مختار ثقفی کی حقیقت

مختار ثقفی کی حقیقت شیعہ کتب سے جاننے کیلئے یہاں کلک کرین۔

This is default featured slide 3 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

This is default featured slide 4 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

This is default featured slide 5 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

Friday, October 31, 2014

حرمت ماتم کے متعلق شیعی روایات

حرمت ماتم کے متعلق شیعی روایات

پس دیگر بار اهل بیت رسالت و پردگیان سرادق عصمت و طهارت را وداع نمود و ایشان را بصبر و شکیبای امر فرمود و بعده مثوبات غیر متناهی الهی تسکین داد و فرمود که چادر ها بر سر گیرید و آمادهء لشکر مصیبت بلا گردید و بدانید که حق تعالی حافظ و حامی شما است و شمارا از شر اعدا نجات میدهد و عاقبت شمارا بخیر میگرداند و دشمنان شمارا بانواع بلاها مبتلا می سازد و شمار را به عوض این بلاها دردنیا و عقبی بانواع نعمتها و کرامتها می نوازد دست از شکیبای بر مدارید و کلام ناخوشی بر زبان مدارید که موجب نقص ثواب شما گردد.[1]

پھر امام حسین نے دوسری بار اہل بیت رسالت اور خاندان اہل طہارت کو  الوداع کہا اور ان کو صبر اور ضبط کا حکم فرمایا اور اللہ تعالٰی کے غیر متناہی اجر و ثواب کے ساتھ تسلی دی اور فرمایا کہ اپنے سر پر چادر رکھو اور رنج و  مصیبت کے لشکر کے لیے تیار ہو جاؤ ، اور جان لو کہ اللہ تعالٰی تمہارا حامی اور حافظ ہے۔ وہ تم کو دشمنوں کے شر سے نجات دے گا اور تمہاری آخرت اچھی کرے گا اور تمہارے دشمنوں کو مختلف بلاؤں میں مبتلا کرے گا اور تم کو ان مصیبتوں اور بلاؤں کے عوض آخرت میں عزت اور اجر سے نوازے گا۔ خبردار صبر کا دامن نہ چھوڑنا اور بے صبری کا کلام زبان پر نہ لانا ۔ اس سے تمہارے اجر و ثواب میں کمی ہوگی۔


پس سکینه دختر آن حضرت چادر از سر کشید و گفت ای پدر بزرگوار تن به مرگ داده و مارا به کی میگذاری آن امام مظلوم گریست و فرمود ای نوردیده من هر که یاوری ندارد یقین مرگ را بر خود قرار میدهد ای دختر یاور هرکس خدا است و رحمت خدا دردنیا و عقبی از شما جدا نخواهد شد صبر کنید بر قضاهای خدا شکیبای ورزید که بزودی دنیا فانی منقضی میگردد و نعیم ابدی آخرت زوال ندارد [2]


پھر آپ کی صاحبزادی حضرت سکینہ نے دوپٹہ سر سے اتارا اور کہا ۔ اے ابا جان ، آپ  مرنے کے لیے جارہے ہیں۔ مجھ کو کس پرچھوڑ کر جا رہے ہیں۔ امام مظلوم روئے اور فرمایا ، اے نور چشم جس کا مددگار نہیں ہوتا وہ بالیقین اپنے لیے موت سمجھ لیتا ہے۔ اے بیٹی ، ہر  شخص کا خدا مددگار ہوتا ہے۔ دنیا اور آخرت میں اللہ تعالٰی کی رحمت تم سے جدا نہیں ہو گ ی۔ اللہ کی تقدیر پر راضی رہنا اور صبر کو اختیار کرنا، عنقریب دنیا فانی ختم ہو جائے گی اورآخرت کی ابدی نعمتوں کو زوال نہیں ہوگا۔


و فرمود که ای خواهر باجان برابر, حلم و بردباری پیشه خود کن وشیطان را بر خود تسلط مده و بر قضای حق تعالی صبر کن و فرمود که اگر می گذاشتند مرا با استراحت خود را بلکه نمی افکندم زینب خاتون گفت این بیشتر دل مارا مجروح می گرداند که راه چاره از تو منقطع گردیده و بضرورت شربت ناگوار مرگ را مینوشی و مارا غریب و بیکس و تنها درمیان اهل نفاق و شقاق می گذاری پس دستهای خودرا بلند کرد و گلگونه خود را خراشید و مقتع را از سر کشید و گریبان طاقت چاک کرد و بی هوش افتاد آن امام غریب برخواست و آب بر روی خواهر گرامی خود پاشید چون بهوش باز آمد گفت ای خواهر نیک اختر از خدا بترس و مقضای حق تعالی راضی شود بدانکه همه اهل زمین شربت ناگوار مرگ را می چشند و اهل آسان باقی نمی مانند و بجز ذات مقدس حق تعالی همه چیز در معرض زوال وفناست او همه را مییراند و بعد از مردن مبعوث می گرداند و او منفرد اس در بقا و برادر و مادر من شهید شدند وهمه از من بهتر بودند و حضرت رسول خدا (صلی الله علیه و اله و سلم) که اشرف خلایق بود در دنیا نماند و رحلت فرمود و بسیاری از این مواعظ پسندیده برای آن نوردیده بیان فرمود پس وصیت فرمود که ای خوهر گرامی ترا سوگند میدهم که چون من از تیغ اهل جفا بعالم بقا رحلت نمایم گریبان چاک مکنید و رو مخراشید و واویلا مگویید [3]
حضرت امام حسین نے حضرت زینب سے فرمایا ، اے میری بہن ، میری جان کے برابر، حلم و بردباری کو اختیار کریں اور اپنے اوپر شیطان کو قبضہ نہ دیں۔ اور اللہ تعالٰی کی تقدیر پر صبر کریں، اور فرمایا اگر یہ لوگ مجھ کو آرام سے رہنے دیتے تو میں ہلاکت کو اختیار نہ کرتا۔ حضرت زینب نے کہا اس بات سے تو ہمارا دل زخمی ہوتا ہے کہ آپ کے لیے اب کوئی چارہ کال نہیں ہے اور مجبوری کی وجہ سے ناپسندیدہ موت کا شربت پی رہے ہیں، اور ہم کو مخالفین اور منافقین کے درمیان بے یار و مددگار تنہا مسافرت میں چھوڑ کر جا رہے ہیں، حضرت زینب  نے ہاتھ بلند کر کے رخسار نوچنا شروع کیا اور دوپٹہ سر سے اتار دیا ، گریبان چاک کیا اور بے ہوش ہو گئیں۔ امام نے اپنی بہن پر پانی چھڑکا اور ان کو ہوش میں لائے اور جب ہوش میں آگئٰں تو فرمایا ، اے بہن خدا سے ڈرو، اور اللہ تعالٰی کی تقدیر پر راضی ہو اور یہ جان لو کہ تمام زمین والوں نے ایک دن مرنا ہے اور آسمان والے بھی باقی نہیں رہیں گے ، سوا اللہ تعالٰی کے ہر چیز فنا ہے۔ وہ سب کو مارے گا اور مارنے کے بعد پھر زندہ کرے گا ، وہ باقی رہنے میں منفرد ہے ، یرے بھائی اور مان جو مجھ سے بہتر تھے وہ شہید ہو گئے اور رسول اللہ ﴿ص﴾ جو تمام مخلوق سے افضل تھے ، وہ بھی دنیا میں نہ رہے  اور دار البقا کی طرف رحلت فرما گئے اور اپنی بہن کو بہت نصیحتیں کیں اور یہ وصیت کی کہ اے میری میزز بہن۔ میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ جب میں اہل جفا کی تلوار سے عالم بقا میںرحلت کر جاؤں تو گریبان چاک نہ کرنا چہرے پر خراشیں نہ ڈالنا اور واویلا نہ کرنا۔


ابن بابونه به سند معتبر از امام محمد باقر روایت کرده است که حضرت رسول در هنگام وفات خود بحضرت فاطمه فرمود ای فاطمه چون بمیرم روی خود را برای من مخراش و گیسوی خود را پریشان مکن واویلاه مگو و نوحه گران را مطلب. [4]

ابن بابویہ نے سند معتبر کے ساتھ امام محمد باقر سے روایت کیا ہے کہ حضرت رسول اللہ ﴿ص﴾ نے اپنی وفات کے وقت حضرت فاطمہ سے فرمایا ، اے فاطمہ جب میں وفات پا جاؤں تو میرے لیے اپنے چہرے کو نہ چھیلنا، اپنے بالوں کو نہ بکھیرنا اور واویلا نہ کہنا، اور نوحہ والوں کو نہ بلانا۔


فرات بن ابراهیم بسند معتبر از جابر انصاری ورایت کرده است که رسول خدا در مرض آخر خود با حضرت فاطمه گفت(الی قوله) ای فاطمه برای پیغمبر گریبان نمی باید برید و روی نباید خراشید و واویلا نباید گفت و لیکن بگر آنچه پدر تو در وفات ابراهیم فرزند خود گفت که چشمان می گریند و دل بدردی اید. [5]

فرات بن ابراہیم نے سند معتبر کے ساتھ جابر انصاری سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﴿ص﴾ نے اپنے آخری مرض میں حضرت فاطمہ سے فرمایا ، اے فاطمہ جان لو کہ پیغمبر کے لیے گریبان پھاڑنا نہیں چاہیے ، اور چہرہ نہیں چھیلنا چاہیے اور واویلا نہیں کہنا چاہیے ، لیکن  وہ جو تمہارے والد نے اپنے فرزند ابراہیم کی وفات کے موقعہ پر کہا تھا کہ آنکھیں رو رہی ہیں اور دل میں درد ہے۔


ام حکیم دختر حارث بن هشام که زن عکرمه پسر ابوجهل بود گفت یا رسول الله آن کدام معروفست که خدا گفته است معصیت تو در آن نکنیم حضرت فرمود در مصیبت طپانچه بر روی خود مزنید و روی خود را مخراشید و موی خود را مکیند و گریبان خود را چاک نکنید و جامه خود را سیاه مکنید وواویلا مگریید پس براین شرطها حضرت بایشان بیعت کرد. [6]

عکرمہ بن ابوجہل کی زوجہ ام حکیم بنت ہارث بن ہشام نے پوچھا ، یا رسول اللہ وہ کون سی نیکی ہے جس کے متعلق اللہ نے یہ کہا ہے کہ ہم اس میں آپ کی نافرمانی نہ کریں۔ حضرت نے فرمایا ، مصیبت میں اپنے چہرے پر طمانچے نہ مارو، چہرے کو نہ چھیلو، اپنے بال نہ نوچو، اپنے گریبان کو چاک نہ کرو۔ اپنے کپڑوں کو سیاہ نہ کرو، واویلا نہ کرو، پس ان شرطوں پر آپ نے ان عورتوں سے بیعت لے لی۔


روایت کرده است از امام محمد التقی که امیر المومنین فرمود روز من و فاطمه بخدمت خضرت رسول ص رفتیم و آنحضرت بسیار میگریست عرض کردم پدرومادرم فدای تو باد یا رسول الله چه چیز سبب گریه تو شده است؟ فرمود یا علی شب که مرا به آسمان بردند چند زنی از امت خود را در عذاب شدید دیدم و گریه من برای اشانست (الی قوله) آنکه بصورت سگ بود و آتش درد برش می کردند خواننده و نوحه کنند و حسود بوده. [7]



امام محمد تقی سے روایت ہے کہ امیر المومنین نے فرمایا کہ ایک روز میں اور فاطمہ حضرت رسول اللہ ﴿ص﴾ کی خدمت میں گئے اور آنحضرت ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ بہت رو رہے تھے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾، میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ، آپ کے اس رونے کا سبب کیا ہے؟ آپ نے فرمایا اے علی، جس رات مجھے آسمان پر لے گئے میں نے اپنی امت کی چند عورتوں کو شدید عذاب میں مبتلا دیکھا اور میرا رونا انہی کی وجہ سے ہے۔ ﴿پھر آپ نے ان عورتوں کے بیان میں فرمایا﴾ جو عورت کتے کی صورت میں تھی ، اور اس کی دبر میں آگ ڈال رہے تھے، وہ چلانے والی ، نوحہ کرنے والی اور حسد کرنے والی تھی۔






[1]           جلاءالعیون ج 2 ص 576, مطبوعه کتاب فروشی اسلامیه تهران
[2]           جلا العیون ج2 ص 575,مطبوه کتاب فروشی اسلامیه تهران
[3]           جلاءالعیون ج2 ص 553, مطبوعه کتاب فروشی اسلامی تهران
[4]           حیات القلوب ج 2 ص 687, مطبوعه کتاب فروشی اسلامی تهران
[5]           حیات القلوب ج 4 ص687, مطبوعه کتاب فروشی اسلامی تهران
[6]           حیات القلوب ج2ص640,مطبوعه کتاب فروشی اسلامی تهران
[7]           حیات القلوب ج2ص293-292, مطبوعه کتاب فروشی اسلامی تهران

Wednesday, October 29, 2014

نکاح ام کلثوم در کتب اہل سنت

نکاح ام کلثوم در کتب اہل سنت

عن ابن شهاب قال ثعلبة بن أبي مالك إن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قسم مروطا بين نساء من نساء المدينة فبقي مرط جيد فقال له بعض من عنده يا أمير المؤمنين أعط هذا ابنة رسول الله صلى الله عليه وسلم التي عندك يريدون أم كلثوم بنت علي فقال عمر أم سليط أحق وأم سليط من نساء الأنصار ممن بايع رسول الله صلى الله عليه وسلم قال عمر فإنها كانت تزفر لنا القرب يوم أحد

ابن شہاب، ثعلبہ بن ابی مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب نے مدینہ کی عورتوں کو کچھ چادریں تقسیم کی تھیں، تو ایک نہایت عمدہ چادر بچ گئی، پاس بیٹھنے والوں میں سے کسی نے کہا، کہ امیرالمومین یہ چادر آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی، یعنی نواسی کو جو آپ کے نکاح میں ہیں دے دیجئے (ان کی مراد تھی) ام کلثوم بنت علی عمر نے فرمایا، ام سلیط اس کی زیادہ مستحق ہیں، اور ام سلیط انصاری خواتین میں سے تھیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کی تھی، عمر نے کہا وہ احد کے دن ہمارے لئے مشکیں بھر بھر کے لاتی تھیں۔[1]


عن جعفر بن محمد ، عن أبيه ، عن علي بن الحسين ، أن عمر بن الخطاب - رضي الله عنه - خطب إلى علي - رضي الله عنه - أم كلثوم ، فقال : أنكحنيها ، فقال علي : إني أرصدها لابن أخي عبد الله بن جعفر ، فقال عمر : أنكحنيها فوالله ما من الناس أحد يرصد من أمرها ما أرصده ، فأنكحه علي

علی بن حسین کہتے ہیں کہ حضرت عمر  نے حضرت علی سے ام کلثوم کا نکاح طلب کیا۔ علی المرتضٰی نے جواب دیا کہ میں نے اپنے برادرزادہ اور عبداللہ بن جعفر کے لئے یہ رشتہ محفوظ کیا ہے۔ تو حضرت عمر نے کہا  آپ مجھے نکاح کر دیں ، اللہ کی قسم ، میں اس کی ایسی نگاہ دشت کروں گا کہ جس طرح کوئ دوسرا حفاظت نہ رکھ سکے گا۔ اس پر حضرت علی المرتضٰی نے ام کلثوم کا نکاح کر دیا۔[2]

عن جعفر بن محمد عن أبيه أن عمر خطب أم كلثوم إلى علي فقال: إنما حبست بناتي على بني جعفر فقال: زوجنيها فوالله ما على ظهر الأرض رجل أرصد من كرامتها ما أرصد. قال: قد فعلت[3]


نا محمد بن القاسم بن زكريا نا هشام بن يونس نا الدراوردي عن جعفر بن محمد عن أبيه " أن أم كلثوم بنت علي وابنها زيدا وقعا في يوم واحد والتقت الصائحتان فلم يدر أيهما هلك قبل فلم ترثه ولم يرثها وأن أهل صفين لم يتوارثوا وأن أهل الحرة لم يتوارثوا

جعفر اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں سیدہ ام کلثوم بنت علي اور ان کا بیٹا زید ایک ہی دن فوت ہوئے یہاں تک کہ دونوں کے رونے والوں کا ایک ہی سڑک پر سامنا ہوا تو ان میں سے کسی ایک کو دوسرے کا وراث نہیں بنایا گیا۔ اسی طرح واقعہ حرہ میں جو لوگ فوت ہوئے وہ ایک دوسرے کے وارث نہیں بنے۔ اسی طرح جنگ صفین میں جو لوگ مارے گئے وہ ایک دوسرے کے وارث نہیں بنے۔ [4]


حدثنا نعيم بن حماد عن عبد العزيز بن محمد حدثنا جعفر عن أبيه أن أم كلثوم وابنها زيدا ماتا في يوم واحد فالتقت الصاحتان في الطريق فلم يرث كل واحد منهما من صاحبه وأن أهل الحرة لم يتوارثوا وأن أهل صفين لم يتوارثوا

جعفر اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں سیدہ ام کلثوم اور ان کا بیٹا زید ایک ہی دن فوت ہوئے یہاں تک کہ دونوں کے رونے والوں کا ایک ہی سڑک پر سامنا ہوا تو ان میں سے کسی ایک کو دوسرے کا وراث نہیں بنایا گیا۔ اسی طرح واقعہ حرہ میں جو لوگ فوت ہوئے وہ ایک دوسرے کے وارث نہیں بنے۔ اسی طرح جنگ صفین میں جو لوگ مارے گئے وہ ایک دوسرے کے وارث نہیں بنے۔ [5]


قَالَ : وَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعْدٍ ، أنا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ اللَّيْثِيُّ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ , أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَطَبَ إِلَى عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ابْنَتَهُ أُمَّ كُلْثُومٍ ، فَقَالَ عَلِيٌّ : إِنَّمَا حَبَسْتُ بَنَاتِي عَلَى بَنِي جَعْفَرٍ ، فَقَالَ عُمَرُ : أَنْكِحْنِيهَا يَا عَلِيُّ ، فَوَاللَّهِ مَا عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ رَجُلٌ يَرْصُدُ مِنْ حُسْنِ صَحَابَتِهَا مَا أَرْصُدُ ، قَالَ عَلِيٌّ : قَدْ فَعَلْتُ[6]


عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ عُمَرَ خَطَبَ إِلَى عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ابْنَتَهُ أُمَّ كُلْثُومٍ ، فَقَالَ عَلِيٌّ : إِنَّمَا حَبَسْتُ بَنَاتِي عَلَى بَنِي جَعْفَرٍ . فَقَالَ : أَنْكِحْنِيهَا ، فَوَاللَّهِ مَا عَلَى الأَرْضِ رَجُلٌ أَرْصَدَ مِنْ حُسْنِ عِشْرَتِهَا مَا أَرْصَدْتُ . فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : قَدْ أَنْكَحْتُكَهَا[7]


عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَطَبَ إِلَى عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ابْنَتَهُ أُمَّ كُلْثُومٍ ، فَقَالَ عَلِيٌّ : إِنَّمَا حَبَسْتُ بَنَاتِي عَلَى بَنِي جَعْفَرٍ ، فَقَالَ عُمَرُ : أَنْكِحْنِيهَا يَا عَلِيُّ ، فَوَاللَّهِ مَا عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ رَجُلٌ يَرْصُدُ مِنْ حُسْنِ صَحَابَتِهَا مَا أَرْصُدُ ، فَقَالَ عَلِيٌّ : قَدْ فَعَلْتُ[8]


عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَطَبَ إِلَى عَلِيّ أُمَّ كُلْثُومٍ ، فَقَالَ : أَنْكِحْنِيهَا ، فَقَالَ عَلِيٌّ : إِنِّي أَرْصُدُهَا لابْنِ أَخِي جَعْفَرٍ ، فَقَالَ عُمَرُ : أَنْكِحْنِيهَا ، فَوَاللَّهِ مَا مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ يَرْصُدُ مِنْ أَمْرِهَا مَا أَرْصُدُ ، فَأَنْكَحَهُ عَلِيٌّ[9]


عن أبي جعفر أن عمر بن الخطاب خطب إلى علي ابن أبي طالب ابنته أم كلثوم ، فقال علي : إنما حبست بناتي على بني جعفر ، فقال عمر : أنكحنيها يا علي ! فو الله ما على ظهر الارض رجل يرصد من حسن صحابتها ما أرصد ! فقال علي : قد فعلت[10]


وزينب ابنة علي الكبرى، ولدت لعبد الله بن جعفر بن أبي طالب؛ وأم كلثوم الكبرى، ولدت لعمر بن الخطاب؛ وأمهم: فاطمة بنت النبي - صلى الله عليه وسلم

حضرت علی کی بیٹی زینب الکبری کے بطن سے عبداللہ بن جعفر کی اولاد ہوئ ، اور ام کلثوم کے بطن سے حضرت عمر بن الخطاب کا بچہ تولد ہوا اور دونوں کی ماں سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ  ﷺ تھیں۔[11]


و (عمر) بن الخطاب رحمه الله كانت عنده ام كلثوم بنت على ثم خلف عليه (عون) ثم (محمد) ثم (عبد الله) بنو جعفر بن ابى طالب رحمه الله

حضرت عمر بن الخطاب کے نکاح میں ام کلثوم بنت علی تھیں۔ اس کے بعد عون بن جعفر پھر محمد بن جعفر اور اس کے بعد عبداللہ بن جعفر کے نکاح میں آئیں۔[12]


وأما أم كلثوم الكبرى وهي بنت فاطمة فكانت عند عمر بن الخطاب

حضرت ام کلثوم حضرت فاطمہ کی بیٹی تھیں اور یہ حضرت عمر بن الخطاب کے نکاح میں تھیں۔[13]


وإبراهيم بن نعيم النحام بن عبد الله بن أسيد بن عبد بن عوف بن عبيد بن عويج بن عدي بن كعب، كانت عنده رقية بنت عمر، أخت حفصة لأبيها، وأمها: أم كلثوم بنت علي

ابراہیم بن نعیم النحام کے نکاح میں حضرت عمر کی بیٹی رقیة تھیں جو حضرت ام المومنین  حفصة کی بہن ہیں اور ان کی ماں ام کلثوم دختر علی ہیں۔[14]


وتزوج أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب، بنت بنت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عمر بن الخطاب، فولدت له زيداً لم يعقب، ورقية؛ ثم خلف عليها بعد عمر - رضي الله عنه - عون بن جعفر بن أبي طالب؛ ثم خلف عليها بعده محمد بن جعفر بن أبي طالب؛ ثم خلف عليها بعده عبد الله بن جعفر ابن أبي طالب، بعد طلاقه لأختها زينب

حضور ﴿ص﴾ کی بیٹی کی  صاحبزادی ام کلثوم بنت علی المرتضٰی کے ساتھ عمر بن الخطاب نے نکاح کیا۔ پس حضرت عمر کی ان سے اولاد ہوئ۔ ایک لڑکا زید ہوا، جن کی نسل  آگے نہیں چلی۔ اور لڑکی رقیة ہوئ۔ پھر حضرت عمر کی وفات کے بعد ام کلثوم کا نکاح عون بن جعفر سے ہوا۔ پھر عون کے بعد محمد بن جعفر سے ہوا۔ پھر محمد کے بعد ان کے بھائ عبداللہ بن جعفر سے ہوا جبکہ عبداللہ نے انکی بہن زینب کو طلاق  دے دی تھی۔ [15]


هذه أم كلثوم هي ابنة علي زوج عمر بن الخطاب

یہ ام کلثوم حضرت علی کی صاحبزادی اور حضرت عمر بن الخطاب کی زوجہ تھیں۔[16]


ثم تزوج أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب، وأمها فاطمة بنت رسول الله، صلى الله عليه وسلم، وأصدقها أربعين ألفاً، فولدت له رقية وزيداً[17]



وأما أم كلثوم تزوجها عمر بن الخطاب ، فولدت له زيد بن عمر[18]





[1]     صحیح بخاری

[2]     مستدرک حاکم

[3]     الاصابہ

[4]     سنن الدارقطنی

[5]     سنن دارمی

[6]     تاریخ دمشق

[7]     سنن سعيد بن منصور

[8]     طبقات ابن سعد

[9]     فضائل صحابہ

[10]    كنز العمال

[11]    نسب قريش

[12]    كتاب المحبر

[13]    المعارف - ابن قتیبہ

[14]    انساب الاشراف

[15]    جمهرہ انساب العرب

[16]    اسد الغابہ

[17]    الكامل في التاريخ ج 1 ص 471

[18]    دلائل النبوۃ

نکاح ام کلثوم در کتب اہل تشیع

نکاح ام کلثوم در کتب اہل تشیع

محمد بن يحيى وغيره عن أحمد بن محمد بن عيسى عن الحسين بن سعيد عن النضر بن سويد عن هشام بن سالم عن سليمان بن خالد قال: سألت أبا عبد الله ع عن امرأة توفى زوجها أين تعتد في بيت زوجها تعتد أو حيث شاءت؟ قال: بلى حيث شاءت ثم قال: إن عليا ع لما مات عمر أتى أم كلثوم فأخذ بيدها فانطلق بها إلى بيته

سلیمان بن خالد کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق سے پوچھا کہ جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے ، وہ اپنی عدت کے ایام کہاں گزارے ؟ خاوند کے گھر میں یا جہان چاہے؟  امام جعفر نے کہا کہ جہاں چاہے، پھر فرمایا ، جب حضرت عمر فوت ہوئے تو حضرت علی اپنی صاحبزادی ام کلثوم کے پاس گئے اور اس کو اپنے ساتھ گھر لے کر آئے۔[1]

مجلسی نے اپنی کتاب مراة العقول  میں اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔[2]

محمد بن يعقوب عن محمد بن يحيى وغيره عن أحمد بن محمد بن عيسى عن الحسين بن سعيد عن النضر بن سويد عن هشام بن سالم عن سليمان ابن خالد قال: سألت أبا عبد الله (ع) عن امرأة توفي عنها زوجها أين تعتد في بيت زوجها تعتد ؟ أو حيث شاءت ؟ قال: حيث شاءت ثم قال: إن عليا (ع) لما مات عمر أتى أم كلثوم فأخذ بيدها فانطلق بها إلى بيته

سلیمان بن خالد کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق سے پوچھا کہ جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے ، وہ اپنی عدت کے ایام کہاں گزارے ؟ خاوند کے گھر میں یا جہان چاہے؟  امام جعفر نے کہا کہ جہاں چاہے، پھر فرمایا ، جب حضرت عمر فوت ہوئے تو حضرت علی اپنی صاحبزادی ام کلثوم کے پاس گئے اور اس کو اپنے ساتھ گھر لے کر آئے۔[3]


محمد بن أحمد بن يحيى عن جعفر بن محمد القمي عن القداح عن جعفر عن أبيه ع قال: ماتت أم كلثوم بنت علي عليه السلام وابنها زيد بن عمر بن الخطاب في ساعة واحدة لا يدرى أيهما هلك قبل فلم يورث احدهما من الآخر وصلى عليهما جميعا

امام جعفر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا ؛ حضرت ام کلثوم بنت علی اور ان کے بیٹے زید بن عمر ایک ہی لمحہ میں فوت ہوئے۔ اور یہ پتہ نہ چل سکا کہ ان دونوں میں سے پہلے کون فوت ہوا ہے، تو اس صورت میں ایک کو دوسرے کا وارث نہ بنایا جا سکا۔  اور ان دونوں پر اکٹھی نماز پڑھی گئ۔ [4]

فأما انكاحه عليه السلام اياها، فقد ذكرنا في كتابنا الشافي، الجواب عن هذا الباب مشروحا، وبينا انه (ع) ما أجاب عمر إلى انكاح بنته إلا بعد توعد وتهدد ومراجعة ومنازعة

جہاں تک امام علیہ السلام کا اپنی لڑکی کو حضرت عمر سے نکاح کرنے کا تعلق ہے، تو اس مسئلہ کا جواب ہم نے کتاب الشافی میں پورے بسط و تفصیل سے تحریر کر دیا ہے۔ اور ہم نے واضح کر دیا ہے کہ حضرت علی المرتضٰی نے اپنی لڑکی کا رشتہ عمر بن الخطاب کے ڈرانے دھمکانے اور بار بار مراجعت و منازعت کے بعد کیا تھا۔ [5]

محمد بن جعفر طيار بعد از فوت عمر بن خطاب بشرف مصاهرت حضرت امير المومنين مشرف گشته  ام كلثوم را كه با عدم كفائت از روي اكراه در حباله عمر بود تزويج نمود

عمر بن الخطاب کی وفات کے بعد محمد بن جعفر طیار نے ام کلثوم بنت علی کے ساتھ نکاح کیا۔ ام کلثوم غیر کفو ہونے کی وجہ سے مجبوراً حضرت عمر کے نکاح میں تھیں۔ [6]


و الأصل في الجواب هو أن ذلك وقع على سبيل التقية و الاضطرار
اصل جواب یہ ہے کہ یہ ﴿نکاح ام کلثوم بنت علی﴾ تقیہ اور مجبوری کی بنا پر ہوا تھا۔ [7]


و امـّا امـّكـلثـوم حـكـايـت تـزويـج او بـا عـمـر در كـتـب مـسـطـور است  و بعد از او ضجيع عون بن جعفر و از پس او زوجه محمّد بن جعفر گشت

حضرت ام کلثوم کا نکاح حضرت عمر بن الخطاب کے ساتھ کتابوں میں لکھا ہے اور اس کے بعد عون بن جعفر کے نکاح میں آئی۔ اور اس کے بعد اس کے بھائ محمد بن جعفر کے نکاح میں آئ۔ [8]


وزوج النبي ابنته عثمان، وزوج ابنته زينب بأبي العاص بن الربيع، وليسا من بني هاشم، وكذلك زوّج علي ابنته أم كلثوم من عمر، وتزوج عبد الله بن عمرو بن عثمان فاطمة بنت الحسين، وتزوج مصعب بن الزبير أختها سكينة، وكلهم من غير بني هاشم

نبی کریم ﴿ص﴾ نے اپنی صاحبزادی کا نکاح عثمان بن عفان سے کر دیا تھا اور اپنی دختر زینب کا نکاح ابولعاص بن ربیع سے کر دیا تھا۔ حالانکہ دونوں بنی ہاشم سے نہ تھے۔ اسی طرح حضرت علی نے اپنی دختر ام کلثوم کا نکاح حضرت عمر بن الخطاب سے کر دیا تھا، اور عبداللہ بن عمرو بن عثمان کے ساتھ فاطمہ بنت الحسین کی شادی ہوئ۔ اور ان کی بہن سکینہ بنت الحسین کی شادی مصعب فن زبیر سے ہوئ۔ اور یہ سب بنی ہاشم سے نہیں تھے۔ [9]


و روي أن عمر تزوج أم كلثوم بنت علي

مروی ہے کہ حضرت  عمر نے ام کلثوم بنت علی سے نکاح کیا۔ [10]

فولد من فاطمة (ع): الحسن والحسين والمحسن سقط، وزينب الكبرى، وأم كلثوم الكبرى تزوجها عمر

حضرت فاطمہ علیہا السلام کی اولاد : حسن، حسین، محسن ، زینب الکبری  اور ام کلثوم الکبری جن کا نکاح حضرت عمر سے ہوا۔[11]


وأما ام كلثوم فهي التي تزوجها عمر بن الخطاب

ام کلثوم کا نکاح عمر بن الخطاب سے ہوا۔ [12]





[1]           فروع کافی ، ج ٦ ص ١١۵
[2]           مراة العقول ج ۲١ ص ١۹۹
[3]           وسائل الشیعہ ج ۲۲ ص ۲۴١
[4]      تہذیب الاحکام ج ۹ ص ۳٦۳
[5]     تنزیہ الانبیاء ص ١۹١
[6]     مجالس المومنین، ص ۸۵ ، تذکرہ محمد بن جعفر طیار
[7]     مرآة العقول ، مجلسی، ج ۲۰ ، ص ۴۵
[8]     منتہی الآمال ، در ذکر اولاد امیر المومنین ، ص ١۸۲
[9]     مسالک الافہام شرح شرائع الاسلام ، کتاب النکاح باب لواح العقد
[10]    المبسوط - طوسی ج ۴ ص ۲۷۲
[11]    مناقب آل أبي طالب  ج 3  ص 89
[12]    اعلام الوری ، ج ١ ص ۳۹۷