مختار ثقفی کی حقیقت

مختار ثقفی کی حقیقت شیعہ کتب سے جاننے کیلئے یہاں کلک کرین۔

This is default featured slide 3 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

This is default featured slide 4 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

This is default featured slide 5 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

Thursday, August 13, 2015

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ پر اعتراض کا جواب الجواب

بسم الله الرحمن الرحيم

حضرت  خالد بن ولید رضی اللہ عنہ  پر اعتراض کا جواب الجواب

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے متعلق"افلاطون" نامی  ایک شیعہ کے اعتراضات کا جواب ہم نے اس سے پہلے دیا تھا۔  موصوف نے جواب الجواب لکھنے کی زحمت فرمائی ۔ الحمد للہ اس کا جواب بھی پایہ تکمیل تک پہنچا۔ ملاحظہ کیجئے :-

کلام :ــــــــــــ پہلی روایت کا ترجمہ  یوں ہے:۔
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید کو جزیمہ نامی قبیلہ کی جانب بھیجا تاکہ انہیں اسلام کی دعوت دی جائے ۔ وہ لوگ یوں نہ کہہ سکے "اسلمنا" بلکہ انہوں نے کہا "صبانا صبانا" ۔ حضرت خالد نے ان میں سے چند کو قتل کیا، اور باقیوں کو گرفتارر کر لیا۔ راوی کہتا  ہے کہ پھر  انہوں نے ہر  شخص کو ایک آدمی حوالہ کیا تاکہ اسے قتل کیا جائے۔ ابن عمر کہتے ہیں "میں نے کہااللہ کی قسم میں اس شخص کو قتل نہیں کروں گا اورنہ ہی میرے ساتھی اسے قتل کریں گے جن کو ہم نے گرفتارر کیا"۔ ہم رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے پاس گئے، اورانہیں خالد کے عمل  کے بارے میں بتایا۔ پس رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ہاتھ اٹھا کر فرمایا "اے اللہ ! میں خالد کےفعل سے بری ہوں، میں خالد کے عمل  سے بری ہوں"۔
یہاں غلط فہمی کی بنیاد زبان کا اختلاف بنا، کیونکہ بعض عرب اسلام لانے کے لئے اسلمنا،اور بعض عرب دین سے پھر نےکیلئے صبانا کا لفظ استعمال کرتے تھے۔
مثال کے طور پر جب حضرت عمر اسلام لائے تو انہوں نے پوچھا کہ قریش میں سب سے زیادہ باتونی کون ہے؟ لوگوں نے کہا کہ جمیل بن معمر ۔ آپ اس کے پاس گئے اور کہا: أاعلمت انی اسلمت  ؟ یعنی کیا تم جانتے ہو کہ میں اسلام لے آیا؟ پس وہ گیا اورکہنے لگا يا معشرقريش ، ألا إن ابن الخطاب قد صبا۔ اے قریش کے  لوگوں ! جان لو کہ خطاب کا بیٹا دین سے پھر  گیا ہے۔ حضرت عمر نے کہا : كذب ،ولکنی اسلمت  ۔ تو نےجھوٹ بولا ہے، میں تو اسلام لایا ہوں۔

اس کے جواب میں افلاطون صاحب فرماتے ہیں

افلاطون :ــــــــــــــ روایت کا یہ جملہ آپ کی بیان کردہ  توجیہ کی تائید نہیں کرتا۔
ابن عمر کہتے ہیں "میں نے کہااللہ کی قسم میں اس شخص کو قتل نہیں کروں گا اورنہ ہی میرے ساتھی اسے قتل کریں گے جن کو ہم نے گرفتارر کیا"۔
اگر زبان کے اختلاف کا مسئلہ ہوتا تو ابن عمر اور دیگر صحابہ (رض) کو بھی یہ غلط فہمی ہوتی مگر روایت سے صاف ظاہر ہے کہ ابن عمر (رض) نے اپنے اسیر کو قتل نہیں کیا اور نہ ہی دیگر ساتھیوں نے اپنے اسیران کو قتل کیا۔ اور آپ خود فرما رہے ہیں "کیونکہ بعض عرب اسلام لانے کیلئے اسلمنا ، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔" تو باقی بعض اسلام لانے کیلئے کیا کہتے تھے  ؟  اس پر بھی کبھی غلط فہمیاں ہوئیں؟

اس سے میرے بیان کردہ توجیہ کی نفی نہیں ہوتی۔ ضروری نہیں کہ ہر شخص زبان کے اختلاف سے واقف ہو۔ اس لئے بعض اصحاب کا اپنی اسیروں کو قتل نہ کرنے سے یہ ثابت نہین ہوتا کہ زبان کا اختلاف اس کا باعث نہیں بنا تھا۔ اور اگر ابن عمر اور ان کے ساتھیوں نے اپنے اسیران کو قتل نہیں کیا تھا، تو دیگر حضرات نے اپنے اسیران کو قتل کیا تھا، جیسا کہ موصوف آگے خود بیان کریں گے کہ بنی سلیم والوں نے اپنے اسیران کو قتل کیا تھا۔ اور جہاں نے عرض کیا کہ بعض عرب اسلام لانے کیلئے اسلمنا کہتے تھے، بعض عرب ایسے بھی تھے جنہوں نے صبانا کہا جیسا کہ اسی واقعے میں مذکور ہے۔ لیکن ضروری نہیں کہ سب اس سے مراد اسلام لانا ہی سمجھتے ہوں۔ صبا کا مطلب ایک دین سے دوسرے دین کی طرف منتقل ہونا ہے۔ بد دین ہونے کے معنی میں بھی استعمال ہو سکتا ہے، اسی وجہ سے حضرت عمر کے متعلق ایک شخص نے یہ لفظ استعمال کیا تو آپ نے فرمایا کہ تو نے جھوٹ بولا ہے، میں تو اسلام لایا ہوں۔

حقیقت میں صبا کا لفظ حدیث میں ، "پچھلے دین کو چھوڑ کر اسلام قبول کرنے کیلئے آیا ہے"۔  ۔جیساکہ  آپ نے مثال دی "پس وہ گیا اور کہنے لگا يامعشرقريش ، ألا إن ابن الخطاب قد صبا۔ اے قریش کے  لوگوں !جان لو کہ خطاب کا بیٹا دین سے پھر  گیا ہے"(یعنی مسلمان ہوگیا ہے)۔
اہم بات یہ ہے کہ رسول اللہ ص نے خالد کو جنگ کیلئے بھیجا ہی نہیں تھا بلکہ صرف دعوت کیلئے بھیجا تھا  ، اور بنی جذیمہ والوں نے ممکن ہے " صبانا " کہا ہو لیکن تواریخ میں یہ بھی موجود ہے کہ انہوں (بنی جذیمہ )نے تفصیل سے اپنے مسلمان ہونے کی خبر دی تھی بہرحال معاملہ اتنا بھی پیچیدہ نہ تھا کہ خالد کو غلط فہمی ہوتی اور نہ ہی یہ سب کچھ اتنا جلدی ہوا کہ خالد کو اپنی غلط فہمی کا احساس یا اصلاح کا موقعہ بھی نہ ملا ہو!۔
جیساکہ طبقات اور تاریخ طبری  میں موجود ہے کہ :"۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رسول اللہ ص نے خالد کو بنی جذیمہ کی طرف ، اسلام کی دعوت کیلئے بھیجا تھا ، جنگ کیلئے نہیں بھیجا تھا (طبقات ابن سعد ج 1 ص 136 و تاریخ طبری ج 3 صفحہ 66  سنۃ 8 و الکامل فی التاریخ ج 2 ص 128)۔

صبا کا اصل مطلب مذہب تبدیل کرنا ہے۔ اب یہ تبدیلی اسلام کی طرف بھی ہوسکتی ہے، اور اسلام سے کسی دوسرے مذہب کی طرف بھی ہوسکتی ہے۔  القاموس الوحید میں صبا کا مطلب مذہب تبدیل کرنا بیان کیا گیا ہے۔ (القاموس الوحید ص 906) ۔ بلکہ مصباح اللغات میں اس کا مطلب " تبدیل مذہب کرنا"کے ساتھ ساتھ "صائبین کا دین اختیار کرنا" بھی لکھا گیا ہے۔(ص 457) باقی آپ نے جن روایات کا تذکرہ کیا ہے، وہ سب ضعیف ہیں۔ طبقات ابن سعد کا متعلقہ باب میں نے دیکھ لیا، اس میں دو روایات سند کے ساتھ موجود ہیں، لیکن دونوں میں عباس بن فضل نامی راوی ضعیف ہے ۔ تاریخ طبری کی کوئی روایت متصل اور صحیح سند کے ساتھ بنی جزیمہ کے متعلقہ باب میں  موجود نہیں۔ الکامل فی التاریخ میں ویسے بھی اسناد نہیں ہوتی۔ پس آپ کی یہ ساری باتیں قابل حجت نہیں۔

اور اس کے ساتھ مہاجرین و انصار اور بنی سلیم میں سے  تین سو پچاس آدمی تھے ۔ ۔ ۔ ۔  جب خالد وہاں پہنچا تو ان سے پوچھا کہ : تم لوگ کون ہو؟، انہوں نے جواب دیا کہ : ہم مسلمان ہیں ، اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کرتے ہیں ، ہم نے اپنے ہاں مسجدیں بنائی ہوئی ہیں اور ان میں اذانیں کہتے ہیں۔ خالد نے کہا : پھر تم نے ہتھیار کیوں اٹھائے ہوئے ہیں؟۔ انہوں نے جواب دیا کہ :عربوں کی ایک قوم سے ہماری دشمنی چل رہی ہے اس لئے ہم ڈر گئے کہ کہیں وہ لوگ تو نہیں ، تبھی ہم نے ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں ۔ توخالد نے کہا : اپنے ہتھیار رکھ دو!۔ انہوں نے اپنے ہتھیار رکھ دیئے ، پھر انہیں خالد کے حکم سے اسیر بنایا گیا ۔۔۔ اور خالد نے ان اسیروں کو اپنے ساتھیوں میں تقسیم کردیا ، اور سحر کے وقت خالد نے پکار کہ کہا : اپنے اپنے اسیروں کو اڑا دو!۔ تب بنی سلیم والوں نے اپنے اسیر قتل کر دیئے جبکہ مہاجرین و انصار نے اپنے اسیروں کو کھول دیا، جب یہ بات نبی ص تک پہنچی تو نبی ص نے خالد کے عمل سے برات کا اظہار کیا اور حضرت علی ع کو ان (بنی جذیمہ ) کی طرف بھیجا تا کہ ان کے مقتولین اور نقصان کی دیت ادا ہو ۔۔۔ پھر حضرت علی ع واپس ہوئے اور رسول ص کو خبر دی ۔ (طبقات ابن سعد ج 1 ص 136)۔

یہ روایت ضعیف ہے، اس کی سند میں عباس بن فضل نامی ضعیف راوی موجود ہے، بلکہ یحیی بن معین سے منقول ہے کہ انہوں نے اس راوی کو "کذاب خبیث" کہا۔

تاریخ طبری میں مزید یہ کہ : خالد نے ان بنی جذیمہ والوں سے کہا اسلحہ رکھ دو تو انہوں نے اسلحہ رکھ دیا اور اسلام لے آئے ۔۔۔ اسی صفحہ پر اگلی روایت میں ہے کہ بنی جذیمہ  میں سے ایک "جحدم" نامی آدمی نے بنی جذیمہ سے کہا کہ : تمہاری شامت کہ تم نے اسلحہ چھوڑ دیا ، اللہ کی قسم یہ خالد بن ولید ہے جو اسلحہ چھوڑنے کے بعد قیدی بنائے گا اور قیدی بنانے کے بعد گردنیں اڑا دے گا۔ اللہ کی قسم میں تو اپنا اسلحہ نہ چھوڑوں گا ۔ ۔ ۔ اسے اس کی قوم کے لوگوں نے پکڑ لیا اور کہا:  "جحدم کیا تم خون خرابہ چاہتے ہو؟لوگ اسلام لا چکے ، جنگ ٹل گئی اب سب کے لئے امن ہے "۔۔۔۔۔ اور جب تک اس کا اسلحہ نہ چھین لیا اسے نہ چھوڑا ۔۔ ۔۔۔ ۔۔ اور لوگوں نے خالد کے کہنے سے اسلحہ چھوڑ دیا اور جب وہ اسلحہ چھوڑ چکے تو باندھے گئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  (تاریخ طبری مذکورہ حوالہ، تقریبا یہی ذکر الکامل ج 2 ص 128)۔ 

تاریخ طبری کی دونوں روایات ضعیف ہیں۔ پہلی روایت میں ابن حمید نامی راوی ضعیف ہے، اور یہ روایت متصل بھی نہیں۔ دوسری روایت میں ابن حمید راوی ضعیف ہے۔ اس کے علاوہ مجہول افراد ہیں "عن محمد بن إسحاق قال حدثني بعض أهل العلم عن رجل من بني جذيمة قال"۔ پس یہ روایت بھی ضعیف ہے۔ الکامل کے بارے میں پہلے ہی بتا دیا کہ اس میں سند ہی موجود نہیں ہوتی۔ پس آپ کی پیش کردہ  سب روایات ضعیف ہیں، اور ان کی بنیاد پر کسی  صحابی کو مورد الزام ٹھراناغلط ہے۔

بلکہ خالد کی قتل و غارت گری کا راز کچھ اور ہے ، ابن قیم جوزی زاد المعاد میں سریہ بنی جذیمہ کا طبقات والا قصہ نقل کر کہ لکھتے ہیں کہ : خالد بن ولید اور عبدالرحمن بن عوف میں کچھ ایسی باتیں ہوئیں جن میں شر تھا، جب رسول ص تک یہ بات پہنچی تو نبی ص نے فرمایا : خالد چھوڑدو! اللہ کی قسم اگر تم احد جبل جتنا سونا خرچ کرو تو بھی میرے صحابی (رض) کی خوشبو بھی درک نہیں کر سکتے ۔ (زاد المعاد ج 3 ص 416)(یہاں ابن قیم نے کافی پردہ رکھا ہے )۔

ابن قیم نے کوئی پردہ نہیں رکھا، بلکہ تاریخ طبری کی ایک روایت کے حوالے سے یہ بات کی ہے۔ اور وہ روایت بھی ابن حمید راوی کی وجہ سے ضعیف ہے۔ اور یہ روایت متصل بھی نہیں، اس کا راوی عبد الرحمن بن سلمہ کہتا ہے "كان بين خالد بن الوليد وبين عبدالرحمن بن عوف فيما بلغني كلام في ذلك" یعنی حضرت خالد بن ولید اور عبد الرحمن بن عوف کے درمیان ، جہاں تک مجھے خبر پہنچی ہے، اس بارے میں کلام ہوا تھا۔  پس یہ روایت ابن حمید کے ضعف اور سند میں انقطاع کے باعث ضعیف ہے۔

یہ بھی واضح رہے کہ : جاہلیت میں بنی جذیمہ والوں نے دو تاجروں کو قتل کیا تھا، ایک عبدالرحمن بن عوف کا باپ عوف بن عبدعوف اور خالد کا چچا فاکہ بن مغیرہ ۔ (تاریخ طبری و الکامل مذکورہ حوالے 
وہ کیا باتیں تھیں جو خالد اور عبدالرحمن بن عوف میں ہوئیں:۔
عبدالرحمن نے کہا ، تم نے  جاہلیت کا کام کیا ہے اسلام میں۔ خالد نے کہا : تم نے اپنے باپ کا انتقام لیا ہے ۔ عبدالرحمن نے کہا : تم جھوٹ کہتے ہو ! میں نے اپنے باپ کا قاتل (قصاص میں )قتل کیا ہے لیکن تم نے اپنے چچا فاکہ بن مغیرہ کا انتقام لیا ہے ۔ اس کے بعد ان دونوں میں کچھ ہوا یہاں تک کہ یہ بات نبی ص تک پہنچی اور انہوں نے خالد سے کہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (تاریخ طبری جلد 3 صفحہ 68 سنہ 8)(یہاں بھی کچھ پردہ ہے )۔

یہ وہی ضعیف روایت ہے جس کا ابھی میں نے تذکرہ کیا۔ اور بالفرض کچھ پردہ ہو بھی، تو اس کی اہمیت تب ہوتی جب روایت تو کم از کم صحیح ہوتی۔ روایت ہی ضعیف ہے تو آپ کا پردہ پردہ کرنا کچھ معنی نہیں رکھتا۔

صحیح مسلم میں ابی سعید خدری سے روایت ہے کہ : خالد اور عبدالرحمن بن عوف میں کچھ ہوا تو خالد نے عبدالرحمن کو "گالی دی " اور جب یہ خبر رسول ص تک پہنچی تو رسول ص نے فرمایا کہ : میرے صحابہ(رض) کو گالی مت دو اگر تم احد پہاڑ جتنا سونا خرچ کرو تو بھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  (صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب تحریم سب الصحابہ رقم : 2541) ۔

اس روایت میں آپ نے سب کا ترجمہ گالی کیا ہے، حالانکہ ضروری نہیں کہ سب سے مراد گالی ہی ہو۔سب کا لفظ برا بھلا کہنے کیلئے بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ میرے عزیز اور قابل احترام زبیر بھائی اپنے بلاگ میں اس حوالے سے لکھتے ہیں " یہ لفظ صرف گالی دینے یا برا بھلا کہنے کے لئے استعمال نہیں ہوتا اس کی اور بھی بہت معنی ہیں ہم یہاں ثبوت کے طور پر کچھ روایات پیش کر رہیں ہیں صحیح مسلم (کتاب الفضائل ، باب معجزات النبی صلی اللہ علیہ وسلم) کی ایک حدیث ہے فسبهما النبي صلى الله عليه وسلم وقال لهما ما شاء الله أن يقول قال ثم غرفوا بأيديهم یہ واقعہ تبوک کے متعلق ہے ، یہا ں صحابہ نے کچھ غلطی کردی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی سرزنش کی اور زیادہ سے زیادہ سخت سست کہا ہوگا۔ پر گالیاں نہیں دیں ہونگی اور نہ ہی معاذ اللہ برا بھلا کہا ہوگا کیوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اس سے پاک ہے"۔

کلام :ـــــــــــــــ اس کے بعد موصوف (افلاطون)نے صحیح بخاری کی ایک روایت کا سکین لگایا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس پوری روایت میں حضرت خالدبن ولید کو یہ حکم نہیں دیا گیا کہ ان لوگوں کو قتل مت کرو ۔
افلاطون :ـــــــــــــ کلام صاحب ! صحیح بخاری کی اس روایت پر غور کرتے تو یوں نہ فرماتے : قال خالد بن ولید : یا رسول اللہ الا اضرب عنقہ قال : لا ، لعلہ ان یکون مصلی ۔ ۔۔۔۔! یہ "لا"خالد کی بات کی نفی کیلئے ہے اور خالد کی بات یہی تھی کہ : یا رسول اللہ اس کی گردن نہ ماردوں؟۔ ۔ ۔ اور اس نفی کی وجہ رسول ص نے یہی فرمائی کہ :" شاید وہ نماز پڑھتا ہو"۔۔۔۔۔۔ اس پر خالد نے عرض کیا کہ بہت سے نماز پڑھنے والے ایسے ہیں جو زبان سے اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں اور ان کے دل میں وہ نہیں ہوتا ۔ آپ صلعم نے فرمایا : اس کا حکم نہیں ہوا ہے کہ لوگوں کے دلوں کی کھوج لگائوں اور نہ ہی اس کاحکم ہوا ہے کہ ان کے پیٹ چاک کروں ۔۔۔۔
اس میں غور کریں تو نماز پڑھنے والے اور اسلام کا زبانی دعوی رکھنے والے کا قتل منع ہے
جناب یہ روایت خاص اس خارجی کے متعلق ہے۔ نہ کہ ہر اس شخص کے بارے میں جو نماز پڑھتا ہو، اور اسلام کا اقرار کرتا ہو۔ اور  اتنا تو ہم سب کو معلوم ہے کہ حضرت علی بھی خوارج سے لڑے۔ پس اگر ان کا نماز پڑھنا اور اسلام کا اقرار اس بات کو لازم کرتا کہ ان سے نہ لڑا جائے،تو یہ  کام حضرت علی نے بھی کی ہے، ان پر بھی اعتراض کھڑا ہوتا ہے۔بہرحال آگے جا کر آپ خودفرما رہے ہیں کہ اگر ضروریات دین کا منکر ہو، تو اس کا معاملہ جدا ہے۔ پھر یہاں پر فضول بحث کرنا کہ جو نماز پڑھے اور اسلام کا دعوی کرے، اس کا قتل منع ہے،کیا معنی رکھتا ہے سوائے اس کے کہ اپنے نوٹ کو لمبا کیا جائے۔

کلام :ـــــــــــــــ  لیکن جو ضروریات دین کا انکار کرے اس کا نماز پڑھنا کافی نہیں رہتا
افلاطون:ــــــــــــ  ہم بھی یہی کہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن عرض یہ ہے کہ مالک بن نویرہ نے کون سی ضرورت دینی کا انکار کیا تھا ؟؟؟ یہ واضح نہیں ہے ، زیادہ سے زیادہ ان کو مانع زکوات کہا جاتا ہے لیکن یہ بھی ثابت نہیں ۔۔۔۔ کیونکہ وہ زکوات کا عامل تھا زکوات جمع کرتاتھا ، البتہ اس نے رسول ص کی وفات کی خبر سن کر وہ زکوات واپس قوم میں تقسیم کردی مگر حضرت ابوبکر (رض) کے حوالے نہیں کی ۔ بلا شبہ زکات کو دین میں داخل نہ ماننا ضرورت دینی کا انکار ہے  لیکن زکوات کو حضرت ابوبکر (رض) کے حوالے نہ کرنا، یہ تو ضرورت دینی کا انکار نہیں ہے ۔

آپ ہی کے دیئے گئے سکین میں لکھا ہے کہ مالک  بن نویرہ نے اپنی قوم سے کہا  "خذوا أموالكم غير خائف" یعنی اپنے اموال بغیر کسی خوف کے واپس لے لو۔ فرمایئے یہ زکوۃ کی تقسیم ہوئی یا زکوۃ کا فقط واپس لوٹانا ہوا؟ مالک بن نویرہ نے اپنی قوم سے زکوۃ لی، اور جب رسول اللہ ﷺ کی وفات کی خبر ملی، تو اپنی قوم سے کہا کہ بغیر کسی خوف کے یہ مال واپس لے لو۔  پس اس نے زکوۃ تقسیم نہیں کی، بلکہ فقط واپس لوٹائی۔ دوسری بات یہ ہے کہ  جب مسلمانوں نے خلیفہ کا انتخاب کر لیا، تب بھی اس نے اپنے اس فعل پر ندامت کا اظہار نہیں کیا، اور نہ ہی زکوۃ کو دوبارہ بیت المال میں جمع کرایا۔ اگر تم کہو کہ اس کو خلیفہ کی خلافت سے اختلاف تھا، تو ہم کہتے ہیں کہ خلیفہ کو اس بات کا اختیار ہے کہ ایسے باغیوں کی بیخ کنی کرے۔ اسی اصول کے تحت حضرت علی نے حضرت معاویہ سے لڑائی لڑی۔ پس مالک بن نویرہ کا یہ اقدام کم از کم بغاوت تھا، اور اس کا یہ عذر قبول نہیں کہ اسے خلیفہ کی خلافت تسلیم نہیں جبکہ مہاجرین و انصار نے حضرت ابوبکر کو خلیفہ مقرر کر لیا تھا۔

کلام :ــــــــــــ  اور رہی بات حضرت ابوبکر کی جانب سے مالک بن نویرہ کی دیت ادا کرنے کی، اور اس کا مال و اسباب لوٹانے کی، تو اس کیوجہ اس معاملہ میں اشتباہ کا پہلو تھا۔ اس لئے مالک بن نویرہ کی دیت ادا کر دی گئی اور اس کا مال و اسباب لوٹایا گیا۔اور اسی وجہ سے حضرت خالد کو بھی عہدے سے نہیں ہٹایا گیا۔
افلاطون :ـــــــــــــ  کلام صاحب !یہ صرف حضرت ابوبکر (رض) کی طرفداری کی وجہ سے ہوا ورنہ حضرت عمر (رض) کے جذبات خالد بن ولید کیلئے کیا تھے ؟ حضرت عمر (رض)، خالد کو دو جرموں کا مرتکب جانتے تھے اول مسلمان کا قتل ، دوم زنا ۔۔ اور اس کو رجم کرنے کے ارادے کا اظہار بھی فرما چکے تھے ۔
آپ نے حضرت ابوبکر پر طرفداری کا الزام اس لئے لگایا کیونکہ آپ نے اپنا موقف ثابت کرنا ہے،  لیکن میں نے جب کہا کہ اس امر میں اشتباہ تھا، تو مشتبہ امور ہوتے ہی ایسے ہیں کہ ان میں لوگوں کی   آراء مختلف ہو جاتی ہیں۔ اگر آپ بعض پر طرفداری کا الزام لگا لیں، تو اس سےاشتباہ دور نہیں ہو جاتا۔

کلام :ـــــــــــــــــــ فقط نماز پڑھنے سے کیا ہوتا ہے جب کوئی ضروریات دین کا انکار کردے؟۔
افلاطون :ـــــــــــــ پھر تو نماز اور زکوات دونوں سے بھی کچھ نہیں ہوتا جب کوئی ضروریات دین کا انکار کردے ؟

بالکل۔ جب کوئی ضروریات دین کا انکار کر دے، تو اس کے نماز  پڑھنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ آپ کو اس جملے پر اعتراض ہو تو بتائیں۔


کلام :ــــــــــــــــــ   اگر کوئی شیعہ کہے کہ میں خمس جمع کر کے خود ہی تقسیم کروںگا، اور جو حصہ مراجع کو دینا ہوتا ہے، وہ بھی خود ہی تقسیم کر دوں گا، تو اس وقت شیعہ علماء کو ہضم نہیں ہوتا، لیکن مالک بن نویرہ کہے کہ میں زکوۃ جمع کرکے خود ہی بانٹ دوں گا، تو اس وقت انہیں کوئی مسئلہ دکھائی نہیں دیتا۔
افلاطون:ـــــــــــــ ایسی صورت میں شیعہ علماء ،  کفر ، ارتداد یا وجوب قتل جیسا فتویٰ ہر گز نہیں لگاتے  اور نہ ہی اس بنا پر آپ مالک بن نویرہ پر یہ تینوں فتوے لگا سکتے ہیں
شیعہ علماء ایسی صورت میں جو فتوی لگاتے ہیں، وہ بتا دیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ میں نے آپ ہی کے پیش کردہ سکین سے دکھایا ہے کہ حضرت مالک بن نویرہ نے اپنی قوم میں زکوۃ تقسیم نہیں کی ، بلکہ فقط لوٹائی اور ساتھ ہی کہا کہ بے غم ہو جاؤ۔تقسیم تو اس نے کیا ہی نہیں ۔
کلام :ــــــــــ  آپ فرماتے ہیں کہ بعض صحابہ مالک بن نویرہ کو مسلمان سمجھتے تھے، تو ہم کہتے ہیں کہ آپ کے چو ٹی کےعالم شیخ مفید مالک بن نویرہ کو مرتد سمجھتے تھے۔ چنانچہ فرماتے ہیں :ولو كانت الصحبة أيضا مانعة من الخطأ في الدين والآثام لكانت مانعة لدالك بن نويرة وهوصاحب رسول الله صلى الله عليه وآله على الصدقات ومن تبعه من وجوه الدسلمين من الردةعن الاسلام۔
اگر صحبت دین میں خطا اور گناہ سے روک سکتی، تو یہ مالک بن نویرہ کو اسلام سے پھر  جانے سے روک لیتی جو کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی طرف سے صدقات اکٹھا کرنے پر مامور تھے، اور اس کی پیروی کرنے والے لوگوں کو بھی جو مسلمانوں میں سے تھے۔ (الافصاح للمفید ص 41)۔
افلاطون:ـــــــــ  کلام صاحب !غور کریں یہ شیخ مفید کا  "قول" یا نظریہ نہیں،  بلکہ حجت ہے ان لوگوں کیلئے جو نبی ص کی صحبت کو ارتداد و غلطی سے مانع سمجھتے ہیں جبکہ ساتھ میں مالک کے ارتداد کے بھی قائل ہیں، شیخ مفید ان کے مسلمات سے انہی پر احتجاج کر رہے ہیں۔
شیخ کی یہ بات اس قول کا الزامی جواب ہے جو اس سے پہلے ذکر کرچکے ہیں کہ :۔
فإن قال: فكيف يجوز ذلك ممن سميناه، وهم وجوه أصحاب النبي صلى الله عليه وآله والمهاجرين والسابقين إلى الاسلام ؟ ۔۔۔۔۔
اور اس کا جواب یوں شروع کرتے ہیں کہ : ۔
قيل له: أما وجوه الصحابة ورؤساء المهاجرين وأعيان السابقين إلى الايمان بواضح الدليل وبين البرهان فهو أمير المؤمنين علي ابن أبي طالب أخو رسول الله صلى الله عليه وآله۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔(الافصاح للمفید ص 39)۔
اور اسی جواب کو جاری رکھتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
ولو كانت الصحبة أيضا مانعة من الخطأ في الدين والآثام لكانت مانعة لدالك بن نويرة وهوصاحب رسول الله صلى الله عليه وآله على الصدقات ومن تبعه من وجوه الدسلمين من الردةعن الاسلام۔
اگر صحبت دین میں خطا اور گناہ سے روک سکتی، تو یہ مالک بن نویرہ کو اسلام سے پھر  جانے سے روک لیتی جو کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی طرف سے صدقات اکٹھا کرنے پر مامور تھے، اور اس کی پیروی کرنے والے لوگوں کو بھی جو مسلمانوں میں سے تھے۔ (الافصاح للمفید ص 41)۔
آپ نے جہاں سے کاپی پیسٹ مارا ہے، اس بندے کی عقل کو سلام ہے۔ شیخ مفیدایک سوال کے جواب میں  فرما رہے ہیں کہ کس طرح ہم یہ گمان کر لیں کہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر  اور حضرت عثمان نے حضرت علی کا حق چھینا جب کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب، روساء مہاجرین اور اسلام کی طرف سبقت کرنے والے تھے۔ اسکے جواب میں شیخ مفید فرماتے ہیں کہ روساء مہاجرین اور اسلام کی طرف سبقت کرنے والے تو حضرت علی، حضرت حمزہ ،حضرت جعفر بن طیار،  اور حضرت عبیدہ بن حارث ہیں۔ کیا اہلسنت یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ روساء مہاجرین اور السابقین سے مراد صرف  حضرت علی، حضرت حمزہ ،حضرت جعفر بن طیار،  اور حضرت عبیدہ بن حارث ہیں؟ یہ تو اہلسنت کا عقیدہ نہیں۔ پس آپ کو ماننا پڑے گا کہ  شیخ مفید اپنا ہی عقیدہ بیان کر رہے ہیں۔ اس کے لئے اہلسنت کے نظریات کا سہارا نہیں لے رہے، بلکہ اپنا موقف دلائل کی روشنی میں قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ اہل تشیع کا عجیب وطیرہ ہے کہ جہاں اپنے امام یا عالم کا قول اپنے خلاف دیکھ لیتے ہیں تو اس کی عجیب و غریب تاویلیں کرتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ یہ تقیہ کے طور پر تھا، کبھی کہتے ہیں کہ یہ الزامی جواب تھا۔ اور اس کے لئے دلیل ان کے پاس کوئی ہوتی نہیں، بس خیالی پلاؤ کا سہارا لیتے ہیں۔
اسی وجہ سے مشہور شیعہ عالم علی الکورانی نے شیخ مفید کی یہ عبارت نقل کرتے ہوئے مالک بن نویرہ کے ارتدادکے متعلق قول کو حذف کر کے تین نکتے (۔۔۔) لگا دیئے، لیکن یہ پردہ پوشی زیادہ دیر قائم نہ رہی اور اہل سنت نے موصوف کی ناکام کوشش کا پردہ چاک کر دیا۔

کلام :۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور شیعہ کتا بوں سے مسئلہ اس لئے حل نہیں ہوسکتاکہ شیعہ کتب میں مالک بن نویرہ مجہول الحال شخص ہے۔ اور اس کے متعلق کسی ایک صحیح شیعہ روایت کا ملنا محال ہے۔
افلاطون : کلام صاحب ! آپ کو شدید اشتباہ ہوا ہے کہ مالک بن نویرہ شیعہ کے ہاں مجہول الحال ہے ، شیعہ کتاب، منتہی المقال فی احوال الرجال ج 5 ص 277 میں رقم 2384 پر مالک بن نویرہ کے حالات میں لکھا ہے کہ : ۔
مالک بن نویرہ ، علی ع سے اختصاص رکھتا تھا، اور اس نے خلیفہ اول کی بیعت نہیں کی اور خالد نے اس کے قتل کا حکم دیا۔ ۔ ۔ ۔ اور اسی رات اس کی بیوی سے جماع کیا۔ اور اسی کتاب میں مجالس المومنین کے حوالے سے لکھا ہے کہ : جب مالک بن نویرہ رسول اللہ ص سے  ایمان کامل کی تعلیم لے چکا تو رسول اللہ ص نے فرمایا : جو اہل جنت کو دیکھنا چاہے وہ اس کو دیکھے ۔

مجالس المومنین کے حوالے سے جو روایت آپ نے نقل کی ہے،کیا اس کی کوئی سند ہے یا نہیں؟ جب اس کی سند ہی نہیں تو وہ صحیح کیسے ہو گئی؟ دوسری بات یہ ہے کہ آپ کے متقدمین نے رجال پر کئی کتابیں لکھیں۔ ان میں مالک بن نویرہ کی توثیق موجود نہیں۔ آپ مجھے رجال کی ایک ایسی کتاب دکھا رہے ہیں جس کو لکھے ہوئے دو سو سال بھی نہیں گزرے۔ لگتا ہے کہ بہت دیر بعد مالک بن نویرہ کا پتہ چلا ہے۔

کلام :ــــــــــــــ  میں افلاطون صاحب سے کہوں گا کہ واضح کریں، بات مستند روایات پر کرنی ہے، یا جو کچھ رطب و یابس کتا ب میں نقل ہوا ہے اس کی بنیاد پر بات کرنی ہے؟۔
افلاطون:ــــــــــــ  کلام صاحب ! اگر آپ اپنے موقف پر مستند دلیل رکھتے ہیں تو سبحان اللہ ! باقی ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ محض روایات کے استناد سے بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا کیونکہ اکثر روایات ایسی ہیں ، جنہیں بعض علماء صحیح کہہ رہے ہوتے ہیں اور بعض علماء ضعیف ۔ ۔ ۔ ۔  اور جنہیں صحیح کہا گیا ہے بعض اوقات ان پر عمل نہیں ہو پاتا۔ لہذا مسلمات کا خیال رکھ کر آپ اپنا موقف ثابت کرنے کی یا ہمارا موقف رد کرنے کی کوشش کریں ،  باقی جہاں روایات کی چھان بین کی ضرورت ہوگی وہاں روایات پر  بھی بحث کر لی جائیگی ۔

جناب یہ تو کوئی جواب نہیں ہوا۔ آپ ضعیف پر ضعیف روایت پیش کر رہے ہیں اور ہمیں فرما رہے ہیں کہ (اگر آپ اپنے موقف پر مستند دلیل رکھتے ہیں تو سبحان اللہ)۔ یا تو آپ مستند روایت کی روشنی میں بات کریں، یا پھر واضح کردیں تاکہ ہم بھی مالک بن نویرہ کے متعلق ہر ضعیف روایت پیش کریں۔اور رہا علماء کا اختلاف کہ بعض علماء روایت کو صحیح کہہ دیتے ہیں اور بعض صحیح، تو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ ہم روایت کی اسناد کو دیکھیں گے، اگر جمہور علماء کے نزدیک اس کا کوئی راوی ضعیف ہو تو اس روایت سے استشہاد کرنا غلط ہوگا۔ بہرحال آپ کے ترکش میں جتنے تیر تھے، وہ آپ نے آزما لئے اور ہم نے دیکھ لئے۔

اضافی یہ کہ :۔
مالک کی بیوہ سے زنا یا قبل از عدت نکاح والی بات کی کیا توجیہ ہے؟
رسول ص کے صحابہ (رض) کو اجتہاد کی ضرورت (کیا ان کے پاس قرآن و سنت کے حکم صریح موجود نہ تھے ؟)اور ان کے باہمی اختلاف کی کیا توجیہ ہے ؟ (بعد کے مجتہدین کا ، ہر قسم کی روایات کی وجہ سے ،اختلاف سمجھ میں آتا ہے مگر صحابہ (رض) کے درمیان اجتہادی اختلاف کا وجود اور وجہ ؟)۔
  صحابہ (رض) کے اجتہاد میں اختلاف کی صورت میں کس صحابی (رض)کی پیروی کی جائے ؟ (کیا ان کے اختلاف کی صورت میں کسی کی بھی پیروی کافی ہوگی ؟)۔

مالک کی بیوہ سے قبل از عدت نکاح کے متعلق کوئی روایت ثابت نہیں لہذا اس پر بحث کرنا ہی فضول ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر آپ کو قرآن میں مالک بن نویرہ کے متعلق کوئی آیت دکھائی دے، یا حدیث میں مالک بن نویرہ کے متعلق کوئی حدیث دکھائی دے تو آپ پیش کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر مالک بن نویرہ کا قرآن و حدیث میں کوئی تذکرہ ہی نہیں، اور مالک بن نویرہ کا معاملہ کم از کم مشتبہ ہے، تو اس صورت میں باہمی اختلاف کو ہونا کوئی انوکھی بات نہیں ۔ اور اگر آپ کو لگتا ہے کہ صحابہ کے درمیان اجتہادی امور کا پیش آنا ہی ناممکن بات ہے، تو آپ  افلاطونی دماغ کو ضرورت سے کم استعمال کر رہے ہیں۔ باقی رہی یہ بات کہ صحابہ کے اجتہاد میں اختلاف کی صورت میں کس صحابی کی پیروی کی جائے گی، تو گذارش ہے کہ اپنے مجتہدین کے درمیان اختلاف کو دیکھ لیں، ان میں اختلاف سے تو آپ کے دین ایمان پر کوئی اثر نہیں پڑا، پھر صحابہ کے اجتہاد میں اختلاف سے ہمارے دین میں نقص  کیسے آجائے گا؟
تمت بالخیر وللہ الحمد
کلام حقیر
20 جمادی الثانی 1435 ھ


Thursday, July 16, 2015

الرد الثانی علی شبھات الشیعۃ فی قضیۃ المتعۃ - حصہ ہشتم - آخری حصہ

قولہ : اعتراض:حمیری شیعہ بقول مبلغ اعظم محمد اسمعیل شراب پیتا تھا۔
جواب :علامہ اسمعیل صاحب نے تنقیع المقال للماقانی سے جوبات نقل کی ہے وہ اسمعیل بن محمد الحمیری کے ترجمہ میں ملتی ہے ۔ادھر خود علامہ عبدﷲ مامقانی نے تین اقوال اس راوی کے عنوان سے نقل کئے ہیں :
۱۔یہ راوی ثقہ ہے ۔ ۲۔یہ راوی ممدوح ہے ۔ ۳۔یہ راوی ضعیف ہے ۔
تیسرے قول کے ذیل میں انہوں نے یہ بات نقل کی ہے :
(انہ کان یشرب الخمر) وہ شراب پیتا تھا۔
حوالہ:تنقیع المقال۔جز۔۱۰۔صفحہ ۔۳۱۲
اس روایت کا اصل مرجع دراصل رجال کشی کی روایت ہے جس کے بارے میں آیت اﷲ العظمی سید خوئی رقم طراز ہے:
(واما مارواہ الکشی ،من الروایات،فھی ضعیفۃ السند)
اور جو روایات کشی نے نقل کی ہیں وہ ساری ضعیف اسناد سے مروی ہیں ۔
حوالہ:معجم رجا ل الحدیث۔جز۔۴۔صفحہ ۔۹۴۔رقم راوی ۔۱۴۳۲
لہذا کلام صاحب ادھر ادھر کے قول نقل کرنے کے بجائے کم سے کم اپنی منھج پر تو قائم رہتے جو کسی عالم اہلسنت کو خاطر میں نہیں لاتابلکہ سند پر اعتراض کرناوظیفہ عاجلہ سمجھتا ہے ۔پس اس وظیفہ سے ہم نے بھی ابھی استفادہ کر لیا۔

 اقول : خیر طلب کی حرکت سے ہم کافی محظوظ ہوئے۔ موصوف کے اپنے علماء جب کسی شخص کے بارے میں کچھ کہہ دیں، تو موصوف اسناد کی طرف دوڑنے لگتے ہیں۔ اور جب اپنا مفاد ہوتا ہے تو اسناد کو ایک طرف رکھ کر علماء کے اقوال کی طرف رجوع کرتے ہیں۔پس جس طرح خیر طلب کو سند کی طرف رخ کرنا پڑا، اس طرح ہم نے بھی کیا۔ موصوف ہم پر تو الزام دھرتے ہیں، لیکن یہاں آکر خود ہی پھنس گئے، اور اپنے مبلغِ اعظم مولوی اسماعیل اور دیگر شیعہ علماء کو ایک طرف کر کے سند کی طرف بھاگ پڑے۔

قولہ : کلام صاحب کو اجمالا ہم نے کہا تھاکہ استمناء بہت سارے اہل علم نے جائز قرار دیا۔تو کیا سارے مسلمان خواہشات کو مٹانے کی خاطر وہ کرنے لگ جائیں اور یہ کہاتھا کہ اسلام الگ ہے اورماننے والے الگ ہیں دونوں میں نسبت تساوی نہیں ۔اس پر ہونا یہ چاہیئے تھا کہ اس کا شافی کافی جواب دیا جاتا ہے ۔کلام صاحب نے روایتی انداز میں فقط الزامی جواب دیتے ہوئے علامہ مجلسی کی کتاب کا ایک فتوی نقل کیا ہے جس میں علامہ نے کہا:
﴿بیوی یا لونڈی جو دونوں حلال ہے ان کے ہاتھ سے استمناء کو جائز قرار دیا ہے ﴾
اس سے کلام صاحب نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ شیعہ اس فعل کو مطلقا جائز سمجھتے ہیں ۔


اقول : ہمیں بار بار خیر طلب کی علمی خیانتوں سے واسطہ کرنا پڑ رہا ہے۔موصوف نے دھاندلیوں کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ ہم نے حق الیقین کی عبارت یوں پیش کی تھی (اگر ہاتھ یا انگلی یا اپنی عورت یا کنیز کے کسی اعضا سے بازی کرے تاکہ منی نکل آئے جائز ہے اور کسی دوسری چیز سے جائز نہیں اور اپنی زوجہ یا کنیز کے ہاتھوں سے عضو تناسل کو ملنے میں تاکہ منی نکل آئے اختلاف ہے ۔) ﴿ حق الیقین ج ۲ ص ۲۸۶﴾ اور خیر طلب فرماتے ہیں ( کلام صاحب نے روایتی انداز میں فقط الزامی جواب دیتے ہوئے علامہ مجلسی کی کتاب کا ایک فتوی نقل کیا ہے جس میں علامہ نے کہا: بیوی یا لونڈی جو دونوں حلال ہے ان کے ہاتھ سے استمناء کو جائز قرار دیا ہے ) ۔ یہ عبارت کیا معنی دے رہی ہے، اور موصوف نے جو عبارت میں تحریف کر کے لکھا ہے، وہ کیا معنی دے رہی ہے، قارئین فیصلہ کر سکتے ہیں۔ عبارت نقل کرنے میں ایسی خیانت کی ہمیں قطعاََ امید نہیں تھی۔

قولہ : کلام صاحب اگر اس عبارت میں آپ یہ دیکھا دیں یا ثابت کر دیں کہ ایک مرد اپنے ہاتھ سے اس فعل قبیع کو انجام دے سکتا ہے تو منہ مانگا انعام پائے ۔بیوی اور کنیز کے ہا تھ سے ہونے کو تو بالتفاق اہلسنت علماء جائز قرار دیتے ہیں ۔جس کا حوالہ عنقریب آئے گالیکن اپنے ہاتھ سے جائز قرار دینے کے عنوان سے کسی موثق شیعہ عالم کا قول نقل کریں جو مطلقا اس کی اجازت دیتاہو؟ھل من مبارز؟

اقول : کلام نے عبارت پیش کر دی ہے، عبارت کو پڑھنے والے بخوبی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب نکلتا ہے۔ اور یہ منہ مانگا انعام ہماری طرف سے آپ اپنی جیب میں سنبھال کر رکھئے ۔ لبنان کے مشہور شیعہ عالم آیت اﷲ فضل اﷲ سے ایک عورت نے سوال کیا:

Q. I am a girl. Is it permissible for me to practice masturbation in order to protect myself from committing impermissible acts? I tried to quit this habit, but I could not because that makes me nervous and sick, knowing that I am a 30 year old single woman and I have no other choice in order to satisfy my sexual desire?
A: This is permissible and it is not prohibited for women to practice the secret habit (which leads to ejaculation in men), since they do not have semen, according to what the experts have proved, especially in the above mentioned case that is based on preventing oneself from committing a prohibited act.
www.english.bayynat.org.lb/QA/qa.aspx?id=86

اس کا ترجمہ کرنا نہیں چاہتا ، سمجھنے والے سمجھ سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ وسائل الشیعہ میں حسین بن زرارہ سے مروی ہے کہ اس نے کہا سالت اباجعفر علیہ السلام عن رجل یعبث بیدیہ حتی ینزل، قال لاباس بہ
میں نے امام باقر سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جو ہاتھ کے ساتھ کھیلتا ہے (یعنی مشت زنی کرتا ہے) یہاں تک کہ انزال کر جائے۔ تو انہوں نے فرمایا : اس میں کوئی قباحت نہیں۔﴿وسائل الشیعہ ج ۲۸ ، ص ۳۶۳، الاستبصار ج ۴ ص ۲۲۷


قولہ : اب اس موضوع کو درج ذیل موضوعات میں تقسیم کرتے ہیں :
۱۔علماء اہلسنت کے اقوال استمناء مطلقا جائز ہے ۔
۲۔علماء اہلسنت کے اقوال کے بیوی کے ہاتھ سے استمناء حلال ہے ۔
۳۔شیعی تراث سے استمناء و خود لذتی کی شدید مذمت۔

علماء اہلسنت کے اقوال استمناء مطلقا جائز ہے
ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ طائفہ اہلسنت اس فعل کو جائز سمجھتی ہے اور بعض علماء اس کو حرام سمجھتے ہیں ۔اصل
استدلال ہرگزاس کی اباحت وغیرہ ثابت کرنا نہیں اہلسنت کے نزدیک بلکہ بعض ملاوں کے فتوی اوراصل اسلام کے درمیان فرق کو واضع کرنا ہے ۔
علامہ ابن جریر الطبری رقم طراز ہے :
(فقال العلاء بن زیاد لاباس بذلک قد کنانفعلہ فی مغازیناحدثنا بذلک محمد بن بشار العبدی قال حدثنا معاذبن ہشام قال حدثنی ابی عن قتادۃ عنہ وقال الحسن البصری والضحاک بن مزاحم و جماعۃ معھم مثل ذلک)
علاء بن زیاد صحابی کا فرمان ہے کہ ہم استمناء میں کوئی قباحت نہیں دیکھتے اور ہم استمناء تو رسول اﷲ کے ہمراہ ہی جنگوں میں کیا کرتے تھے۔حسن بصری اور ضحاک بن مزاحم اور ایک علماء کی جماعت کا یہی قول ہے۔
حوالہ :اختلاف الفقہاء،ص۔۳۰۳،الناشر :دارالکتب العلمیہ

اقول : یہاں پر خیر طلب نے دو غلطیاں کی ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ علاء بن زیاد صحابی نہیں۔ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں (ھو العلاء بن زیاد البصري تابعي زاھد قلیل الحدیث)۔ ﴿فتح الباری ج ۸ ص ۵۵۵
اسی طرح علامہ ابوسعید العلائی فرماتے ہیں (العلاء بن زیاد تابعي) ۔ ﴿جامع التحصیل ج ۱ ص ۲۴۹
 دوسری بات یہ ہے کہ فی مغازینا کا ترجمہ(رسول اﷲ کے ہمراہ ہی جنگوں میں) کرنا غلط ہے، بلکہ اس کا ترجمہ : (ہم اپنی جنگوں میں)۔ پورا ترجمہ یوں ہو گا ( علاء بن زیاد نے فرمایا کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں، ہم اپنی جنگوں میں ایسا کیا کرتے تھے)۔ خیر طلب کو بھی عجیب و غریب حرکتیں سوجھتی ہیں۔ بہرحال یہاں پر سوال واضح نہیں، کہ علاء بن زیاد سے سوال کیا پوچھا گیا تھا، آیا مطلقاََ اس کے بارے میں پوچھا گیا تھا، یا مجبوری کی حالت میں۔ کیونکہ ان کا یہ کہنا کہ ہم جنگوں میں ایسا کرتے تھے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مجبوری کی حالت کے بارے میں بات ہو رہی ہے۔ اور وسائل الشیعہ کی روایت میں جو لا باس بہ یعنی اس میں کوئی قباحت نہیں کے الفاظ ہیں، تو اس کے متعلق شیعہ علماء نے لکھا ہے کہ (حملا علی نفی الحد) یعنی اس سے مراد یہ ہے کہ استمناء کرنے پر کوئی حد نہیں ۔ ﴿ریاض المسائل للسید علی الطباطبائی ج ۱۳، ص ۶۳۹﴾ پس جس طرح شیعہ علماء اپنی روایت میں اس سے یہ مراد لیتے ہیں، تو اس روایت میں جو لاباس بذلک یعنی اس میں کوئی قباحت نہیں کے الفاظ ہیں، تو اس کے متعلق ہم بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس سے مراد بھی یہی ہے کہ استمناء کرنے پر کوئی حد نہیں۔

قولہ : علامہ ابن حزم فقیہ مذہب اہلسنت رقم طراز ہے:
(لان مس الرجل ذکرہ بشمالہ مباح،ومس المراۃ فرجھا کذلک مباح باجماح الامۃ کلھافاذ ہو مباح فلیس ھنالک زیادۃ علی المباح الا التعمد لنزول المنی ،فلیس ذلک حراما اصلا)
پوری امت مسلمہ کے نذدیک چونکہ ایک مرد کا اپنی شرمگاہ کو ہاتھ لگانے میں کوئی اشکال نہیں،اسی طرح ایک عورت کا اپنے فرج کو ہاتھ لگانا مباح ہے ،پس جب یہ فعال مباح ہے تو اپنے ہاتھ سے عمدا منی نکالنا بھی مباح سے تجاوز نہیں کرتا اور یہ اصلا حرام نہیں۔ حوالہ:المحلی بالاثار ،جز ،۱۲۔صفحہ ۔۴۰۷ علامہ صنعانی رقم طراز ہے : (وقد اباح الاستمناء بعض الحنابلہ و بعض الحنفیہ ) استمناء کو بعض حنبلی اور بعض حنفی جائز سمجھتے ہیں ۔ حوالہ :سبل السلام ۔جز،۲۔صفحہ۔۱۶۱ علامہ شوکانی نے استمناء کو حرام کہنے کے حوالے سے لافی دلائل کا رد اپنی تنصیف ۔۔بلوغ المنی فی حکم الاستمناء ۔۔میں کیا۔
چناچہ ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ استمناء ان حضرات کے نذدیک جائز ہیں ۱۔علامہ بن زیاد صحابی ۲۔حسن البصری ۳۔ضحاک بن مزاحم ۴۔ابن حزم ۵۔شوکانی ۶۔بعض احناف ۷۔بعض حنبلی
اس کے علاوہ دیگر اور صحابی و تابعین سے یہ قول نقل ہوا ہے لیکن خوف طوالت کے پیش نظر فقط ان پر اکتفاء کیا جاتا ہے ۔ہمارے استدلال کا ایک جز کہ ماننے والوں سے کبھی دین کا تعین نہیں ہوتاکے پیش نظر جس طرح بعض طوائفہ کو اپنے برے افعال کے باوجود شیعیت سے منسوب کرتی ہے ،اسی طرح یہ علماء بھی اسلام کا جنازہ فتووں کے ذریعے نکالتے ہیں ان کے اس فعل کو تعلیم اسلام نہیں قرار دیا جائے گا۔

اقول : بعض احناف اور بعض حنابلہ کا ہمیں جب تک پتہ نہیں چل جاتا کہ اس سے مراد کون لوگ ہیں ،تب تک اس کی ہمارے نزدیک کوئی وقعت نہیں۔ اور علاء بن زیاد کے متعلق میں جواب دے چکا ہوں۔ ابن حزم اگرچہ اسے حرام نہیں سمجھتے، لیکن مکروہ ضرور سمجھتے ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں (نکرھہ لانہ لیس من مکارم الاخلاق، ولا من الفضائل)۔﴿المحلی ج ۱۱ ص ۳۹۲﴾ شوکانی نے جو رسالہ لکھا ہے، وہ اس کے حرام نہ ہونے کے متعلق ہے۔ اس رسالے میں انہوں نے ان روایات کی تضعیف بیان کی ہے جو استمناء کے حرام ہونے کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں۔ اور صحیح بات یہ ہے کہ اس حوالے سے کوئی حدیث ثابت نہیں۔ نیز انہوں نے غالباََ قرآن کریم کی آیت سے استدلال کو بھی غیر صحیح قرار دیا ہے۔ بہرحال ان کے نزدیک استمناء حرام نہیں، بلکہ مکروہ ہے۔ حضرت حسن بصری سے جو قول منسوب ہے، اس کی سند میں اشکال ہے۔ضحاک سے اس قول کی سند ہمیں نہ مل سکی۔ پس جان لیجئے کہ جمہور کے مطابق استمناء حرام ہے، بعض احناف اور حنابلہ کہتے ہیں کہ زنا کا خوف ہو، تواستمناء جائز ہے۔ کسی حنفی یا حنبلی کا قول ہمیں نہیں ملا جو یہ کہتا ہو کہ استمناء مطلقاََ مباح ہے۔ اور ہمارے لئے جمہورکا قول کافی ہے کہ استمناء حرام ہے۔اور رہی یہ بات کہ اہلسنت علماء فتووں کے ذریعے اسلام کا جنازہ نکالتے ہیں، تو یہ کسی جاہل اور متعصب کا ایسا قول ہے کہ جس کو انصاف سے کبھی دور کا بھی واسطہ نہ رہا ہو۔اور نہ ہی اس جاہل کے واسطے یہاں پر شیعہ علماء کے مضحکہ خیز فتوے یہاں پر نقل کرنے کی ضرورت سمجھتا ہوں، کیونکہ اس جاہل کو ان فتووں کا علم بھی ہے۔

قولہ : ذیل میں علامہ مجلسی کے فتوی کو جس رنگ میں پیش کیا گیا ہے اس کا جواب ان ہی کے علماء کی تحریرات کی روشنی میں دیا جاتا ہے۔
سلفی عالم دین شیخ سلیمان بن عبدﷲ الماجد ایک فتوی یو ں صادر کرتے ہیں:
(الحمدﷲ اما بعد۔۔الاستمناء بید الزوجہ جائز۔لعموم قولہ تعالی:والذین ھم لفروجھم حافظون الا علی ازواجھم الایہ )
ساری حمد کا حقدار خدا ہے،اس کے بعد عرض ہے کہاستمناء بیوی کے ہاتھوں سے کروانا جائز ہے اس آیت کے عمومی عنوان کے تحت۔۔والذین ھم لفروجھم حافظون الا علی ازواجھم ۔۔اور جو اپنی شھوت کی جگہ کو تھامتے ہیں مگراپنی بیویوں یا (کنیزوں سے)جو ان کی ملک ہوتی ہے۔۔۔الی آخر
حوالہ :العشرۃ والفرقۃ بین الزوجین الاستمناء بالید اوبید الزوجہ
آکر میں ہم ایک اہلسنت عالم دین کا فتوی نقل کرتے جو مقصد سمجھانے میں آسانی پیدا کر دیگا۔
ایک سائل یوں گویا ہوتا ہے:
کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر بیوی حیض یا نفاس کی حالت میں ہویعنی بیوی قابل جمع نہ ہوجب کہ شوہر کا فعل حرام میں پڑنے کا امکان ہویعنی اس جماع کی ضرورت ہوکیا وہ اس صورت میں اپنی بیوی کے ہاتھوں سے استمناء کراسکتاہے ؟
جواب:ان اعذار کی وجہ سے یہ فعل مذکور جائز ہے ورنہ مکروہ تز یہی ہے ۔
حوالہ :فتاوی دیوبند پاکستان المعروف بہ فتاوی فریدیہ ۔جلد ۔۵صفحہ ۔۲۴۴۔طبع ۔۱۴۳۰ ہجری
کیوں کلام صاحب عقل میں بات آئی؟اب حیض و نفاس کی حالت میں جائز اور ویسے مکروہ تز یہی وہ فعل ہے جس کو ترک کرنے کے مطالبہ میں شدت نہ پائی جائے ۔اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ لینے کے دینے پڑ گئے ہیں ۔
شیعی تراث سے استمناء کی حرمت : اب حوالے سے ہم صدھا تراث کو نقل کر سکتے ہیں،سردست بعض عنوانات کو نقل کرتے ہیں جس سے معاملہ کی تحلیل آسان ہوجائے گی ،چناچہ علامہ حر عاملی وسائل الشیعہ میں ایک عنوان قرار دیتے ہیں : باب تحریم الاستمناء یعنی استمناء کے حرام ہونے کا باب ۔ اس کے اندر علامہ ۷ روایات نقل کرتے ہیں ۔ حوالہ :وسائل الشیعہ ۔جز ۔۲۰۔صفحہ ۔۳۵۲۔۳۵۴
علامہ بروجردی اپنی بیش بہا کتاب میں ایک عنوان قرا ر دیتے ہیں باب تحریم الاستمناء یعنی استمناء کے حرام ہونے کا باب ۔ حوالہ:جامع الحدیث الشیع جز ۔۲۰۔صفحہ ۔۳۸۱۔۳۸۳ میں کافی روایات کو نقل کرتے ہیں ۔
روایات کا تذکرہ خوف طوالت کے تحت نہیں کیا گیا ۔فی الحال ان تین فصول پر اکتفاء کی گیا ہے ،اب مزید اب حملہ کیا گیا توویسے ہی سناٹے والا جواب آئے گا۔

اقول : مجلسی کی عبارت میں خیر طلب نے جو تحریف کی ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔عبارت میں کھلم کھلا تحریف بھی کرتے ہیں اور ’’سناٹے والا جواب‘‘ کی بونگی مارتے ہوئے بھی شرم نہیں آتی۔ ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔اور میں نے استمناء بید زوجہ کی بات بھی قطعاََ نہیں کی۔لیکن خیر طلب کی عادت پرانی ہے، جس چیز کا ذکر نہ ہو، اس کے متعلق حوالہ جات لاکر نجانے کن ’’مومنین ‘‘کے اشکالات دور کرتے رہتے ہیں۔ پھر خیر طلب نے اپنی کتب سے استمناء کے حرام ہونے کی روایات کا ذکر کرتے ہیں، اور متعلقہ ابواب کا حوالہ دیتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ ہماری کتب تو استمناء کے حرام ہونے کے متعلق بھری پڑی ہیں، جن کا میں تذکرہ کروں تو ایک رسالہ آسانی سے مرتب ہو سکتاہے۔یہ بات میرا مخالف بخوبی جانتا ہے، لہذا اس کی ضرورت نہیں سمجھتا کہ یہاں پر استمناء کے متعلق کتب کے حوالے دینا شروع کروں۔اور اگر خیر طلب اس سے بے خبر ہے، تو بارہ حوالے صرف احناف کی کتب سے پیش کروں گا (انشاء اﷲ) ۔
متعہ کے حوالے سے خیر طلب کے تمام دلائل کا رد مکمل ہو گیا،قارئین سے ہماری درخواست ہے کہ دونوں فریقین کے دلائل کا مطالعہ کیجئے ، اور آپ کو حق و باطل میں فرق بخوبی سمجھ میں آ جائے گا۔ معتدل مزاج اہل تشیع جو کہ متعہ کو اپنی ماں بہنوں کے لئے عار سمجھتے ہیں، ان کو بھی متعہ کے متعلق صحیح رہنمائی حاصل ہوگی، نیز غلاۃ اور روافض جو متعہ کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوششیں کرتے ہیں، ان کا بطلان بھی واضح طور پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ اﷲ تعالی ہماری اس کاوش کو قبول فرمائے۔ آمین ثم آمین!
 کلام
۱۴ ذیقعدہ ۱۴۳۴ ھ

 ۲۱ ستمبر ۲۰۱۳