بسم الله الرحمن الرحيم
حضرت عمر رضی اللہ
عنہ کے متعلق
اسماعیل دیوبندی
رافضی کے ایک مقالے کا جائزہ
اسماعیل دیوبندی نامی ایک شیعہ رافضی نے حضرت عمر رضی اللہ
عنہ کی تنقیص میں ایک مقالہ لکھا، جس کی طرف ایک بھائی نے توجہ دلائی، اور اس کا جواب لکھنے کو کہا۔
اسماعیل دیوبندی رافضی اپنے سلف کی پیروی میں سنیت کا لبادہ اوڑھ کر اہل سنت کو
گمراہ کرنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں، اللہ تعالٰی ان روافض کو ان کےعزائم میں
ناکام کرے۔ آمین۔
اسماعیل دیوبندی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر تنقید کا آغاز کرتے ہوئے چند
غلطیاں کی، جن کو بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
اسماعیل دیوبندی کی تحقیق مختصر الفاظ میں یہ ہے:
منقطع روایت کو مرسل کہا گیا ہے۔ مرسل روایت قابل حجت ہے۔
لہذا منقطع بھی حجت ہے۔
حالانکہ منقطع روایت کو مرسل کہنے سے یہ دلیل پکڑنا کہ یہ
منقطع بھی حجت میں مرسل کی طرح ہے، سراسر غلط بیانی ہے۔ کیونکہ منقطع میں چونکہ
ارسال ہوتا ہے، لہذا اس کو مرسل کہنے میں کوئی قباحت نہیں۔ لیکن منقطع میں ارسال
تابعی سے پہلے ہوتا ہے، اور مرسل میں ارسال تابعی کے بعد ہوتا ہے، جبکہ تابعی
قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نقل کرے۔اور جس کو علماء کا ایک گروہ قبول کرتا
ہے ، وہ تابعی ہی کی مرسل ہے جبکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نقل
کرے۔
اس کو اسماعیل
دیوبندی ہی کی تحریر سے پیش کرتا ہوں، حالانکہ اس میں اسماعیل دیوبندی کا ترجمہ
بھی ناقص ہے، اور صحیح مطلب واضح نہیں ہوتا۔
علامہ نووی لکھتے ہیں
فان انقطع قبل التابعی واحد او اکثر قال الحاکم وغیره من
المحدثین لا یسمی مرسلا بل یختص المرسل بالتابعی عن النبی فان سقط قبله فھو منقطع
یعنی سند میں اگر تابعی سے پہلے [راوی کے سقوط یا عدم
سماع کیوجہ سے] انقطاع ہو تو وہ روایت امام حاکم و دیگر محدثین کے نزدیک منقطع ھے
کیونکہ مرسل تابعی کیساتھ خاص ھے [تابعی صغیر ہو یا کبیر برابر ھے ائمہ کی تصریح
کیمطابق]۔
التقریب والتیسیر لمعرفة سنن البشیر النذیر// صفحہ34//
طبعہ دارالکتاب العربی
صحیح ترجمہ
یوں ہوگا : اگر تابعی سے پہلے ایک یا اس سے زیادہ راویوں میں انقطاع ہو، تو امام
حاکم اور دوسرے محدثین کے نزدیک اس کو مرسل نہیں کہا جائے گا، بلکہ لفظ "مرسل"
تابعی کی اس روایت سے مخصوص ہے جس میں وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرے، اگر اس سے
پہلے کوئی اسقاط ہو تو وہ روایت منقطع کہلائے گی۔
چنانچہ اب
اگر کوئی عالم منقطع کو مرسل کہہ بھی دے، تب بھی اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ وہ
منقطع کو حجت میں بھی مرسل ہی کی مانند
سمجھتا ہے؟
اسی طرح ایک اور موقع پر اسماعیل دیوبندی نے شرح مسلم کی
عبارت کو نہ صرف مکمل پیش نہیں کیا، بلکہ اس کا ترجمہ بھی صحیح نہیں کیا۔
شرح مسلم کے مقدمہ میں رقمطراز ہیں
واما المرسل فھو عند الفقھاء واصحاب الاصول والخطیب الحافظ
ابی بکر البغدادی وجماعة من المحدثین ما انقطع اسناده علی أی وجه کان انقطاعه فھو
عندھم بمعنی المنقطع وقال جماعات من المحدثین أو أکثرھم لا یسمی مرسلا
یعنی مرسل کی تعریف فقھاء و اصولیین اور محدثین کی ایک
جماعت کے نزدیک یہ ھے کہ جس روایت کی سند میں انقطاع ہو اور وہ انقطاع کسی بھی قسم
کا ہو بہر حال ان کے نزدیک مرسل روایت منقطع کے معنی میں ہی ھے برخلاف جمھور
محدثین کے کہ ان کے نزدیک منقطع روایت کو مرسل نہی مانا جاتا
مقدمہ شرح صحیح مسلم//جلد،1//صفحہ،30// طبعہ قاھرہ مصر
پوری عبارت اور اس کا ترجمہ یوں ہے
وأما المرسل فهو عند الفقهاء وأصحاب الأصول والخطيب
الحافظ أبى بكر البغدادى وجماعة من المحدثين ما انقطع اسناده على أى وجه كان
انقطاعه فهو عندهم بمعنى المنقطع وقال جماعات من المحدثين أو أكثرهم لا يسمى مرسلا
الا ما أخبر فيه التابعى عن رسول الله صلى الله عليه و سلم[1]
فقہاء ، اصحاب اصول، خطیب بغدادی اور محدثین کی ایک
جماعت کے نزدیک اگر کسی روایت کی اسناد میں کسی بھی وجہ سے انقطاع ہو، تو اس کو
منقطع کہا جاتا ہے۔ اور جمہور محدثین کے
نزدیک مرسل اس روایت کو کہتے ہیں جس میں تابعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے
روایت کرے۔
اب اگر کوئی منقطع کو مرسل کہے، تو اس سے یہ لازم نہیں
آتا کہ وہ منقطع کی مختلف اقسام کو حجت کے لحاظ سے بھی ایک جیسا سمجھتا ہے۔ لہذا
اسماعیل دیوبندی کی یہ "تھیوری" کہ چونکہ منقطع کو مرسل کہا گیا ہے، اور
مرسل قابل حجت ہے، تو منقطع کو بھی مرسل کی طرح قابل حجت سمجھا جائے، بالکل ناکارہ
ہے۔
لیکن اس سے قطع نظر اس روایت پر گفتگو کرتے ہیں جس پر
اسماعیل دیوبندی نے اپنا وقت ضائع کیا۔ چنانچہ فرماتے ہیں
مؤرخ و امام
اور محدث کبیر عمر بن شبہ نے اپنی کتاب "تاریخ المدينة المنورة" میں یہ
روایت نقل کری ھے
حدثنا موسى بن
إسماعيل قال، حدثنا حماد بن سلمة قال، حدثنا ثابت، عن هلال بن أمية: أن عمر رضي
الله عنه استعمل عياض بن غنم على الشام، فبلغه، أنه اتخذ حماما، واتخذ نوابا، فكتب
إليه أن يقدم عليه، فقدم، فحجبه ثلاثا، ثم أذن له، ودعا بجبة صوف فقال: البس هذه،
وأعطاه كنف الراعي وثلاثمائة شاة، وقال: انعق بها، فنعق بها، فلما جاوز هنيهة قال:
أقبل، فأقبل يسعى حتى أتاه، فقال: اصنع بها كذا وكذا، اذهب. فذهب حتى إذا تباعد
ناداه يا عياض أقبل، فلم يزل يردده حتى عرقه في جبته، قال: أوردها علي يوم كذا
وكذا، فأوردها لذلك اليوم، فخرج عمر رضي الله عنه إليه فقال: انزع عليها. فاستقى
حتى ملا الحوض فسقاها، ثم قال، انعق بها فإذا كان يوم كذا فأوردها، فلم يزل يعمل
به حتى مضى شهران، قال: فاندس إلى امرأة عمر رضي الله عنها وكان بينه وبينها
قرابة، فقال: سلي أمير المؤمنين فيم وجد علي ؟ فلما دخل عليها قالت: يا أمير
المؤمنين فيم وجدت على عياض ؟ قال يا عدوة الله، وفيم أنت وهذا، ومتى كنت تدخلين
بيني وبين المسلمين ؟ إنما أنت لعبة
يلعب بك، ثم تتركين
تاریخ المدینة المنورة//جلد،2//صفحہ،21//دارالکتب العلمیہ
بیروت
مذکورہ بالا
روایت میں ہمارا محل کلام " کردار فاروقی کا عکاس "وہ جملہ ٹھرا جسمیں
خلیفہ ثانی نے اپنی زوجہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم [عورت] ایک کھلونے کی
مانند ہو جس کیساتھ کھیلنے کے بعد اسکو چھوڑ دیا جاتاھے اور پھر فاروق اعظم نے
اپنے کردار و عمل سے بھی اسکی تایئید کری تاکہ عدل فاروقی کا تقاضہ پورا ہو سکے کہ
قول و فعل میں تضاد عدل کےمنافی ھے
پھر اسماعیل دیوبندی فرماتے ہیں
روایت
کی سند اگرچہ خدشہ انقطاع سے خالی نہی ھے جیسا کہ اعتراض کیا گیا ھے کیونکہ تابعی
ثابت بن اسلم البنانی نے صحابی رسول ہلال بن امیہ انصاری کا زمانہ نہی پایا بالفرض
عطاء بن عجلان [جو کہ متروک ہے] اسکی روایت کو بھی اگرصحیح مان لیا جائےتب بھی
زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوگا کہ حضرت معاویہ کے دور حکومت تک ہلال بن امیہ زندہ
رھے سماع پھر بھی ثابت نہ ہوگا کیونکہ ثابت بن اسلم کا سن ولادت 41 ھجری بنتا ھے
چنانچہ
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں
وأخرج
ابن شاهين، من طريق عطاء بن عجلان، عن مكحول، عن عكرمة بن هلال بن أميّة- أنه أتى عمر
فذكر قصّة اللّعان مطوّلة. وهذا لو ثبت لدلّ على أنّ هلال بن أميّة عاش إلى خلافة
معاوية حتى أدرك عكرمة الرواية عنه،ولکن عطاء بن عجلان متروک
الاصابة
في تمييز الصحابة//جلد،6//صفحہ،428//طبعه دار الكتب العلميه
لیکن روایت پر انقطاع سند کا
اعتراض وارد کرکے یہ ثابت کرنا کہ روایت قابل احتجاج و استدلال نہی ھے یہ قول فن
اصول حدیث سے کم علمی یا تجاھل عارفانہ پر دلالت کرتا ھے کیونکہ اس روایت پر علی
الاطلاق حدیث منقطع کا اطلاق کرنا درست نہی ھے بلکہ ہمارا یہ دعوی ھے کہ یہ روایت
جمہور محدثین کے نزدیک انکی بیان کردہ تعریفات کی روشنی میں حدیث مرسل کے زمرے میں
آتی ھے اور مرسل روایت سے استدلال ائمہ ثلاثہ [ابو حنیفہ، مالک، احمد بن حنبل] و
دیگر کے نزدیک درست ھے
اسماعیل دیوبندی یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ یہ روایت منقطع
ہے، لیکن چونکہ منقطع کو مرسل کہا گیا ہے، لہذا اس روایت کو قبول کر لیا جائے
حالانکہ ایسا نہیں، جیسا کہ امام نووی کے ان دو اقوال کو پڑھنے کے بعد آپ سمجھ
جائیں گے جس کو خود اسماعیل دیوبندی نے نقل کیا ہے، جس میں انہوں نے جمہور محدثین
کا موقف بیان کیا ہے کہ مرسل تو وہ ہے جس کو تابعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
سے روایت کرے۔ یہاں کونسا تابعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نقل کر رہا
ہے؟ اور خود موصوف اقرار کر چکے ہیں کہ اس روایت میں ثابت اور ہلال بن امیہ کے
درمیان انقطاع ہے۔ چنانچہ موصوف کی یہ منقطع روایت ناقابل حجت ہے۔
اس کے بعد اسماعیل دیوبندی اس منقطع روایت کی تائید میں
ایک دوسری منقطع روایت لاتے ہیں، اور فرماتے ہیں
حضرت
عمر کا یہ فرمان ثم تترکین صرف زبانی کلامی دعوی نہی ھے بلکہ فاروق اعظم نے خود
اپنے عمل سے اپنے قول کی تصدیق بھی فرمائی ھے اب ہم قولی روایت [ثم تترکین] کی تایئید میں حضرت عمر
کی اس عملی روایت [ثم ترکھا] کو ابن سعد سے نقل کرینگے کہ جسمیں حضرت عمر کے ذاتی
فعل کا ذکر ھے جو انکے ذاتی قول کو ثابت کرنے کیلیئے کافی ھے ۔
ابن سعد
نقل کرتے ہیں
اخبرنا
عفان بن مسلم حدثنا حماد بن سلمۃ اخبرنا علی بن زید أن عاتكة بنت زيد كانت تحت عبد
الله بن أبى بكر فمات عنها واشترط عليها أن لا تزوج بعده فتبتلت وجعلت لا تزوج
وجعل الرجال يخطبونها وجعلت تأبى فقال عمر لوليها اذكرنى لها فذكره لها فأبت عمر
أيضا فقال عمر زوجنيها فزوجه إياها فأتاها عمر فدخل عليها فعاركها حتى غلبها على
نفسها فنكحها فلما فرغ قال أف أف أف أفف بها ثم خرج من عندها وتركها لا يأتيها
فأرسلت إليه مولاة لها أن تعال فإنى سأتهيأ لك
الطبقات الکبری//جلد،8 صفحہ،208 //طبعہ دارالکتب
العلمیہ بیروت
عبارت کا ترجمہ ھم کرینگے تو
شکوہ ہوگا اسلیئے روایت کا ترجمہ مولانا راغب رحمانی صاحب کی زبانی ملاحظہ
فرمائیں۔
عاتکہ عبد اللہ بن ابی بکر
صدیق کے نکاح میں تھیں عبد اللہ فوت ہوگئے اور عاتکہ سے شرط کر گئے کہ میرے بعد
نکاح نہ کرنا چنانچہ وہ دنیا کی تارکہ بن گیئں اور کسی سے نکاح نہی کیا لوگ پیام
لے لے کر آتے تھے مگر آپ انکار کردیا کرتی تھیں حضرت عمر نے آپکے ولی سے کہا انکے
پاس میرا ذکر کرنا انہوں نے عمر کا ذکر کیا آپ نے انکار کردیا، حضرت عمر نے آپکے
ولی سے کہا: ان سے میرا نکاح کردیجیئے، چنانچہ ولی نے آپ کا حضرت عاتکہ سے نکاح
کرادیا، خلوت ہوئی انہوں نے ھمبستری سے انکار کیا عمر نے زبردستی ان سے صحبت کی،
فارغ ہوکر بولے: تھو تھو تھو، ان پر تھو تھو کی اور انکے پاس سے چلے گئے اور انہیں
چھوڑ گئے اور آنا جانا بند کردیا انہوں نے اپنی آزاد کردہ لونڈی بھیج کر کہلوایا
کہ آپ تشریف لے آئیں میں آپکے لیئے تیاری کروں گی
طبقات
ابن سعد//جلد،8 صفحہ،345 // طبعہ نفیس اکیڈمی اردوبازار کراچی
یہ روایت بھی احناف کے نزدیک مرسل ھے اگرچہ علی
ابن زید متکلم فیہ راوی ہیں لیکن خواستگاری کے میدان میں شجاعت فاروقی کے کارنامے
کتب تاریخ میں عام ہیں یہاں تک کہ عقد ام کلثوم کے باب میں حضرت کی بیباکیوں کے
چرچے ابن شبہ کی اس روایت سے کہیں زیادہ مشہور ہیں
لیجئے، یہاں پر خود فرما رہے ہیں کہ یہ روایت مرسل ہے
(جبکہ یہ روایت حقیقت میں منقطع ہے جو کہ ناقابل حجت ہے) کیونکہ علی بن زید دورِ
فاروقی میں پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔ نیز یہ راوی اکثر کے نزدیک ضعیف ہے۔ مثلا امام
احمد، امام نسائی، امام حاکم، امام ابوزرعہ، امام بیہقی ، امام جرجانی، حافظ ابن
حجر، امام دارقطنی، علی ابن المدینی، ابن خزیمہ ، یحیی بن معین ، محمد ابن سعد
وغیرھم۔ اس کے علاوہ یہ راوی تشیع سے بھی
متہم ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ جہاں تک عقد ام کلثوم کے باب میں حضرت
عمر کی "بیباکیوں کے چرچے" کا تعلق ہے، تو ان کی اسنادی حالت بھی کمزور
ہے، اور وہ مشہور ضرور ہیں، لیکن شیعوں کی زبانوں پر۔ اس کے علاوہ نہیں۔
اب رہی یہ بات کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عورت کو مرد کا
کھلونا کہا، تو یہ بات خود روافض کی اپنی کتب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم اور دیگر ائمہ غیر معصومین سے بھی منقول ہے۔ چنانچہ وسائل
الشیعہ میں ایک روایت نقل ہوئی ہے جس میں امام جعفر فرماتے ہیں کہ عورت مرد کا
کھلونا ہے۔
وَعَنْهُ عَنْ سَلَمَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ
الْحَسَنِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ أَبَانِ بْنِ عُثْمَانَ وَالْحُسَيْنِ
بْنِ أَبِي يُوسُفَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ سَأَلْتُ أَبَا
عَبْدِ اللَّهِ ع مَا يَحِلُّ لِلرَّجُلِ مِنَ الْمَرْأَةِ وَهِيَ حَائِضٌ قَالَ
كُلُّ شَيْءٍ غَيْرَ الْفَرْجِ قَالَ ثُمَّ قَالَ إِنَّمَا الْمَرْأَةُ لُعْبَةُ
الرَّجُلِ[2]
اس روایت کو خمینی نے اپنی کتاب الطہارہ میں بھی نقل
کیا ہے۔ [3]
اسی وسائل الشیعہ میں امام رضا سے بھی یہی قول منقول ہے
وَعَنِ الْفَتْحِ بْنِ يَزِيدَ الْجُرْجَانِيِّ
قَالَ كَتَبْتُ إِلَى الرِّضَا ع فِي مِثْلِهِ فَوَرَدَ الْجَوَابُ سَأَلْتَ
عَمَّنْ أَتَى جَارِيَةً فِي دُبُرِهَا وَالْمَرْأَةُ لُعْبَةٌ فَلَا تُؤْذَى
وَهِيَ حَرْثٌ كَمَا قَالَ اللَّهُ[4]
اسی طرح قرب الاسناد میں ایسی ہی روایت امام باقر سے مروی ہے
وعنه عن مسعدة بن صدقة قال حدثني جعفر بن محمد عن
أبيه ع قال من اتخذ نعلا فليستجدها ومن اتخذ ثوبا فليستنظفه ومن اتخذ دابة
فليستفرهها ومن اتخذ امرأة فليكرمها فإنما امرأة أحدكم لعبة فمن اتخذها فليضعها[5]
اسی طرح بحار الانوار میں ملا باقر مجلسی نوادر
الراوندی کے حوالے سے فرماتے ہیں
وبهذا الإسناد قال قال رسول الله ص إنما المرأة
لعبة فمن اتخذها فليبضعها[6]
اسی طرح شیعہ کتاب الجعفریات میں بھی ایسا ہی قول رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے
أخبرنا عبد الله أخبرنا محمد حدثني موسى قال حدثنا
أبي عن أبيه عن جده جعفر بن محمد عن أبيه عن جده علي بن الحسين عن أبيه عن علي ع
قال قال رسول الله ص إنما المرأة لعبة فمن اتخذها فليصنعها[7]
اسی طرح شیخ ہادی نجفی نے اپنی کتاب موسوعہ احادیث اہل
بیت میں ایسی ہی روایت الکافی کے حوالے سے نقل کی ہے، اور فرماتے ہیں کہ اس کی
اسناد معتبر ہیں۔
الكليني، عن علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن النوفلي،
عن السكوني، عن أبي عبد الله (عليه السلام) قال: قال رسول الله (صلى الله عليه
وآله وسلم): إنما المرأة لعبة من اتخذها فلا يضيعها.
الرواية معتبرة الإسناد[8]
اب اسماعیل دیوبندی رافضی پر لازم ہے کہ اپنے ائمہ پر بھی
اعتراض کرے، کیونکہ اگر اس کی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر اعتراض جائز ہے، تو
اسی طرح آپ کے ائمہ پر بھی اعتراض جائز
ہے۔ یہ تھا موصوف کا مقالہ، جس میں انہوں
نے اپنے ہی ائمہ کو مطعون بنا ڈالا۔
وللہ الحمد
کلام حقیر
جمعرات 18 جمادی الاول 1435 ھ
0 comments:
Post a Comment