Thursday, July 16, 2015

الرد الثانی علی شبھات الشیعۃ فی قضیۃ المتعۃ - حصہ سوئم

قولہ : اعتراض: سدی نے دیگر شرائط کا بھی ذکر کیا۔
جواب: خوب! بیشک اس کے ہم معترف ہے لیکن سردست ابھی اس کا متعہ کے لئے استدلال بتانا تھا جو ثابت ہے ۔ دیگر شرائط اصل قضیہ کا ابطال نہیں کرتی۔

اعتراض : مجاہد کے قول میں انقطاع ہے کیونکہ ابن ابی نجیح مدلس ہے اور عن سے روایت کر رہا ہے نیز اس کا مجاہد سے سماع ثابت نہیں ۔

جواب : ماشا ء اﷲ ماشا ء اﷲ۔لگ رہاہے آپ تمام محققین کو پیچھے چھوڑ رہے ہیں۔مجاہد کی تفسیر کا اکثر دارومدار ابن ابی نجیح کی سند ہے اور علماء اہلسنت کی تحریرات پڑھ لیتے تو شکایت نہیں کرتے کیونکہ ابن ابی نجیح اور مجاہد میں ایک واسطہ بیان کیا گیا ہے جس کا نام قاسم بن ابی بزہ ہے جو بالاتفاق اہلسنت علماء صحیح و ثقہ راوی ہے۔لہذا تدلیس کی قبیح جرح تو یہی ختم ہوجاتی ہے۔

آخر میں ہم شیخ عبدالعزیز بن مرزق الطریفی کا قول نقل کرینگے جو فقط عربی میں ہوگا اور مفہوم اردو میں :

وجاء التفسیر عن مجاہدمن وجوہ عدہ اصحھا ما یرویہ ابن ابی نجیح عنہ ،وان لم یسمعہ من مجاہد ،کما قالہ یحیی القطان وابن حبان فھو کتاب صحیح نص علی صھۃ تفسیرہ الثوری کما حکاہ عنہ وکیح ،وصححہ ابن المدینی ایضاوعدم السماع لیس علۃ مطلقا،بل ھناک مما لم یسمع ماھو اصح مما سمح لقرینۃ قویۃ دفعت تلک العلۃ کا حتراز الناقل وشدۃ تحریہ ؛ کسعید عن عمر ،اولکونہ من کتاب صحیح ،کروایۃ التفسیر عن مجاہد او لمعرفۃ الوا سطۃ ولم تذکر ،کالنخعی عن ابن مسعود ،وابن سیرین عن ابن عباس وقد یشکل علی البعض ان من یروی عن مجاہد بن جبر لم یسمع التفسیر منہ وانماھو من کتاب ؛فیقال؛ان القاسم بن ابی بزہ ھو من الثقات الکبار وکتابہ صحیح وقد اعتنی کتابہ؛فکل من روی عنہ ذلک ۔الکتاب علی اخذ صحیح ؛فالروایۃعنہ صحیحۃ معتبرہ
یقول ابن تیمۃ :ـ ـلیس بایدی اھل التفسیر تفسیر اصح من تفسیر ابن ابی نجیح عن مجاہد بن جبر واکثر تفسیر مجاہد ھو من طریق ورقاء عن ابن ای نجیح عنہ،بل ھو ناشر تفسیرہ ،واخصاالناس بہ ویرویہ عنہ ایضاشبل بن عباد وعیسی بن میمون ۔ویاتی بعد ذلک روایۃ ابن جریج عن مجاہد

الف ، ابن مدینی اور سفیان الثوری نے مجاہد کی تفسیر جو ابن ابی نجیح کے طریق سے آئی ہے اسکو صحیح قرار دیا ہے ۔
ب،ابن ابی نجیح کا مجاہد سے نہ سننا قادح نہیں بلکہ ابن ابی نجیح نے قاسم سے تفسیر کو اخذ کیا ہے جو ثقہ ہے۔
د،ابن تیمہ کے مطابق مفسرین کے پاس مجاہد کی تفسیر جو ابن ابی نجیح سے نقل ہوئی اس سے زیادہ صحیح تفسیر کوئی موجود نہیں ۔
حوالہ : اسانید التفسیر ،تحت ،الروایات عن مجاہد واصحھا۔

کیوں کلام صاحب اتنے بڑے رجالی نہ بنا کریں جب چیزوں کا علم نہ ہو ۔اب صاحب منہج السنہ کا قول اگر یوں رد کر دیا جائے تو بے جاہوگا،دلیل واستدالال ضروری ہے جو ہماری تحریر میں ملیگا،باقی آپ فقط باتوں کے شیر ہے جن کو دلیل سے کوئی لگاوٗ نہیں ۔

اقول :اگرچہ میں خود کو قطعاََ عالم نہیں کہتا، بلکہ میں تو کتب پڑھنے کے علاوہ اورکسی چیز کا بھی دعوٰی نہیں کرتا، لیکن یہ کہنا کہ مجھے ان چیزوں کا علم نہیں تھا، صحیح نہیں۔ میں پہلے ہی یہ واضح کر چکا ہوں کہ ’’دونوں روایات سند کے لحاظ سے منقطع ہیں کیونکہ ابن ابی نجیح مدلس ہے اور عن سے روایت کر رہا ہے نیز مجاہد سے اس کا سماع ثابت نہیں۔ لیکن بعض نے ابن ابی نجیح المعتزلی کی مجاہدسے اخذ کی گئی تفسیر کو معتبر بھی قرار دیا ہے۔ لیکن جس روایت میں مجاہد نے فقط نکاح کا لفظ استعمال کیا ہے، اس میں بھی ابن ابی نجیح موجود ہے، اور اس کے بقیہ راوی ثقہ ہیں۔ اور نکاح کا لفظ یہ بتاتا ہے کہ یہاں پر فقط حقوق زوجیت ادا کرنا مراد ہے۔‘‘ چنانچہ میں اس کی وضاحت پہلے ہی کر چکا ہوں کہ بعض نے ابن ابی نجیح المعتزلی کی مجاہد سے اخذ کی گئی تفسیر کو معتبر بھی قرار دیا ہے۔خیر طلب میاں نے اپنا علمی رعب قارئین پر جھاڑنے کے لئے فقط اتنا کیا کہ جنہوں نے ابن ابی نجیح کی مجاہد سے اخذ کی گئی تفسیر کو معتبر قرار دیا،ان کے حوالے پیش کر دئیے۔ اور پھر فرماتے ہیں کہ ’’دلیل و استدلال ضروری ہے جو ہماری تحریر میں ملیگا‘‘۔یہ دلیل و استدلال ہمیں کھجوا کے شیعہ اکابرین کی کتب میں بھی ملا ، جنہوں نے قرآن کی آیت ’’یریدون ان یبدلوا کلم اﷲ‘‘ ترجمہ : ’’یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اﷲ کے کلام کو بدل دیں‘‘سے یہ استدلال کیا کہ قرآن میں تحریف واقع ہو چکی ہے۔﴿مشعل ہدایت ،سید اظہار حسین ، ص ۷﴾ نیز فرماتے ہیں کہ’’ غرض جامعین قرآن نے اس آیہ کریمہ سے ان علیا مولی المومنین کو غائب کر دیا اب اونکے ہوا خواہ اور تابعین کہتے ہیں کہ اس آیہ میں حضرت علی کی خلافت کے متعلق اشارہ بھی نہیں ہے‘‘۔ ﴿مشعل ہدایت ، سید اظہار حسین ، ص ۳۲۰﴾ اور ان کا ایک مضمون ’’اہلسنت کا قرآن ‘‘ کے عنوان سے رسالہ اصلاح میں چھپا، جو اپنے زمانہ کا بدنام زمانہ شیعہ رسالہ تھا، جیسا کہ اس کتاب کے ابتدائی صفحات میں لکھا ہے۔ معلوم نہیں اس میں موصوف نے کیا کیا گل کھلائیں ہوں گے۔ اور یہ کوئی چھوٹا موٹا شیعہ نہیں ہے، بلکہ رئیس کھجو ا’’سید محمد عسکری‘‘ نے اس کی کتاب پر تقریظ لکھی ہے، اور اس کی تحریف کے متعلق بیانات کی پذیرائی بھی کی ہے۔ چنانچہ لکھا ہے ’’ابتداء ہی میں ص ۵ پر آیات قرآنی کے ردوبدل کااچھا ثبوت دیا ہے کہ کہیں کی آیت کہیں پائی جاتی ہے جس سے محکمات بھی متشابہات ہوئے جاتے ہیں‘‘ ۔ اور کسی مرزائی کے جواب میں کھجوا کا شیعہ ملا علی حیدر یوں گویا ہوا ’’جناب امیر کا نام بھی قرآن مجید میں موجود ہے وانہ فی ام الکتاب لعلی حکیم‘‘ ﴿رد الملاحدہ ص ۲۶۳
مجاہد سے فقط ایک سند سے نکاح المتعہ کے الفاظ مروی ہیں، جبکہ پانچ اسناد میں فقط نکاح کے الفاظ ہیں، جس کا مطلب مباشرت ہوگا، نہ کہ نکاح المتعہ۔ان پانچ اسناد میں سے تین اسناد ایسی ہیں جن میں ابن ابی نجیح نے مجاہد سے روایت کی ہے۔ چنانچہ اگر آپ ابن ابی نجیح کی تفسیر کو بھی تسلیم کرتے ہیں، تب بھی کثرتِ طرق کی بنا پر النکاح کا لفظ ثابت ہوتا ہے، نہ کہ نکاح المتعہ کا۔
حدثنا المثنی قال : حدثنا أبو حذیفۃ قال : حدثنا شبل ، عن ابن أبي نجیح ، عن مجاھد : فما استمتعتم بہ منھن : النکاح ﴿تفیسر الطبری﴾
میں نے اس کا ذکر پہلے بھی کیا تھا، لیکن جب کسی نے مکر و فریب سے ہی اپنا موقف ثابت کرنا ہو، وہ اس کی طرف توجہ کیوں دے گا۔
اسی طرح اس کی تائید ایک دوسری سند سے بھی ہوتی ہے جو کہ تفسیر طبری ہی میں موجود ہے۔
حدثنا القاسم ، قال : ثنا الحسین ، قال : ثني حجاج ، عن ابن جریج ، عن مجاھد ، قول فما استمتعتم بہ منھن قال: النکاح أراد ﴿تفیسر طبری﴾
اسی طرح ابوجعفر النحاس نے ایک اور سند سے مجاہد سے یوں روایت کی ہے۔
کما حدثنا أحمد بن محمد الأزدی، قال حدثنا ابن أبی مریم، قال حدثنا الفریابی ، عن ورقاء ، عن ابن أبی نجیح ، عن مجاھد فما استمتعتم بہ منھن قال : النکاح ﴿الناسخ والمنسوخ للنحاس ج ۱ص ۲۵۵
اسی طرح ابن عبد البر نے اپنی کتاب ’’التمھید‘‘ میں ایک اور سند سے مجاھد سے یوں روایت کی ہے۔
حدثنا محمد بن عبد اﷲ قال : حدثنا محمد بن معاویۃ قال : حدثنا أصحاب الفضل بن الحباب قال : حدثنا مسلم بن إبراھیم قال : حدثنا شعبۃ ، عن منصور ، عن مجاھد فی قولہ فما استمتعتم بہ منھن قال : النکاح ﴿التمھید ج ۱۰ ص ۱۲۲
نیز تفسیر ابن المنذرمیں بھی ابن ابی نجیح کی سند سے مجاہد سے جو قول نقل ہوا ہے، اس میں بھی فقط نکاح کا لفظ ہے۔
حدثنا موسی قال حدثنا عبد الاعلی قال حدثنا مسلم عن ابن ابی نجیح عن مجاھد فی قولہ عز و جل ﴿الآیۃ ﴾ قال : النکاح ﴿تفسیر ابن المنذر ج ۲ ص ۶۴۱

اس لئے کثرتِ طرق کو اگر دیکھا جائے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ مجاہد سے اس کی تفسیر میں النکاح کے الفاظ ثابت ہیں، نہ کہ نکاح المتعہ۔جس سے ثابت ہوا کہ مجاہد کے مطابق اس آیت سے مراد متعہ نہیں بلکہ مباشرت ہے۔

قولہ : قارئین کرام اب ہم مفسر قرآن وحبرامت جناب ابن عباس رضی اﷲ عنہ کے نقطہ نظر کو یہاں واضع کریں گے۔اس پر جملہ اعتراضات جو کلام صاحب کی طرف سے ہوئے ہیں اس کا جواب بھی دیا جائے گا۔
اعتراض :ابن عباس نے متعہ کی اباحت کے قول سے رجوع کر لیا تھا۔
بحوالہ مسند ابو عوانہ
جواب :جناب کلام صاحب جب ہم کوئی روایت نقل کرتے ہیں تو اس پر اتنی شدید جراح و نقد کی جاتی ہے کہ جیسے آسمان ٹوٹ پڑے اور جب آپ کوئی روایت پیش کریں تو اس میں ان اصول و قوانین کی رعایت کرنا ایک غیر معنی بات لگتی ہے ۔ ابن عباس کا مذہب اتنا مشہور و معروف ہے کہ سوائے چنیدہ حضرات جن کو اپنے علماء کی تحریرات سے شغف نہیں ،کوئی انکار نہیں کرتا۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مذہب ابن عباس کی وضاحت کر دی جائے ۔اور اس کے بعد دعویٰ رجوع پر سیر بحث کی جائے ۔

اقول :مسئلہ یہ ہے کہ آپ روایات پر جرح و نقد اصول و قوائد کی بجائے اپنے فائدے کو دیکھ کر کرتے ہیں۔ اسی لئے کہیں پر ہمارے خلاف مرسل سے دلیل پکڑتے ہیں، اگرچہ اس مرسل میں کئی خامیاں مزید ہوں، اور جب آپ کو لگتا ہے کہ مرسل روایت آپ کے خلاف جا رہی ہے، تو آپ مرسل کی تضعیف کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ کہیں پر کسی روایت کی سند میں ناصبی ہو، اور آپ کے موقف کے خلاف ہو، تو آپ ناصبی کی وجہ سے روایت کو ضعیف قرار دینے پر بضد نظر آتے ہیں، اور کسی دوسری جگہ کسی روایت کی سند میں خارجی ہو ، اگرچہ اس کی توثیق بھی نہ کی گئی ہو، تب بھی آپ اس کو قبول کرنے میں بچوں کی طرح بضد نظر آتے ہیں۔ کسی روایت میں کوئی صاحب الاجماع ہو، اور وہ مرسل روایت بیان کرے، اور وہ روایت آپ کی تائید بھی کر رہی ہو، تو آپ فرمانے لگتے ہیں کہ ہمارے علماء کی ایک جماعت اصحاب الاجماع کی مراسیل کو قبول کرتی ہے، اور کسی روایت میں کوئی صاحب الاجماع ہو، اور وہ روایت آپ کے موقف کے خلاف جا رہی ہو، تو آپ فرماتے ہیں کہ ہمارے علماء کی ایک جماعت نے اصحاب الاجماع کی روایات کو قبول نہیں کیا۔کسی روایت کی سند نہ ہو، تو شور مچاتے ہیں کہ اس کی تو کوئی سند ہی نہیں، اور اگر ایسی ہی کوئی بے سند روایت آپ کے موقف کی تائید کرتی ہو، تو آپ اس کے لئے تاویلیں ڈھونڈنے میں سب کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔پھر آپ کو اعتراض ہوتا ہے کہ کلام آپ کی پیش کردہ روایتوں پر سخت جرح و نقد کرتا ہے۔ آپ کی علمی خیانتیں تو ایسی ہیں کہ چھپائے نہیں چھپتی۔اب چونکہ میں بسند صحیح ابن عباس ؓ کا رجوع ثابت کررہا ہوں، تو آپ کو علماء کے اقوال یاد آ گئے ہیں۔میں کہتا ہوں تم ان علماء کا بھی تذکرہ کرتے جنہوں نے ابن عباس ؓ کے رجوع کو تسلیم کیا، تو صورتحال خود ہی واضح ہو جاتی، لیکن اب ہم ہی اس کو بیان کر دیں گے انشاء اﷲ۔


قولہ : ہمارے پاس ابن عباس کے مذہب کے اثبات کے مختلف طرق ہیں ،ایک طریقہ یہ ہے کہ روایات کو نقل کی جائے اور پھر اس پر بحث کی جائے ۔جو یقینا اس سب سے بہتر طریقہ ہے کیونکہ اس میں قیل وقال نہیں چلے گی ،لیکن اس طریقہ میں ایک واضع مسئلہ یہ ہے کہ پھر ان ضعیف آثار کو بیچ میں لا دیا جائے گاجس میں ابن عباس کا رجوع لکھا ہے اور یوں بحث اپنے محور سے ہٹ جائے گی ۔دوسرا طریقہ علماء اہلسنت کے اقوال سے استنباط کرنا ہے جو یقینا بحث کے ہر زاویہ اور قیل قال کی تحلیل کے بعد کسی نتیجہ پر پہنچیں ہوں گے ۔اس کا فائدہ یہ ہے کہ معترض کہ پاس بھاگنے کا کوئی موقعہ نہ رہے گا۔
البتہ معتبر روایات جو مطالب آئیں ہیں ان کی طرف اشارہ ضروری ہے تاکہ قارئیں آثار وروایات کے معاملہ میں اپنے آپ کو تشنہ محسوس نہ کریں ۔چناچہ ابن عباس وہی شخص ہے
۱۔جن کا عبداﷲ بن زبیر سے متعہ کے حوالہ سے معرکتہ الارا مناظرہ موجود ہے جس میں معترضین کو دندان شکن جواب دے کر خاموش کروایا گیا۔
۲۔جنہوں نے اسماء دختر خلیفہ اول کے مایہ نازو فیصلہ کن متعہ کی روئیداد کو نقل کیا۔
۳۔جنہوں نے سورۃالنساء آیت ۴۲ کی قرات اس انداز سے کی کہ جس سے متعہ کا اثبات واضع ہوتا ہو ۔اب قرات کو کوئی تفسیر سے تعبیر کرے یا تحریف سے ،ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں کیونکہ جس کی جو تحقیق وہ اس پر عمل کرے ۔
۴۔جنہوں نے عمر بن خطاب خلیفہ دوم کہ اس عمل پر خوب تنقید کی اور متعہ کو رحمت سے تعبیر کیا ۔
حق چاریاریوں کے لیے ان چار حوالہ جات کو مناسب جانتے ہوئے تحقیق کے سفر کو آگے بڑھاتے ہیں ۔

اقول :۔مزید ہم بیان کرتے جائیں کہ ابن عباس ؓ وہی شخص ہے جس کے متعلق نہج البلاغہ میں درج ہے کہ حضرت علی ؓنے ان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا
فلما رایت الزمان علی ابن عمک قد کلب ، والعدو قد حرب ، امانۃ الناس قد خزیت ، وھذہ الامۃ قد فتکت وشغرت قلبت لابن عمک ظھر المجن ففارقتہ مع الفارقین ، وخذلتہ مع الخاذلین وخنتہ مع الخائنین، فلا ابن عمک اسیت ، ولا الامانۃ ادیت۔وکانک لم تکن اﷲ ترید بجھادک وکانک لم یکن علی بینۃ من ربک وکانک انما کنت تکید ھذہ الامۃ عن دنیاھم وتنوی غرتھم عن فیئھم۔ فلما امکنتک الشدۃ فی خیانۃ الامۃ اسرعت الکرۃ وعاجلت الوثبۃ ، واختطفت ما قدرت علیہ من اموالھم المصونتہ لاراملھم وایتامھم اختطاف الذئب الاذل دامیۃ المعزی الکسیرۃ فحملتہ الی الحجاز رحیب الصدر بحملہ غیر متاثم من اخذہ کانک لا ابا لغیرک۔ حدرت الی اھلک تراثاََ من ابیک وامک فسبحان اﷲ ! اما تعمن بالمعاد؟ او ما تخاف نقاش الحساب؟ ایھا المعدود کان عندنا من ذوی الالباب کیف تسیغ شراباََ وطعاماََ وانت تعلم انک تاکل حراماََ و تشرب حراما؟ وتبتاغ الاماء وتنکح النساء من مال الیتامی والمساکین والمومنین والمجاھدین الذی افاء اﷲ علیھم ھذہ الاموال واحرز بھم ھذہ البلاد۔
جب تم نے دیکھا کہ زمانہ تمہارے چچا زاد بھائی کے خلاف حملہ آور ہے اور دشمن بپھرا ہوا ہے۔ امانتیں لٹ رہی ہیں اور امت بے راہ اور منتشر و پراگندہ ہو چکی ہے تو تم نے بھی اپنے ابن عم سے رخ موڑ لیا اور ساتھ چھوڑ نے والوں کے ساتھ تم نے بھی ساتھ چھوڑ دیا ، اور خیانت کرنے والوں میں داخل ہو کر تم بھی خائن ہو گئے۔ اس طرح نہ تم نے اپنے چچا زاد بھائی کے ساتھ ہمدردی ہی کا خیال کیا، نہ امانت داری کے فرض کا احساس کیا۔ گویا اپنے جہاد سے تمہارا مدعا خدا کی رضامندی نہ تھا اور گویا تم اپنے پروردگار سے کوئی روشن دلیل نہ رکھتے تھے اور اس امت کے ساتھ اس کی دنیا بٹورنے کے لئے چال چل رہے تھے اور اس کا مال چھین لینے کے لئے غفلت کا موقع تاک رہے تھے ۔ چنانچہ امت کے مال میں بھر پور خیانت کرنے کا موقع تمہیں ملا ، تو جھٹ سے دھاوا بول دیا، اور جلدی سے کود پڑے اور جتنا بن پڑا، اس مال پر جو بیواؤں اور یتیموں کے لئے محفوظ رکھا گیا ھا، یوں جھپٹ پڑے جس طرح پھرتیلا بھیڑیا زخمی اور لاچار بکری کو اچک لیتا ہے اور تم نے بڑے خوش خوش اسے حجاز روانہ کر دیا اور اسے لے جانے میں گناہ کا احساس تمہارے لئے سد راہ نہ ہوا۔ خدا تمہارے دشمنوں کا برا کرے، گویا یہ تمہارے ماں باپ کا ترکہ تھا جسے لے کر تم نے اپنے گھر والوں کی طرف روانہ کر دیا۔ اﷲ اکبر کیا تمہارا قیامت پر ایمان نہیں؟ کیا حساب کتاب کی چھان بین کا ذرا بھی ڈر نہیں؟ اے وہ شخص جسے ہم ہوش مندوں میں شمار کرتے تھے، کیونکر وہ کھانا اور پینا تمہیں خوش گوار معلوم ہوتا ہے اور حرام پی رہے ہو۔ تم ان یتیموں ، مسکینوں، مومنوں اور مجاہدوں کے مال سے جسے اﷲ نے ان کا حق قرار دیا تھا، اور ان کے ذریعہ سے ان شہروں کی حفاظت کی تھی ، کنیزیں خریتے ہو، اور عورتوں سے بیاہ رچاتے ہو۔ ﴿نہج البلاغہ مکتوب نمبر۴۱
اسی طرح رجال کشی کی روایت پڑھئیے۔
جعفر بن معروف، قال حدثنا یعقوب بن یزید الانباری ، عن حماد ابن عیسی ، عن ابراھیم بن عمر الیمانی ، عن الفضیل بن یسار، عن ابی جعفر علیہ السلام قال اتی رجل ابی علیہ السلام فقال : ان فلانا یعنی عبدا ﷲ بن العباس یزعم انہ یعلم کل آیۃ نزلت فی القرآن فی ای یوم نزلت وفیم نزلت۔قال فسلہ فیمن نزلت ’’ومن کان فی ھذہ اعمی فھو فی الآخرۃ اعمی واضل سبیلا‘‘
فضیل بن یسار سے مروی ہے کہ امام باقر نے فرمایا : ایک شخص میرے والد (امام زین العابدین)کے پاس آیا اور کہا کہ فلاں یعنی عبدا ﷲ بن عباس یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ قرآن کی ہر آیت کے بارے میں جانتا ہے کہ وہ کس دن نازل ہوئی، اور کس کے متعلق نازل ہوئی۔ تو میرے والد نے اسے کہا کہ تم اس سے پوچھو کہ قرآن کی یہ آیت ’’اور جو شخص اس (دنیا ) میں اندھا ہو، وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا اور (نجات کے) رستے سے بہت دور‘‘ کس کے متعلق نازل ہوئی۔ ﴿رجال کشی ج ۱ ص ۲۷۴
اس روایت کی ذیل میں شیعہ عالم محقق داماد فرماتے ہیں ’’وبالجملۃ ھذہ الحدیث الشریف طریقہ صحیح علی الاصح‘‘ یعنی اس حدیث شریف کا طریق صحیح ہے۔ گستاخِ اہل بیت شیخ یاسر خبیث اس روایت کے متعلق کہتا ہے ’’وقد ناقش بعض الرجالیین فی سند ھذہ الروایۃ، والحال ان بعض من ضعفوہ -کابراھیم بن عمر الیمانی موثق عند آخرین کالنجاشی وغیرہ‘‘ یعنی بعض رجالی حضرات نے اس روایت کی سند پر اعتراض کیا ہے، جبکہ ان میں سے بعض راوی جن کی انہوں نے تضعیف کی ہے،مثلاََ ابراہیم بن عمر الیمانی ، وہ دوسروں کے نزدیک موثق ہیں جیسے کہ نجاشی وغیرہ۔
اس کے علاوہ بھی ایک روایت رجال کشی میں موجود ہے، جس میں حضرت علی نے حضرت عباسؓ کے دونوں بیٹوں یعنی عبداﷲ اور عبیداﷲ پر لعنت کی ہے اور دعا کی ہے کہ اﷲ تعالی ان کو نابینا کر دے چنانچہ فرمایا ہے ’’اللھم العن ابنی فلان واعم ابصارھما کما عمیت قلوبھما‘‘۔ ﴿رجال کشی ج ۱ ص ۲۷۰﴾ اگرچہ اس کی سند میں محمد بن سنان کو محقق داماد نے اصح قول کی بنا پر ضعیف قرار دیا ہے، لیکن ساتھ ہی لکھا ہے کہ اس کی توثیق بھی بعض شیعہ علماء جیسے شیخ مفید اور شیخ الاعظم مرتضی انصاری نے کی ہے۔اور مجلسی نے اس کی سند کو معتبر قرار دیا ہے۔ ﴿حیات القلوب ج ۲ ص ۸۶۵
اور پھر الکافی کی ایک روایت میں تو ابن عباس ؓ کی ایسی مذمت بیان کی گئی ہے جس کو پڑھ کر خیر طلب جیسے لوگوں کو شرم کے مارے ڈوب مرنا چاہئے۔ملاحظہ فرمائیے :
امام جعفر اپنے والد امام باقر کا ایک واقعہ سناتے ہیں کہ ایک روز امام صاحب بیٹھے ہوئے تھے کہ یکایک خود بخود ہنسنے لگے اور اس قدر زور سے ہنسی آئی کہ آنکھوں میں پانی بھر آیا۔ پھر لوگوں سے فرمایا کہ اس وقت مجھے ابن عباس کا ایک واقعہ یاد آگیا، اسی پر مجھے اس قدر ہنسی آئی۔ اس کے بعد امام صاحب نے اپنی اور ابن عباس کی ایک گفتگواپنے دلدادوں کو سنائی ، جس میں انہوں نے ابن عباس سے مخاطب ہو کر کہا
ھکذا احکم اﷲ لیلۃ ینزل فیھا امرہ ان جحدتھا بعدما سمعتھا من رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فادخلک اﷲ فی النار کما اعمی بصرک یوم جحدتھا علی ابن ابی طالب علیہ السلامقال فذلک عمی بصری ۔
ایسا ہی حکم اﷲ کا اس رات میں جس میں اﷲ کا حکم نازل ہوتا ہے، اگر تم اس بات کا انکار کرو گے بعد اس کے کہ رسول ِ خدا ﷺ سے سن چکے ہو، تو اﷲ تم کو دوزخ میں داخل کر دے گا جس طرح تمہاری آنکھ خدا نے اس دن پھوڑ دی تھی جس دن تم نے علی بن ابی طالب سے اس کا انکار کیا تھا۔ ابن عباس نے کہا کہ ہاں آنکھ تو میری اسی وجہ سے پھوٹ گئی تھی۔
امام صاحب مزید فرماتے ہیں فاستضحکت ثم ترکتہ یومہ ذلک لساخفۃ عقلہ یعنی پھر مجھے ہنسی آ گئی ، اور اس کے بعد میں نے اس سے بات کرنا چھوڑ دی، کیونکہ وہ بڑا بے وقوف شخص تھا۔ اور اس کے بعد ایک دفعہ پھر جو ملناہوا تو ابن عباس ؓ کو مخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ ھلکت واھلکت یعنی تم بھی ہلاک ہوئے اور دوسروں کو بھی ہلاک کر ڈالا۔ ﴿الکافی ج ۱ ص ۲۴۷
اس روایت کے متعلق شیخ یاسر خبیث کہتا ہے کہ وقد ناقش بعض الرجالیین فی سند ھذہ الروایۃ ایضا من جھۃ تضعیف الحسن بن العباس بن حریش مع ان الراوی لیس بمتھم فی شیء یعنی بعض رجالی حضرات نے اس روایت کی سند پر بھی حسن بن عباس بن حریش کی تضعیف کی وجہ سے اعتراض کیا ہے، حالانکہ یہ راوی کسی چیز میں متہم نہیں ہے۔
میں کہتا ہوں کہ رجال کشی کی دونوں اسناد بھی ضعیف ہیں، اور الکافی کی سند بھی ضعیف ہے، لیکن شیعہ علماء کے اقوال بیان کرنے کا مقصدصرف یہ تھا کہ بعض شیعہ جہلاء اہلسنت پر اعتراض کرتے ہیں جب علماء کے اقوال میں اختلاف آجاتا ہے،اور انہیں پتہ نہیں ہوتا کہ ان کے علمِ حدیث کا کیا حال ہے۔بہرحال رجال کشی اور الکافی کی اسناد ضعیف ہیں، لیکن نہج البلاغہ کا خطبہ عبداﷲ بن عباس ؓ کی مذمت میں وارد ہوا ہے ، اور ان تینوں روایات سے اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ اہل تشیع کے بارہ ائمہ کے نزدیک ابن عباس ؓ کوئی ایسی قابل قدر شخصیت نہیں، جس سے شیعوں کو ہدایت حاصل کرنی چاہئے۔ مشہور شیعہ عالم اور محقق میرزا محمد باقر لاہیجانی نے اپنی شرح نہج البلاغہ میں واضح طور پراس مکتوب میں مخاطب شخص سے مراد حضرت عبداﷲ بن عباس ؓکو تسلیم کیا ہے۔شرح نہج البلاغہ منظوم میں لکھا ہے کہ از مطالعہ مطالب و جملات مکتوب ظن نزدیک بیقین برای انسان حاصل می شود کہ مخاطب ابن عباس است یعنی مطالب اور جملات مکتوب کے مطالعہ کے بعد انسان کا ظن یقین میں تبدیل ہو جاتا ہے کہ مخاطب ابن عباس ؓ ہے۔ اسی طرح شرح منہاج البراعہ میں شیخ حبیب اﷲ الخوئی نے بھی لکھا ہے کہ والاکثر علی انہ عبد اﷲ بن عباس اکثر کے نزدیک اس سے مراد عبداﷲ بن عباس ہے۔ابن میثم نے بھی اپنی شرح میں لکھا ہے کہ المشہور ان ھذ الکتاب الی عبداﷲ بن عباس حین کان والیا لہ علی البصرۃ ، والفاظ الکتاب تنبہ علی ذلک مشہور قول یہ ہے کہ اس مکتوب کا مخاطب عبد اﷲ ابن عباس ہے، اور اس مکتوب کے الفاظ اس پر خبردار کرتے ہیں۔ شیخ محمد جواد مغنیہ اپنی شرح میں لکھتے ہیں : اکثر الباحثین او الکثیر منھم قالوا ان ھذہ الرسالۃ کتبھا الامام لابن عمہ عبد اﷲ بن عباس اکثر تحقیق و تبحیث کرنے والے حضرات کے نزدیک یہ مکتوب امام علی نے اپنے چچازاد بھائی عبد اﷲ بن عباس کو لکھا۔ نیز نہج البلاغہ کے محقق شیخ فارس تبریزیان نے بھی اس کی وضاحت کی ہے کہ اس مکتوب میں حضرت علی نے حضرت عبداﷲ بن عباسؓ کو ہی مخاطب کیا ہے۔
موصوف فرماتے ہیں کہ ’’دوسرا طریقہ علماء اہلسنت کے اقوال سے استنباط کرنا ہے جو یقینا بحث کے ہر زاویہ اور قیل قال کی تحلیل کے بعد کسی نتیجہ پر پہنچیں ہوں گے ۔اس کا فائدہ یہ ہے کہ معترض کہ پاس بھاگنے کا کوئی موقعہ نہ رہے گا۔‘‘ میں کہتا ہوں کیا ہی اچھا ہوتا جو آپ اس طریقے کو ہر جگہ استعمال کرتے۔لیکن چونکہ یہاں پر موصوف نے اس مقام پر بحث کو علماء کے اقوال تک محدود رکھا ہے، تو ہم بھی یہاں خواہ مخواہ روایات کو درمیان میں نہیں لائیں گے۔

0 comments: