مختار ثقفی کی حقیقت

مختار ثقفی کی حقیقت شیعہ کتب سے جاننے کیلئے یہاں کلک کرین۔

This is default featured slide 3 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

This is default featured slide 4 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

This is default featured slide 5 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

Thursday, February 27, 2014

افطاری کا وقت

افطاری کے  حوالے سے قرآن کریم کی آیت مبارکہ
ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ
 پھر تم رات تك روزہ پورا كرو (البقرۃ) کے متعلق ابن کثیر فرماتے ہیں
 يقتضي الإفطار عند غُرُوب الشمس حكمًا شرعيًا
يہ اس كا تقاضا كرتى ہے كہ شرعى حكم كے مطابق غروب شمس كے وقت روزہ افطار كيا جائے۔ (تفسیر القرآن العظیم)

اور اللیل کے متعلق قاموس المحیط میں لکھا ہے
اللَّيْلُ : من مَغْرِبِ الشمسِ إلى طُلوعِ الفَجْرِ الصادِقِ أو الشمس
 الليل: سورغ غروب ہونے سے ليكر فجر صادق طلوع ہونے يا سورج طلوع ہونے كو رات كہا جاتا ہے (القاموس المحیط) 


اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ
إِذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ مِنْ هَا هُنَا ، وَأَدْبَرَ النَّهَارُ مِنْ هَا هُنَا ، وَغَرَبَتْ الشَّمْسُ فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ
 یعنی جب اس طرف سے رات آ جائے اور اس طرف سے دن چلا جائے اور سورج غروب ہو جائے تو روزے دار كا روزہ افطار ہو جاتا ہے (البخاری)
اور اس حدیث کے راوی حضرت عمر ہیں۔ اور موطا کی جس روایت میں لکھا ہے کہ حضرت عمر پہلے نماز پڑھتے تھے، پھر روزہ افطار کرتے تھے، تو جواب یہ ہے کہ یہ تاخیر نہیں، بلکہ تاخیر وہ ہے جو شیعہ کرتے ہیں، یعنی نہ ہی نماز پڑھتے ہیں اور نہ ہی روزہ افطار کرتے ہیں، بلکہ یونہی دس پندرہ منٹ تک انتظار کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس روایت میں حمید بن عبد الرحمن اور حضرت عمر کے درمیان انقطاع ہے۔

نیز عمرو بن میمون سے مروی ہے
 كان أصحاب محمد - صلى الله عليه وسلم - أعجل الناس إفطارا
یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سب سے پہلے افطاری کرتے (السنن الکبری)

اس کے علاوہ اہل تشیع کی فروع من الکافی میں لکھا ہے کہ
وقت المغرب اذا غاب القرص
 یعنی جب سورج کی ٹکیہ غائب ہو جائے تو مغرب کا وقت آگیا (فروع من الکافی)

اور مغرب کی نماز کا وقت اور افطاری کا وقت ایک ہی ہے جیسا کہ نہج البلاغہ میں لکھا ہے
وصلوا بهم المغرب حين يفطر الصائم
 یعنی جب روزہ دار افطاری کرتا ہے، تو نماز مغرب پڑھائی جائے (نہج البلاغہ)


 اس سے معلوم ہوا کہ شیعہ قرآن کریم اور فریقین کی احادیث و روایات کے خلاف افطاری میں بلاوجہ تاخیر کرتے ہیں، جس کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں۔

خمینی کی کتاب کشف الاسرار سے چند اقتباسات

کلام حقیر 


خمینی کے بارے میں اکثر لوگوں کو یہ مغالطہ رہتا ہے کہ وہ اتحاد بین المسلمین کا بڑا داعی تھا، اکثر لوگ اس پراپیگنڈے کا شکار ہوتے ہیں، اور بڑے شدو مد سے اس لعین کا دفاع کرتے ہیں۔ ہم اس شیعہ دجال کے کتاب سے چند اقتباسات آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں، امید ہے اس لعین کی حقیقت لوگوں پر آشکارا ہو جائے گی اور آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ جتنا بڑا شیعہ مولوی ہو گا، اتنا ہی سختی سے تقیہ و کتمان کے عقیدے پر عمل پیرا ہوگا۔

شیعوں کا امامت کا عقیدہ تو آپ کو معلوم ہی ہوگا، کہ حضرت علیؓ خلیفہ اول تھے، نہ کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ ۔ امامت کا عقیدہ ثابت کرنے کے لئے خمینی نے اپنی کتاب ’کشف الاسرار‘ میں چند فرضی سوالات قائم کئے اور ان کے جوابات سے امامت کا عقیدہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے لئے انہوں نے یہ عنوان قائم کر کے لکھا ہے ’’چرا قران صریحا اسم امام رانبردہ؟‘‘ ۔ اس عنوان کے تحت خمینی نے چند فرضی سوالات اور پھر ان کے جوابات لکھے۔

خمینی صاحب لکھتے ہیں:

آنکه فرضا در قرآن اسم امامرا هم تعیین میکرد از کجا که خلاف بین مسلمانها واقع نمیشد آنهایکه سالها در طمع ریاست خودرا بدین  پیغمبر چسپانده بودند و دسته بندیها میکردند ممکن نبود بگفته ای قرآن از کار  خود دست بردارند با هر حیله بود کار خود را انجام میدادند بلکه شاید در این  صورت خلاف بین مسلمانها طوری میشد که با انهدام اصل اساس منتهی میشد زیرا ممکن بود آنها که در صدد ریاست بودند چون دیدند با اسم اسلام نمیشود بمقصود خود برسند یکسره حزبی بر ضد اسلام تشکیل میدادند
ترجمہ :اگر بالفرض قرآن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کے لئے امام کا (یعنی حضرت علی کا) نام بھی ذکر کر دیا جاتا تو یہ کہاں سے سمجھ لیا گیا کہ اس کے بعد امامت و خلافت کے بارے میں مسلمانوں میں اختلاف نہ ہوتا۔ جن لوگوں نے حکومت و ریاست کی طمع ہی میں برسہابرس سے اپنے کو دین پیغمبر یعنی اسلام سے وابستہ کر رکھا اور چپکا رکھاتھا ، اور جو اسی مقصد کے لئے سازش اور پارٹی بندی کرتے رہے تھے ، ان سے ممکن نہیں تھا کہ قرآن کے فرمان کو تسلیم کرکے اپنے مقصد اور اپنے منصوبے سے دست برداد ہوجاتے ، جس حیلے اور جس پینترے سے بھی ان کا مقصد (یعنی حکومت و اقتدار) حاصل ہوتا ، وہ اس کو استعمال کرتے اور بہر قیمت اپنا منصوبہ پورا کرتے ۔ بلکہ شاید اس صورت میں مسلمانوں کے درمیان ایسا اختلاف پیدا ہوتا جس کے نتیجہ میں اسلام کی بنیاد ہی منہدم ہو جاتی کیونکہ ممکن تھا کہ اسلام قبول کرنے سے جن لوگوں کا مقصد و نصب العین صرف حکومت و اقتدار حاصل کرنا تھا، جب وہ دیکھتے کہ اسلام کے نام سے اور اس سے وابستہ رہ کر ہم یہ مقصد حاصل نہیں کر سکتے ، تو اپنا یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے اسلام ہی کے خلاف ایک پارٹی بنا لیتے اور اسلام کے کھلے دشمن بن کر میدان میں آجاتے‘‘


خمینی لعین کھلم کھلا حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو اسلام دشمن اور منافق کہ رہا ہے، اس کے کلام سے بالکل واضح ہے کہ وہ کس کے بارے میں یہ کہ رہا ہے۔ خمینی نے اسی پر ہی بس نہیں کی ’’مخالفتہائے ابوبکر بانص قرآن‘‘ اور ’’مخالفت عمر باقرآن خدا‘‘ کے نام سے دو عنوانات قائم کئے ، پھر ’’مخالفتہائے ابوبکر بانص قرآن‘‘ کے تحت لکھتے ہیں :

شاید بگوید اگر در قرآن امامت تصریح میشد شیخین مخالفت نمیکردند و فرضا آنها مخالفت میخواستند بکنند مسلمانها از آنها نمیپذیرفتند ناچار ما در این مختصر چند ماده از مخافتهای آنها با صریح قرآن ذکر میکنیم تا روشن شود که آنها مخالفت میکردند و مردم هم میپذیرفتند
ترجمہ : اگر آپ کہیں کہ قرآن میں اگر صراحت کے ساتھ حضرت علی کی امامت و ولایت کا ذکر کیا جاتا تو شیخین (ابوبکر و عمر) اس کے خلاف نہیں کر سکتے تھے، اور اگر بالفرض وہ اس کے خلاف کرنا چاہتے تو عام مسلمان قرآن کے خلاف ان کی اس بات کو قبول نہ کرتے اور ان کی بات نہ چل سکتی۔ ہم اس کی چند مثالیں یہاں پیش کرتے ہیں کہ ابوبکر نے اور اسی طرح عمر نے قرآن کے صریح احکام کے خلاف کام اور فیصلے کئے اور عام مسلمانوں نے ان کو قبول بھی کرلیا۔ کسی نے مخالف نہیں کی۔‘‘

اس میں شاید سب سے وزنی سمجھ کر فدک کا قصہ بیان کیا، کہ کس طرح ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کو فدک سے محروم رکھ کر قرآن کی مخالفت کی۔ پھر ’’مخالفت عمر باقرآن خدا‘‘ کے عظیم اتحاد بین المسلمین عنوان کے تحت فرمایا کہ کس طرح متعہ کو حرام قرار دے کر حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے قرآن کی مخالفت کی۔ پھر اس عنوان کے تحت ’’حدیث قرطاس‘‘ کابھی ذکر کیا ، آخر میں اتحاد بین المسلمین کا عظیم انقلابی لیڈر کہتا ہے

و این کلام یاوه که از اصل کفر و زندقه ظاهر شده مخالف است با آیاتی از قرآن کریم
ترجمہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس کلام سے اس کا اصلی کفر و زندقہ ظاہر ہوا۔


پھر ملعون خمینی آگے لکھتا ہے

از مجموع اين ماده ها معلــوم شد مخالفت کردن شيخين (ابوبکر و عمر) از قــرآن در حضور مسلمانان يک امر خيلى مهمى نبوده و مسلمانان نيز يا داخل در حزب خود آنها بوده و در مقصــود با آنها همراه بودند و يا اگر همراه نبودند جرئت حـرف زدن در مقابل آنها که با پيغمبر خــدا و دختــر او اينطـور سلــوک می کردند را نداشتند و يا اگر گــاهى يکى از آنها يک حرفى می زد به سخــن او ارجى نمی گذاشتند. و جملهٴ کلام آنکه اگر در قرآن هم اين امر  با صراحت لهجه ذکر می شد باز آنها دست از مقصود خود بر نمی داشتند و تــرک رياست براى گفتهٴ خــدا نمی کردند، منتهى چون ابوبکر ظاهر سازيش بيشتر بود با يک حديث ساختگى کــار را تمام می کرد، چنانکه راجع به آيات ارث ديديد. و از عمر هم استبعادى نداشت  که آخر امر بگويد خــدا يا جبرئيل يا پيغمبر در فرستادن يا آوردن اين آيه اشتباه کردند و مهجــور شدند، آنگاه سُنيان نيز از جاى بر می خاستند و متابعت او را می کردند، چنانچه در اين همه تغييرات که در دين اسلام داد متابعت از او کردند و قول او را به آيات قرآنى و گفته هاى پيغمبر اسلام مقدم داشتند

ترجمہ : ہم نے جو مثالیں پیش کی ہیں ابوبکر و عمر کی مخالفتِ قرآن کے بارے میں، ان سے معلوم ہوگیا کہ مسلمانوں کی موجودگی میں اور اعلانیہ ان کے سامنے صریح قرآنی احکام کے خلاف رویہ اختیار رکھنا ان دونوں کے لئے کوئی اہم اور غیر معمولی بات نہیں تھی، اس وقت کے مسلمانوں (یعنی صحابہ) کا حال یہ تھا کہ یا تو وہ ان کی پارٹی میں شامل اور حکومت و اقتدار طلبی کے ان کے مقصد و نصب العین میں ان کے ساتھ شریک، ان کے رفیق کار اور پورے ہم نوا تھے، یا اگر ان کی پارٹی میں شامل اور ان کے پورے ہم نوا نہیں تھے تو بھی ان کا حال یہ تھا کہ وہ ان جفا پیشہ طاقتور منافقین کے خلاف ایک حرف بھی زبان سے نکالنے کی جرات نہیں کر سکتے تھے جو خود رسول خدا اور آپ کی لخت جگر زہرا کے ساتھ ظالمانہ سلوک کر چکے تھے، وہ ان سے ڈرتے تھے اس وجہ سے ان کے خلاف زبان کھولنے کی ان میں جرات و ہمت ہی نہیں تھی، اور اگر ان میں سے کوئی بات کرنے کی ہمت بھی کرتا تھا اور کچھ بولتا تو وہ اس کی کوئی پروا نہیں کرتے اور جو کرنا ہوتا وہی کرتے۔ حاصل یہ کہ اگر قرآں میں امامت کے منصب کے لئے حضرت علی کے نام کی صراحت بھی کردی گئی ہوتی تب بھی یہ لوگ (شیخین اور ان کی پارٹی) اللہ کے فرمان کی وجہ سے حکومت پر قبضہ کرنے کے اپنے مقصد اور منصوبہ سے ہر گز دستبردار نہوتے ، ابوبکر جنہوں نے پہلے سے پورا منصوبہ تیار کر رکھا تھا، قرآن کی اس آیت کے خلاف ایک حدیث گھڑ کے پیش کر دیتے اور معاملہ ختم کردیتے جیسا کہ انہوں نے حضرت فاطمہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث سے محروم کرنے کے لئے کیا ۔ اور عمر سے بالکل بعید نہیں تھا کہ وہ (اس آیت کے بارے میں جس میں صراحت کے ساتھ امامت کے منصب پر حضرت علی کی نامزدگی کا ذکر کیا گیا ہوتا ) یہ کہ کر معاملہ ختم کر دیتے کہ یا تو خود خدا سے اس آیت کے پہنچانے میں بھول چوک ہوگئی ، اس وقت سنی لوگ بھی ان کی تائید کے لئے کھڑے ہو جاتے اور خدا کے فرمان کے مقابلہ میں ان ہی کی بات مانتے ۔ جیسا کہ ان ساری تبدیلیوں کے بارے میں ان کا رویہ ہے جو عمر نے دین اسلام اور اس کے احکام میں کی ہیں ، ان سب میں سنیوں نے قرآنی آیات اور رسول خدا کے ارشادات کے مقابلہ میں عمر کی بات کو ہی مقدم رکھا ہے اور اس کی پیروی کر رہے ہیں۔ ‘‘


خمینی آگے لکھتا ہے

 ما خدای را پرستش میکنیم و میشناسیم که کارهایش بر اساس خرد پایدار و بخلاف گفته های عقل هیچ کاری نکند نه آن خدای که بنایی مرتفع از خدا پرستی و عدالت و دینداری بنا کند و خود بخرابی آن بکوشد و یزید و معاویه و عثمان و از این قبیل چپاولچی های دیگر را بمردم امارت دهد
ترجمہ : ہم ایسے خدا کی پرستش کرتے اور اسی کو مانتے ہیں جس کے سارے کام عقل و حکمت کے مطابق ہوں۔ ایسے خدا کو نہیں جو خدا پرستی اور عدالت و دینداری کی ایک عالی شان عمارت تیار کرائے اور خود ہی اس کی بربادی کی کوشش کرے کہ یزید و معاویہ اور عثمان جیسے ظالموں بدقماشوں کو امارت اور حکومت سپرد کردے ۔
کشف الاسرار ص۱۰۷ 

اللہ تعالٰی امتِ مسلمہ کو تقیہ بازوں کے شر سے محفوظ رکھے ، آمین

Tuesday, February 11, 2014

اہلسنت کی طرف منسوب بعض کتب کی حقیقت

1۔ شرح ابن ابی الحدید

عز الدین  عبد الحمید بن محمد بن محمد بن الحسین بن ابی الحدید المدائنی الفاضل الادیب المورخ الحکیم الشاعر شارح نہج البلاغۃ المکرمۃ وصلعب القصائد السبع المشہورۃ۔ کان مذھبہ الاعتزال کما شھد لنفسہ فی احدی قصائدہ فی مدح امیر المومنین ع بقولہ ورایت دین الاعتزال اننی    ۔۔۔ اھوی لاجلک کل من یتشیع

عز الدین عبد الحمید بن محمد بن الحسین بن ابی الحدید المدائنی الفاضل الادیب المورخ الحکیم الشاعر نہج البلاغہ کا شارح ہے۔ اور سات مشہور قصیدوں کا قائل ہے۔ مذہب کے اعتبار سے معتزلی تھا، جیساکہ اپنے بارے میں خود اقرار کیا ہے جو اس نے حضرت علی کی شان میں ایک قصیدے میں کیا۔ "اور میں اپنے آپ کو معتزلی سمجھتا ہوں ، اور مین آپ کی وجہ سے ہر شیعہ کہلانے والے کو دل سے چاہتا  ہوں"۔[1]


ابن کثیر فرماتے ہیں

عبد الحمید بن ھبۃ اللہ بن محمد بن الحسین ابو حامد بن ابی الحدید عز الدین المدائنی الکاتب الشاعر المطبق الشیعی الغالی لہ شرح نھج البلاغۃ فی عشرین مجلدا ۔۔۔ وکان حظیا عند الوزیرابن العلقمی لما بینھما من المناسبۃ والمقاربۃ والمشابھۃ والتشیع

عبد الحمید بن ہبۃ اللہ بن محمد بن محمد بن الحسین ابوحامد بن ابی الحدید عز الدین المدائنی جو کاتب اور مکمل شاعر اور غالی شیعہ ہے۔ اس کی ایک کتاب شرح نہج البلاغہ بیس جلدوں پر مشتمل ہے۔ وزیر ابن علقمی کے ہاں اس کا بڑا مقام تھا، کیونکہ شیعہ ہونے کی وجہ سے دونوں میں مناسبت اور مقاربت موجود ہے۔[2]


2۔ روضۃ الاحباب

روضة الأحباب في سيرة النبي ص والآل والأصحاب) فارسي في ثلاث مجلدات للسيد الأمير جمال الدين عطاء الله بن فضل الله بن عبد الرحمان الحسين الدشتكي الملقب بالأمير جمال الدين المحدث الشيرازي الفارسي القاطن بهراة كتبه بأمر الأمير على شير الوزير. ترجمه في (أمل الآمل) وحكى في (الرياض) سماعا عن الفاضل الهندي أنه كان شيعيا وعنده كتبه على طريقة الشيعة وكان يتقى في هراة، وكذا القاضي نور الله التستري، ولذا عمل فيه التقية

روضۃ الاحباب فی سیرۃ النبی والآل والاصحاب فارسی میں تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ اور اسے سید امیر جمال الدین عطاء اللہ فضل اللہ نے تحریر کیا۔ جو امیر جلال الدین محدث شیرازی کے نام سے مشہور تھا۔ یہ کتاب اس نے امیر علی شیر کے حکم سے لکھی، جو ہرات کا وزیر تھا۔ اس وزیر کا تذکرہ امل الآمال میں مفصل موجود ہے۔ کتاب الریاض میں فاضل ہندی سے ایک سماعی روایت مذکور ہےکہ صاحب روضۃ الاحباب شیعہ تھا، اور مسلک شیہع پر اس کی کتابیں اس کے پاس موجود تھیں۔ ہرات  میں نور اللہ تستری کی طرح یہ بھی تقیہ کی زندگی بسر کرتا رہا۔ اسی لیے روضۃ الاحباب میں بھی اس نے تقیہ کو نہیں چھوڑا۔[3]


3۔ تاریخ یعقوبی

 تاريخ اليعقوبي للمؤرخ الرحالة أحمد بن أبي يعقوب إسحاق بن جعفر بن وهب بن واضح الكاتب العباسي المكنى بابن واضح والمعروف باليعقوبي المتوفى سنة 284 صاحب كتاب البلدان المطبوع في ليدن قبلا وفي النجف سنة 1357 وتاريخه كبير في جزءين أولهما تاريخ ما قبل الاسلام والثاني فيما بعد الاسلام إلى خلافة المعتمد العباسي سنة 252 طبع الجزءان في ليدن سنة 1883 م كما في معجم المطبوعات وفيه أن ابن واضح شيعي المذهب، وفي " اكتفاء القنوع " ان اليعقوبي كان يميل في غرضه إلى التشيع دون السنية

تاریخ یعقوبی احمد بن ابی یعقوب الکاتب عباسی کی تصنیف ہے۔ اس کی کنیت ابن واضح اور یہ یعقوبی کے نام سے مشہور ہے۔ 284 میں فوت ہوا۔ کتاب البلدان بھی اس کی تصنیف ہے، جو لندن میں پھر نجف میں 1357 میں چھپی۔ اس کی تاریخ کی کتاب دو جزءوں میں ہے۔ پہلی جزء میں اسلام سے پہلے کی تاریخ ہے۔ اور دوسری جلد میں اسلام کے بعد کے حالات درج ہیں، جو عباسی خلیفہ معتمد کے دور تک ہے۔ دونوں جزئیں 1883 میں لندن میں شائع ہوئیں، اور معجم المطبوعات میں ہے کہ ابن واضح مذہب کےاعتبار سے شیعہ تھا۔ اور اکتفاء الفتوح میں ہے کہ یعقوبی شیعت کا دلدادہ تھا اور سنیت اس کا مسلک نہ تھا۔[4]


4۔ تاریخ مسعودی

ومن افضل الموصوفین بعلم النجوم الشیخ الفاضل الشیعی علی بن الحسین بن علی المسعودی مصنف کتاب مروج الذھب

علم نجوم میں شہرت پانے والوں میں سے افضل علی بن حسین بن علی مسعودی ہے جو کتاب مروج الذہب کا مصنف ہے۔یہ شخص اپنے دور کا فاض اور شیخ تھا اور مسلک کے اعتبار سے شیعہ تھا۔[5]


انہ امامی ثقۃ وھو الحق الحقق بالاتباع

یقینا وہ امامی شیعہ تھا اور یہی قول حق ہے اور اسے ہی حق سمجھنا چاہئے۔[6]


5۔    ینابیع المودۃ

قال الشیخ محی الدین سبق البوسی لما بلغ جدی موت سبط ابن الجوزی قال لا رحمہ اللہ کان رافضیا

شیخ محی الدین نے کہا جب میرے دادا کو سبط ابن الجوزی کی موت کی خبر ملی، تو انہوں نے کہا اس پر اللہ رحم نہ کرے ، یہ رافضی تھا۔[7]


والکتاب یعد من کتب الشیعۃ

اس کتاب کا شمار کتب شیعہ میں ہوتا ہے۔[8]


6۔  صاحب مقتل لوط بن یحیی

وبالجملۃ فکون الرجل شیعیا امامیا مما لا ینبغی الریب فیہ

مختصر یہ کہ ابو مخنف لوط بن یحیی امامی شیعہ ہے، اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس میں شک و ریب نہیں ہونا چاہئے۔[9]


7۔  تاریخ اعثم کوفی

ابومحمد احمد بن اعثم الکوفی الاخباری فی معجم الادباء کان شیعیا لہ کتاب الفتوح ذکر فیہ الی ایام الرشید وکتاب التاریخ الی ایام المقتدر

ابومحمد احمد بن اعثم الکوفی اخباری ۔ معجم الادباء میں ہے کہ یہ شیعہ تھا ۔ اس کی ایک کتاب کا نام کتاب الفتوح ہے۔ اس میں اس نے ہارون رشید کے دور تک باتیں درج کی ہیں۔ اور کتاب التاریخ میں مقتدر کے زمانہ تک کے حالات درج کئے ہیں۔[10]


8۔ حبیب السیر

وقد اخذ منہ ولدہ غیاث الدین تاریخہ الفارسی الموسوم (حبیب السیر) الذی الفہ للخواجۃ حبیب اللہ من رجال دولۃ الشاہ اسماعیل الصفوی

(محمد میر خواند کی کتاب روضۃ الصفا سے) اس کے بیٹے غیاث الدین نے استفادہ کیا۔ غیاث الدین نے یہ کتاب حبیب اللہ نامی شخص کے حکم پر لکھی جو شاہ اسماعیل صفوی کی حکومت کا ایک رکن تھا۔[11]


9۔  کتاب الاغانی و مقاتل الطالبین

علی بن الحسین ابو الفرج الاصبھانی الاموی صاحب کتاب الاغانی شیعی وھذا نادر فی اموی

کتاب الاغانی کا مصنف علی بن حسین ابوالفرج اصبہانی اموی شیعہ تھا، اور خاندان اموی سے تعلق رکھتے ہوئے کسی کا شیعہ ہونا بہت کم واقع ہوا ہے۔خطیب کا کہنا ہے کہ مجھے ابو عبداللہ حسین بن محمد طباطبا علوی نے بتلایا کہ میں نے ابو الحسن محمد بن حسین بولجی سے سنا ۔ وہ کہتے تھے کہ ابو الفرج اصفہانی پرلے درجے کا جھوٹا شخص تھا۔ وہ دوسرے لوگوں کی کتب سے مضامین چوری کرکے اپنے کہنے میں پرواہ نہ کرتا تھا۔[12]


وکان عالما روی عن کثیر من العلماء وکان شیعیا

وہ عالم تھا، اور بہت سے علماء سے اس نے روایت کی اور وہ شیعہ تھا۔[13]

وكان شيعيا غاليا وله مصنفات في مقاتل الطالبيين وغير ذلك
وہ غالی شیعہ تھا اور اس کی کئی تصانیف ہیں جن میں مقاتل الطالبیین وغیرہ شامل ہیں۔[14]

یہی قول علامہ سمعانی نے "الانساب" میں بھی لکھا ہے۔[15]


10۔ مودۃ القربی

وأفرد القاضي نور الله المرعشي رسالة في اثبات تشيعه

قاضی نور اللہ مرعشی نے اس کے(یعنی علی ہمدانی کے) شیعہ ہونے پر ایک مستقل رسالہ لکھا ہے۔[16]





[1]           الکنی والالقاب ج 1 ص 193
[2]           البدایۃ والنہایۃ ج 13 ص 199

[3]           الذریعہ الی تصانیف الشیعہ ج  11 ص 285

[4]           الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ ج 3 ص 296

[5]           اعیان الشیعۃ   ج1  ص 160

[6]           تنقیح المقال فی علم الرجال

[7]           میزان الاعتدال ج 3 ص 333

[8]           الذریعۃ ج 25 ص 290

[9]           تنقیح المقال ج 2 ص 44

[10]          اعیان الشیعۃ ج 1 ص 194

[11]          الذریعۃ ج 11 ص 296

[12]          میزان الاعتدال ج 2 ص 233

[13]          الکنی والالقاب ج ا ص 138

[14]          اللباب في تهذيب الأنساب - ابن الأثير الجزري - ج ٢ - الصفحة ٣٣٨
[15]          الأنساب - السمعاني - ج ٤ - الصفحة ١٨٨
[16]          الذریعۃ ج 23 ص 255

Monday, February 10, 2014

مختار ثقفی کی حقیقت

ملا باقر مجلسی اپنی کتاب جلاء العیون میں لکھتا ہے 


ايضا از عمر بن على بن الحسين روايت كرده است كه اول مختار براى پدرم بيست هزار درهم فرستاد، پدرم قبول كرد، و خانه عقيل بن ابي طالب را و خانه‏هاى ديگر از بنى هاشم كه بنى اميه خراب كرده بودند پدرم به آن زر ساخت، چون مختار آن مذهب باطل را اختيار كرد، بعد از آن چهل هزار دينار براى پدرم فرستاد، پدرم از او قبول نكرد و رد كرد
ایضا زین العابدین کے بیٹے عمر سے روایت کی ہے کہ اول مختار نے میرے پدر عالی مقدار کے لئے بیس ہزار دینار بھیجے اور میرے بزرگوار نے وہ دینار لے کر ان سے مکانات عقیل بن ابی طالب اور دیگر بنی ہاشم کے مکانات جو بنی امیہ نے مسمار کر ڈالے تھے، تعمیر کئے۔ اور جب مختار نے مذہب باطل اختیار کیا ، اسکے بعد پھر چالیس ہزار دینار پھر پدر بزرگوار کے پاس بھیجے لیکن حضرت نے قبول نہ فرمائے اور واپس کر دئیے۔

ايضا به سند معتبر از امام محمد باقر عليه السلام روايت كرده است كه مختار نامه‏اى به خدمت حضرت امام زين العابدين عليه السلام نوشت و با هديه‏اى چند از عراق به خدمت آن جناب فرستاد، چون رسولان او به در خانه او رسيدند، رخصت طلبيدند كه داخل شوند، حضرت فرستاد كه: دور شويد كه من هديه دروغگويان را قبول نمى‏كنم و نامه ايشان را نمى‏خوانم
ایضا بسند معتبر امام محمد باقر سے روایت کی ہے کہ مختار نے ایک عریضہ میرے پدر بزرگوار ک خدمت  میں لکھا۔ اور مع چند ہدایا و تحفہ عراق سے بخدمت آنحضرت روانہ کیا۔ جب قاصدان مختار در دولت حضرت پر پہنچے ، اجازت چاہی کہ حاضر ہوں۔ حضرت نے کہلا بھیجا چلے جاؤ۔ میں جھوٹ بولنے والوں کے ہدیے قبول نہیں کرتا۔ اور ان کا خط بھی نہیں پڑھتا۔ 

در بعضى از كتب معتبر روايت كرده‏اند كه مختار براى امام زين العابدين عليه السلام صد هزار درهم فرستاد، و آن جناب نمى‏خواست كه آن را قبول كند، و ترسيد از مختار كه رد كند و از او متضرر گردد، پس آن حضرت آن مال را در خانه ضبط كرد. چون مختار كشته شد، حقيقت حال را به عبد الملك نوشت كه: آن مال تعلق به تو دارد و بر تو گوارا است، و آن جناب مختار را لعنت كرد و مى‏فرمود: دروغ مى‏بندند بر خدا و بر ما، مختار دعوى مى‏كرد كه وحى خدا بر او نازل مى‏شود
بعض کتب معتبرہ میں روایت کی ہے کہ امام زین العابدین کیلئے مختار نے ایک لاکھ درہم بھیجے۔ حضرت چاہتے تھے کہ قبول نہ کریں۔ اور خوف بھی تھا کہ مبادا واپس دینے سے مختار کچھ ضرر رسانی کرے لہٰذا حضرت نے اس مال کو اسی طرح گھر میں رہنے دیا۔ جب مختار قتل ہوا۔ حضرت نے حقیقت حال عبدالملک کو لکھی کہ یہ تمہارا حق ہے۔ تم کو گوارا ہو۔ اورحضرت مختار پر لعنت فرماتے تھے کہ خدا پر اور ہم پر دروغ باندھتا تھا اور دعوٰی کرتا تھا کہ مجھ پر وہی نازل ہوئی ہے۔

بعضى از علما را اعتقاد آن است كه غرض او رياست و پادشاهى بود، و اين امر را وسيله آن كرده‏ بود، و اولا به حضرت امام زين العابدين عليه السلام متوسل شد، چون حضرت از جانب حق تعالى مامور نبود به خروج و نيت فاسد او را مى‏دانست، اجابت او ننمود، پس او به محمد بن حنفيه متوسل شد و مردم را بسوى او دعوت مى‏كرد و او را مهدى قرار داده بود، و مذهب كيسانيه از او در ميان مردم پيدا شد، و محمد بن حنفيه را امام آخر مى‏دانند و مى‏گويند كه: زنده است و غايب شده، و در آخر الزمان ظاهر خواهد شد. و الحمد لله كه اهل آن مذهب منقرض شده‏اند و كسى از ايشان نمانده است، و ايشان را به اين سبب كيسانى مى‏گويند كه از اصحاب مختارند، و مختار را كيسان مى‏گفتند براى آنكه امير المومنين عليه السلام موافق روايات ايشان او را به كيس خطاب كرد، يا به اعتبار آنكه سر كرده لشكر او و مدبر امور او ابو عمره بود كه كيسان نام داشت. و آنچه از جمع بين الاخبار ظاهر مى‏شود آن است كه او در خروج خود، نيت صحيحى نداشته است، و اكاذيب و اباطيل را وسيله ترويج امر خود مى‏كرده است، و ليكن چون كارهاى خير عظيم بر دست او جارى شده است، اميد نجات درباره او هست، و متعرض احوال اين قسم مردم نشدن شايد اولى و احوط باشد.
بعض علماء کا اعتقاد یہ ہے کہ مختار کی غرض ریاست و بادشاہی تھی اور اس امر خاص کو  اس کا وسیلہ قرار دیا تھا۔ پہلے متوسل بامام زین العابدین ہوا۔ اور چونکہ آنحضرت خداوند عالم کی جانب سے امور و بخروج مختار نہ تھے اور مختار کی فاسد نیت سے واقف تھے ، حضرت نے التماس مختار قبول نہ کی۔ پھر مختار محمد بن حنفیہ سے متوسل ہوا۔ اور لوگوں کو ان کی طرف سے دعوت کرتا تھا۔ اور انہیں مہدی قرار دیتا تھا۔ اور مذہب کیسانیہ اس سے لوگوں میں ظاہر ہوا ہی نہیں بلکہ شائع ہوا۔ اور مذہب کیسانیہ محمد بن حنفیہ کو آخری امام جانتے ہیں۔ اور کہتے ہیں زندہ ہیں مگر غائب ہو گئے ہیں۔ اور زمانہ آخر میں ظاہر ہوں گے۔ لیکن الحمدللہ کہ مذہب کیسانیہ برطرف ہو گیا۔ اور کوئی اس میں سے باقی نہ رہا۔ اور ان کو کیسانی اس وجہ سے کہتے ہیں کہ وہ لوگ اصحاب مختار اور خود مختار کو بھی کیسان کہتے تھے۔  اسلئے کہ جناب امیر نے موافق بعض روایات کیسانیہ مختار کو بلفظ کیس خطاب کیا۔ یا اس اعتبار سے کہ مختار کے لشکر کا سردار اور مشیر کار و مدبر ابو عمرہ تھا اور اسی کا نام کسیان تھا۔ مگر جو کچھ جمع بین الاخبار سے ظاہر ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ مختار کے خروج کرنے سے نیت صحیح نہیں تھی، دروغ گویوں اور پاگلوں کو مختار نے وسیلہ ترویج امور دین قرار دیا تھا۔ لیکن چونکہ کار ہائے خیر عظیم اس کے وسیلہ سے جاری اور ظاہر ہوئے، اسکی نجات کی امیت ہے اور معترض نہ ہونا حالات سے ایسے لوگوں کے بہتر ہے۔