Tuesday, June 3, 2014

ذو النورین رضی اللہ عنہ

بسم الله الرحمن الرحيم

سیدنا حضرت عثمان
ذو النورین
رضی اللہ عنہ

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد ہونے کا شرف حاصل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یکے بعد دیگرے اپنی دو حقیقی بیٹیوں کا نکاح حضرت عثمان سے کروایا۔ اس حوالے سے چند شیعی کتابوں کے حوالے ثبوت کے طور پر پیش کئے جاتےہیں:
نہج البلاغہ میں درج ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا
وما ابن أبي قحافة ولا ابن الخطاب أولى بعمل الحق منك، وأنت أقرب إلى رسول الله صلى الله عليه وآله وشيجة رحم منهما. وقد نلت من صهره ما لم ينالا
حضرت ابوبکر اور حضرت عمر عمل ِ حق میں آپ سے زیادہ عامل نہ تھے اور آپ قربت ِ دامادی میں ان دونوں کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ قریب ہیں اور آپ نے دامادی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ عزو شرف پایا ہے جو ان دونوں نے نہیں پایا۔[1]

محمد جواد مغنیہ اپنی شرح "فی ظلال نہج البلاغہ" میں فرماتے ہیں
هذا الى ان لعثمان مع رسول الله صلى الله عليه وسلم صحبة وقرابة وهو زوج ابنته رقية
یہ اس وجہ سے ہے کہ حضرت عثمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور رشتہ داری کا شرف رکھتے تھے۔ اور وہ رسول اللہ ﷺ کی بیٹی  حضرت رقیہ کے شوہر تھے۔[2]
اسی طرح شیخ محمد عبدہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں
وأما أفضليته عليهما في الصهر فلأنه تزوج ببنتي رسول الله رقية وأم كلثوم، توفيت الأولى فزوجه النبي بالثانية ولذا سمي ذا النورين
ان دونوں پر دامادی میں افضلیت سے مراد یہ ہے کہ حضرت عثمان نے رسول اللہ ﷺ کی دو بیٹیوں رقیہ اور ام کلثوم سے نکاح کیا۔ جب پہلی زوجہ کا انتقال ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے اپنی دوسری بیٹی آپ کے نکاح میں دی، اور اس وجہ سے آپ کو ذی النورین کہا جاتا ہے۔[3]

اس کے باوجود شیعہ محققین کی ہٹ دھرمی دیکھئے کہ اس کا انکار کرنے کیلئے ضعیف روایات اور قیاس آرائیاں کرنے سے باز نہیں آتے۔ چنانچہ دورِ حاضر کے ایک شیعہ نام نہاد محقق شیخ نجاح الطائی نے رسول اللہ ﷺ کی بیٹیوں کو سوتیلی بیٹیاں ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی۔ موصوف کی تحقیق کا یہ حال ہے کہ  اپنی کتاب میں ایک جگہ پر فرماتے ہیں:
ولم يحتج عثمان في حياته بأنه صهر النبي (صلى الله عليه وآله وسلم) أبدا
حضرت عثمان نے اپنی زندگی میں کبھی بھی یہ نہیں کہا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے داماد ہیں۔[4]
حالانکہ اگر حضرت عثمان نے ایسا نہ بھی کہا ہوتا تب بھی حضرت علی کا کہنا ہی کافی تھا۔ لیکن حضرت عثمان نے ایسا کہا ہے، اگر محقق صاحب صحیح بخاری کا ہی مطالعہ فرماتے تو انہیں حضرت عثمان کا یہ قول مل جاتا :
ثم هاجرت هجرتين نلت صهر رسول الله صلى الله عليه و سلم
میں نے (اسلام لانے کے بعد) دو ہجرتیں کیں، اور رسول اللہ ﷺ کی دامادی کا شرف پایا۔[5]
دورِ حاضر کے ان شیعہ محققین نے تحقیق کے نام پر ان تاریخی حقائق کو جھٹلانے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے جو کہ صحیح روایات سے ثابت ہیں، اور ان حکایات کو سچ ثابت کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے جن کی سند یا تو سرے سے موجود ہی نہیں ہوتی، یا پھر اس میں ضعیف راویوں کی بھرمار ہوتی ہے۔

ملا باقر مجلسی اپنی کتاب حیات القلوب میں فرماتے ہیں
پس يازده مرد و چهار زن خفيه از اهل مكه گريختند و به جانب حبشه روان شدند، و از جمله آنها بودند: عثمان و رقيه دختر حضرت رسول صلى الله عليه و آله و سلم كه زن او بود
گیارہ مرد اور چار عورتوں نے اہل مکہ سے بھاگ کر حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ ان میں حضرت عثمان  شامل تھے اور حضرت رقیہ بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان میں شامل تھیں  اور آپ حضرت عثمان کی بیوی تھیں۔[6]
اسی طرح شیعہ مفسر طبرسی اپنی تفسیر مجمع البیان میں لکھتا ہے
فخرج إليها سرا أحد عشر رجلا، وأربع نسوة، وهم عثمان بن عفان، وامرأته رقية بنت رسول الله
حبشہ کی طرف گیارہ مرد اور چار عورتوں نے خفیہ ہجرت کی، ان میں حضرت عثمان اور ان کی زوجہ محترمہ حضرت رقیہ بنت رسول اللہ ﷺ بھی شامل تھے۔[7]

اسی طرح شیعہ فقہ کی مستند کتاب مسالک الافہام میں ہے:
وزوج النبي صلى الله عليه وآله وسلم ابنته عثمان، وزوج ابنته زينب بأبي العاص بن الربيع ، وليسا من بني هاشم. وكذلك زوج علي عليه السلام ابنته أم كلثوم من عمر
نبی کریم ﷺ نے اپنی ایک صاحبزادی حضرت عثمان سے بیاہ دی، اور ایک صاحبزادی زینب حضرت ابوالعاص سے بیاہ دی، اور یہ دونوں بنی ہاشم میں سے نہ تھے۔ اور اسی طرح حضرت علی نے اپنی بیٹی ام کلثوم کا نکاح حضرت عمر سے فرمایا۔[8]
اسی قاضی شوستری اپنی کتاب مجالس المومنین میں کہتا ہے
اگر نبی دختر بعثمان داد ولی دختر بعمر فرستاد
اگر حضرت رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیٹی کا نکاح حضرت عثمان سے کیا، تو ان کے ولی یعنی حضرت علی نے اپنی بیٹی حضرت عمر کے نکاح میں دی۔[9]

باقر مجلسی کی کتاب حیات القلوب سے چند مزید روایات پیش ہیں:
و ابن ادريس به سند صحيح از امام محمد باقر (عليه السلام) روايت كرده است كه: رسول خدا (صلى الله عليه و آله و سلم) دختر به دو منافق داد كه يكى ابو العاص پسر ربيع، و آن ديگرى كه عثمان بود، حضرت براى تقيه نام نبرد
ابن ادریس نے بسند صحیح امام باقر سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیٹیوں کا نکاح دو منافقین سے کیا، جن میں ایک ابوالعاص بن ربیع شامل ہیں، اور دوسرے حضرت عثمان تھے، اور حضرت جی نے تقیہ کی وجہ سے ان کا نام نہ لیا (اور ملا باقر مجلسی نے خود ہی نام لے کر وضاحت کر دی)۔ [10]
و عياشى روايت كرده است كه از حضرت صادق (عليه السلام) پرسيدند كه: آيا رسول خدا (صلى الله عليه و آله و سلم) دختر خود را به عثمان داد؟
عیاشی نے روایت کی ہے کہ حضرت جعفر سے لوگوں نے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دی تھی تو انہوں نے فرمایا ، ہاں دی تھی۔[11]
ایک اور مقام پر حضرت امام جعفر سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:
در قرب الاسناد به سند معتبر از حضرت صادق (عليه السلام) روايت كرده است كه: از براى رسول خدا (صلى الله عليه و آله و سلم) از خديجه متولد شدند طاهر و قاسم و فاطمه و ام كلثوم و رقيه و زينب. فاطمه را به حضرت امير المؤمنين تزويج نمود؛ و تزويج كرد به ابو العاص بن ربيعه كه از بنى اميه بود زينب را؛ و به عثمان بن عفان ام كلثوم را، و پيش از آنكه به خانه او برود به رحمت الهى واصل شد، و بعد از او حضرت رقيه را به او تزويج نمود.
قرب الاسناد میں معتبر سند کے ساتھ حضرت امام جعفر سے مروی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئی ، طاہر اور قاسم اور فاطمہ اور ام کلثوم اور رقیہ اور زینب ہیں۔ اور حضرت فاطمہ کا نکاح حضرت علی سے کر دیا، اور حضرت زینب کا نکاح حضرت ابوالعاص بن ربیع سے کر دیا جو بنی امیہ میں سے تھے اور حضرت ام کلثوم کا نکاح حضرت عثمان سے کر دیا ۔ وہ کاشانہ عثمان میں رونق افروز ہونے سے پہلے اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں ، ان کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت رقیہ کی شادی حضرت عثمان سے فرما دی۔[12]

نیز ایک اور روایت اسی کتاب میں موجود ہے جس سے اسی مضمون کی تائید ہوتی ہے۔
و ابن بابويه به سند معتبر از آن حضرت روايت كرده است كه: از براى رسول خدا (صلى الله عليه و آله و سلم) متولد شد از خديجه قاسم و طاهر - و نام طاهر، عبد الله بود - و ام كلثوم و رقيه و زينب و فاطمه. حضرت امير المؤمنين (عليه السلام) فاطمه را تزويج نمود؛ و تزويج نمود زينب را ابو العاص بن ربيع و او مردى بود از بنى اميه؛ و عثمان بن عفان ام كلثوم را تزويج نمود و پيش از آنكه به خانه او برود به رحمت الهى واصل شد، پس چون به جنگ بدر رفتند حضرت رسول (صلى الله عليه و آله و سلم) رقيه را به او تزويج نمود.
ابن بابویہ نے بسند معتبر امام صادق سے روایت کی ہے کہ آنحضرت ﷺ کی اولاد میں سے جناب خدیجہ کے شکم سے قاسم اور طاہر  اور ام کلثوم اور رقیہ اور زینب اور فاطمہ زہرا پیدا ہوئیں۔ اور جناب طاہر کا نام عبد اللہ تھا۔ جناب فاطمہ رضی اللہ عنہا کو آنحضرت ﷺ نے حضر ت علی سے تزویج فرمایا۔ زینب کو ابوالعاص سے، اور وہ بنی امیہ میں سے تھا۔ اور ام کلثوم کو عثمان بن عفان سے تزویج کیا، اور وہ قبل اس کے کہ ان کے گھر جائیں ، رحلت کر گئیں۔ پھر جب جناب رسول اللہ ﷺ جنگ بدر کے لئے گئے تو رقیہ کو ان سے تزویج فرمایا ۔[13]

اس بحث کو ملا باقر مجلسی ہی کی تحقیق پر ختم کرتے ہیں، چنانچہ اپنی کتاب حیات القلوب میں  لکھتے ہیں
و جمعى از علماى خاصه و عامه را اعتقاد آن است كه رقيه و ام كلثوم دختران خديجه بودند از شوهر ديگر مع پيش از رسول خدا (صلى الله عليه و آله و سلم) داشته و حضرت ايشان را تربيت كرده بود و دختر حقيقى آن جناب نبودند؛ و بعضى گفتند كه: دختران هاله خواهر خديجه بوده‏اند. و بر نفى اين دو قول روايت معتبره دلالت مى‏كند[14]
علمائے عامہ و خاصہ کی ایک جماعت کا اعتقاد یہ ہے کہ حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم حضرت خدیجہ کی صاحبزادیاں تھیں ان کے دوسرے شوہر سے جو کہ حضور ﷺ سے پہلے تھا، اور حضور ﷺ نے ان کی تربیت کی تھی، اور ان کی حقیقی بیٹیاں نہ تھیں۔ اور بعض نے کہا کہ یہ حضرت خدیجہ کی بہن حضرت ہالہ کی بیٹیاں تھیں۔ لیکن ان دونوں اقوال کی نفی پر معتبر روایات دلالت کرتی ہیں۔[15]
چنانچہ یہ بات فریقین کی صحیح اور مستند روایات سے ثابت ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی حقیقی بیٹیوں کا نکاح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کیا۔ اس کے باوجود اگر کوئی قیاس آرائیاں کر کے اس کو رد کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو اس کی کوئی حیثیت نہیں۔
تمت بالخير ولله الحمد
کلام
25 رجب المرجب 1435 ھ



[1] نہج البلاغہ، خطبہ 164
[2] فی ظلال القرآن ج 2 ص 562
[3] شرح نہج البلاغہ ج 2 ص 68
[4] ازواج النبی وبناتہ ص 43
[5] صحیح بخاری ج 3 ص 1429
[6] حیات القلوب باب بیست و پنجم ج 2 ص 294
[7] تفسیر مجمع البیان ج 3 ص 400
[8] مسالک الافہام ج 7 ص 409
[9] مجالس المومنین ص 84
[10] حیات القلوب ج2 ص 563
[11] حیات القلوب ج2 ص 563
[12] حیات القلوب ج2 ص 869
[13] حیات القلوب ج 2 ص 869
[14] حیات القلوب ج2 ص 869
[15] حیات القلوب ، ج 2 ص 571