علی خلاف ذلک
مجاھد سے حکایت کی گئی ہے کہ یہ آیت متعہ کے بارے میں ہے لیکن جمہور اس کے خلاف ہے۔ ﴿تفسیر ابن کثیر ج ۲ ص ۲۲۶
۷۔ علامہ ابوبکر الجصاص فرماتے ہیں:
وفی فحوی الآیۃ من الدلالۃ علی ان المراد النکاح دون المتعۃ
مضمونِ آیت اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہاں نکاح صحیح مراد ہے، متعہ نہیں۔ ﴿احکام القرآن ج ۳ ص ۹۷
۸۔ پیر کرم شاہ فرماتے ہیں : اس آیت سے متعہ روافض پر استدلال کرنا سراسر باطل ہے ۔کیونکہ محصنین غیر مسافحین کے الفاظ اس کی صراحتہََ تردید کرتے ہیں۔ ﴿ضیاء القرآن ج ۱ ص ۳۳۴﴾
۹۔ امام عبدالرزاق الصنعانی فرماتے ہیں
انا معمر عن الحسن فی قولہ تعالٰی ﴿الآیۃ﴾ قال : ھو النکاح
﴿تفسیر القرآن لعبد الرزاق الصنعانی ج ۲ ص ۴۸
۱۰۔ تفسیر الماتریدی میں لکھا ہے (واما عندنا، فانھا نزلت فی النکاح) ﴿تفسیر الماتریدی ج ۳ ص ۱۱۵﴾
۱۱۔اسی طرح البدائع الصنائع میں لکھا ہے ( واما الآیۃ الکریمۃ فمعنی قولہ ﴿الآیۃ﴾ ای : فی النکاح ؛ لان المذکور فی اول الآیۃ وآخرھا ھو النکاح) ﴿بدائع الصنائع ج ۲ ص ۲۷۳﴾
۱۲۔ اسی طرح تفسیر رازی میں بھی اس سے مراد نکاح لیا گیا ہے، نہ کہ متعہ۔ اور اسے اکثر علماء کا قول بھی قرار دیا ہے۔ ﴿تفسیرالرازی ج ۱۰ ص ۴۱﴾
۱۳۔ تفسیر نیشاپوری میں بھی لکھا ہے (قال اکثر علماء الامۃ : ان الآیۃ فی النکاح الموبد)۔ ﴿تفسیر نیشاپوری ج ۲ ص ۳۹۲﴾
۱۴۔ ابوحفص سراج الدین الحنبلی النعمانی نے بھی اپنی تفسیر میں فرمایا ہے کہ اکثر علماء کے مطابق اس آیت سے مرادنکاح صحیح ہے۔﴿اللباب فی علوم القرآن ج ۶ ص ۳۰۹﴾



اقول : اہل تشیع کے چودہ ستاروں کی مناسبت سے چودہ حوالے ہم نے پیش کر دیئے ہیں۔ قارئین بہتر سمجھ سکتے ہیں کہ کلام نے جو کہا تھا، آیا وہ کلام کا منفرد قول تھا یا اکثر مفسرین کا قول۔ یہ بات یاد رہے کہ بعض اوقات بعض علماء کسی قول کو جمہور کی جانب منسوب کرتے ہیں، لیکن اگر تحقیق کرنے پر معلوم ہو جائے کہ یہ نسبت غیر صحیح ہے، تو اس کو جمہور کا قول سمجھنا غلط ہے۔ اور میں نے چودہ تفاسیر کے حوالے پیش کر دیئے ہیں، جس میں آپ نے جمہور کا قول سن لیا ہے کہ یہ آیت متعہ کے بارے میں نہیں ہے۔ اگر ان چودہ تفاسیر کے بعد بھی روافض ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے کلام کا منفرد فیصلہ قرار دیتے ہیں، تو انشاء اﷲ پھر ہم گیارہ حقیقی ائمہ کی مناسبت سے مزید گیارہ تفاسیر کے حوالے پیش کریں گے۔ لیکن جو شخص چودہ تفاسیر کے بعد بھی اس کو کلام کا منفرد قول قرار دے،اس کے لئے تو ہزار تفاسیر کے حوالے بھی پیش کر دیئے جائیں، پھر بھی اپنی ضد اور ہٹ دھرمی سے باز نہیں آئے گا۔

قولہ : کلام صاحب یہ تو شیعوں کا احسان سمجھیں جن کی بدولت آپکو اتنی ساری احادیث ملی۔ ایسی علم سے گری ہوئی بات یقینا آپ سے ہی توقع کی جا سکتی ہے۔
کیا شیعہ ہونا ضعیف ہونے کی دلیل ہےَ؟
اگر یہ بات ہے تو صحیح مسلم بھی محفوظ نہ رہے گی۔
چنانچہ سیوطی اپنی کتاب میں نقل کرتے ہیں:
قال الحاکم و کتاب مسلم ملان من الشیعۃ۔
حاکم فرماتے ہیں کہ مسلم بن حجاج نیشاپوری صاحب کی کتاب یعنی صحیح مسلم شیعوں سے بھری ہوئی ہے۔
حوالہ: تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی۔ج۔۱، ص۔۳۸۵، الناشر ۔دار طیبۃ۔
آپ تو خیر کسی شمارے میں نہیں آتے علامہ شمس الدین ذہبی نے اپنی کتاب میں اس شبہ کا پہلے ہی جواب دے دیا ہے۔
فلقائل ان یقول : کیف ساغ توثیق مبتدع وحد الثقۃ العدالۃ والاتقان ؟ فکیف یکون عدلا من ھو صاحب بدعۃ ؟ وجوابہٗ ان البدعۃ علی ضربین : فبدعۃ صغری کغلو التشیع ، او کالتشیع بلا غلو ولا تحرف ، فھذا کثیر فی التابعین وتابعیھم مع الدین و الورع والصدق فلو رد حدیث ھوٗ لاء لذھب جملۃ من ا لآثار ۔ النبویہ ، وھذہ مفسدۃ بینۃ۔
کہنے والا کہہ سکتا کہ بدعتی کو بھلا کیسے ثقہ، عادل اور اچھے حفظ والے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ عادل بھی ہے اور صاحب بدعت بھی ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بدعت دو اقسام کی ہیں ایک چھوٹی جیسے شیعیت غلو والی یا بغیر غلو والی شیعیت ۔ یہ شیعیت تو کثیر تابعین اور تبع تابعین میں تھی اگر چہ وہ کافی دیندار ، متقی اور سچے تھے۔ اگر ان تمام احادیث کو رد کر دیا جائے تو جملہ احادیث نبوی ذائل ہو جائیں گی ، اور یہ بڑی ظاہر گھاٹے والی بات ہے۔
حوالہ: میزان الاعتدال۔ جز ۔ اول، صفحہ ۔۵، ناشر ۔دارالمعرفہ ، لبنان۔
کیوں کلام صاحب طبیعت خوش ہوئی ،

اقول : ہماری طبیعت تو اہلتشیع کے امام شیخ حر العاملی ، مصنف وسائل الشیعہ، کا یہ قول پڑھ کر پہلے سے ہی خوش ہے ، جس میں انہوں نے شہید ثانی کے بارے میں دھماکہ خیز انکشاف کیا۔آپ کی طبیعت بھی خوش کر دیتے ہیں۔ حر عاملی فرماتے ہیں:
ھو أول من صنف من الامامیۃ في درایۃ الحدیث، لکنہ نقل الاصطلاحات من کتب العامۃ کما ذکرہ ولدہ وغیرہ
وہ(یعنی شہید ثانی ) امامیہ میں سے پہلا فرد ہے جس نے درایۃ الحدیث کے بارے میں کتاب لکھی، لیکن اس نے اصطلاحات اہلسنت کی کتب سے نقل کیں، جیسا کہ اس کے بیٹے اور دوسروں نے ذکر کیا ہے۔ ﴿أمل الآمل ، ج ۱ ص ۸۶
اس کو پڑھ کر تو ہر امامی کی طبیعت خوش ہوگئی ہوگی۔ اب آپ نے جو لکھا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ کبھی آپ کو اپنی کتب میں اہلسنت راویوں کی تعداد اور ان کی روایات پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے؟جب آپ کی اپنی کتب اہلسنت اور دیگر غیر اثنا عشری راویوں سے بھری پڑی ہیں، تو ہم کوکس منہ سے الزام دیتے ہو؟
اور میں نے احمد بن مفضل کو شیعہ کہا ہے، لیکن ضعیف نہیں کہا۔ آپ کو جاننا چاہئیے کہ حدیث کا ایک اصول ہے جسے ابن حجرؒ نے اپنی کتاب نخبۃ الفکرمیں بیان کیا ہے جس کے مطابق بدعتی راوی کی ایسی روایت قبول نہیں کی جائے گی جو اس کے مذہب کی مؤید ہو۔
یقبل من لم یکن داعیۃ إلی بدعتہ في الأصح ّإلا إن روی ما یقوي بدعتہ فیرد علی المختار
جو شخص اپنی بدعت کی طرف دعوت نہ دے، اس کی روایت قبول کی جائے گی، سوائے اس کے کہ اس کی روایت اس کی بدعت کو پختہ کرتی ہو، ایسی صورت میں مختار قول کے مطابق اسے رد کیا جائے گا۔﴿نخبۃ الفکر ج ۱ ص ۱۹
پس میں اس روایت کو اسی واسطے رد کر رہا ہو ں، کہ اس میں شیعہ راوی ہے، اور یہ روایت اسکے مذہب کی تائید میں ہے۔اس لئے اس کو قبول نہیں کیا جائے گا۔

قولہ : اب ہم راوی احمد بن مفضل کی توثیق پر آتے ہیں۔
۱: ابو حاتم نے راست گو و سچا کہا۔
۲: ابن حبان نے ثقات میں شمار کیا
۳: ابوبکر بن ابی شیبہ نے خیر کے الفاظ میں یاد کیا
حوالہ: تہذیب التہذیب، جز۔۱، ص۔۸۱، رقم ۔۱۳۹۔
جہاں تک آزدی کا منکر الحدیث کہنے کا تعلق ہے تو خود آزدی مجروح ہے اہلسنت کی نظر میں ، لہذا اس کے قول کی کوئی قیمت نہیں۔


اقول : توثیقات کا تو میں نے انکار ہی نہیں کیا، بلکہ جس وجہ سے اس روایت کو قبول نہیں کیا جائے گا، وہ میں نے بیان بھی کر دیا ہے، یعنی اس روایت کا راوی بدعتی ہے، اور یہ روایت اس کی بدعت کی موید ہے ۔ البتہ خیرطلب نے خطبہ شقشقیہ کے حوالے سے ایک ایسی سند سے استدلال کیا ، جس میں ایک راوی ’’عکرمہ‘‘ نہ صرف خارجی ، بلکہ اہلتشیع کے نزدیک کذاب بھی ہے۔ اور اس کی دلیل یہ دی گئی کہ چونکہ عکرمہ کی روایت اس کے مذہب کے خلاف ہے، لہٰذا قابل قبول ہے۔ اس احمقانہ دلیل کو میں نے کسی کتاب میں نہیں پڑھا کہ ایک راوی بدعتی بھی ہو، اور کذاب بھی ہو، تو اس کی ایسی روایت قبول کی جائے گی جو اس کے مذہب کے خلاف ہو۔اصول تو یہ ہے کہ راوی بدعتی بھی ہو، اور اس کی توثیق بھی کی گئی ہو، تب ہی اس کی ان روایات کو قبول کیا جائے گا جو اس کی بدعت کے موافق نہ ہو۔اگر خیر طلب سے ہو سکے تو یہ اصول اپنی کتب میں کہیں سے دکھا دے کہ بدعتی کذاب راوی کی وہ روایات قابل قبول ہیں جو اس کے مذہب کے خلاف ہو۔

0 comments: