نکاح ام کلثوم در کتب اہل تشیع
محمد بن يحيى وغيره عن أحمد بن محمد بن عيسى عن الحسين بن
سعيد عن النضر بن سويد عن هشام بن سالم عن سليمان بن خالد قال: سألت أبا عبد الله
ع عن امرأة توفى زوجها أين تعتد في بيت زوجها تعتد أو حيث شاءت؟ قال: بلى حيث شاءت
ثم قال: إن عليا ع لما مات عمر أتى أم كلثوم فأخذ بيدها فانطلق بها إلى بيته
سلیمان بن خالد کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق سے پوچھا
کہ جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے ، وہ اپنی عدت کے ایام کہاں گزارے ؟ خاوند کے گھر
میں یا جہان چاہے؟ امام جعفر نے کہا کہ
جہاں چاہے، پھر فرمایا ، جب حضرت عمر فوت ہوئے تو حضرت علی اپنی صاحبزادی ام کلثوم
کے پاس گئے اور اس کو اپنے ساتھ گھر لے کر آئے۔[1]
مجلسی نے اپنی کتاب مراة العقول میں اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔[2]
محمد بن يعقوب عن محمد بن يحيى وغيره عن أحمد بن محمد بن
عيسى عن الحسين بن سعيد عن النضر بن سويد عن هشام بن سالم عن سليمان ابن خالد قال:
سألت أبا عبد الله (ع) عن امرأة توفي عنها زوجها أين تعتد في بيت زوجها تعتد ؟ أو
حيث شاءت ؟ قال: حيث شاءت ثم قال: إن عليا (ع) لما مات عمر أتى أم كلثوم فأخذ
بيدها فانطلق بها إلى بيته
سلیمان بن خالد کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق سے پوچھا
کہ جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے ، وہ اپنی عدت کے ایام کہاں گزارے ؟ خاوند کے گھر
میں یا جہان چاہے؟ امام جعفر نے کہا کہ
جہاں چاہے، پھر فرمایا ، جب حضرت عمر فوت ہوئے تو حضرت علی اپنی صاحبزادی ام کلثوم
کے پاس گئے اور اس کو اپنے ساتھ گھر لے کر آئے۔[3]
محمد بن أحمد بن يحيى عن جعفر بن محمد القمي عن القداح عن
جعفر عن أبيه ع قال: ماتت أم كلثوم بنت علي عليه السلام وابنها زيد بن عمر بن
الخطاب في ساعة واحدة لا يدرى أيهما هلك قبل فلم يورث احدهما من الآخر وصلى عليهما
جميعا
امام جعفر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا
؛ حضرت ام کلثوم بنت علی اور ان کے بیٹے زید بن عمر ایک ہی لمحہ میں فوت ہوئے۔ اور
یہ پتہ نہ چل سکا کہ ان دونوں میں سے پہلے کون فوت ہوا ہے، تو اس صورت میں ایک کو
دوسرے کا وارث نہ بنایا جا سکا۔ اور ان
دونوں پر اکٹھی نماز پڑھی گئ۔ [4]
فأما انكاحه عليه السلام اياها، فقد ذكرنا في كتابنا
الشافي، الجواب عن هذا الباب مشروحا، وبينا انه (ع) ما أجاب عمر إلى انكاح بنته
إلا بعد توعد وتهدد ومراجعة ومنازعة
جہاں تک امام علیہ السلام کا اپنی لڑکی کو حضرت عمر سے نکاح
کرنے کا تعلق ہے، تو اس مسئلہ کا جواب ہم نے کتاب الشافی میں پورے بسط و تفصیل سے
تحریر کر دیا ہے۔ اور ہم نے واضح کر دیا ہے کہ حضرت علی المرتضٰی نے اپنی لڑکی کا
رشتہ عمر بن الخطاب کے ڈرانے دھمکانے اور بار بار مراجعت و منازعت کے بعد کیا تھا۔
[5]
محمد بن جعفر طيار بعد از فوت عمر بن خطاب بشرف مصاهرت حضرت
امير المومنين مشرف گشته ام كلثوم را كه
با عدم كفائت از روي اكراه در حباله عمر بود تزويج نمود
عمر بن الخطاب کی وفات کے بعد محمد بن جعفر طیار نے ام
کلثوم بنت علی کے ساتھ نکاح کیا۔ ام کلثوم غیر کفو ہونے کی وجہ سے مجبوراً حضرت
عمر کے نکاح میں تھیں۔ [6]
و الأصل في الجواب هو أن ذلك وقع على سبيل التقية و
الاضطرار
اصل جواب یہ ہے کہ یہ ﴿نکاح ام کلثوم بنت علی﴾ تقیہ اور
مجبوری کی بنا پر ہوا تھا۔ [7]
و امـّا امـّكـلثـوم حـكـايـت تـزويـج او بـا عـمـر در
كـتـب مـسـطـور است و بعد از او ضجيع عون
بن جعفر و از پس او زوجه محمّد بن جعفر گشت
حضرت ام کلثوم کا نکاح حضرت عمر بن الخطاب کے ساتھ کتابوں
میں لکھا ہے اور اس کے بعد عون بن جعفر کے نکاح میں آئی۔ اور اس کے بعد اس کے بھائ
محمد بن جعفر کے نکاح میں آئ۔ [8]
وزوج النبي ابنته عثمان، وزوج ابنته زينب بأبي العاص بن
الربيع، وليسا من بني هاشم، وكذلك زوّج علي ابنته أم كلثوم من عمر، وتزوج عبد الله
بن عمرو بن عثمان فاطمة بنت الحسين، وتزوج مصعب بن الزبير أختها سكينة، وكلهم من
غير بني هاشم
نبی کریم ﴿ص﴾ نے اپنی صاحبزادی کا نکاح عثمان بن عفان سے کر
دیا تھا اور اپنی دختر زینب کا نکاح ابولعاص بن ربیع سے کر دیا تھا۔ حالانکہ دونوں
بنی ہاشم سے نہ تھے۔ اسی طرح حضرت علی نے اپنی دختر ام کلثوم کا نکاح حضرت عمر بن
الخطاب سے کر دیا تھا، اور عبداللہ بن عمرو بن عثمان کے ساتھ فاطمہ بنت الحسین کی
شادی ہوئ۔ اور ان کی بہن سکینہ بنت الحسین کی شادی مصعب فن زبیر سے ہوئ۔ اور یہ سب
بنی ہاشم سے نہیں تھے۔ [9]
و روي أن عمر تزوج أم كلثوم بنت علي
مروی ہے کہ حضرت عمر نے ام کلثوم بنت علی سے نکاح کیا۔ [10]
فولد من فاطمة (ع): الحسن والحسين والمحسن سقط، وزينب
الكبرى، وأم كلثوم الكبرى تزوجها عمر
حضرت فاطمہ علیہا السلام کی اولاد : حسن، حسین، محسن ، زینب
الکبری اور ام کلثوم الکبری جن کا نکاح
حضرت عمر سے ہوا۔[11]
وأما ام كلثوم فهي التي تزوجها عمر بن الخطاب
ام کلثوم کا نکاح عمر بن الخطاب سے ہوا۔ [12]
[1] فروع کافی ، ج
٦ ص ١١۵
[2] مراة العقول ج ۲١ ص ١۹۹
[3] وسائل الشیعہ
ج ۲۲ ص ۲۴١
[4] تہذیب الاحکام ج ۹ ص ۳٦۳
[5] تنزیہ الانبیاء ص ١۹١
[6] مجالس المومنین، ص ۸۵ ، تذکرہ محمد بن جعفر طیار
[7] مرآة العقول ، مجلسی، ج ۲۰ ، ص ۴۵
[8] منتہی الآمال ، در ذکر اولاد امیر المومنین ، ص ١۸۲
[9] مسالک الافہام شرح شرائع الاسلام ، کتاب النکاح باب لواح
العقد
[10] المبسوط - طوسی ج ۴ ص ۲۷۲
[11] مناقب آل أبي طالب ج 3 ص 89
[12] اعلام الوری ، ج ١ ص ۳۹۷
0 comments:
Post a Comment